Knowledge Seeker
Senator (1k+ posts)
ماہ محرم کي ان بدعات و رسومات غير شرعيہ کے علاوہ واقعۂ کربلاسے متعلق بھي اکثر اہل سنت کا زاويہ ٔ فکر صحيح نہيں۔ اس سلسلے ميں چند باتيں پيش خدمت ہيں، اميد ہے کہ اہل سنت حلقے اس پر پوري سنجيدگي، متانت اور علم وبصيرت کي روشني ميں غور فرمائيں گے۔
کيا يہ معرکہ ، حق و باطل کا تھا يا عام معمول کے مطابق ايک حادثہ؟ اس سلسلے ميں پہلي بات يہ ہے کہ اہل سنت کے خطباء اور وعاظ فلسفہ شہادت حسين رضي اللہ عنہ کو بالعموم اس طرح بيان کرتے ہيں جو خالصتاً شيعي انداز فکر اور رافضي آئيڈيالوجي کا مظہر ہوتا ہے اور اس کے متعلق يہ باور کرايا جاتا ہے کہ يہ تاريخ اسلام ميں حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔
I hope that you are not one of those present day admirers and advocates of Yazid who drag the discussion in Shia Sunni differences whenever the battle of Karbala is being addressed so that they could get the sympathy and support of those sunni people who are less tolerant about Shia School of thought.
Leave aside the stance of Shia School of thought, and focus on Sunni's point of view about the government of Yazid and its list of crimes. If you will do some research about Sunni literature you would know the fact that It has been well establish position of great Muhaditheen, Jurists, and historians since early centuries that the stand of Imam Hussain (May Allah be Pleased with him) was right against Yazid and his monarchy.
Leave aside the stance of Shia School of thought, and focus on Sunni's point of view about the government of Yazid and its list of crimes. If you will do some research about Sunni literature you would know the fact that It has been well establish position of great Muhaditheen, Jurists, and historians since early centuries that the stand of Imam Hussain (May Allah be Pleased with him) was right against Yazid and his monarchy.
مشہور محدث ملّا علی قاری نے لکھا ہے
اہل بیت کی فضیلت اور ان سے جنگ کرنے والوں کی مذمّت پر علما ے اہلسنّت اور اکابر ائمہ امّت کا اجماع ہے.
مرقات جلد 11 صفحہ 387
يہ واعظين خوش بيان يہ نہيں سوچتے کہ اگر ايسا ہي ہوتا تو اس دور خير القرون ميں جب کہ صحابہ ٔ کرام رضي اللہ عنہم کي بھي ايک معتدبہ جماعت موجود تھي اور ان کے فيض يافتگان تابعين تو بکثرت تھے اس معرکے ميں حضرت حسين رضي اللہ عنہ ہي اکيلے کيوں صف آراء ہوتے؟ معرکہ ہوتا حق و باطل اور کفر واسلام کا اور صحابہ و تابعين اس سے نہ صرف يہ کہ الگ رہتے بلکہ حضرت حسين رضي اللہ عنہ کو بھي اس سے روکتے ، کيا ايسا ممکن تھا؟
شيعي آئيڈيالوجي تو يہي ہے کہ وہ (معاذ اللہ) صحابۂ کرام رضي اللہ عنہم کے کفر و ارتداد اور منافقت کے قائل ہيں اور وہ يہي کہيں گے کہ ہاں اس معرکہ ٔ کفر و اسلام ميں ايک طرف حضرت حسين رضي اللہ عنہ تھے اور دوسري طرف صحابہ سميت يزيد اور ديگر ان کے تمام حمايتي ، صحابہ و تابعين اس جنگ ميں خاموش تماشائي بنے رہے اور حسين رضي اللہ عنہ نے اسلام کو بچانے کے ليے جان کي بازي لگا دي۔
ليکن کيا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسليم کرليں گے؟
کيا صحابہ وتابعين کي اس بے غيرتي و بے حميتي کي وہ تصديق کريں گے جو شيعي انداز فکر کا منطقي نتيجہ ہے؟
کيا صحابہ نعوذ باللہ بے غيرت تھے؟ ان ميں ديني حميت اور دين کو بچانے کا جذبہ نہيں تھا؟
