سوشل میڈیا کی خبریں

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے گزشتہ روز مری میں ایک اسکول کا دورہ کیا گیا جس کے بعد آج اسکول کی طالبات میں میکڈونلڈ کے برگرز اور کولڈ ڈرنکس کی تقسیم کی گئی، ن لیگ کی جانب سے اس پورے عمل کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں اور تھوڑی ہی دیر بعد یہ مواد ڈیلیٹ کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر آفیشل اکاؤنٹ سے کچھ ویڈیوز شیئر کی گئیں اور کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے آج اس اسکول کے اساتذہ اور طالب علموں کو لنچ بھیجا ہے ۔ شیئر کردہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکول ٹیچرز اور بچوں کو دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے بائیکاٹ کیے جانے والے میکڈونلڈ کے برگرز اور ڈرنکس سرو کیے جارہے ہیں۔ ن لیگ نے ان ویڈیوز اور تصاویر کو شیئر کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ سارا مواد ہٹادیا ، تاہم صارفین نے پوسٹ کا سکرین شاٹ اور ویڈیوز اپنے پاس محفوظ کرلیے تھے۔ شاہ زیب ورک نے کہا کہ جہاں ایک طرف دنیا اور مسلمان میکڈونلڈ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کررہے ہیں، وہیں ن لیگ اس برانڈ کو استعمال کرنے اور اس کو پروموٹ کرنے میں مصروف ہے۔ ماریہ عطاء نامی صارف نے کہا کہ اس وقت جب پوری دنیا فلسطینیوں کے قتل عام میں معاونت کے جُرم میں میکڈونلڈ کا بائیکاٹ کر رہی ہے تو عین اس وقت نون لیگی حکومت نے میکڈونلڈ کے برگر خرید کر بچوں میں تقسیم کیے، یہ جماعت اچھا کام کرنا بھی چاہے تو اللہ ان کے ہاتھ سے اچھا کام ہونے نہیں دیتا۔ علی رضا نامی صارف نے کہا کہ حمیداللہ محب سے ملنے سے لے کر ارشد شریف کی شہادت والے دن کیک کاٹنے تک، فلسطینی جھنڈا نہ لہرانے سے لے کر میکڈونلڈ سے آرڈر کرنے تک، ن لیگ ہر وہ کام کرتی ہے جس سے پاکستانیوں کو تکلیف پہنچے۔ ایک صارف نے کہا کہ جعلی وزیراعلیٰ پنجاب کی ترجیحات ملاحظہ کریں، طلباء کو فری کتابوں کی سہولت بند کرکے ایک اسکول میں فری میکڈونلڈ اور کوکا کولا پلائی جارہی ہے، یہ تباہی رکنے والی نہیں ہے۔
جان اچکزئی کا پنجاب کی عوام کا نام لیکر مہرنگ بلوچ کیلئے دھمکی آمیز پیغام,صارفین کی تنقید بلوچستان حکومت کے سابق ترجمان جان اچکزئی نے مہرنگ بلوچ کو دھمکی آمیز پیغام دے دیا, ایکس پر ٹویٹ کیا کہ مہرنگ بلوچ، دوبارہ پنجاب مت جانا کیونکہ اس بار آپ کے بی ایل اے کے ساتھیوں نے عام پنجابیوں کو مارا ہے,پنجاب آپ کو سپورٹ کرنے کے لیے وہی گناہ نہیں دہرائے گا۔ انہوں نے مزید لکھا اگلی بار بی ایل اے کے سرمچار کتوں کی طرح مریں گے اور پنجابی جشن منائیں گے,پھر کوئی لاہور اور اسلام آباد جا کر لاپتہ بلوچوں کی کہانی نہ سنائے، ہاں میں حامد میر جیسے بگڑے پنجابیوں کی بات نہیں کر رہا۔ سوشل میڈیا صارفین نے جان اچکزئی پر تنقید کردی, اظہار نے لکھا حالات جیسے بھی ہو لیکن چند شر پسند اور کم عقلوں کیوجہ سے پنجاب کے مہمان نواز لوگ کبھی بھی آپ کے اس گھٹیا سوچ سے متفق نہیں ہونگے, یہ پر امن لوگ ہیں ۔ ان کی طرف سے آپ کو دھمکی دینے کا اختیار بالکل بھی نہیں سکندر فیاض نے تبصرہ کیا کہ پنجاب واسی کسی کے مرنے پر خوش نہیں، نا بلوچ کے اور نا پنجابی کے۔ پنجاب واسیوں کو ہر جان عزیز ہے۔ قاتل کی نا تو کوئی قوم ہے، نا مذہب اور نا نسل۔ قاتل صرف قاتل ہے اور اسکو کیفر کردار تک پہنچنا چاہیے۔ معصوم پنجابیوں کو قتل کرنے والے نا تو بلوچستان کے خیرخواہ ہیں اور نا بلوچ قوم کے مطیع اللہ جان نے کہا کہ یہ شخص کس کے کہنے پر پاکستان میں لسانی فسادات پھیلا رہا ہے؟ ایسے لوگوں کی باری ہمارے قومی مفادات و سلامتی کے ٹھیکیدار کہاں سو جاتے ہیں اور ایف آئی اے گونگی بہری اور اندھی کیوں ہو جاتی ہے؟ رانا عمران نے ردعمل دیا کہ پنجابی صوبائی تعصب پر یقین نہی رکھتے۔ برائے مہربانی آپ پنجابیوں کے ترجمان مت بنیں ہمیں آپ کی ترجمانی کی ضرورت نہی ھے۔ عمران بھٹی نے کہا کہ کدھر وہ لوگ جو انتشار پیدا کرنے کے نام پر ایک جماعت کے لوگوں کو گھروں کو توڑ دیتے ہیں ماوں بہنوں کی عزت کو پامال کرتے ہیں انکو یہ انتشار نظر نہیں آرہا۔ملک میں لسانی بنیادوں پر فساد پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔کیوں اس انتشاری کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی یا اسے سب جائز ہے؟ حمید اصغر نے لکھا تو کوئی بڑا فسادی ہے ,شرم تم کو مگر نہیں آتی ,تکفیری ملاں کیطرح ہی ہے تو.
