سورہ البقرہ، آیت 59۔57
ترجمہ:
57- اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا، اور تم پر من وسلویٰ نازل کیا (اور کہاکہ:)'' جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے(شوق سے) کھاوٴ۔ اور (یہ نافرمانیاں کرکے) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
58- اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ: '' اس بستی میں داخل ہوجاوٴ اور اس میں جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاوٴ،اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں کے ساتھ داخل ہونا، اور کہتے جانا 'حطة'' ،(اسطرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے، اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔''
59- مگر یہ ہوا کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی، ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنا لی۔ نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آ رہے تھے ہم نے انکی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔
تشریح:
57- اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدن تیہ کا واقعہ ہے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی اور بطور سزا چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ صحرائے سینا میں سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسوقت یہ انتظام کیا گیا۔ سزایابی کے دوران بھی اللّٰہ تعالٰی نے انھیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں انکا ذکر ہورہا ہے۔
صحرا میں چونکہ کوئ چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کیلئےاللّٰہ تعالٰی نے ایک سایہ دار بادل کا انتظام فرمایا اور غیب سے من وسلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائ۔
بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے، یا اوس جو شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کیطرح ہو جاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بعض کے نزدیک کھنبی ہے۔اور سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کےآس پاس منڈلاتی رہتیں ،اور کوئ انہیں پکڑناچاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں۔
58،59- اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من و سلوٰی سے بھی اکتا گئےتو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کر سکتے۔ ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں۔ انکا یہ مطالبہ آگے آیت 61 میں آ رہا ہے۔
اس موقع پر انکی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور اعلان فرمایا گیا کہ اب تمھیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے۔ سامنے ایک شہر (جمہور مفسرین کے مطابق بیت المقدس) ہے اس میں چلے جاؤ، لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھا سکو گے۔
لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا۔ شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے، سینے تان تان کر داخل ہوئے۔ اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جن الفاظ کی تلقین کی گئی تھی، انکا مذاق بنا کر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے، جنکا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا۔ جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا ''حطة'' (یا اللہ! ہمارے گناہ بخش دے)، انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے وہ تھا ''حنطة'' یعنی گندم
اس سے انکی سرکشی کا اور احکامِ الٰہی سے تمسخر کا جسکا ارتکاب انہوں نے کیا، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ واقعی جب کوئی قوم اخلاق و کردار کے لحاظ سے زوال پزیر ہو جائے تو اسکا معاملہ احکامِ الٰہی کے ساتھ اسی طرح کا ہو جاتا ہے۔
یہ آسمانی عذاب کیا تھا؟ کچھ نے کہا غضبِ الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی صلّی اللهُ علیہِ وسلّم نے فرمایا ''یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمھاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علا قے کی بابت تمھیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو مت جاؤ۔ [صحیح مسلم، باب الطاعون، ۲۲۱۸]
ضیا القرآن۔۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب
توضیح القرآن.. مفتی تقی عثمانی صاحب..
احسن البیان.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب..
سورہ البقرہ، آیت 62
ترجمہ:
62- حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللّٰہ اور آخرت کےدن پر ایمان لےآئیں گے، وہ اپنےپروردگار کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے، اور ان کو نہ کوئ خوف ہوگا، نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہونگے۔
تشریح:
بنی اسرائیل پر اللّٰہ تعالٰی کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کےتذکرے کے بیچ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئ ہے۔ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللّٰہ کےمنتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے۔ ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللّٰہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے۔( آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے۔ اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے،اور اس نسل کے باہرکا کوئ شخص یہودی مذہب اختیار بھی کرنا چاہے تو یا اختیار کرہی نہیں سکتا یا ان حقوق کا مستحق نہیں ہوسکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں)۔
اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے۔ اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللّٰہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عملِ صالح کی بنیادی شرطیں پوری کر دے گا، خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو،اللّٰہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کیلئےرسولِ اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ پیچھے آیت 40-41 میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔
یَھُود ھَوَادَةٴ (بمعنی محبت) سے یا تَھَودٴ (بمعنی توبہ) سے بنا ہے۔ گویا انکا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کےستھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسٰی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے۔
نَصَارَیٰ نَصرَانٴ کی جمع ہے، نصرت سے نکلا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے انکا یہ نام پڑا۔ انکو انصار بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو کہا تھا [نَحنُ اَنصَارُ اللّٰہ] حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کو نصاری کہا جاتا ہے۔ انکو عیسائ بھی کہتے ہیں۔
صَابِئِین صَابِئ کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جویقیناٴ ابتداٴ کسی حق دین کے پیرو رہے ہونگے (اسی لئے قرآن میں یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ انکا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں انکے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آ گئی، یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسلئے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔
بعض جدید مفسرین نے اس آیت سے ''وحدت ادیان'' کا فلسفہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی رسالت محمدیہ پر ایمان لانا لازمی نہیں ہے بلکہ جو بھی جس دین کو مانتا ہے اور اسکے مطابق ایمان رکھتا اور اچھے عمل کرتا ہے، اسکی نجات ہو جائے گی۔ یہ فلسفہ انتہائی گمراہ کن ہے۔
آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اسکی بنا پر انکے مستحق عذاب ہونے کا ذکر فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہو سکتا تھاکہ ان یہود میں جو لوگ صحیح، کتاب الہی کے پیرو اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے، انکے ساتھ اللہ تعالی نے کیامعاملہ فرمایا؟ یا کیا معاملہ فرمائے گا؟
اللہ تعالی نے اسکی وضاحت فرما دی کہ صرف یہود ہی نہیں، نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے، وہ سب اخروی نجات سے ہمکنار ہونگے۔ اور اسی طرح اب رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یقیناٴ آخرت میں کامیاب ہونگے۔
مجاہد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلّی اللهُ علیہِ وسلّم سے ان اہل دین کے بارے یں پوچھا جو میرے ساتھی تھے، عبادت گزار اور نمازی تھے (یعنی رسالت محمدیہ سے قبل اپنے دین کے پابند تھے) تو اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [ابن کثیر]
قرآن کریم کے دوسرے مقامات سےمزید تائید ہوتی ہے۔ مثلاٴ ''اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔'' [آل عمران ۱۹]
''جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا متلاشی ہو گا، وہ ہر گز مقبول نہ ہوگا۔'' [آل عمران ۸۵]
حدیث میں مزید وضاحت آئی ہے۔ مثلاٴ ''قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میری اس امت میں جو شخص بھی میری بابت سن لے، وہ یہودی ہویا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا۔''
مطلب یہ ہواکہ وحدت ادیان کی گمراہی جہاں دیگر قرآنی آیات کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت دخل ہے۔ اسلئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
ضیا القرآن۔۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب
توضیح القرآن.. مفتی تقی عثمانی صاحب..
احسن البیان.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب..
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم
سورہ البقرہ، آیت 120-118
ترجمہ:
118۔ اور جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے (براہ راست) کیوں بات نہیں کرتا؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں وہ بھی اسی طرح کی باتیں کہتے تھےجیسی یہ کہتے ہیں۔ ان سب کے دل ایک جیسے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یقین کرنا چاہیں، انکےلئے ہم نشانیاں پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔
119۔ (اے پیغمبر!)بےشک ہم نے تمھی کو حق دے کر بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ۔ اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کر چکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی بازپرس نہیں ہو گی۔
120۔ اور یہود و نصاریٰ تم سے اسوقت تک ہر گز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمھارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آ گیا ہے، اگر کہیں تم نے اسکے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر لی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لئے نہ کوئی حمایتی ملے گا، نہ کوئی مددگار۔
تشریح:
118- اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کیطرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالی ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھاتا؟ جسے دیکھ کے ہم مسلمان ہو جائیں۔ جس طرح کہ سورۂ بنی اسرائیل (آیت ۹۰ تا ۹۳) اور دیگر مقامات پر بھی بیان ہوا ہے۔
مشرکین عرب کے دل، کفر و عناد اور انکار و سرکشی میں اپنے ماقبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہو گئے۔ جیسے سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا: [ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اسکو لوگوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کر جاتے تھے؟ نہیں۔ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔] یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اسلئے داعیان حق کے سامنے نئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔
120- اگرچہ حضور رسالتِ مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ بات ناقابلِ تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرضِ محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول بتلا دیا کہ اللّٰہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ اطاعت کیوجہ سے ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بناء پر ہیں کہ اللّٰہ کے سب سے زیادہ فرماں بردار ہیں۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم جا رہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں بےجا تاویل کا ارتکاب کریں۔
ضیا القرآن۔۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب
توضیح القرآن.. مفتی تقی عثمانی صاحب..
