بسم اللہ الرحمان الرحیم...گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے متعلق جو بحث چل رہی ہے اور میری آخری پوسٹ کے بعد سے جو جوابات آے ہیں ان میں مندرجہ ذیل پہلؤں ہیں
١) گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم آیا مجرم ہے یا نہیں؟
٢) گستاخ رسول کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
٣) کیا سلمان تاثیر گستاخ رسول تھا؟
٤) کیا آسیہ بی بی گستاخ رسول تھی؟
٥) کیا ملک ممتاز کا اقدام درست تھا؟
ہم یہاں پہ صرف اور صرف پہلے دو پہلوؤں پہ بات کر رہے ہیں. اور میری گزارش ہے کے براے مہربانی بقیہ تین پہلوؤں سے متعلق اظہار خیال سے گریز کریں تاکہ بات واضح ہوسکے
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم آیا مجرم ہے یا نہیں؟
گستاخ رسول کی سزا کیا ہونی چاہیے؟
وہ تمام افراد جو اس سزا کے مخالف ہیں انکے دلائل کچھ اس طرح ہیں
١) گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی سزا کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
٢) گستاخ رسول کی سزا سے متعلق احادیث ہم نہیں مانتے یا ضعیف ہیں
٣) اسلام امن اور آشتی کا دین ہے، گستاخ رسول کے لئے قتل کی سزا نامناسب ہے
٤) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم انتہائی رحیم اور شفیق تھے اور درگزر کرنے والے تھے اس لئے ہمیں بھی درگزر کرنا چاہیے اور معاف کردینا چاہیے
اب آئے ایک ایک کرکے انکا جائزہ لیتے ہیں
١) گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی سزا کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
اس سزا کے مخالفین یہ اعتراض بڑی شدت کے ساتھ اٹھاتے ہیں، اور بعض تو یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کے ایسی آیت پیش کریں جس میں لکھا ہو "گستاخ رسول کی سزا موت ہے" .....ت
اب آئے میں اس کے وضاحت کردوں کے قرآن میں گستاخ کی سزا کیا ہے اور منکرین حدیث کو یہ سزا کیوں نہیں مل رہی. مسئلہ دراصل یہ ہے کے اس سزا کے مخالفین اس سزا کو حدود کی نظر سے ڈھونڈھتے ہیں جبکہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ گستاخ رسول کی سزا کا معاملہ حدود کا نہیں بلکہ کفر اور ارتداد کا ہے، حدود سے متعلق سزائیں جیسے چور کی سزا یا زانی کی سزا در اصل مسلم معاشرے کی حفاظت اور بقا کے لئے اللہ نے مقرر کی ہیں، ان جرائم کا مرتکب کسی بھی طرح کافر یا مرتد نہیں ہوتا مگر پھر بھی اس کے لئےاللہ نے ایسی سخت سزائیں تجویز ہیں کے آئندہ کوئی شخص ان جرائم کا ارتکاب نہ کرے اور معاشرہ صحت مند انداز میں پھلے پھولے اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کے زنا کا مرتکب ابدی جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اگر تو وہ مواحد ہو یعنی توحید کا عقیدہ اس کا راسخ ہو تو انشاللہ اپنی سزا کے بعد جنت میں ضرور جائیگا.