گزشتہ روز رانا ثناء اللہ نے نجی چینل کے ایک شو مین کہا کہ ہمارے سب وعدے سادہ اکثریت کی شرط پہ تھے ،عوام نے ہمیں سادہ اکثریت نہیں دی، اسلئے اب ن لیگ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنا کوئی وعدہ پورا کرے راناثناءاللہ کے بیان پر عوام کے دلچسپ تبصرے سامنے آنے لگے, سوشل میڈیا صارفین نے ایکس پر بھرپور اظہار خیال کیا راشد نے تبصرہ کیا کہ پاکستانیوں! تسی ساڈے لئی تے اسیں تواڈے لئی مرگئے, اپنے کفن دا تسی آپ انتظام کرو۔۔ سانوں چھڈو اسیں کفن چور آں۔ پاکستانیت نامی ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ عوام نے ہمیں مکمل مسترد کرتے ہوئے پندرہ سیٹیں دیں ہم نے ڈاکہ ڈال کر نوے سیٹوں پہ قبضہ کر لیا ہے جب تک ہمیں 166 سیٹوں پر ڈاکہ ڈالنے کی سہولت نہیں دی جائے گی ہم زمہ داری نہیں لیں گے. فیصل نے ردعمل دیا کہ زمہ داری تمہاری ہی ہے کیونکہ پارٹی تمہاری ہی ملک پر مسلط ہے، عمران خان کے علاوہ کوئ ایک شخص کوئ ایک پارٹی(سیاسی یاں غیر سیاسی) یاں انصاف دینے کے ٹھیکے دار اِس تباہی کی زمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے۔ ایک صارف نے لکھا مطلب کے عوام رلنے کے لیے تیار رہے. عمران طاہر نے لکھا ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، کوئی وعدہ نہیں، میاں جدوں آئے گا لگ پتہ جائے گا. شکیل احمد نے تبصرہ کیا کہ کیسے بے شرم لوگ ہیں اگر یہی بات ہے تو پھر عوام نے تو آپکو 17 سیٹیں دی ہیں آپ کی جماعت حکومت کیسے بنا لی ہے یہ نورا کشتی بند کر دو خدارا,اتنی بے شرمی اور بغیرتی آنے دو الیکشن ایک صارف نے لکھالو جی کر لو گل,ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ فیاض نے ردعمل دیا کہ سیٹ بیلٹیں کس لیجیے کیونکہ شاید پہلی بار ایسی حکومت آئی ہے، جو دوران حکومت ہی کسی قسم کی زمہ داری لینے کو تیار نہیں جبکہ وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا کر بیٹھی ہے, یہ رجیم چینج آپ کا کی.
نومئی واقعات : عثمان ڈار، صداقت عباسی اور فرخ حبیب کی ناکامی کے بعد 482 ووٹ لیکر ضمانت ضبط کرانیوالے سلمان شعیب کو لانچ کردیا گیا۔۔ نومئی کے بعد تحریک انصاف چھوڑنے والے رہنما سلمان شعیب نے دعویٰ کیا ہے کہ 9 مئی کے پلاننگ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ جسمیں حماد اظہر اور حافظ فرحت عباس شامل ہیں، پلاننگ ان لوگوں نے کی تھی حماد اظہر نے سلمان شعیب کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کہ گھبراہٹ کا عالم یہ ہے کہ لاہور کی ایک نشست پر کُل 482 ووٹ لینے والے بندے سے ٹی وی پر سکرپٹڈ انٹرویو کروایا گیا اور وہ بولا کہ حماد اظہر نے لبرٹی چوک پر تقریر کر کے ۹ مئی کو عوام کو کینٹ کی طرف بھیجا۔ پر اس دن میں لاہور میں تھا ہی نہیں سلمان شعیب نے نو مئی کے بعد تحریک انصاف چھوڑدی تھی اور مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے تھے اور چوہدری سرور نے اسے اپنا کوآرڈینیٹر مقرر کای تھا مگر الیکشن 2024 میں پی پی 148 سے تحریک انصاف کے جعلی امیدوار بن کر سامنے آگئے اور پی ٹی آئی امیدوار صبا دیوان کا ووٹ خراب کرنیکی کوشش کی مگر اپنے پوسٹرز پر عمران خان کی تصویر لگانے کے باوجود انہیں 482 ووٹ مل سکے۔
سابق سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے شاہ اردن کو "غدار ابن غدارابن غدار" قرار دینا عالمی سطح پر وائرل ہوگیا ہے، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف آراء کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ایران کی جانب سے کیے گئے حملے کے دوران اردن فضائیہ کے اسرائیل کے دفاع پر دنیا بھر میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے، اس بحث کے دوران پاکستان کے سابق سینیٹر اور جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمد خان کے ایک بیان نے بھی دنیا کی توجہ حاصل کرلی ہے۔ اردن کے بادشاہ کو غدار ابن غدار کہنے پر جان اچکزئی بھی سامنے اگئے اور سینیٹر مشتاق کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ سینیٹر مشتاق احمد کو گرفتار کیا جائے۔جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد اندرون نے سستی پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے ایک انتہائی دوست عرب ملک کو تنقید کا نشانہ بنایا جو پاکستان کا بہت بڑا دوست ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کو ایسے سستے ریمارکس کے لیے گرفتار کیا جانا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں آتی ہے بلکہ ایک این جی او کی طرح ہمیشہ فوج مخالف بیانیہ، عافیہ صدیقی ڈرامے اور پی ٹی ایم اور بی ایل اے جیسے نسلی فاشسٹ گروہوں کی حمایت پر سستے پروپیگنڈا کی کوشش کرتی ہے۔ سینیٹر مشتاق نے جان اچکزئی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ھاھاھا،جان صاحب ،کیا اپنے قومی شاعر علامہ اقبال کو بھی گرفتار کروگے؟ میں نے تو اقبال کو فالو کیا ہے،اقبال نے شاہ عبداللہ کے دادا کے بارے میں کہا تھا اور ہم نے سکول کے نصاب میں پڑھا تھا کہ یچتا ہے ہاشمی ناموس دين مصطفیٰ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش۔ انہوں نے مزید کہا کہ اور ہاں ذرا گرفتاری کا شوق تو پورا کرلو۔ اس پر صحافی طارق متین نے طنز کیا اور کہا کہ صرف گرفتار نہ کریں بلکہ غدار قرار دیں اور حساس تنصیبات پر حملہ وغیرہ بھی ڈال دیں سعید بلوچ نے جواب دیا کہ جان اچکزئی صاحب بلوچستان کی صوبائی کابینہ میں عہدہ حاصل کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں، گرفتاری آپ جیسے لوگوں کی ہونی چاہیے جو دو ٹکے کے عہدوں کے لیے محب وطن لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، عمران خان کو سائفر پر گرفتار کیا ڈاکٹر مشتاق صاحب کو ایک بیان دینے پر گرفتار کریں ساتھ کوئی سائفر جیسا جھوٹا مقدمہ بھی ٹھوک دیں، اس سے شاید آپ کو کوئی اچھا عہدہ مل جائے
ڈرامہ انڈسٹری میں ناکامی کے بعد صحافت میں قدم جمانے والی شمع جونیجو نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بنے ہوئے پراٹھے کے اندر انڈا لگایا جارہا ہے شمع جونیجو نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ چاہئے۔۔ پراٹھے کے اندر انڈا اس پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی ردعمل دیا اور کہا کہ مجھے بھی یہ چاہئے اس پر شمع جونیجو نے کہا کہ انشاء اللہ اکٹھے کھائیں گے سوشل میڈیا صارفین مریم نواز کے ٹویٹ پر خاموش نہ رہ پائے اور کہا کہ پورا ملک کھاکر آپکا پیٹ نہیں بھرا اب پراٹھے بھی کھالیں، کسی نے کہا کہ یہ پراٹھا بہاولنگر میں ملتا ہے وہاں آکر پراٹھا بھی کھالیں اور پولیس والوں کا حال بھی پوچھ لیں کسی نے کہا کہ نوشکی میں پنجابی مارے گئے اور آپکو پراٹھوں کی سوجھ رہی ہے، کسی نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ ہیں،سنجیدہ ٹویٹس کریں ٹرولنگ یا غیرسنجیدہ باتیں نہ کریں۔ صدیق جان نے طنزیہ جواب دیا کہ بہاولنگر ایک جگہ بہت اچھا انڈہ پراٹھا ملتا ہے ۔۔۔کبھی چکر لگائیں وہاں شہباز بدر نے ردعمل دیا کہ حیرت ہے سوشل میڈیا پر انڈہ پراٹھا دیکھ کر لطف اٹھانے والی پنجاب پولیس کی وزیراعلی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ بہاولنگر جاکر پولیس اہلکاروں سے اظہار یک جہتی ہی کرلے، شاید ابھی حکم نہیں آیا، یہ ہوتا ہے جب کوئی بغیر ووٹوں کے وزیراعلی بنتا ہے ایک دل جلے نے ردعمل دیا کہ پورا پاکستان کھا گئی کتی۔ انڈے پراٹھے بھی کھا لے۔ شفقت اعوان نے تبصرہ کیا کہ انڈا پراٹھا چھوڑیں پنجابیوں کے قاتلوں کو انجام تک پہنچائیں حسن بٹ نے تبصرہ کیا کہ جرنیلوں کو پارٹی حوالے کرنے کے بعد پوری نون لیگ انڈے پراٹھے ہی کھا رہی ہے.
