سوشل میڈیا کی خبریں

پرویز ہودبھائی کے لڑکیوں کے پردہ اور حجاب کے بیان پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل کچھ روز قبل نجی چینل کے پروگرام میں معروف سائنسدان اور پروفیسر پرویز ہود بھائی نے تبصرہ کیا کہ 1973 میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں لڑکیاں پردے میں نظر نہیں آتی تھیں، اب تو قائداعظم یونیورسٹی میں حجاب، برقع عام ہو گیا ہے، اب تو آپ کو نارمل لڑکی شاد و نادر ہی نظر آتی ہیں۔ پرویز ہودبھائی نے مزید کہا کہ حجاب والی لڑکیوں کی کلاس میں شمولیت اور ایکٹویٹی بہت گھٹ جاتی ہے یہاں تک کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں یا نہیں ہیں۔ پرویز ہودبھائی کے اس بیان پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ برقعہ، حجاب خواتین کی اپنی چوائس ہے۔ پرویز ہودبھائی کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حجاب، برقعے والی لڑکی کی کلاس میں شمولیت گھٹ جاتی ہے؟ ہمارے ہاں حجاب، برقعے والی لڑکیاں ہی زیادہ پوزیشنز حاصل کررہی ہیں ۔ سوشل میڈیا صارفین نے یہ بھی کہا کہ لگتا ہے کہ پرویز ہودبھائی اپنے کام فزکس سے زیادہ اپنے سٹوڈنٹس کی برین واشنگ پر لگے ہوئے ہیں، ان کی توجہ اپنے کام سے زیادہ لڑکیوں کے برقعے، نقاب، نظریات پھیلانے پر ہے۔ پرویز ہودبھائی کے بیان پر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ میں نے کالج کے تیسرے سال میں حجاب لینا شروع کیا اور آج تک جاری ہے۔ میڈیا میں شروع میں سختیاں بھی برداشت کیں کیونکہ میں نے پہلی بار دوپٹہ اوڑھایہاں تک کہ پی ٹی وی پر پابندی بھی جھیلی مگر کبھی بھی اعتماد میں کمی نہیں آئی ۔ عاصمہ شیرازی نے مزید لکھا کہ یہ میری ذاتی پسند تھی کہ میں سر کور کروں اور ہر کسی کی ذاتی چوائس ہے کہ وہ دوپٹہ لیں یا نہ لیں ۔آج پہلی اپنی بات اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ بہت سی بچیاں بے حوصلہ نہ ہوں۔ پرویز ہودبھائی کے بیان پر جنید نے تبصرہ کیا کہ ہودبھائی کرکٹ کا کوچ ہوتا تو ہاشم آملا اور معین علی کی خراب پرفارمنس کا ذمہ دار داڑھی کو قرار دیتا۔ انسان کا ذہن نفرت اور تعصب سے آلودہ ہو جائے تو اسکے زوال کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ برقعے والی خواتین نارمل نہیں ہوتیں؟؟ “جب کلاس میں بیٹھتی ہیں تو ان کئ شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے” پرویز ہود بھائی یہ حقیقت سے دور بات ہے میں نے بھی یونیورسٹی میں پڑھا اور پڑھایا ہے اور میری کلاس میں ایک ٹاپر برقعے والی لڑکی تھی۔ انصارعباسی کا کہنا تھا کہ وبہ پردے سے اتنی تکلیف۔ ان شاءاللہ عورت کو بے حیائی اور بے پردگی کی طرف لے جانے والے ناکام و نامراد ہوں گے۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی طرف ہی جائیں گے ان شاءاللہ فرخ شہزاد نے تبصرہ کیا کہ سوچیں پرویز ہود بائی کو حجاب کرنے والی لڑکیاں ابنارمل لگتی ہیں اور وہ نیشنل ٹی وی پر ایسے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ اپنی کلاس اور یونیورسٹی میں وہ ان لڑکیوں کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہو گا پھر کہہ رہا لڑکیاں سوال نہیں پوچھتی.. ہمارے لبرل بھی اپنے اندر اتنے ہی شدت پسند ہیں سعد مقصود کا کہنا تھا کہ برقعے والی خواتین نارمل نہیں ہوتیں ۔۔۔۔ پرویز ہود بائی کے اس تبصرے پر خواتین کے حقوق کی نام نہاد علمبردار خواتین ہمت کریں اور ہود بائی کو بتائیں کہ خاتون خاتون ہے چاہے با حجاب ہو یا حجاب کے بغیر ۔۔ مصدق نیازی کا کہنا تھا کہ پاکستانی خواتین نہ انصار عباسی سے متفق ہیں نہ پرویز ہودبھائی سے خان دلپذیر نے تبصرہ کیا کہ رویز ہودبھائی جیسے لوگ معاشرے کے لئے مضر ہیں۔ یہ لوگ ہمارے فیملی سسٹم کو تباہ کرنے ہے تلے ہوئے ہیں۔ علی رضا نے لکھا کہ تعلیم تربیت نہیں سکھاتی، چاہے بندہ پی ایچ ڈی ہی کیوں نہ کرلے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال پرویز ہود بھائی ہے۔ حماداحمد کا کہنا تھا کہ پرویز ھود ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک انتہاپسند اور بیمار ذہنیت کا نام ہے۔ روشن خیالی کے نام پر باپردہ اور باحجاب خواتین سے نفرت کا اظہار کرنا انہوں نے اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا دیا ہے۔ حکومت کو تعلیمی اداروں کو ایسے انتہاپسندوں سے پاک کرنا چاہئیے۔