يقيناً کوئي اہل سنت صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کے متعلق اس قسم کا عقيدہ نہيں رکھتا، ليکن اس کے ساتھ ساتھ يہ حقيقت بھي بڑي تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسين کا جو فلسفہ بيان کرتے ہيں وہ اسي تال سر سے ترتيب پاتا ہے جو شيعيت کا مخصوص راگ ہے۔
واقعہ يہ ہے کہ سانحۂ کربلاکو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کي عظمت کردار اور ان کي ديني حميت مجروح ہوتي ہے اور شيعوں کا مقصد بھي يہي ہے ليکن يہ ہمارے سوچنے کي بات ہے کہ واقعہ ايسا ہے يا نہيں؟ تو حقيقت يہ ہے کہ يہ حق و باطل کا تصادم نہيں تھا، يہ کفر واسلام کا معرکہ نہيں تھا، يہ اسلامي جہاد نہ تھا۔
اگر ايسا ہوتا تو اس راہ ميں حضرت حسين رضي اللہ عنہ اکيلے نہ ہوتے ، ان صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کا تعاون بھي انہيں حاصل ہوتا جن کي پوري عمريں اعلائے کلمۃ اللہ ميں گزريں جو ہمہ وقت باطل کے ليے شمشير برہنہ اور کفر وارتداد کےليے خدائي للکار تھے۔ يہ تصادم دراصل ايک سياسي نوعيت کا تھا
How many Sahaba Karam (May Allah be pleased with them) took part in the battle of Karbala against Imam Hussain ( May Allah be pleased with him)??
Please come out from your cave of assumptions and let me know the references of those experts and pious predecessors of Islam in past centuries who mentioned that the stance of Imam Hussain against Yazid was just political not religious and it was not regarding right and wrong??
اس نکتے کو سمجھنے کے ليے حسب ذيل پہلو قابل غور ہيں۔
واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہي تاريخوں ميں ہے کہ حضرت حسين جب کوفے کي طرف کوچ کرنے کے ليے تيار ہوگئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہيں روکنے کي پوري کوشش کياور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کيا۔ ان ميں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعيد خدري، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد ليثي، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت حسين رضي اللہ عنہم کے بھائي محمد بن الحنفيہ نماياں ہيں۔
آپ نے ان کے جواب ميں نہ عزم سفر ملتوي فرمايا نہ اپنے موقف کي کوئي دليل پيش کي،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھي اس موقف ميں ان کے ساتھ تعاون کے ليے آمادہ ہوجاتے۔ دراصل حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے ذہن ميں يہ بات تھي کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کي دعوت دے رہے ہيں ،يقيناً وہاں جانا ہي مفيد رہے گا۔
يہ بھي تمام تاريخوں ميں آتا ہے کہ ابھي آپ راستے ہي ميں تھے کہ آپ کو خبر پہنچي کہ کوفے ميں آپ کے چچيرے بھائي مسلم بن عقيل شہيد کردئيے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کےليے ہي بھيجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہوگيا اور واپسي کا عزم ظاہر کيا، ليکن حضرت مسلم رحمۃ اللہ عليہ کے بھائيوں نے يہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کرديا کہ ہم تو اپنے بھائي مسلم کا بدلہ ليں گے يا خود بھي مر جائيں گے اس پر حضرت حسين رضي اللہ عنہ نے فرمايا: "تمہارے بغير ميں بھي جي کر کيا کروں گا؟"
((فھم ان يرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقيل فقالواواللہ لا نرجع حتي نصيب بثارنا او نقتل)) (تاريخ الطبري: 292/4، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: 1939ء)
"چنانچہ حضرت حسين نے رضي اللہ عنہ نے واپسي کا ارادہ کرليا، ليکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقيل کے جو بھائي تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہيں جائيں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے ليں يا پھر خود بھي قتل ہوجائيں۔"