حال ہی میں وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا چھوٹی عید پر ایک بڑا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے مریم نواز کی عاجزی و انکساری بیان کرتے ہوئے کہا ک مریم نواز بازار سے عام 500، 600، 700، 800 روپے کا جوڑا لیکر پہن لیتی ہیں،اور چہرے پر صرف ایک یا دو چیزیں لگی ہوتی ہیں ۔ وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کی آراء کی بھرمار ہو گئی ۔ اور انکے اس بیان کو شدید تنقید اور طنز کا سامنا کرنا پڑا،انکا کہنا تھا کہ اس مہنگائی کے دور میں 500 سے 800 کا سوٹ کہاں ملتا ہے؟ گھٹیا سے گھٹیا کوالٹی کا سوٹ بھی اتنے کا نہیں ملتا۔ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ یہ کون سے پاکستان کی بات کر رہی جہاں 700-800 کا لان کا سُوٹ مل رہا ہے؟ 800 روپے میں تو اب سمپل ٹی شرٹ نہیں ملتی آزاد منش کا کہنا تھا کہ مریم نواز کا لان کا سوٹ اگر چھ سات سو روپے میں آتا ہے تو سلائی عظمی بخاری خود کر کے دیتی ہوگی، سو ڈیڑھ سو روپے میں عبید بھٹی نے تبصرہ کیا کہ جس زمانے میں سوٹ کی سلائی 1500 سے 2000 روپے ہے، اس زمانے میں مریم نواز صاحبہ 600، 700 والا سوٹ سیل سے لے کر پہنتی ہیں لیکن انکو جچ اتنا جاتا ہے کہ گوچی ارمانی کا لگنے لگتا ہے۔ عظمی بخاری صاحبہ نے میٹھا اس قدر تیز کر دیا ہے کہ 25 کروڑ لوگوں کو اس بیان سے شوگر ہو جائے فراز چشتی نے کہا کہ ویسے 800 سو کا تو بچے کا ریڈی میڈ بھی نہی ملتا یہ مریم نواز 800 سو کا کون سا کپڑا لیتی ہے وہ شاید کوئی اور کپڑا ہوگا ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ مجھے اس دکان کا پتہ بتائیں، سارے محلے کی عورتوں کو عید گفٹ میں اپنی جیب سے دوں گی وقاص کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر اس نے مریم نواز کے مہنگے جوڑوں پر عوام کی نظر دلوائی ہے
استاد چاہت فتح علی خان نے عید کی خوشیوں کو چار چاند لگادئیے۔۔ ہائے، ہائے، اوئے ہوئے، آپ کی عید کی خوشیاں دوبالا کرنے استاد چاہت فتح علی خان آگئے اور چھا گئے،"اکھ لڑی بدوبدی موقع ملے کدی کدی"۔ استاد چاہت فتح علی خان نے عید کے موقع پر اپنے مداحوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے نیا گانا پیش کردیا ہے۔ گانے کے بول ہیں۔۔ہائے، ہائے، اوئے ہوئے،اکھ لڑی بدوبدی موقع ملے کدی کدی چاہت فتح علی خان کے اس گانے پ دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں، ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چاہت فتح علی خان صاحب سے صرف اتنا سوال ہے کہ انہوں نے بال کس سے straight کرواۓ ہیں؟ لڑکیوں کے بال اتنے pitch perfect طریقے سے سیدھے نہیں ہوتے جتنی ان کی زلفیں ہیں اور اوپر سے یہ جان لیوا موسیقی "ہاۓ ہاۓ" اسداللہ خان کو چاہت فتح علی خان کا گانا پسند نہ آیا اور کہا کہ چاہت فتح علی خان کے علاوہ سب کو عید مبارک سلمان درانی نے کہا کہ صبح صبح یہ کیا دیکھ لیا ہے ایوب خان نے کہا کہ لڑکی پے ترس آرہا ہے، کوئی اُور نہیں ملا اس کو۔؟ اور افسوس یہ ہو رہا ہے کہ استاد چاہت فتح علی کو تمغہ امتیاز کیوں نہیں دیا گیا عمران نے کہا کہ اس بیچاری لڑکی نے کتنے پیسوں میں یہ اذیت برداشت کی ہو گی۔ سر چاہت فتح علی خان پہ دو تین کیس کروادیں آپکے لئے تو عام بات ہوگی مگر کچھ عرصے کے لئے عوام کے کانوں کو سکون آجائے گا۔ کبھی تو عوام کے لئے سوچیں
بہاولنگر واقعہ کو سوشل میڈیا صارفین مکافات عمل قرار دے رہے ہیں گزشتہ دنوں بہاولنگر میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں فوجی اہلکاروں نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، جس کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں اور اس واقعے کو سوشل میڈیا پر بہت ڈسکس کیا جارہا ہے۔ پولیس پارٹی نے ایک گھر پر چھاپا مارا تھا، گھر میں موجود افراد نے پولیس اہلکاروں پر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے اور تشدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ مطلوب ملزم کی گرفتاری کےلیے ایک گھر میں چھاپا مارا تھا، جس کے دوران اہل خانہ سمیت متعدد افراد نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ پولیس نے خواتین سمیت 23 افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔ میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ دل تو نہیں کرتا یہ کہنے کو مگر کہنا بھی لازمی ھے ان حالات میں- پنجاب پولیس آلہ کار بن کر لوگوں پر جس حد تک ظلم کر چکی ھے، نہایت بدقسمت واقعہ ان کے ساتھ بہاولنگر میں پیش آیا۔ کیسا محسوس ھو رھا ھوگا؟ دل ٹوٹے ھوں گے یقینی طور پر۔ اپنی تکلیف دیکھ کر لوگوں کا بھی کچھ احساس ھوا؟ عدیل راجہ نے راحت اندوری کا ایک شعر پیش کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میںیہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے احمد حسین بوبک کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے یہ مظالم آج مکافات عمل بن کر ان کے سامنے آ رہے ہیں فیضی کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کے کیے یہ مظالم آج مکافات عمل بن کر ان کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ایک نہتی ماں سمیت کتنے ہی بے گناہ لوگوں کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ پنجاب پولیس کو جلد توبہ کر لینی چاہیے وقاص امجد کا کہنا تھا کہ دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔۔ہزاروں گھر کا تقدس پامال کرنے والوں کا آج اپنا تقدس پامال ہو گیا۔
پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل بہاولنگر واقعے کو دونوں اداروں کی جانب سے خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا گیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر موجود اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے لکھا کہ بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقعے کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ عید کے پہلے روز سوشل میڈیا پر یہ خبریں وائرل ہونے لگیں کہ بہاولنگر کے تھانہ مدرسہ میں فوج کے 40 سے 50 افراد نے دھاوا بولا اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا۔ پنجاب پولیس کا کہا ہے کہ اس حوالے سے یہ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے پاک فوج اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہوئی ہے۔ بیان کے مطابق سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ باتیں وائرل ہونے کے بعد دونوں اداروں کی طرف سے فوری جوائنٹ انوسٹی گیشن کی گئی جس میں دونوں اداروں کے افسران نے تمام حقائق کا جائزہ لیا اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا۔ بیان میں مزید کہا کہ پاک فوج اور پنجاب پولیس دہشت گردوں، شر پسندوں اور خطرناک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پورے صوبے میں مشترکہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، عوام سے درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے جعلی پراپیگنڈے پر کان نہ دھریں۔ پنجاب پولیس کے اس ٹویٹ پر کمیونٹی نوٹ لگ گیا، کمیونٹی نوٹ سوشل میڈیا صارفین نے کچھ ویڈیوز شئیر کیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر فوج کے جوان تشدد کررہے ہیں اور انہیں گھٹنوں کے بل بٹھایا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے جس پر کمیونٹی نوٹ لگ گیا ہے، اس معمولی سے واقعہ میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوا تھا، پولیس والوں کو ٹھڈے مارے گئے، انہیں گھٹنوں کے بل بٹھایا تھا اور پھینٹا لگایا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب پولیس کو سوچنا چاہئے تھا کہ انکی غلط بیانی انکے لئے کتنی سبکی کا باعث بن سکتی ہے، پہلے ہی انہوں نےا پنی سبکی اپنے لوگوں کو گھنٹوں کے بل اور تشدد سے کروائی، انکے مطابق ایکس پر پابندی کی ایک وجہ یہ کمیونٹی نوٹ بھی ہیں جو حقائق سامنے لے آتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار اوریا مقبول جان کی جانب سے مریم نواز شریف کی ایک جعلی تصویر شیئر کرکے نامناسب تنقید پر صحافی برادری کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے، اوریا مقبول جان نے سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد پوسٹ ڈیلیٹ کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اوریامقبول جان نے مریم نواز شریف کی ایک جعلی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہ ایک زمانہ تھا جب نصرت بھٹو کی امریکی صدر کے ساتھ ڈانس کی تصویروں پر ایک ہنگامہ کھڑا ہواگیا تھا، اس وقت نواز شریف اور ان کے خاندان کے پروردہ صحافیوں نے کئی سال ان تصویروں کو استعمال کیا، مریم نواز کی یہ تصویر بھٹو خاندان کی مظلومیت کی یاددہانی کیلئے ہے۔ صحافی شفاعت علی نے کہا رمضان کے مہینے میں وی پی این سروس کا استعمال کم کیا کریں، اس عادت کی کثرت سے انسان ذہنی اثر لے جائے تو جعلی تصویروں کو شیئر کرنا شروع کردیتا ہے، نفرت ضرور کریں مگر ذہنی ننگا پن دنیا سے راز دکھیں۔ سینئر صحافی مبشرزیدی نے کہا کہ ایف آئی اے کو اوریا مقبول جان کی جان کی اس پوسٹ پر کارروائی کرنی چاہیے۔ سینئر صحافی اسد علی طور نے کہا کہ خواتین سیاستدانوں کو ٹارگٹ کرنا اور اس معاشرے کے بیمار ذہنوں کی توجہ حاصل کرنا بہت آسان ہے، ایسے شرمناک ٹویٹس اور ذہنیت دونوں قابل مذمت ہیں۔ صحافی عاطف توقیر نے کہا کہ اس ملک میں کوئی قانون ہے؟ ایسے غلیظ لوگ آزاد کیوں پھررہے ہیں؟ یہ بندہ نا تو صحافی ہے اور نا ہی کوئی تجزیہ کار، یہ خواب فروش انسان ہے اور نفرت کا بیوپار کررہا ہے۔ یوٹیوبر سلمان درانی نے کہا کہ اوریا مقبول پر وہ صحافی بھی تنقید کررہے ہیں جو ناصرف بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی کی خواتین کو لے کر ہرکردار کشی مہم کو سپورٹ کرتے دیکھے گئے ہیں، بلکہ وہ خود بھی دن رات خواتین کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
صحافی محمد عمیر کے مطابق شاہد چوہدری المشہور شادا لاہور کا مشہور زمانہ جواریا اور سٹہ باز ہے،مزنگ لٹن روڈ کے لوگ اسے خوب جانتے ہیں اس پر جوئے کے درجنوں مقدمات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ ٹک ٹاکر ہے تو جیل حکام نے اسے کیمپ جیل کا وزٹ کروایا اور پروگرام ریکارڈ ہوا،افسران ایک جواریے کو بریفننگ دیتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت میں کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہے جو کاشف ضمیر اور شادا جواریا جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو سرکاری پروٹرکول دینے سے روک سکے؟حکومتی ادارے کیوں ان جرائم پیشہ لوگوں کو پرموٹ کررہے ہیں؟ صحافی شاہد اسلم نے اس پر ردعمل دیا کہ جب ساری حکومت ہی ٹک ٹاک پر چل رہی ہو تو اس میں شاہد چوہدری جیسے جواریوں سے ناروا سلوک کیوں۔ کیا یہ جواری اس ملک کے شہری نہیں ہیں اگر وہ جواری ہیں تو کیا انکے ٹک ٹاک بنانے کے حقوق سب ختم ہوگئے، حکام نے بریفنگ ہی تو دی ہے ایک جواریے کو اسے گرفتار تو نہیں کیا نا، عمیر بھائی آپ خواہ مخواہ شریف جواریوں کے ٹاک ٹاک سے پریشان ہیں۔ اس ملک میں کونسا کوئی قانون ہے قاعدہ ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ پولیس کے بہت وڈے افسر نے جونیئرز کو کہا ہوا ہے کہ اور کچھ کریں نہ کریں، ٹک ٹاک، فیس بک، یوٹیوب، واٹس ایپ اسٹیٹس پر ویڈیوز لازمی لگائیں۔ اسی لیے 13 پرچوں کا ملزم کاشف ضمیر مہمانِ خصوصی بنا اور سٹے باز کو بریفنگ دی گئی۔ ٹک ٹاک کی حکومت ہو اور ٹک ٹاکرز کو پروٹوکول نہ ملے؟؟ پوری پنجاب پولیس ہی جرائم پیشہ بن چکی ہے تو ان معمولی جرائم پیشہ افراد پر کیا شور مچانا۔ ایک جیسے لوگ اکٹھے ہوگئے ہیں موجیں لگی ہیں آئی جی صاحب پورا محکمہ ٹک ٹاک پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں تو نچلا عملہ بھی تو پھر یہی کچھ کرے گا ۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ریکارڈ یافتہ ملزم کاشف ضمیر کو چوہنگ پولیس ٹریننگ سینٹر تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔کاشف ضمیر کو ٹریننگ سینٹر کے مختلف شعبوں کا وزٹ کروایا گیا عملے سیلفیاں بھی بنوائیں ملزم کاشف ضمیر اس وقت لاہور سمیت دیگر اضلاع میں 13 مقدمات میں نامزد ہے۔انہیں کچھ سال پہلے ارطغرل غازی کے مرکزی اداکار کیساتھ فراڈ پر بھی گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد یہ بھی انکشاف ہوا کہ وہ جعلی سرکاری ملازم بن کر فراڈ کررہا ہے۔
پنجاب پولیس کا ملزمان کو خصوصی مہمان بنانے کا آغاز۔۔ارطغرل غازی کے مرکزی کردار کو چونا لگانیوالا کاشف ضمیر چوہنگ پولیس اسٹیشن میں مہمان خصوصی صحافی عمران بھٹی کے مطابق ریکارڈ یافتہ ملزم کاشف ضمیر کو چوہنگ پولیس ٹریننگ سینٹر تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔کاشف ضمیر کو ٹریننگ سینٹر کے مختلف شعبوں کا وزٹ کروایا گیا عملے سیلفیاں بھی بنوائیں عمران بھٹی کا کہنا تھا کہ ملزم کاشف ضمیر اس وقت لاہور سمیت دیگر اضلاع میں 13 مقدمات میں نامزد ہے۔ یادرہے کہ عثمانیہ سلطنت پر بنائے جانے والے شہرۂ آفاق ترک ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کے مرکزی کردار کی شکایت پر پنجاب پولیس نے جون 2021 کو ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کو گرفتار تھا۔اس وقت عمران خان برسر اقتدار تھے۔ ترک اداکار ایگن آلتن نے کاشف ضمیر کے خلاف آئی جی پنجاب کو ایک شکایتی ای میل بھیجی تھی، جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کا ذکر کیا اور ثبوت بھی فراہم کیے۔اسکے بعد آئی جی پنجاب نے کاشف ضمیر کے خلاف کاروائی کا حکم دیا تھا۔ سی سی پی او لاہور نے تھانہ اقبال ٹاؤن کی پولیس نے جب کاشف ضمیر کے گھر جب چھاپہ مارا تو وہاں سے سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی برآمد ہوئی، جسے پولیس نے اپنے قبضے میں لے کر تھانے منتقل کیا ۔کاشف ضمیر نے گھر پر چھاپے مارنے والے پولیس اہلکاروں کے سامنے خود کو سرکاری افسر ظاہر کیا مگر وہ ثبوت اور بے گناہی پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اس وقت کے ڈی ایس پی سی آئی اے میاں شفقت نے کہا تھا کہ ’کاشف ضمیر جعلی سونا پہن کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے، کاشف ضمیر نے ترک اداکار کے ساتھ فراڈ کر کے پاکستان کے تشخص کو خراب کرنے کی کوشش کی‘۔ سی آئی اے کے مطابق ملزم کے قبضے سے غیر قانونی 9ایم ایم پستول اورگولیاں برآمد ہوئی تھیں۔ پولیس حکام نے بتایا کہ ملزم کاشف ضمیر کے خلاف پنجاب کے مختلف تھانوں میں پہلے سے 6 مقدمات درج ہیں جبکہ وہ کئی فراڈ کے کیسز میں ملوث بھی ہے۔ حکام کے مطابق ملزم نے رواں سال ترک اداکار کو جعلی کمپنی کی تشہیر کے لیے معاہدے کے تحت پاکستان بلایا اور معاہدے کی رقم جعلی چیک کے ذریعے کی۔کاشف ضمیر کی جانب سے رقم ادا نا کرنے پر اینجن التان کام کئے بغیر دو ماہ قیام کے بعد اپنے ملک وآپس چلے گئے۔
ملٹری کورٹ میں زیرحراست افراد کی لسٹ پر خدیجہ صدیقی اور مشال یوسفزئی آمنے سامنے۔۔ ایک دوسرے پر جملے بازی مشال یوسفزئی نے ایک لسٹ شئیر کی جس میں انکا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹ میں زیر حراست مندرجہ ذیل 102 لوگوں کا بشمول بیرسٹر حسان نیازی اور ایڈوکیٹ حیدر مجید کا غیر قانونی ٹرائل غیر قانونی طریقہ کار سے مکمل ہوچکا ہے ۔ سپریم کورٹ کو ایکشن لے کر یہ تماشہ ختم کرنا ہوگا۔ اس پر خدیجہ صدیقی سامنے آگئیں اور کہا کہ بہت افسوس ہوا، آپ سے105 لوگوں کی لسٹ مانگی تھی، 28 لوگ جو لاہور میں ہیں ان سب سے رابطہ ہے اور مددبھی ہو رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے لسٹ دینے کی بجائےمجھے کہا، تم ہو کون جو میں لسٹ دوں؟ عہدہ کیا ہے تمہارا؟ پھر آخر میں طعنہ دیا کہ تمہیں تو لسٹ نہیں ملے گی کبھی۔۔ اگر آپ اِن لوگوں کے لئے کام کر رہی ہوتی تو لسٹ دینے میں مسئلہ نا ہوتا۔ مشال یوسفزئی نے اس پر جواب دیا کہ سیریل نمبر 13 سے 40 تک لاہور کے افراد ہیں جن کے خاندانوں سے کانٹیکٹ اور ان کی مدد ریجنل صدر کرنل اعجاز منہاس صاحب کی ذمہ داری ہے اور پارٹی کی جانب سی دی گئی اس ذمہ داری کو وہ 9 مہینے سے نبھا رہے ہیں، چونکہ آپ ڈائریکٹلی انوولو نہیں تو آپکو زیادہ تر معلومات کا علم نہیں، نہ ہی آپ پریزنر کمیٹی کا حصہ ہیں جس سے آپ کو لیٹیسٹ ڈیولپمنٹس کا پتہ لگ سکے۔ انہوں مزید کہا کہ اب ٹرائل مکمل ہوچکے ہیں لیکن اگر آپ کو کسی اور چیز میں کوئی رہنمائی چاہیے تو پارٹی آفس سے کنٹیکٹ کرے ۔ مشال یوسفزئی نے مزید کہا کہ بد قسمتی سے ڈوریں جہاں سے ہل رہی ہیں اس کا ہمیں بخوبی اندازا ہے ۔ پارٹی اپنے لوگوں کی دیکھ بھال کر رہی ہے لیکن آپ اس کے علاوہ اگر کسی کے لیے کچھ کر رہی ہے تو تفصیلات پارٹی آفس بھیجوا دے یا مجھے ڈی ایم کرے یا یہی پر پبلک کر دے کہ ہمِیں بھی معلوم ہوسکے۔ خدیجہ صدیقی نے کہا کہ آپ کو انسانوں کی قانونی یا مالی مدد کرنے کے لئے کسی عہدے کی ضرورت نہیں ہوتی، دل ہونا چاہیے،انسانیت کا عہدہ سب سے بلند عہدہ ہے، ملٹری میں ۱۰۵ لوگ میرے نزدیک کسی پارٹی سے بڑھ کر انسان ہیں، پھر پاکستانی ہیں جن کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ لسٹ مانگنے کا مقصد یہی تھا کہ اِن لوگوں کی امداد کی جائے، حوصلہ دیا جائے، لاہور والے خاندانوں سے جب رابطہ ہوا تو پتہ چلا آئی ایل ایف کی طرف سے قانونی مدد تو دور کی بات، رابطہ تک نا کیا گیا۔ غلط بات کریں گے تو ہم سوال کریں گے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے پکوڑوں سے متعلق معاشی تجزیہ کرنے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری ایک بیان میں پکوڑوں میں استعمال ہونے والے تیل کی مقدار سے متعلق کچھ اعدادوشمار شیئر کیے جس کے مطابق اگر لوگ پکوڑے کھانا چھوڑ دیں تو ایک ماہ میں ساڑھے 9 ملین ڈالر بچائے جاسکتے ہیں، اس پوسٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ اے ایمان والوں تم پر روزے فرض ہیں پکوڑے نہیں۔ وزیر دفاع کے اس بیان پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر دلچسپ تبصرے وتنقید سامنے آئی، احمد وڑائچ نے کہا کہ وزیر دفاع کی جگتوں سے حکومت کی معاشی معاملات پر سنجیدگی کا اندازہ لگالیں۔ ایک صارف نے کہا کہ پاکستانیوں مرجاؤ تاکہ یہ حکمران اپنی زندگی جی سکیں، ان کو آپ کی ٹینشن کھائے جارہی ہے۔ عامر سعید عباسی نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف عمرے کی ادائیگی کے دوران قومی کے نام اہم پیغامات جاری کررہے ہیں۔ حیدر علی نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقینی بنائیں ان جیسے لوگوں سے ڈیل کرنے کے بعد پکوڑے ان کا سارا خون جزب کرلیں۔
سیالکوٹ میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی والدہ کے نام سے منسوب ایک میٹرنٹی اسپتال کا نام تبدیل کرکے اس کو وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے والد کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سابق وفاقی وزیر عثمان ڈار کی والدہ اور خواجہ آصف کے خلاف الیکشن لڑنے والی امیدوار ریحانہ ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ علامہ اقبال کی والدہ کے نام سے منسوب امام بی بی میٹرنٹی اسپتال کا نام تبدیل کرکے خواجہ آصف نے اپنے والد کے نام سے منسوب کرتے ہوئے خواجہ صفدر میٹرنٹی اسپتال رکھ دیا ہے، اس اسپتال کو بنانے کیلئے عمران خان کی حکومت نے تین کروڑ روپے کے فنڈز جاری کیے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اسپتال پر شوکت خانم نہیں لکھا تھا، علامہ اقبال کی والدہ کے نام کی تختی کو ہٹایا گیا ہے، عمران خان کے دور میں سیالکوٹ میں ہونے والے فلاحی منصوبوں پر میرے بیٹے عثمان ڈار یا میرے کسی خاندان کے فرد کی نہیں ٹیکس پیئرز کے ناموں کی تختیاں لگائی گئیں، خواجہ آصف سے مطالبہ ہے اسپتال کا نام واپس علامہ اقبال کی والدہ سے منسوب کیا جائے۔ پی ٹی آئی کراچی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حلوائی کی دوکان پر نانا کی کی فاتحہ، یہ کوئی ٹرسٹ یا چریییٹ ہسپتال نہں۔، سرکاری پسوجں سے بننے اور چلنے والا سرکاری ہسپتال ہے،ساہلکوٹ مںئ علامہ اقبال کی والدہ کے نام سے منسوب، امام بی بی مٹرھنٹی ہسپتال کا نام تبدیل کر کے خواجہ آصف نے اپنے والد سے منسوب کرتے ہوئے خواجہ صفدر مٹر نٹی ہسپتال رکھ دیا ہے۔ ارشاد بھٹی نے کہا سیالکوٹ میں علامہ اقبال کی والدہ کےنام پر جو ہسپتال تھا اسکا نام بدل کر خواجہ آصف کے والد کے نام پر کر دیا گیا ہے۔۔ماشاءاللہ۔۔یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ حکیم الامت،شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا جبکہ خواجہ صفدر ضیاءالحق شورٰی کے ممبر تھے ایک صارف نے اسپتال کے سابقہ اور موجودہ بورڈز کی تصاویر شیئر کیں اور کہا کہ خواجہ آصف کی یہ شرمناک حرکت ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ارسلان بلوچ نے کہا کہ کس قدر بے شرم، واہیات اور گرے ہوئے لوگ ہیں یہ، علامہ اقبال کی والدہ کا نام ہٹا کر اپنے والد کا نام لکھ دیا۔ سینئر وکیل سید نعیم بخاری نے کہا کہ انکا بس چلے تو بانی پاکستان مریم کا دادا اور شاعر مشرق رفیق تارڑ کو بنا کر کتابیں چھاپ دیں،شیطان بھی دیکھ کر شرماتا ہو گا۔ جبران جدون نے کہا کہ خواجہ آصف کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حاا ہوتی ہے جو آپ کے اندر نام کی بھی نہیں ہے، علامہ اقبال کی والدہ کے نام کی جگہ اپنے والد صاحب کا نام ہسپتال کے نام سے منسوب کر دیا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف نے 14 رکنی سیاسی کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سیاسی کمیٹی پی ٹی آئی کورکمیٹی کے فیصلوں کو حتمی شکل دے گی۔