ویسٹ میں جہیز کا کانسیپٹ اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہاں لڑکا اور لڑکی دونوں کماتے ہیں، وہاں عورت بوجھ بن کر مرد کے گلے نہیں باندھ دی جاتی۔ پاکستان جیسے معاشروں میں لڑکی تھوڑی بڑی ہوتے ہی اس کو مرد کے گلے میں باندھ دیا جاتا ہے کہ اب یہی مرد تیری تقدیر ہے۔ مرد بھی چونکہ اسلامی سوچ والا ہوتا ہے، اس کو پتا ہوتا ہے باقی زندگی اس عورت کو میں نے چار دیواری میں گدھی گھوڑی کی طرح باندھ کر رکھنا ہے، اس نے معاشی طور پر گھر میں کوئی حصہ نہیں ڈالنا، اس لئے وہ پھر بڑے جہیز کی مانگ کرتا ہے کہ ایک ہی بار میں ملنا ہے جو ملنا ہے، اس لئے منہ بھر کر مانگ لیتے ہیں۔ جب تک مسلمان معاشرے میں عورت کو گھر میں بندھی ہوئی گدھی گھوڑی کے ذلیل درجے سے بحال کرکے انسان کے رتبے پر واپس فائز نہیں کیا جاتا، تب تک یہ مسائل برقرار رہیں گے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر عورت مالی طور پر خودکفیل ہووہاں جہیز کا رواج اپنے آپ ختم ہوجائے گا وہاں عورت اپنی مرضی سے اپنا لائف پارٹنر چنے گی۔ ہندوؤں میں بھی جہیز کی علت اسی وجہ سے ہے کہ وہاں بھی عورت کو مرد کا محتاج بنادیا جاتا ہے۔ مگر اب ہندوستان میں بڑی حد تک تبدیلی آرہی ہے، عورتیں مالی طور پر خود کفیل ہورہی ہیں، اسی لئے ہندوستان پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے بارے میں سوچ ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی، اسی لئے معاشی و سماجی مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