لیکن گستاخ کا معاملہ مختلف ہے گستاخ رسول صلی علیہ وسلّم اپنی گستاخی کی وجہ سے کافر ہوچکا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں گستاخی درحقیقت اسلام پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے اور اس کے ساتھ وحی سلوک ہوگا جو ایک حملہ آور کے ساتھ کیا جاتا ہے جو آپ کی جان اور مال پہ حملہ آور ہو
ایک گستاخ اگر مسلمان ہو تو وہ مسلمان نہیں رہتا اور مرتد ہوجاتا ہے اور اگر غیر مسلم ہو اور مسلمانوں کی مملکت میں رہتا ہو تو اس کا ذمہ (یعنی اسکی حفاظت) ختم ہوجاتا ہے
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰيٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۶۵لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ١ؕ
'' اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے، تو وہ کہیں گے: ہم تو ٹھٹھہ کررہے تھے، اور کھیل رہے تھے، آپ فرمادیں : کیا اللہ تعالیٰ سے، اور اس کی آیات سے، اور اس کے رسول سے تم مذاق کرتے ہو، بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔''
سورہ التوبہ
دین اسلام میں اللہ کہ نبی صلی علیہ وسلّم کی گستاخی ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کا مرتکب ناصرف دائرہء اسلام سے خارج ہے بلکہ وہ براہ راست مسلمانوں اور اسلام پہ حملہ آور ہے اور ایک مسلمان جس طرح اپنے گھر اور مال اور اولاد پہ ہونے والے حملہ آور سے جنگ کرتا ہے اسی طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات پہ حملہ اور شان میں گستاخی حقیقت میں جان مال اور اولاد پہ حملے سے بدتر ہے اور ایسے مجرم سے جنگ عین ایمان ہے
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ
اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو (یہ یہ بےایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ (اپنی حرکات سے) باز آجائیں (۱۲
اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم یعنی ذمی لوگ اگر تمہارے دین میں طعن کریں، تو ان کا معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے، اور ان سے ہمیں لڑائی کرنے کا حکم ہے۔ یہ امر شک وشبہ سے بالا ہے کہ نبی کریم کو گالی دینے سے بڑھ کردین میں کوئی طعن نہیں ؛ کیوں کہ اس سے شریعت کی اہانت اور اسلام کی تذلیل ہوتی ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کے اس آیت کو کافی نا سمجھتے ہووے مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کے کوئی ایسی آیت لاؤ جس میں لکھا ہو "گستاخ رسول کی سزا موت ہے " ....ت
اب آئے اس معاملے کو ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں
اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ میں ارشاد فرماتا ہے
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنٰتِ١ٞ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ۰۰۳۲اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ١ؕ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۳۳اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌؒ۰۰۳۴
اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں (۳۲) جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے (۳۳
وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِؕ
سورہ البقرہ آیت ٢١٧
اور فتنہ خونریزی سے شدیدتر ہے
اوپر کی آیات اپنے مطلب میں بلکل واضح ہیں ..حاکم وقت کو چاہیے کے فتنہ پرور لوگوں کو اپنے انجام تک پونھچاے چاہے وہ کوئی بھی ہو مسلمان ہو یا کافر اور اس سلسلے میں کسی رحم دلی کا مظاہرہ نہ کرے کیوں کے فتنہ خوں ریزی سے ابتر ہے. اب ایک مسلم معاشرے میں جہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبّت انکے ماں باپ اولاد اور مال سے بڑھ کر ہو حتیٰ کے اپنی جان سے بڑھ کر اس معاشرے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پہ شب و شتم سے بڑھ کے کیا فتنہ ہوگا؟
رسول اللہ کو گالی دینا ایسا خطرناک امر ہے کہ اب اس کے لیے کسی بیان یا وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس سے بڑا فتنہ مسلم معاشرے کے لئے اور کوئی نہیں؛ کیوں کہ اس میڈیا کے دور میں ساری کائنات کے لوگوں پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ مسلمان قوم کے جذبات جتنے رسول اللہ کی حرمت کی وجہ سے بھڑکتے ہیں، اتنی شاید ہی کوئی دوسری چیز ان کے جذبات کو بھڑکا سکے۔ مشرق سے مغرب شمال سے جنوب، دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے ادنیٰ قسم کے فاسق وفاجر سے لے کر ایک متقی عالم اور پرہیزگار تک کوئی بھی اس ضرب سے محفوظ نہیں رہتا۔ اتنی دنیا کے جذبات کو مجروح کرنے والے اس فتنہ کا علاج یہی ہے کہ اس سے اس صفحہ ہستی کو پاک کردیا جائے کیوں کہ فتنہ قتل سے بدتر ہے