سیاسی کمیٹی بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پرقائم کی گئی ہے جس میں عمر ایوب خان، گوہر خان، سینیٹر شبلی فراز شامل ہوں گے۔ اعلامیہ کے مطابق کمیٹی میں علی امین گنڈاپور، اسدقیصر، شیر افضل مروت ، شاہ فرمان، رؤف حسن، عون عباس بپی، حماداظہر، عاطف خان،حافظ فرحت بھی شامل ہوں گے۔اس کے علاوہ سیاسی کمیٹی میں میاں اسلم اور خالد خورشید کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سیاسی کمیٹی میں شامل کئی ناموں پر تحریک انصاف کے رہنما اور سوشل میڈیا سپورٹرز سیخ پا ہیں، اسکی وجہ پارٹی میں شاہ فرمان ، عون عباس بپی، حافظ فرحت عباس شامل ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق عون عباس بپی 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے تحریک انصاف چھوڑ چکے تھے تو انہیں کیوں شامل کیا گیا۔ اسی طرح شاہ فرمان بھی 9 مئی کے بعد سیاست چھوڑنے کا اعلان کرچکے تھے جبکہ حافظ فرحت عباس پر اعتراض یہ ہے کہ اسکی دوستیاں ن لیگی رہنماؤں اور خاص طور پر اسدکھوکھر کیساتھ ہے اور وہ انکی گاڑی پر پنجاب اسمبلی آئے تھے۔ را نا عمران نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صرف خان پر اعتبار ھے باقی گوہر خان عمر ایوب اسد قیصر علی امین گنڈا پور جو کررہے ہیں وہ ہمیں سب نظر آ رہا ھے۔ یہ پولیٹیکل کمیٹی کم اور بھرتی کے لوگ زیادہ لگ رہے ہیں ۔ قربانیاں دینے والوں کو ابھی سے ہی پیچھے دھکیلا جا رہا ھے اور شاہ فرمان اور عون عباس جیسے کردار آگے آ رہے ہیں احمد وڑائچ نے ردعمل دیا کہ سندھ؟ بلوچستان؟ جنوبی پنجاب سے شبیر قریشی، زرتاج گل جیسے لوگ؟ سنٹرل پنجاب سے مونس الہیٰ؟ شمالی پنجاب سے کوئی سیاسی دماغ؟ تیمور مسعود؟ میجر طاہر صادق؟ پشاور سے شیر علی ارباب؟ آزاد کشمیر سے عبدالقیوم نیازی؟ کیا یہ سب اس قابل نہیں راشد بنگش کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے سالار خان سندھ سے فردوس شمیم نقوی حلیم عادل عالمگیر خان کے نام کیوں نہیں ہیں؟ عمر ایوب جواب دو بھگوڑے شبلی فراز ، شاہ فرمان کا نام نکالو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم ہے حافظ فرحت کو بھی باہر کریں فلک جاوید خان نے کہا کہ اپیکس کمیٹی میں۔۔ پنجاب سے علی اعجاز بٹر یا شوکت بسرا بلوچستان سے سالار کاکڑ یا صدام ترین سندھ سے خرم شیر زمان یا عالمگیر پختونخواہ سے شہریار آفریدی یا جنید اکبر کو شامل کرو۔۔۔ حافظ فرحت اور شاہ فرمان کو نکالو مقدس فاروق عوان نے کہا کہ ذاتی عناد کی وجہ سے سوشل میڈیا پر کسی کو بھی رونگ نمبر ثابت کرنا بہت آسان ہوچکا،حافظ فرحت عباس بھی کچھ دنوں سے اسی منفی مہم سے متاثر ہو رہے ہیں،لیکن عمران خان نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے انہیں سیاسی کمیٹی میں شامل کر لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ محض ایک پروپیگنڈا ہے ماریہ عطاء نے کہا کہ حافظ فرحت اور شاہ فرمان نے کونسا معرکہ مارا ہے کوئی بتائے گا؟ آفاق کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی تو نہی ہے گروپ ہے حافظ فرحت شاہ فرمان شبلی فراز عون بپی بیرسٹر گوہر گند ڈال رہا ہے بعدازاں تحریک انصاف کے کارکنوں کے دباؤ پر سیاسی کمیٹی میں مزید ناموں کا اضافہ کردیا گیا جن میں اعظم سواتی، حلیم عادل شیخ، فردوش شمیم نقوی، سالار کاکڑ اور قاسم سوری شامل ہیں لیکن کسی خاتون یا اقلیتی ممبر کو سیاسی کمیٹی کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے آج پہلے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں دھاتی ڈور کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس سے نام لینا پڑتا ہے کہ خیبرپختونخوا سے دھاتی ڈور آ رہی ہے۔ دھاتی ڈور سے جاں بحق ہونے والے نوجوان کے گھر بھی گئی اور کریک ڈائون میں پتا چلا کہ دھاتی ڈور خیبرپختونخوا سے آرہی ہے اور آن لائن بیچی جا رہی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے بارڈر پر چیک پوسٹ لگا دیں اور باقی رستے کھلے ہوں جہاں سے دہشت گرد اور سمگلر آسانی سے آ سکیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ پر صارفین کی طرف سے مریم نوازشریف کے بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان کی ساری سیاست ہی صوبائیت وتعصب کی بنیاد پر قائم ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار عمران ریاض خان نے لکھا کہ: ان 2 خاندانوں کی ٹوٹل سیاست ہی صوبائیت اور تعصب کی بنیاد پر قائم ہے۔ انہوں نے آجتک کچھ نہیں سیکھا! سینئر صحافی طارق متین نے لکھا: نفرت ، بغض اور ناکامی کا ملاپ! سینئر صحافی اویس حمید نے لکھا: چلیں مان لیں خیبر پختونخوا سے ڈور آ رہی ہے۔ کسی بھی ممنوعہ شے کو پنجاب میں داخل ہونے سے روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ میں لاہور کے پرانے علاقے میں رہتا ہوں۔ اکثر رات کے وقت پتنگ بازی ہوتی دیکھتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک ایسے ہی دوست سے پوچھا کہ پتنگیں اور ڈور کہاں سے لاتے ہو تو اس کا جواب تھا مقامی تھانے کے اہلکاروں کو فون کرتے ہیں وہ ہوم ڈلیوری کر کے جاتے ہیں۔ انہیں روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ سینئر صحافی عمران افضل راجہ نے لکھا: کبھی عمران خان کو طعنہ دینے کے لیے پوری ”نیازی“قوم کی تضحیک کرتے ہیں،کبھی ووٹ نا ڈالنے پر KP کے عوام کو بیوقوف بولتے ہیں، اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستانی نہیں مانتےاوراب یہ بیان! اپنی انہی جاہل حرکتوں سے شریف خاندان نے ن لیگ کا مکمل صفایا کر لیا ہے۔ شہریار محسود نے لکھا:امید ہے مریم صاحبہ اگلی بار کچھ اور چیزوں کا بھی اعتراف کرے گی جیسے کہ خیبرپختونخوا سے بجلی گیس کروڈ آئل کے علاؤہ پختونخوا کے حصے کا پانی بھی کافی مقدار میں آرہا ہے۔ احمد ابوبکر نے لکھا:نفرت اور تعصب مثبت تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے! وقار خان نے لکھا:پہلے ہر مہلک چیز انڈیا سے آتی تھی ان دنوں KPK سے آرہی ہے! فرید ملک نے لکھا: بار بار خیبرپختونخواہ کو ٹارگٹ کرنے والی سی ایم صاحبہ اپنے انڈر پنجاب پولیس پر بھی توجہ دے لیں! پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف اندھا استعمال کرتے محافظوں کو کھلی چھوٹ کیوں، کچے پکے کے ڈاکو دندناتے پھر رہے اور نااہل مینڈیٹ چور صوبائی منافرت کو ہوا دے رہی ہے! مزمل اسلم نے لکھا:یہ محترمہ کہنا کیا چارہی ہیں؟ کیا اب اندرونی ملک جانے کے لئے ویزہ لینا پڑے گا؟ یہ کے پی کا نام لے کر نفرت کیوں پھیلا رہی ہیں؟ ان کو عوام نے مسترد کر دیا تو یہ اپنا بغض نکلا رہی ہیں؟ بغض تو پنجاب پر بھی نکالے کیوں کے وہاں کی عوام نے بھی انہیں مسترد کیا مگر فارم 47 کی بدولت آج قابض ہیں۰ عوامی مینڈیٹ پر جب ڈاکا لگتا ہے تو اس طرح کے اناڑی ملک کو مزید کمزور کرتے ہیں۔ ترجمان تحریک انصاف نے لکھا :وزیر اعلیٰ جیسے منصب پر بیٹھ کر بار بار مریم نواز کی جانب ایک صوبے کو نشانہ بنانا انتہائی افسوسناک ہے، اس سطح کے مسائل پاکستان کے ہر صوبے میں موجود ہیں اور دوسرے صوبے اس سے متاثر ہوتے ہیں لیکن بار بار وفاقیت کو متاثر کر کہ خیبر پختون خواہ کو ایسے نشانہ بنانا بین الصوبائی ہم آہنگی پر منفی اثرات ڈالتا ہے! عدیل حبیب نے لکھا: چونکہ مریم نواز کے لیے کی ٹک ٹاک ویڈیوز بھی کام نہیں کر رہی اور کسی پر اثر انداز نہیں ہو رہیں، تو کیا وہ پنجابی بمقابلہ پٹھان ڈویژن بنانے جیسے تفرقہ انگیز ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہیں؟ لوگ باشعور ہیں، ان کے نفرت پھیلانے والے ایسے حربے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے! سینئر صحافی محمد فہیم نے لکھا: چیک پوسٹ بنا دیں گے لیکن موٹرویز کھلی ہیں، افسوس سے مجھے نام لینا پڑرہا ہے لیکن خیبر پختونخوا سے دھاتی ڈور آئی اور ایک قیمتی جان ضائع ہوئی ایسا نہیں ہو سکتا کہ سکیورٹی چیک پوسٹ بنا دیں اور ایک کاریڈور بنا ہو دہشتگردوں اور سمگلروں کیلئے۔
پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ گلوکار سلمان احمد نے کہا ہے کہ شیر افضل مروت ایک رانگ نمبر ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سلمان احمد اور شیر افضل مروت کے درمیان سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لفظی جنگ جاری ہے، سلمان احمد نے اپنی ایک ٹویٹ میں شیر افضل مروت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ شیر افضل مروت خرم روکھڑی کی طرح رانگ نمبر ہیں۔ انہوں نے شیر افضل مروت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے لیڈر کا غلط فائدہ اٹھایا، آپ کو سائیڈ لائن کرکے عمران خان نے درست فیصلہ کیا ہے۔ گلوکار نے مزید کہا کہ سچائی کی نشاندہی کرنے پر عادل راجا اور حیدر مہدی دونوں کی حمایت کرتے ہیں۔ سلمان احمد کی اس ٹویٹ پر شیر افضل مروت نے بھی جوابی وار کیا اور کہا کہ آپ کا بیان آپ کی سوچ کا عکاس ہے، آپ ایسے متنازعہ بیان سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، آپ اور آپ جیسے دو غداروں سے میری سوشل میڈیا ٹیم نمٹے گی۔ شیر افضل مروت نے سلمان احمد کووارننگ دیتے ہوئے کہا کہ 5 اپریل تک کا انتظار کریں، آپ کو جواب ضرور ملے گا۔
گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوشل میڈیاکو ایک وبا قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے، سوشل میڈیا کی، اس کا بھی پریشر ہوتا ہے کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ تصدیق جیلانی نے سوشل میڈیا کی وجہ سے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تصدق جیلانی سے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں مجھے شرم آئی، مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں؟مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ اس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ چیف جسٹس اپنے سابق چیف جسٹس پر سوشل میڈیا کے دباؤ میں آ کر کمیشن کی سربراہی سے انکار کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، اب کیا سپریم کورٹ کا یو ٹیوب چینل ڈالروں کے لئیے یہ فیک نیوز نہیں پھیلا رہا؟ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے خط میں واضح طور پر کمیشن سے دستبردار ہونے کی وجہ آئین اور قانون بتائی گئی تھی نہ کہ سوشل میڈیا کا دباؤ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیکھا جو تیر کھا کہ کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی اینکر عمران ریاض نے قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا کہ قاضی فائز عیسی سے سوال ہے کہ جو ریٹائر جج سوشل میڈیا کے دباؤ سے بھاگ گیا وہ چھ ججز کو دباؤ سے نکالے گا؟ کیسے ممکن ہے؟ اسد طور نے کہا کہ قاضی فائز عیسٰی کہتے ہیں سوشل میڈیا نے ملک تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا،اسد طور نے کہا کہ سوشل میڈیا تو 2010 میں آیا تھا اس سے پہلے ملک کس نے تباہ کیا؟