میں موجودہ مذہبی تشدد سے تباہ حال پاکستان میں تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی جیسی پرامن اصلاحی جماعتوں کا بہت بڑا معترف ہوں لیکن کیا پاکستان میں کوئی ایسی اصلاحی پرامن تبلیغی جماعت ھے کہ جو اصلاح کے نام پر لوگوں کو اپنا ہم فرقہ نا بناتی ہو؟؟؟ یعنی کہ جو پاکستان کے چاروں بڑے مسلمان فرقوں کے تمام علمی اختلافی عقائد کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہو، اور ان پر معترض نا ہو. جو اس حقیقت کو سمجھتی ہو کہ یہ تمام فرقے ایک ہی جڑ (ایک اللہ ، ایک قطعی آخری رسولpbuh اورایک قران) کی خوبصورت شاخیں ہیں. جو اس چودہ سو سالہ تاریخی سبق کو سمجھتی ہو کہ کسی بھی دوسرے فرقے کو ظلم، قتل عام، نفرت، تبلیغ وغیرہ سے "راہ راست" پر نہیں لایا جا سکتا اور واحد راستہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ھے. جو مشترکہ عقائد پر عمل کرنے کی بات کرتی ہو اور گنتی کے چند اختلافی عقائد پر برداشت اور باہمی احترام کی تلقین کرتی ہو. جن کے اجتماعات میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والا اتنا ہی معزز ہو کہ جتنا ہاتھ کھول کر پڑھنے والا یا خاک کربلا سامنے رکھ کر پڑھنے والا اور نماز پڑھنے کے بعد کوئی ایک دوسرے کو اپنا "مشرف با فرقہ" کرنے کی کوشش نا کرتا ہو . جن میں ہر مسلمان پاکستانی کیلیے کسی بھی ایشو پر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا اختلافی نقطہ نظر اتنا ہی قابل احترام ہو کہ جتنا اسکا اپنا ھے
دعوت اسلامی کا نام ہی باقی تین فرقوں پر مشتمل چالیس پچاس فیصد پاکستانی آبادی کیلیے زہر ھے. اسی طرح تبلیغی جماعت کا نام ہی باقی تین فرقوں پر مشتمل ستر فیصد آبادی کیلیے خطرے کی گھنٹی ھے. تو اکثریت کے دلوں کو پھیر کے پرامن انقلاب لانے میں کامیابی کہاں سے ہونی ھے؟؟؟؟؟؟؟؟ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں (جو فرقہ اور مذھب کی تخصیص سے آزاد ہوتی ہیں) اور مذہبی اختلافات کو بے اثر کرنے کی طاقت رکھتی ہیں، عوام کی اکثریت ان کو فالو کرتی ھے اور انہی کو اقتدار کے ایوان میں پہنچاتی ھے. ایسی اصلاح سے اگلے ہزار سال میں بھی اکثریت کی اصلاح نہیں ہونی (کیونکہ اکثریت تو کسی ایسی جماعت کا ٹارگٹ ہی نہیں)؛ اسلامی نظام، اقتدار اور شریعت وغیرہ تو بہت دور کی بات ھے. البتہ اگر پاکستان میں بھی ایران اور سعودی عرب کی طرح کسی ایک فرقے کی بہت بھاری (نوے فیصد) اکثریت ہوتی تو شائد دوسرے اقلیتی فرقے کی "کٹ" لگا کر کب کا "ملا کریسی" پر مبنی اسلامی نظام نافذ ہو چکا ہوتا