میں نے اپنی پہلے پوسٹ میں بھی یہ لکھا تھا کے قرآن کا اسلوب اللہ کا پسند کردہ اسلوب ہے اور اللہ نے جس طرح چاہا قرآن اتارا مندرجہ بالا آیات اور دیگر آیات گستاخ رسول کے لئے موت کی سزا کا تعین کرتی ہیں، ہوسکتا ہے کے اب بھی کسی کے دل میں شک ہو اور وہ مطالبہ کرے کے ایسی آیت پیش کرو کے جس میں لکھا ہو "گستاخ رسول کی سزا موت ہے"....ت
تو میرے بھائی ایسے شخص کے لئے کوئی قید نہیں کے دین کے ہر معاملے میں اسی طرح اپنی من پسند آیات کا مطالبہ کرے اور آیات نہ ملنے پر دین کے ثابت شدہ اور اجماعی مسائل کا انکار کردے
٢) گستاخ رسول کی سزا سے متعلق احادیث ہم نہیں مانتے یا ضعیف ہیں
،
میرے بھائی اگر قرآن کی ایک آیت بھی ایسی نہ ہو جس میں گستاخ رسول کے انجام کا ذکر ہو اور اس کے مقابلے میں ایک حدیث بھی گستاخ رسول کے قتل کا حکم دیتی ہو تو ہمارے لئے ایک حدیث بھی کافی ہے. کیوں کے اہلسنّت دین صرف قرآن سے نہیں لیتے بلکے قرآن کے بیان یعنی حدیث کو بھی دین سمجھتے ہیں . الحمدلللہ
ابو داود نے على رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ
ايك يہودى عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كيا كرتى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتى تھى، تو ايك شخص نے اس كا گلا گھونٹ كر اسے مار ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا خون باطل اور رائگاں قرار ديا
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4362
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى " الصارم المسلول ميں كہتے ہيں
يہ حديث جيد ہے، اور اس ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى آگے آنے والى حديث اس كى شاہد ہے. اھـ
ديكھيں: الصارم المسلول على شاتم الرسول ( 2 / 126
يہ حديث اس يہودى عورت كو نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنے كى پاداش ميں قتل كرنے كے جواز ميں نص ہے
اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ
" ايك نابينے آدمى كى ام ولد ( لونڈى ) تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور ان كى توہين كرتى تھى، وہ نابينا اسے روكتا ليكن وہ باز نہيں آتى تھى، وہ اسے ڈانٹتا ليكن پھر بھى وہ نہ ركتى، ايك رات وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنے لگى تو نابينے آدمى نے چھوٹى تلوار لے كر اس كے پيٹ ميں ركھى اور اس پر سہارا لے كر اسے قتل كر ديا، اور جب صبح ہوئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے يہ واقع ذكر كيا گيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو جمع كر كے فرمايا:
" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں اس نے جو كيا سو كيا ميرا اس پر حق ہے، وہ كھڑا ہو جائے"
تو وہ نابيان آدمى كھڑا ہو كر كہنے لگا ميں اس كا مالك ہوں، وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى تنقيص و توہين كرتى تھى، ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہيں آتى تھى، اور ميں اسے ڈانٹتا بھى ليكن وہ ركتى، اور اس سے ميرے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں، اور وہ ميرے ساتھ بہت نرمى كرتى تھى، كل رات بھى وہ آپ پر سب وشتم كرنے اور آپ كى توہين كرنے لگى، تو ميں نے چھوٹى تلوار لے كر اسے اس كے پيٹ ميں ركھا اور اس پر سہارا لے ليا حتى كہ اسے ميں نے قتل كر ديا، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے"
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3655 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ظاہر ہے كہ وہ عورت مسلمان نہ تھى بلكہ كافرہ تھى، كيونكہ مسلمان عورت ايسا شنيع جرم نہيں كرسكتى، اور اس ليے بھى كہ اگر وہ مسلمان تھى تو اس فعل كى بنا پر مرتد ہو گئى، اور اس وقت اس كے مالك كے ليے اسے ركھناجائز نہيں اور اسے اس سے روكنا ہى كافى ہے
اور نسائى رحمہ اللہ تعالى نے ابو برزہ اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں
ايك آدمى نے ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ سخت لہجہ اختيار كيا تو ميں نے كہا: كيا ميں اسے قتل كردوں؟
تو انہوں نے مجھے ڈانٹا اور كہنے لگے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد يہ كسى كے ليے بھى نہيں ہے"
صحيح نسائى حديث نمبر ( 3795
میری گزارش ہے ان افراد سے جو ان احادیث کو صحیح نہیں مانتے کے علم حدیث کے اصول کی روشنی میں ان احادیث کو ضعیف ثابت کریں. وگرنہ اللہ کے ہاں جھوٹ اور دھوکہ دہی کے مرتکب ہونگے.