احسن البیان.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب..
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم
سورة البقرة, آیت 157-154
ترجمہ:
154۔ اور جو لوگ اللہ کےراستے میں قتل ہوں، ان کو مردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں، مگر تم کو (انکی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔
155۔ اور دیکھو، ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) جان و مال اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں، ان کو خوشخبری سنا دو۔
156- یہ وہ لوگ ہیں کہ جب انکو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ''ہم سب اللہ ہی کے ہیں، اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔''
157۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر انکے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔
تشریح:
154۔ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز و تکریم کے لئے ہے۔ یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف (یا سینہ) میں جنت میں جہاں چاہتی ہے، پھرتی ہے۔ [ابن کثیر]
156- اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللّٰہ کی ملکیت میں سے ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے، اور چونکہ ہم اس کے ہیں ، اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو۔ دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللّٰہ تعالٰی کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے، اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کر جائیں گے،تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر ان شاء اللّٰہ ثواب بھی ملنا ہے۔ جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔
157۔ ان آیات میں صبر کرنے والوں کےلئےخوشخبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت [إِنَّا ِلِلَّه وَإِنَّا إِلَيْهِ رٰجِعُونَ] کے ساتھ [اللَّھُمَّ اَجُرْنِی فِی مُصِیبَتِیْ، وَاخْلِفْ لِی خَیْرٴا مِّنْھَا] پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ [صحیح مسلم]
ضیا القرآن۔۔ پیر محمد کرم شاہ الازہری صاحب
توضیح القرآن.. مفتی تقی عثمانی صاحب..
احسن البیان.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب..
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحیم
سورة البقرة, آیت 162-158
ترجمہ:
158۔ بےشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اسکے لئےاس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ انکے درمیان چکر لگائے۔ اور جوشخص خوشی سے بھلائی کا کام کرے تو اللہ یقیناٴ قدردان (اور) جاننے والا ہے۔ 159۔ بےشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے، اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔
160۔ ہاں وہ لوگ جنہوں نےتوبہ کر لی ہو اور اپنی اصلاح کر لی ہو اور (چھپائی ہوئی باتوں کو) کھول کھول کر بیان کر دیا ہو تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کر لیتا ہوں۔ اور میں توبہ قبول کرنے کا خوگر ہوں، بڑا رحمت والا۔ 161۔ بےشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی لعنت ہے۔
162۔ وہ ہمیشہ اسی پھٹکار میں رہیں گے۔ نہ ان سے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی
تشریح:
158- مکہ مکرمہ میں دو پہاڑیاں ہیں ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہؓ کو اپنےدودھ پیتے صاحبزادے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ چھوڑ کر گئے تو حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں۔ حج اور عمرے میں اللّٰہ تعالٰی نے ان کے درمیان سعی کرنا واجب قرار دیا ہے، اگرچہ سعی واجب ہے مگر یہاں ''کوئی گناہ نہیں'' کے الفاظ اس لئے فرمائے گئے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں یہاں دو بت رکھ دئیے گئے تھے جو اگرچہ بعد میں ہٹا لئے گئے، مگر بعض صحابہ کو یہ شک ہوا کہ شاید ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا جاہلیت کی نشانی ہونے کیوجہ سے گناہ ہو۔ آیت نے شک دور کردیا۔
صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ قرآن کے الفاظ (کوئی گناہ نہیں) سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ شبہ بھی ہوا کہ شاید یہ ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا: اگر اسکا یہ مطلب ہوتا تو اللہ تعالی یوں فرماتا: اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں
159- اشارہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں مذکور ان بشارتوں کو چھپاتے تھے جو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالی نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں، انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: ''جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جسکا اسکو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اسکے منہ میں دی جائے گی۔''
160-162- اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ انکا خاتمہ کفر پر ہوا ہے، ان پر لعنت جائز ہے، لیکن ان کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہےمرنے سے پہلے اس نے توبہ نصوح کر لی ہو یا اللہ نے اسکے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اسکی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جسکا علم ہمیں نہیں ہو سکتا۔ البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے، ان کے مرتکبین کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں، ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہِ الہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