رؤف کلاسرا نے گزشتہ روز ایک پروگرام کیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ابصارعالم جو حکومتی پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، یہ نوازشریف دور میں میڈیا مالکان کے خلاف 50 کروڑ جرمانہ اور 10 سال قید کا بل بناکر لائے تھے۔ جس پر ابصار عالم رؤف کلاسرا کو جواب دینے سامنے آگئے۔ اپنے پروگرام میں رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ نواز لیگ دور حکومت میں PEMRA نے اکتوبر 2017 ایک بل بنا کر قائمہ کمیٹی کو بھیجا کہ ٹی وی مالکان پر 50 کروڑ روپے جرمانے اور دس سال قید کی سزا کا قانون پاس کیا جائے۔ہمارےدوست ابصار عالم چیرمین تھے۔آج وہی نواز لیگ احتجاج کررہی ہے عمران خان کیوں 25 کروڑ جرمانے کرنا چاہتے ہیں کلاسرا نے ابصار عالم پر طنز کیا کہ ویسے اپنے پرانے دوست چئرمین ابصار عالم کو کل عمران خان حکومت کے خلاف صحافیوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرتے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کبھی وہ چیرمین پیمرا کے طور پر انہی صحافیوں اور مالکان کے خلاف 50 کروڑ جرمانہ اور 10 سال قید کا بل بنا کر قائمہ کمیٹی میں لائے تھے— جس پر ابصار عالم بھی سامنے آگئے اور رؤف کلاسرا کو جواب دیا کہ رؤف کلاسرہ آپ اتنے سالوں مسلسل میرے خلاف جھوٹ بول رہے ہیں صرف سیٹھ کی ملازمت کی خاطر لیکن کبھی آپ کو پلٹ کر جواب نہیں دیا۔ ابصار عالم نے مزید کہا کہ ساتھ گُزرے وقت کی حیا میری آنکھ میں ابھی باقی ہے، کاش آپ کی بجائے کسی سانپ کو دودھ پلایا ہوتا تو شاید وہ بھی اتنا مُنافق، حاسد، مکار اور جھوٹا نہ ہوتا
وادی پنج شیر میں پاکستان کے یہ دو فوجی بھی مارے گئے، بھارتی میجر جنرل نے اداکار شان اور گلوکار عمیر جسوال کی تصویر شیئر کردی، مذاق بن گیا بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہرشاککڑ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں ایک عجیب غیر حقیقی پوسٹ شیئر کی جس میں پاکستانی اداکاروں کو پاک فوج کے افسران قرار دے کر افغانستان کے صوبہ پنجشیر میں شہید بھی کر دیا۔ بھارتی فوج کے میجر جنرل(ر) ہرشاککڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام شیئر کیا جس میں اپنے دعویٰ کے حق میں ایک تصویر شیئر کی اور اداکار شان شاہد اور گلوکار عمیر جسوال سے متعلق کہا کہ یہ دونوں پاک فوج کے افسران ہیں جو کہ افغانستان کے صوبے پنجشیر میں شہید ہو گئے ہیں۔ دراصل یہ کہانی میجر جنرل (ر) جی ڈی بخشی کے ایک ٹویٹ سے شروع ہوئی۔ میجر جنرل (ر) ہرشا ککڑ نے اپنے ٹویٹ میں میجر جنرل (ر) جی ڈی بخشی کی ٹویٹ کا سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجشیر وادی میں لڑائی کے دوران پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پنج شیر میں پاکستان کے سات سینئر افسر، 12 جونیئر افسر اور 75 کمانڈوز شہید ہوئے جب کہ پانچ افسران ، نو جونیئر کمیشنڈ افسر اور 160 کمانڈوز زخمی ہوئے۔ پھر کیا؟ جی ڈی بخشی کے اس ٹویٹ کے جواب میں ’فوجی ڈاکٹر‘ نامی ٹوئٹر ہینڈل نے اداکار شان شاہد، بلال اشرف اور گلوکار عمیر جسوال کی تصویر شیئر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اداکار شان شاہد میجر اعجاز ہیں جبکہ عمیر جسوال کا نام کیپٹن جعفر ہے۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں اس کے اسکول کے کلاس فیلوز ہیں جو پنج شیر میں شہید ہوئے۔ یہی نہیں اس نے مزید دعویٰ کیا کہ انہیں پشاور میں دفن کیا گیا۔ آئی ایس پی آر ان ہلاکتوں کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ دونوں بہادروں کی طرح لڑے اس لیے ان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پاک فوج ان شہادتوں کو چھپا کر ناانصافی کر رہی ہے۔ اس کے بعد میجر جنرل ہرشا ککڑ نے بنا تصدیق اس جھوٹ پر نہ صرف یقین کیا بلکہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا بھی شروع کردیا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ وادی پنج شیر اور پاکستانی ہلاکتوں کا سچ ہے، توقعات کے مطابق معید یوسف نے جھوٹ بولا اور پاکستان نے اپنے شہید فوجیوں سے اظہارِ برات کیا۔ میجر جنرل ہرشا ککڑ نے بےشرمی کے ساتھ جھوٹ بولتے مزید زہر اگلا اور کہا یہ بے شرم قوم اپنے بے شرم لیڈرز کے ساتھ اپنے مرنے والوں کو عزت دینے سے انکار کر رہی ہے اور انہیں پبلسٹی سے بچنے کیلئے رات کی تاریکی میں دفن کر رہی ہے، سپاہیوں کی اس سے زیادہ بے عزتی نہیں ہوسکتی۔ اس پروپیگنڈا کا جواب دینے کیلئے اداکار شان شاہد نے خود ٹوئٹر محاذ سنبھالا اور اپنی فوجی وردی میں تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ میں دوسری طرف سے ہیلو کر رہا ہوں۔
کچھ عرصہ قبل ریما عمر نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کی ترقی کا راز کرپشن ہے لیکن کچھ روز سے وہ اپنے دعوے کو جسٹیفائی کرنے کیلئے مختلف تاویلات اور چینی مصنفہ کی کتاب کے حوالے پیش کررہی ہیں جس پر چینی مصنفہ نے ریماعمر کو جواب دیا کہ آپ کا تجزیہ "پیسے تک رسائی گروتھ کو تیز کرتا ہے ” گمراہ کن ہے ، لہذا مجھے وضاحت کرنے کی اجازت دیں۔ مصنفہ کے مطابق میری کتاب واضح طور پر کہتی ہے کہ تمام کرپشن ، جیسے منشیات نقصان دہ ہیں۔ پیسے تک رسائی ترقی کے ساتھ ساتھ بگاڑ ، خطرات اور عدم مساوات پیدا کرتی ہے۔ لیکن اسکے باوجود ریما عمر چینی مصنفہ سے بحث کرتی رہیں جس پر چینی مصنفہ نے کہا کہ وہ اس سے مزید بحث نہیں کرنا چاہتیں۔ میں نے ایسی کوئی ' بے معنی، بکواس ' بات نہیں کی ہے ریما عمر کی اپنے دعوے کو مسلسل جسٹیفائی کرنے کی کوشش پر ڈاکٹر شہباز گل بھی چپ نہ رہے اور لائٹرنوٹ کے عنوان سے ایک ٹویٹ کرکے ریما عمر پر طنز کردیا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ڈاکٹر شہبازگل نے کہا کہ پروفیسر اینگ،مشی گن میں پڑھاتی ہیں۔گوالمنڈی میں محلے میں رشتے نہیں کرواتیں۔ جو ایویں ہی گپ شپ لگائیں۔اسے اور بھی کام ہیں۔ ریما عمر کو مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر شہباز گل نے مزید کہا کہ ہن کسے ہور دی ریسرچ پھڑ لو۔اس بار کوشش کریں کسی فوت شدہ پروفیسر کی ریسرچ کو گھما پھرا کر استعمال کریں۔کیونکہ زندہ پروفیسر تواعتراض کرے گی اس پر ریما عمر نے شہباز گل کو جواب دیا کہ میں نے ڈاکٹر انگ کا آرٹیکل ٹویٹ کیا جسے وہ اب آؤٹ ڈیٹڈ سمجھتی ہیں - یہ اُن کا حق ہے وہ اپنی راۓ تبدیل کریں اور یہ میرا بھی حق ہے کہ سمجھوں اُن کی راۓ میں تبدیلی کیوں آئی ؟ آپ کی ذہنی سطح کے مطابق خیالات کا تبادلہ نہیں صرف دنگل ہوتاہے۔ اس لئیے آپ کو یہاں بھی کشتی ہوتی نظر آ رہی ہے ریما عمر نے مزید لکھا کہ میں اس موضوع پہ ریسرچ شئیر کرتی رہی ہوں گی۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم کا بغیر سمجھے پاکستان میں چائنہ جیسے نظام کو لانے کی بیانات نہ صرف غلط بلکہ خطرناک ہیں۔ اس لئیے آپ اپنی ٹرول بریگیڈ کو motivate رکھیں یہ حرکتیں سچ بات کہنے سے نہ مجھے روک سکتیں ہیں نہ چُپ کرا سکتی ہیں شہباز گل کو جواب دیتے ہوئے ریما عمر کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ کا اور پوری حکومتی مشینری کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت توجہ سے سنا اور مجھے جواب دینے میں اتنا وقت صرف کیا۔ میں اس سے انکار نہیں کروں گی کہ یہ نہ صرف تعریف ہے بلکہ مجھے یہ امید بھی دیتی ہے۔

Back
Top