Khas tour per un logon ke leye jo Pakistan ka (ko) khatay hai aur na sirf isko gali detay hain balkey taqseem hind ko bhe ghalat kehtay hain aur India ki jamhoriat ki tareef kartay hain.
بھارت کے دلتوں کے بارے میں تصویریں
نوجوان سنجے سیسل ناسک میں ہر روز گلیاں صاف کرنے کا کام کرتے ہیں، صفائی کا یہ کام صرف دلتوں کے ہی ذمے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اور کام کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان کی برادری کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
اترپردیش کے علاقے میتھورا میں کملیش کو سات سال کی عمر میں صرف اس لیے جلتے ہوئے کوڑے میں دھکیل دیا گیا تھا کہ وہ اعلیٰ ذات کے لیے مخصوص راستے پر چل رہے تھے۔ بدقسمتی سے کملیش کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے جس سے وزیراعلیٰ مایا وتی کا ہے۔ صوبے میں نسلی تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں تاہم سال دو ہزار آٹھ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دلتوں کے خلاف تینتیس ہزار جرائم ہوئے۔ زیادہ تر واقعات میں جرائم کرنے والے افراد سزا سے بچ جاتے ہیں یا ان کے کیس کو کئی سالوں تک لٹکایا جاتا ہے۔
اڑیسہ کے پچہتر سالہ مناسی اور ان کی بیوی سرتباتی کے گاؤں موکندی پور میں قائم چرچ کو سنہ انیس سو چیاستھ سے لے کر سال دو ہزار آٹھ تک پانچ بار نذرآتش کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس طرح کے کسی اور واقعے کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔
ممبئی میں ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی ہے۔ ان کے شوہر کا شراب نوشی ختم کرانے کے لیے علاج کیا جا رہا ہے۔ ان کا تعلق دلتوں کی بدھا برادری سے ہے اور یہ لوگ دس سال سے ایک سڑ ک کے کنارے نصب خیمے میں رہائش پذیر ہیں۔ ممبئی میں اس طرح کے مفلس حال لوگ نظر آنا معمول کی بات ہے۔
کرناٹک میں بھارت کے آئی ٹی کا دارالحکومت بنگلور کے مضافات میں واقع ایک بستی میں ایک لڑکا چائے ملنے کا انتظار کر رہا ہے۔ اس بستی میں دو سو اسی افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس آبادی کے بانی راجا جو عسیائی مذہب سے تعلق رکھتے کو سال دو ہزار آٹھ میں انتہا پسند ہندؤوں اور پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان پر لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کا الزام تھا۔ بھارت میں غریبوں کی لیے کام کرنے والی عیسائیوں کی فلاحی تنظیموں پر اس طرح کا الزام عائد کرنا معمول ہے۔
بہار کے ضلع بھوج پور میں دو بہنیں سیواتری سریترا کا تعلق موسہارس نامی برادری سے ہے۔ اس برادری کو دلتوں کے دلت بھی کہا جاتا ہے۔ موسہارس برادری کے لوگوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے اور اس میں سے تقریباً ننانوے فیصد ناخواندہ ہیں اور فاقہ کشی کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے خوراک کے ذریعے کی وجہ سے ان کو’ چوہے کھانے والا‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اکثر ان کی حالت زار پر بات کی جاتی ہے لیکن ان کو اپنے ارد گرد دیگر برادریوں کی جانب سے نفرت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اڑیسہ کے علاقے بھوبھانسوار میں ہر خاندان کے پاس ان پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے الگ کہانی ہے۔ ان کے گھروں کو لوٹ کی نذرآتش کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر مسلسل کئی راتوں کا سفر طے کر اس جگہ پہنچے ہیں، مذہبی فسادات میں دیہی دلتوں اور ادیواسیوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انتہا پسند اور قوم پرست ہندو گروپس عیسائیوں کے خلاف کئی سالوں سے کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن سال دو ہزار آٹھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے پرتشدد حملے انتہا کو پہنچ گئے۔
کولکتہ کی سوجاتھا کو حال ہی میں دیوی داس یا مندر کی طوائف بنایا گیا ہے۔ ان کی تیرہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی تاہم شوہر کی جانب سے دیکھ بھال نہ ہونے پر گھر واپس لوٹ آئیں تھیں۔ ان کے والدین نے ان کو ایک سو بیس برطانوی پونڈ کے عوض مندر کو بیچ دیا، دو سال کے لیے مرد ان کو ایک معمولی معاوضے کے عوض استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار خواتین دیوی داس ہیں اور ان میں سے تقریباً تمام دلت ہیں۔سیکس کے لیے اچھوت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔
کواسہ اپنے خاوند دیوجی کے قریب چار پائی پر اپنی بیٹی منیشا کو گود میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کا سات سالہ بیٹا ایک ہوسٹل میں رہتا ہے۔ کواسہ اور ان کے خاوند کو بچپن سے جذام کا مرض لاحق ہے اور وہ معمولات زندگی چلانے کے لیے بھیک مانگتے ہیں لیکن مشکل سے ہی وہ اپنے مکان کا ماہانہ کرایہ جو چھ برطانوی پونڈ کے قریب ہے ادا کر پاتے ہیں۔ دونوں میاں بیوں مہارشٹرا کے علاقے کیان میں جذام سے متاثرہ ایک سو پچہتر ِخاندانوں کی ایک برادری میں رہتے ہیں اور ان میں سب دلت اور آدی واسسز ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/06/110617_untouchable_dalits_pics_zz.shtml
بھارت کے دلتوں کے بارے میں تصویریں