٣) اسلام امن اور آشتی کا دین ہے، گستاخ رسول کے لئے قتل کی سزا نامناسب ہے
بعض ساتھی اسلام کے امن اور آشتی کے پیغام کو بنیاد بناتے ہووے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے درگزر کی بات کرتے ہیں. ان سے عرض ہے کے اسلام کے کچھ اصول اور ضوابط ہیں اور ان اصول اور ضوابط پہ اسلام کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا. اور اگر اسلامی اصول اگر کسی مملکت پہ نافذ کردیے جائیں تو درحقیقت وہ مملکت امن اور آشتی کا گہوارہ بن جائے...قتل کے بدلے قتل کو قرآن زندگی قراردیتا ہے
وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰۤاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۰۰۱۷۹
سورہ البقرہ
آج دنیا سزاے موت کو ظالمانہ قرار دینے کے لئے پر تول رہی ہے. مگر اسلام سزائے موت کو زندگی قرادے رہا ہے - درحقیقت یہی امن وہ اشتی کا پیغام ہے کہ اگر اسے نافذ کردیا جائے تو کتنی ہی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں اگر کوئی عقل والا سمجھے تو . اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی شان میں گستاخی کی سزاے موت دراصل امن و آشتی کے خلاف نہیں بلکے اس فتنہ کا سدباب ہے کے اگر جسے نہ روکا جائے تو مسلمان معاشرہ دینی اور دنیاوی انحتاط اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگا اور اس فتنہ کی اس سے بہتر سزا نہیں ہوسکتی، یہ سزا درحقیقت امن اور اشتی کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے
٤) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم انتہائی رحیم اور شفیق تھے اور درگزر کرنے والے تھے اس لئے ہمیں بھی درگزر کرنا چاہیے اور معاف کردینا چاہیے
جہاں تک بات ہے بنی صلی اللہ علیہ وسلّم کے درگزر کی تو یہ بات ذہن نشین رہے کے اللہ کے نبی کو بحثیت نبی نہ ماننا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم پہ شب و شتم کرنا یہ دو مختلف باتیں ہیں اسلام کسی پہ زبردستی نہیں کرتا کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو مگر اسلام کسی کو اجازت نہیں دیتا کے اللہ کے نبی پہ شب و شتم کا بازار گرم کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں..اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اگر کسی گستاخ کو معاف کردیں تو یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کا اختیار ہے مگر جب بات اسلامی معاشرے کی فلاح و بہبود کی ہو اور اس کی دینی حمیت اور غیرت کا دفاع ہو تو اس قانون کا نفاذ لازمی امر ہے اور مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں بلکہ ناممکن ہے کے اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے گستاخ کو معاف کرتے پھریں اور مسلم معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دیدیجاے...اور یاد رکھیے قانون کی پاسداری پہ عمل بھی اللہ کی نبی کی ایک مسلمہ سنت ہے اور اللہ کے نبی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے فرمایا کے اگر وہ بھی چوری کرلیں تو میں انکے بھی ہاتھ کاٹدوں ...یہ ہے مجرموں کے ساتھ معاملہ جہاں کوئی درگزر نہیں
آج دینی حمیت اور غیرت مسلمانوں میں ختم ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کی بیٹی کو دشمن اٹھا کے لیجاہےیا مسلمانوں پی بم برساۓ، ہم اتنے کمزور ہوچکے ہیں کے ہم پہ جوں تک نہیں رینگتی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم سے محبّت واحد مسئلہ ہے جس پی قوم نہ صرف متحد ہوتی ہے بلکے یک زبان بھی ہے اور اس معاملے بھرپور حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس حمیت اور غیرت کو تاابد قائم رکھے اور جو لوگ اس حمیت کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں انکو اللہ ہدایت دیدے وگرنہ انھیں نیست وہ نابود کردے آمین.