اور يوں اس قافلے کا سفر کوفے کي طرف جاري رہا۔
پھر اس پر بھي تمام تاريخيں متفق ہيں کہ حضرت حسين رضي اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زياد نے عمر بن سعد کو مجبور کرکے آپ کے مقابلے کےليے بھيجا۔ عمر بن سعد نے آپ کي خدمت ميں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کي تو متعدد تاريخي روائتوں کے مطابق حضرت حسين رضي اللہ عنہ نے ان کے سامنے يہ تجويز رکھي۔
((اختر مني احديٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الي المدينۃ واما ان اضع في يد يزيد بن معاويۃ فقبل ذلک عمر منہ)) (الاصابۃ: 71/2 الطبعۃ 1995ء، دارالکتب العلميۃ)
يعني "تين باتوں ميں سے ايک بات مان لو۔ ميں يا تو کسي اسلامي سرحد پر چلا جاتا ہوں يا واپس مدينہ منورہ لوٹ جاتا ہوں يا پھر ميں (براہ راست جاکر) يزيد بن معاويہ کي ہاتھ ميں اپنا ہاتھ دے ديتا ہوں(يعني ان سے بيعت کرليتا ہوں) عمر بن سعد نے ان کي يہ تجويز قبول کرلي۔
ابن سعد نے خود منظور کر لينے کے بعد يہ تجويز ابن زياد (گورنر کوفہ ) کو لکھ کر بھيجي مگر اس نے اس تجويز کو ماننے سے انکار کرديا اور اس بات پر اصرار کيا کہ پہلے وہ (يزيد کے ليے)ميرے ہاتھ پر بيعت کريں۔
((فکتب اليہ عبيد اللہ (ابن زياد) لا اقبل منہ حتي يضع يدہ في يدي)) (الاصابۃ: 71/2، الطبري: 293/4)
حضرت حسين رضي اللہ عنہ اس کے ليے تيار نہ ہوئے اور ان کي طبع خوددار نے يہ گوارا نہيں ، چنانچہ اس شرط کو مسترد کرديا جس پر لڑائي چھڑ گئي اور آپ کي مظلومانہ شہادت کا يہ حادثہ ٔ فاجعہ پيش آگيا۔
((فانا للہ وانا اليہ راجعون۔ فامتنع الحسين فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل رضي اللہ عنہ وارضاہ))
اس روايت کے مذکورہ الفاظ جس ميں حضرت حسين رضي اللہ عنہ نے بيعت يزيد پر رضا مندي کا اظہار فرمايا" الاصابہ" کے علاوہ *تہذيب التہذيب، 328/2، 353 *تاريخ طبري، 293/4 *تہذيب تاريخ ابن عساکر، 325/4، 337 *البدايۃ والنہايۃ،170/8۔175 *کامل ابن اثير،283/3 اور ديگر کئي کتابوں ميں بھي موجود ہيں ۔ حتي کہ شيعي کتابوں ميں بھي ہيں۔ ان کے دوسرے الفاظ بھي ہيں تاہم نيتجے ميں کوئي خاص فرق نہيں پڑتا۔
ان تاريخي شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر يہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا توکوفے کے قريب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقيل کي مظلومانہ شہادت کي خبر ملي تھي۔ آپ واپسي کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ ظاہر بات ہے کہ راہ حق ميں کسي کي شہادت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فريضہ ساقط نہيں ہوجاتا۔
پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسين رضي اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھيں، يہ بات بالکل نماياں ہوجاتي ہے ہے کہ آپ کے ذہن ميں کچھ تحفظات تھے بھي تو آپ ان سے دست بردار ہوگئے تھے ، بلکہ يزيد کي حکومت تک کو تسليم کرلينے پر آمادگي ظاہر کردي تھي۔
ايک يہ بات اس سے واضح ہوئي کہ سيدنا حسين رضي اللہ عنہ ، امير يزيد کو فاسق و فاجر يا حکومت کا نااہل نہيں سمجھتے تھے، اگر ايسا ہوتا تو وہ کسي حالت ميں بھي اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ ميں دينے کے ليے تيار نہ ہوتے جيسا کہ وہ تيار ہوگئے تھے، بلکہ يزيد کے پاس جانے کے مطالبے سے يہ بھي معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہي کي توقع تھي۔ ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کي آرزو (آخري چارہ ٔ کارکے طور پر بھي) کوئي نہيں کرتا۔
اس تفصيل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھي عرياں ہوجاتے ہيں اور وہ ہے ابن زياد کي فوج، جس ميں سب وہي کوفي تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلايا تھا، انہي کوفيوں نے عمر بن سعد کي سعئ مصالحت کو بھي ناکام بناديا جس سے کربلا کا يہ المناک سانحۂ شہادت پيش آيا۔
وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
Instead of writing summary in your own words,it would have been better if you had taken pain of checking the actual text in the books and also posted here the exact text. Just to have idea of reality, check out the following references:
اور بلاشبہ عقبہ بن سمعان سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں حضرت حسین کے ساتھ مدینہ سے مکّہ اور مکّہ سے عراق تک برابر ساتھ رہا اور ان کی شہادت کے وقت تک ان سے کہیں جدا نہ ہوا. میں نے یوم شہادت تک آپ کی وہ تمام گفتگوائیں سنی ہیں جو آپ نے لوگوں سے فرمائی ہیں سو بخدا یہ بات آپ نے لوگوں کے سامنے رکھی ہی نہیں جس کا لوگ ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ وہ یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں گے اور اس سے بیعت کر لیں گے. تاریخ الکامل ابن اثير جلد 4 صفحہ 22
عقبہ بن سمعان حضرت امام حسین کے غلام تھے اور انھیں عمر بن سعد نے غلام ہونے کی وجہ سے زندہ چھوڑ دیا تھا
یہ بات صحیح نہیں ہے کہ حضرت حسین نے یزیدی لشکر کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ وہ بیعت کے لئے یزید کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینے کے لیے تیّار ہیں مگر ان لوگوں نے آپ کی یہ پیشکش قبول نہ کی اور آپ کے سامنے یہ
بات رکھی کہ ابن زیاد کے فیصلے پر جھکیں محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ جلد 2 صفحہ 128 طبع مصر
I hope that you will spend some time next time to do proper research before posting something here.
By the way, could you please share with me about the punishments given to killers of Imam Hussain (May Allah be pleased with him) by Yazid??
By the way, could you please share with me about the punishments given to killers of Imam Hussain (May Allah be pleased with him) by Yazid??
حضرت عثمان اور عمر فاروق رضي اللہ عنہما کي شہادت:
جب واقعہ يہ ہے کہ يہ معرکہ سياسي نوعيت کا حامل ہے، حق وباطل کا معرکہ نہيں ہے ، تو بہتر ہے کہ ايام محرم ميں اس موضوع ہي سےاحتراز کيا جائے کہ ان دنوں ميں اس سانحے کو اپنے بيان و خطابت کا موضوع بنانا بھي شيعيت کو فروغ دينا ہےکيونکہ تاريخ اسلام ميں اس سے بھي زيادہ اہم شہادتوں کو نظر انداز کرکے سانحۂ کربلا کو اجاگر کرنا يہ بھي رفض و تشيع ہي کا انداز ہے۔حضرت عثمان غني رضي اللہ عنہ کي شہادت کچھ کم جگر سوز اور دل دوز ہے جو 18 ذو الحجہ کو ہوئي؟ حضر ت عمر فاروق رضي اللہ عنہ کي شہادت ِعظميٰ کيا معمولي سانحہ ہے جو يکم محرم کو پيش آيا؟
اسي طرح اور بڑي بڑي شہادتيں ہيں ليکن ان سب کو نظر انداز کرکے صرف شہادت حسين کو اپني زبان و قلم کا موضوع بنانا کسي طرح صحيح نہيں، اور جو شخص ايساکرتا ہے وہ بالواسطہ اور شعوري يا غير شعوري طور پر شيعي انداز فکر کو فروغ دينے کا باعث بنتا ہے۔
Are you so naive who does not know that Sunni Muslims have been holding special congregations since past on the days of shahadat of Hadhrat Umer, Usman, Ali and martyrs of Karbala. I hope that you remember in the place of Karbala Imam Husain(May Allah be pleased with him) was not the only one martyred like Hadhrat Umer, Ali and Usman (May Allah be Pleased with them) but also other members of his household including children were brutally murdered.