نوجوان سنجے سیسل ناسک میں ہر روز گلیاں صاف کرنے کا کام کرتے ہیں، صفائی کا یہ کام صرف دلتوں کے ہی ذمے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی بھی اور کام کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان کی برادری کو اس کی اجازت نہیں ہے۔

اترپردیش کے علاقے میتھورا میں کملیش کو سات سال کی عمر میں صرف اس لیے جلتے ہوئے کوڑے میں دھکیل دیا گیا تھا کہ وہ اعلیٰ ذات کے لیے مخصوص راستے پر چل رہے تھے۔ بدقسمتی سے کملیش کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے جس سے وزیراعلیٰ مایا وتی کا ہے۔ صوبے میں نسلی تشدد کے کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں تاہم سال دو ہزار آٹھ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دلتوں کے خلاف تینتیس ہزار جرائم ہوئے۔ زیادہ تر واقعات میں جرائم کرنے والے افراد سزا سے بچ جاتے ہیں یا ان کے کیس کو کئی سالوں تک لٹکایا جاتا ہے۔

اڑیسہ کے پچہتر سالہ مناسی اور ان کی بیوی سرتباتی کے گاؤں موکندی پور میں قائم چرچ کو سنہ انیس سو چیاستھ سے لے کر سال دو ہزار آٹھ تک پانچ بار نذرآتش کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس طرح کے کسی اور واقعے کا سامنا نہیں کر سکتے ہیں۔

ممبئی میں ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ بیٹھی ہے۔ ان کے شوہر کا شراب نوشی ختم کرانے کے لیے علاج کیا جا رہا ہے۔ ان کا تعلق دلتوں کی بدھا برادری سے ہے اور یہ لوگ دس سال سے ایک سڑ ک کے کنارے نصب خیمے میں رہائش پذیر ہیں۔ ممبئی میں اس طرح کے مفلس حال لوگ نظر آنا معمول کی بات ہے۔

کرناٹک میں بھارت کے آئی ٹی کا دارالحکومت بنگلور کے مضافات میں واقع ایک بستی میں ایک لڑکا چائے ملنے کا انتظار کر رہا ہے۔ اس بستی میں دو سو اسی افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس آبادی کے بانی راجا جو عسیائی مذہب سے تعلق رکھتے کو سال دو ہزار آٹھ میں انتہا پسند ہندؤوں اور پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان پر لوگوں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دینے کا الزام تھا۔ بھارت میں غریبوں کی لیے کام کرنے والی عیسائیوں کی فلاحی تنظیموں پر اس طرح کا الزام عائد کرنا معمول ہے۔

بہار کے ضلع بھوج پور میں دو بہنیں سیواتری سریترا کا تعلق موسہارس نامی برادری سے ہے۔ اس برادری کو دلتوں کے دلت بھی کہا جاتا ہے۔ موسہارس برادری کے لوگوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے اور اس میں سے تقریباً ننانوے فیصد ناخواندہ ہیں اور فاقہ کشی کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے خوراک کے ذریعے کی وجہ سے ان کو’ چوہے کھانے والا‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اکثر ان کی حالت زار پر بات کی جاتی ہے لیکن ان کو اپنے ارد گرد دیگر برادریوں کی جانب سے نفرت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اڑیسہ کے علاقے بھوبھانسوار میں ہر خاندان کے پاس ان پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے الگ کہانی ہے۔ ان کے گھروں کو لوٹ کی نذرآتش کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر مسلسل کئی راتوں کا سفر طے کر اس جگہ پہنچے ہیں، مذہبی فسادات میں دیہی دلتوں اور ادیواسیوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انتہا پسند اور قوم پرست ہندو گروپس عیسائیوں کے خلاف کئی سالوں سے کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن سال دو ہزار آٹھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے پرتشدد حملے انتہا کو پہنچ گئے۔

کولکتہ کی سوجاتھا کو حال ہی میں دیوی داس یا مندر کی طوائف بنایا گیا ہے۔ ان کی تیرہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی تاہم شوہر کی جانب سے دیکھ بھال نہ ہونے پر گھر واپس لوٹ آئیں تھیں۔ ان کے والدین نے ان کو ایک سو بیس برطانوی پونڈ کے عوض مندر کو بیچ دیا، دو سال کے لیے مرد ان کو ایک معمولی معاوضے کے عوض استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار خواتین دیوی داس ہیں اور ان میں سے تقریباً تمام دلت ہیں۔سیکس کے لیے اچھوت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔

کواسہ اپنے خاوند دیوجی کے قریب چار پائی پر اپنی بیٹی منیشا کو گود میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کا سات سالہ بیٹا ایک ہوسٹل میں رہتا ہے۔ کواسہ اور ان کے خاوند کو بچپن سے جذام کا مرض لاحق ہے اور وہ معمولات زندگی چلانے کے لیے بھیک مانگتے ہیں لیکن مشکل سے ہی وہ اپنے مکان کا ماہانہ کرایہ جو چھ برطانوی پونڈ کے قریب ہے ادا کر پاتے ہیں۔ دونوں میاں بیوں مہارشٹرا کے علاقے کیان میں جذام سے متاثرہ ایک سو پچہتر ِخاندانوں کی ایک برادری میں رہتے ہیں اور ان میں سب دلت اور آدی واسسز ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/06/110617_untouchable_dalits_pics_zz.shtml
Last edited: