سوشل میڈیا کی خبریں

معروف تجزیہ کار اور اینکرپرسن ثنا بُچہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ پنجابیوں کا مسئلہ ہے، میں بھی پنجابی ہوں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو پنجابی ہوتے ہیں نہ ان کو آپ مولڈ نہیں کر سکتے۔ ان کو روکا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ جوابی کارروائی کے طور پر لڑتے ضرور ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کا مسئلہ یہی رہا ہے اور اسی لیے وہ آج لندن میں بیٹھے ہیں کہ انہوں نے ان سے پوچھا جن سے پوچھا نہیں جا سکتا۔ سندھی، پختون اور بلوچ ایسا نہیں کرتے انہوں نے بلوچوں کے بارے میں کہا کہ وہ نہ تین میں نہ تیرا میں۔ ان کو تو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ پنجابی لیڈر سوال کرنا جانتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نواز شریف کو کچھ بھی کرنا پڑے چاہے جو بھی ان کے راہ میں رکاوٹ حائل ہو وہ لازمی واپس آئیں گے۔ ان کی پروگرام میں اس گفتگو سے سوشل میڈیا صارفین بالخصوص کئی صحافی ناخوش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے صوبائی تعصب کا تاثر مل رہا ہے۔ اس پر اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے کہا کہ ہمارے غیور پشتون، سندھی اور بلوچستان والوں کو پنجاب سےالگ دکھانے کی سازش بھارت تو سالوں سے کرتا آیا، اب نوازشریف صاحب کی عقیدت میں ن لیگی صحافیوں نے بھی شروع کر دی۔ عدیل راجہ نے کہا کہ ثنا بُچہ کا کہنا ہے کہ صرف پنجابی لیڈر ہی لڑنا جانتا ہے جبکہ سندھی، پشتون اور بلوچی کسی کھاتے میں نہیں آتے۔کمال معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ اب کچھ صحافی اس صحافت کے ساتھ بھی کھڑے ہو جائیں گے جس میں پشتونوں، سندھیوں، بلوچوں کو کم تر کہا جا رہا ہے اور پنجابیوں کو افضل۔ اگر یہ بھی صحافت ہے تو پھر بلاول درست ہی کہتا ہے۔ مہر بخاری صاحبہ، مظہر عباس صاحب، فہد حسین صاحب اس صحافت کے بھی آپ ساتھ ہی کھڑے ہوں گے یقیناً؟ اکرم راعی نامی صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں ابولہب اور زمانۂ جدید میں ہٹلر نسلی تفاخر کا شکار تھا۔ کروڑوں انسان ہٹلر کے نسلی تفاخر کی بھینٹ چڑھے۔ اب ثناء بُچہ پنجابی تفاخر کے اظہار کے ساتھ سندھی پشتون بلوچ کی تحقیر و تذلیل بھی کر رہی ہیں۔ کیا صحافی کو نسلی تعصبات پھیلانے کی مادر پدر آزادی ہے؟ ندیم زیدی نے کہا ثنا بچہ کہتی ہیں کہ سندھی، پختون اور بلوچ کسی گنتی میں نہیں لیکن پنجابی لڑتا ہے، سوال اٹھاتا ہے اور نوازشریف بھی آج اسی لیے لندن میں بیٹھے ہیں کہ انہوں نے سوال اٹھائے ہیں، نوازشریف واپس بھی آئیں گے اور ان کی نااہلی بھی ختم ہو گی۔ او بی بی اکھاں کھول لاہور آ گیا ای! فاروق خان نیازی نے لکھا ثناء بچہ نے اپنے ایک پروگرام میں کہا ہے کہ بیچارے بلوچوں کو نہ تین میں نہ تیرا میں سمجھا جاتا ہے بلوچ بھائیوں کا ثنا بچہ کے اس خیال کے بارے میں کیا کہنا ہے؟ ریحانہ آنسہ نے لکھا محترمہ ثنا بُچہ ایسے فرما رہی ہیں جیسے نواز شریف کے 40 بکسے لے کر سعودی عرب معافی نامہ لکھ کر دس سالوں والی بات کوئی نہیں جانتا۔ عبدالمتین نے ثنابُچہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا۔ متوکلی خان نے کہا ثناء بچہ کو پنجاب میں ہی پالا جاسکتا ہے پٹھانوں سے نفرت تو سمجھ آرہی ہے کہ انھوں نے ایک نااہل پرچی سرکار سے جان چھڑائی جس سے لفافے سیاسی طورپر بے روزگار ہوگئے۔ صحافی عمر انعام بولے کہ یہ گفتگو بتا رہی ہے کہ پیسوں اور عہدوں کی صحافت کا چراغ بس بجھنے ہی والا ہے۔ انشا اللہ جلد پاکستانی صحافت ان جیسوں سے پاک ہوگی۔
نجی ٹی وی چینل کی اینکر پرسن اور صحافی عاصمہ شیرازی کے بی بی سی میں لکھے گئے کالم کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے، ٹویٹر پر صارفین نے عاصمہ شیرازی کے حق اور مخالفت میں ٹرینڈز چلادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق عاصمہ شیرازی نے بی بی سی اردو کیلئے ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ کا نام لئے بغیر ان پر ذاتی حملے کئے۔ عاصمہ شیرازی نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی شئیر کیا اور لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی کی ٹویٹ کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے انہیں ٹویٹر پر آڑے ہاتھوں لیا، وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل اور عاصمہ شیرازی کے درمیان ٹویٹرآمنے سامنے آگئے اور ایک دوسرے سخت الفاظ میں تنقید کرتے رہے۔ اسی دوران ٹویٹرپر 2 ہیش ٹیگز " بائیکاٹ سرکار ہاجن" اور "عاصمہ شیرازی" ٹرینڈنگ لسٹ میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ صارفین نے عاصمہ شیرازی کی جانب سے کالم میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ذاتی زندگی پر کیے گئے طنز کو شدید ناپسند کیا اور اس حرکت کی مذمت کی۔ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما میاں محمود الرشید نے کہا کہ پارٹی چئیرمین اور وزیراعظم عمران خان اور خاندان پر ذاتی حملے اور الزامات کی جانبدار صحافت کرنے پر آئندہ سے عاصمہ شیرازی کے شو کا حصہ نہیں بنوں گا۔ سوشل میڈیا صارفین عاصمہ شیرازی کے بائیکاٹ کا ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔کامران نے لکھا زاتی حملوں کے بعد جو پی ٹی آئی رہنما عاصمہ شیرازی کے پروگرام میں جائے گا اس کے خلاف بھی مہم چلائی جائے گی۔ یاسر اقبال خان نے عاصمہ شیرازی کی 2 تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ہمارے پیسوں سے لوٹی رقم کو مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے صحافت میں خرچ کیے جانے کا چہرہ ہوتا تو ایسا ہوتا۔ ایک اور صارف نے کہا کہ اگر پیسے کیلئے کسی کی کردار کشی کرنے کا عمل ایک انسان ہوتا تو ایسا ہوتا۔ ایک صارف نے عاصمہ شیرازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی زبان پاکستان کی حقیقی صحافت کی عکاسی نہیں کرتی آپ پاکستانی صحافت پر ایک کالا دھبہ ہیں۔ رانا غزہ علی خان نے ایک تصویر شیئر کی جس میں پاکستان کے نامور صحافیوں کی تصاویر شامل تھیں، انہوں نے کہا یہ سب پاکستان کے دشمن ہیں۔ وقاص اختر نے کہا کہ عاصمہ شیرازی نے ہمیشہ پارٹی کی صحافت کی ہے، وہ ہمیشہ مسلم لیگ کیلئے اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اگر انہیں مسلم لیگ ن اتنی پسند ہے تو انہیں صحافت چھوڑ کر ان کا ترجمان بن جانا چاہیے۔ دوسری جانب عاصمہ شیرازی کے حمایتی ٹویٹر صارفین نے بھی ان کے حق میں ٹرینڈ چلایا اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والوں میں سینئر صحافی بھی شامل ہیں۔ صحافی و تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ ہوں۔ نجی ٹی وی چینل کے صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ عاصمہ شیرازی کے خلاف کابینہ ارکان کی جانب سے مہم شروع کرنا اور فیک اکاؤنٹس سے ٹرینڈ چلانا مسترد کرتے ہیں۔ شاہد قریشی نے عاصمہ شیرازی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے انہیں پاکستانی صحافت کا اصل چہرہ قرار دیا۔ منیزہ جہانگیر نے بھی عاصمہ شیرازی سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔
پاکستان کی نامور خاتون صحافی عاصمہ شیرازی نے برطانوی نشریاتی ادارے کے اردو پلیٹ فارم پر ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا نام لیے بغیر ذاتی نوعیت کے حملے کیے۔ انہوں نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر بھی کیا۔ خاتون صحافی نے اس کے کیپش میں لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے سخت مؤقف اپنایا اور عاصمہ شیرازی کے کالم میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس طرح ذاتی نوعیت کے حملے نہیں کرنے چاہییں۔ رہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ اور معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ وہ سابق حکومت سے مالی فوائد حاصل کرتی رہی ہیں جو اس حکومت سے انہیں میسر نہیں۔ اس کالم کے چھپنے پر تنقید کے بعد مخصوص صحافی عاصمہ شیرازی کی حمایت میں بھی سامنے آئے ہیں۔ جن میں اویس توحید، بینظیر شاہ، ریما عمر، محمل سرفراز، زیب النساء برکی، عمار علی جان و دیگر شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر ہی صحافی اویس توحید نے لکھا کہ درست اخلاقیات جمہوریت کا اہم جزو ہے۔ انہوں نے مزید کہا لیکن اس طرح کے اقوال زریں اپنے مشیران کو روزانہ یاد کرائیں اور عمل کی ہدایت دیں۔ آج ہی ہماری ساتھی عاصمہ شیرازی کی صحافتی کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے جو بد تہذیبی ہے اور قابل مذمت بھی۔ فہد حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مختلف پارٹی عہدیداروں کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر معزز ایوارڈ یافتہ صحافی عاصمہ شیرازی کو آن لائن ہراساں کرنا قابل مذمت ہے۔ پارٹی قیادت کو اسے فوری طور پر روکنا چاہئے۔ بینظیر شاہ نے تحریک انصاف کے آفیشل اکاؤنٹ سے عاصمہ شیرازی کے متعلق ٹوئٹ کا حوال دیتے ہوئے کہا کہ حکمران سیاسی پارٹی کی جانب سے ہماری نڈر خاتون صحافی کو چپ کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریما عمر نے کہا کہ یہ ثبوت ہے کہ کس طرح ان کی قابل دوست اور خاتون صحافی پر الزام تراشی اور کردار کشی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک اور پیغام میں کہا کہ کیا انہیں سمجھ نہیں آتی کہ حکومت پر تنقید کرنا اور سوال پوچھنا ہی صحافی کا کام ہے۔ اس میں کسی کی اطاعت کرنے کا تاثر پھیلانا غلط ہے۔ محمل سرفراز نے کہا کہ حکمران جماعت کی جانب سے اس طرح خاتون صحافی کو ہراساں کیا جا رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرول کہاں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے عاصمہ شیرازی کو اپنے بھرپور ساتھ کا یقین دلایا۔ زیب النسا برکی نے کہا کہ اس طرح کے حملے کر کے عاصمہ شیرازی کو چپ نہیں کرایا جا سکتا، کیونکہ وہ بہادر اور نرم دل شخصیت کی حامل ہیں۔ یہی نہیں کچھ صحافیوں نے ان کے اس کالم کی کھل کر تعریف بھی کی، عمار علی جان نے کہا کہ عاصمہ شیرازی نے نہایت باکمال کالم لکھا ہے۔ جس سے ان کی بہادری اور بے باکی عیاں ہے حکومت اس سے خوفزدہ نظر آ رہی ہے۔ اس کے ترجمان بھی پریشان ہیں۔ ابصار عالم نے کہا کہ بہت اعلیٰ آپ کی بات اور تجاویز اچھی اور میانہ روی والی ہیں۔ کاش کہ لوگ چند الفاظ کی بجائے پورا کالم پڑھ کر تبصرہ کریں۔ صحافی مظہر عباس نے عاصمہ شیرازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ عاصمہ شیرازی کو ایک اینکر بننے سے پہلے ہی محنتی صحافی کے طور پر پایا۔ ان کے خیالات سے اختلاف ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے صحافی کی طرح وہ اپنے خیالات پر تنقید کا نشانہ بھی بن سکتی ہے لیکن دھمکی اور ہراساں کرنا صرف ناقابل قبول ہے۔ میں عاصمہ شیرازی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ افتخاراحمد کا کہنا تھا کہ لفظوں کا جو استعمال عاصمہ شیرازی نے کیا ہے یہ پچھلے دو سال سے چھپنے والے استعاروں اور تشبیہوں پر مبنی تحریروں کے حوالہ سے بہترین کالم قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی مخالفت کرنے والے لفظوں کے استعمال کو سمجھنے سے عاری ہیں۔۔اس کی مخالفت کرکے وہ خود ہی اس کی تشہیر کر رہے ہیں منصور علی خان نے بھی عاصمہ شیرازی کی حمایت کی۔ طاہر عمران میاں نے بھی عاصمہ شیرازی کے کالم کی اپنے الفاظ میں تعریف کی۔ ماجد نظامی نے لکھا کہ صحافی عاصمہ شیرازی کی تحریر پر 60 منٹ گزرنے سے پہلے ہی حکومتی جواب آنا ظاہر کرتا ہے کہ تحریر کی کاٹ تلوار کی دھار سے کہیں زیادہ کاری ثابت ہوئی۔
عاصمہ شیرازی کے وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ پر ذاتی حملے۔۔ شہباز گل اور عاصمہ شیرازی آمنے سامنے عاصمہ شیرازی نے بی بی سی اردو کیلئے ایک کالم لکھا جس میں وزیراعظم عمران خان اور انکی اہلیہ کا نام لئے بغیر ان پر ذاتی حملے کئے۔ عاصمہ شیرازی نے یہ کالم اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی شئیر کیا اور لکھا کہ اب کالے بکرے سرِ دار چڑھیں یا کبوتروں کا خون بہایا جائے، پُتلیاں لٹکائی جائیں یا سوئیاں چبھوئی جائیں، معیشت یوں سنبھلنے والی نہیں جبکہ معیشت کے تقاضے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی رہنما مسرت چیمہ نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ آپ کی بددیانتی آپ کی ٹویٹس اور زبان سے واضح ہو جاتی ہے. آج تک آپ نے خود سے متعلق سرکاری حاجن کے خطاب کا جواب نہیں دیا لیکن گھٹیا جملے بازی کر کے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں. آپ آج تک تیسرے درجے کی لفافہ ہیں اور شاید آگے بھی وہی رہیں گی۔ شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ آپ کے کالم کا عنوان ہونا چاہئے مریم کی کہانی عاصمہ کی زبانی۔ آپ کے اس طرح کے ذاتی حملوں پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ دو ہی تو مہارتیں ہیں ن لیگ کی۔سرکاری مال کھانا اور ذاتی کردار کشی کرنا۔ اس پر عاصمہ شیرازی نے ردعمل دیا کہ لمبی زبانوں اور چھوٹے دماغوں والے سرکاری مال پر پلنے والے صرف الزام ہی لگا سکتے ہیں کارکردگی کیا دیکھائیں گے۔۔۔ شہباز گل نے عاصمہ شیرازی کو جواب دیا کہ دماغ تو اللہ کی دین ہے۔ چھوٹا دے یا بڑا دے۔ لیکن اس دماغ کو چند ٹکوں پر بیچ دینا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مریم کے کہنے پر ایسے الفاظ لکھنا اور چھپنا آذادی صحافت کے پیچھے۔سرکاری مال پر کون پلتا ہے وہ یہ قوم دیکھ چکی۔میں نے آج تک دو عمرے کئے دونوں اپنے پیسوں سے کئیےاور آپ نے ؟ عاصمہ شیرازی کے اس کالم پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے کو آیا، سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ آپ صحافت کریں، حکومت جہاں غلط ہے تنقید کریں لیکن اس قسم کی کردارکشی سے پرہیز کریں، ایک عورت کو یہ زیب نہیں دیتا۔کچھ نے عاصمہ شیرازی کو ن لیگ کی وابستگی سے بالاتر ہوکر صحافت کا مشورہ دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے عاصمہ شیرازی کو یاددلایا کہ آپ تو سرکاری خرچے پر حج کرنے اور نوازشریف کیساتھ مفت سفر کرتی رہی ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین نے کہاکہ اس کالم کے بعد کیا بلاول کی بات صحیح ہے کہ میڈیا بھونکتا ہے؟
کچھ روز قبل بلاول نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کیا جس میں بلاول نے کہا کہ میری عوام سے اپیل ہے کہ آپ اس میڈیا کی کردارکشی پر یقین نہ کریں، آپ پیپلزپارٹی کے خلاف بھونکنے والوں کی باتوں پر نہ چلیں۔ بلاول کے اس بیان پر کچھ صحافیوں نے تنقید کی ، کچھ نے تنقید کی لیکن ہومیوپیتھک انداز میں لیکن صحافیوں کی اکثریت نے بلاول کے اس بیان پر خاموشی اختیار کرلی۔ ان میں زیادہ تر صحافی وہ تھے جنہوں نے مولانا طارق جمیل کے میڈیا سے متعلق بیان پر مولانا کو بے عزت کیا تھا اور ان سے معافی منگوائی تھی۔ بلاول کے بیان پر خاموش رہنےو الوں صحافیوں کی اکثریت کا تعلق ان صحافیوں سے تھا جو کچھ عرصہ قبل پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل پر احتجاج اور پروگرامز کررہے تھے۔ صحافیوں کی اس خاموشی پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر یہی بات عمران خان کرتا تو میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر چڑھالیتا۔سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا طارق جمیل نے صرف یہی کہا تھا کہ میڈیا جھوٹ بولتا ہے تو ان صحافیوں نے انکی خوب بےعزتی کی تھی اور ان سے معافی منگوائی تھی لیکن بلاول نے میڈیا کو بھونکنے والے کتے سے تشبہیہ دی تو میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ اسکے باوجود کچھ صحافیوں نے بلاول پر تنقید کی جن میں مظہرعباس، امیر عباس، شفاء یوسفزئی، رضوان غلیزئی، نادیہ مرزا اور یگر شامل ہیں مگر حامد میر، محمد مالک، رؤف کلاسرا جیسے بڑے ناموں جو مولانا طارق جمیل سے معافیاں منگواتے رہے وہ خاموش رہے۔ شہباز گل نے تبصرہ کیا کہ اب میڈیا کے دوست جن کی صحافت آزاد ہے وہ بتائیں زرا کہ ان میں سے کس کے بھونکنے کی بات لبرل بوائے کر رہا ہے ؟ آپکی آزادی صحافت آج کہیں اتوار کی چھٹی پر تو نہیں ؟ شہباز گل کے ٹویٹ پر امیر عباس نے تبصرہ کیا کہ کیا یہ وہی بلاول ہیں جو چند پہلے ہمارے سب سے بڑے ہمدرد بن کر پارلیمنٹ کے باہر صحافیوں کے دھرنے میں پہنچے، یہ حکومت کے قانون PMDA کے سب سے بڑے مخالف بنتے ہیں، یہ ہمارے ساتھ آزادی صحافت کے چیمپئین بنتے ہیں لیکن جب انکی اپنی حکومت یا پارٹی کی بات آتی ہے تو یہ ہے انکی برداشت اور اصول ہم نیوز کی صحافی شفاء یوسفزئی نے تبصرہ کیا کہ اچھا تو بلاول کے مطابق میڈیا والے بھونکتے ہیں؟ یعنی سب ک** ہیں؟ نادیہ مرزا کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے یر اپنے دور حکومت سے ابتک ہر تنقید برداشت کی لیکن کبھی میڈیا کو کنٹرول نہیں کیا لیکن آج بلاول نے میڈیا کو بھونکنے والے کتے سے تشبیح دی۔ میڈیا کو مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے انکے جلسوں/پریس کانفرنسز کا۔. دیکھیں کیسے چلتے ہیں میڈیا کوریج کے بغیر صحافی رضوان غلیزئی کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاوسز کےلیے یہ خبر تو بہت بڑی ہے۔ اسی خاتون کے بھائی نے کل کہا کہ "میڈیا بھونکتا ہے" اس پر صحافت کے علمبردار کسی میڈیا ہاوس، سینیئر اینکر اور یا یونین آف جرنلسٹس کو صحافت کی 'عزت' کا خیال نہیں آیا۔ یہ بات عمران خان نے کی ہوتی تو ابھی تک عالمی تنظیموں سےبھی مذمت آچکی ہوتی۔ تحریک انصاف کے ایم پی اے ارسلان گھمن نے تبصرہ کیا کہ یا تو بلاول نے سچ کہا ہے یا پھر میڈیا کے دوستوں کے کچھ اور ہی معاملات ہے بلاول سے جب ہی اتنی خاموشی ہے ۔ منصور علی خان کے ٹویٹ پر عرفان جیلانی نے تبصرہ کیا کہ بلاول نےہم عوام کو کل ہی بتایا ہے کہ میڈیا والے بھونکتے ہیں انکی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ سوشل میڈیا صارف فرخ شہزاد نے تبصرہ کیا کہ بلاول بھٹو کے مطابق میڈیا والے بھونکتے ہیں اور یہ سب کتے ہیں ان خواتین صحافیوں کو پی ٹی آئی ورکرز نے صرف ٹویٹر پر جواب دیا تو یہ ہراسمنٹ کا بہانہ لے کر شکایت لگانے بلاول کے پاس کمیٹی میں چلی گئیں آج وہی بلاول پارٹی چئیرمین ان سب کو کتا کہہ رہا ہے پر بے شرموں کی طرح خاموش ہیں مظہر عباس نے بلاول کے بیان کی مذمت کی اور پی ایف یوجے سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ بلاول نے کہا کہ میڈیا بھونکتا ہے اور کسی صحافی کی طرف سے کوئی احتجاج نہ ہوا۔ عمران خان FAKE نیوز کی غلط روایت کو ختم کرنے کی بات کریں تو %95 صحافی حضرات زار و قطار رو پڑتے ہیں کہ ہم Harass ہو گئے۔ یہاں بلاول کی طرف سے خود کو کتے سے تشبیہہ دیے جانے پر بھی خوش و خرم ہیں۔
بختاور بھٹو نے اپنے بیٹے کیلئے نام کا انتخاب کر لیا ہے اور نام اپنے دادا کے نام کی مناسبت سے رکھا ہے۔ سماء نیوز کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے اپنے بچے کا نام رکھ دیا ہے۔ ان کے شوہر محمود چوہدری کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹا گرام پر اپنے بیٹے کے نام کا اعلان کیا گیا۔ محمود چوہدری نے انسٹا اسٹوری شیئر کرتے ہوئے اپنے چاہنے والوں کو بتایا ہے کہ اُن کے بیٹے کا نام "میر حاکم" ہے جبکہ بختاور بھٹو نے بیٹے کا مکمل نام "میر حاکم محمود چودھری" اپنی پوسٹ اور اسٹوری پر شیئر کیا گیا۔ CVKbJFfp6oc بختاور بھٹو زرداری کی جانب سے اپنی انسٹا گرام پوسٹ پر بیٹے کے نام کا اعلان کرتے ہوئے مزید لکھا گیا ہے کہ بیٹے "میر حاکم" کا نام میرے مرحوم ماموں میر اور میرے دادا حاکم علی زرداری کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔
نوجوان کو تھپڑ کیوں مارا؟ مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے وجہ بتادی۔۔ ہفتہ کے روز فیصل آباد میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوا جس کی میزبانی مسلم لیگ ن نے کی، فیصل آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور خوب جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس جلسے میں ن لیگی ایم پی اے عظمیٰ بخاری نے ایک نوجوان کو تھپڑ مادیا جس پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا اور عظمیٰ بخاری کی یہ ویڈیو خوب وائرل ہوئی اور مختلف تبصروں کی زینت بنی۔ عظمیٰ بخاری سیاہ رنگ کی گاڑی میں ن لیگ کی دیگر خواتین رہنماؤں کے ہمراہ جلسے میں شرکت کے لیے پہنچیں اور جب گاڑی سے اترنے لگیں تو ان کے قریب کارکنوں اور گارڈز کا ہجوم تھا۔ آگے بڑھنے کیلئے جگہ نہ ملنے یا کسی بات پر عظمیٰ بخاری نے ایک نوجوان کو غصے میں تھپڑ دے مارا۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی پوچھا کہ یہ کس کے ساتھ ہے تو کسی نے جواب دیا کہ یہ سیکورٹی میں ہے۔ جس پر عظمی بخاری نے اس نوجوان کے بازو پر لگا بیج بھی اتاردیا۔ عظمیٰ بخاری کے اس اقدام پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ن لیگ مخالف سپورٹرز نے کہا کہ یہ عظمیٰ بخاری کا تکبر ہے جس کی وجہ سے اس نے ایک کارکن کو تھپڑ مارا تو کسی نے کہا کہ عظمیٰ بخاری دراصل جلدی جلدی میں اپنی قائد مریم نواز کے پاس پہنچنا چاہتی تھیں اور جگہ نہ ملنے پر غصہ میں آگئیں اور تھپڑ جڑدیا۔ ن لیگی سپورٹرز نے اس پر ملا جلاردعمل دیا، کسی نے کہا کہ کارکن ایک طرف تو پارٹی کیلئے محنت کرتے ہیں اور دوسری طرف پیپلزپارٹی سے آئے لوٹوں سے تھپڑ بھی کھاتے ہیں ، کسی نے کہا کہ اس نوجوان نےعظمیٰ بخاری کیساتھ کوئی نامناسب حرکت کی ہوگی جو وہ اتنا غصہ میں آئیں۔ ن لیگی کارکنوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کارکنوں کو عزت ملنی چاہئے، اگر ووٹ کا عزت دو کا نعرہ لگ سکتا ہے تو کارکنوں کو عزت دو کا نعرہ بھی لگنا چاہئے۔ بعدازاں نوجوان کو تھپڑ مارنے پر عظمیٰ بخاری نے ردعمل میں کہا کہ یہ پی ڈی ایم کا جلسہ ہے جس میں 10 جماعتیں ہیں، جب اتنا ہجوم ہو تو تھوڑی بہت دھکم پیل تو ہوجاتی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں، کچھ نہیں ہوتا، داخلی دروازے پر چھوٹے موٹے مسئلے ہوجاتے ہیں، اس میں کون سی بڑی بات ہے۔
پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، فہد مصطفیٰ نے بھی وزیراعظم پر طنز کرڈالا اور عوام کو کھل کر گھبرانے کا مشورہ دیدیا ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان، عوام بھی شدید پریشان، اب تو فنکار برادری بھی بولنے پر مجبور ہوگئی، اداکار فہد مصطفیٰ نے پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے وزیراعظم عمران خان کو خوب آڑے ہاتھوں لیا،انہوں نے عمران خان کیلئے طنزیہ ٹویٹ کرڈالے۔ اداکار اور میزبان فہد مصطفیٰ نے پوسٹ شیئر کی ’’وہ چاہتا تو 20 روپے بڑھاسکتا تھا، مگر قوم کی خاطر صرف 10 روپے 49 پیسے بڑھائے۔۔۔ یہ ہوتا ہے لیڈر ایک صارف نے فہد مصطفیٰ سے ٹوئٹر پر سوال کیا ’’ڈیئر سر اب تھوڑا گھبرا لیں؟‘‘ صارف کے اس سوال کے جواب میں فہد مصطفیٰ نے کہا ’’تھوڑا نہیں اب کھل کے گھبرائیں۔ صرف فہد مصطفیٰ ہی نہیں سوشل میڈیا پر پیٹرول پرائس ،شرم کرو عمران خان سمیت متعدد ٹرینڈز چل رہے ہیں جہاں حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جارہاہے،عوام کا کہنا ہے کہ اب سائیکل چلانے کا وقت آگیا ہے، عوام نے گدھا چلانے کا بھی آپشن سوچ لیا ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے 44 پیسے فی لیٹر تک اضافہ کرکے عوام کو رونے پرمجبور کردیا، جس کے بعد پیٹرول 10 روپے 49 پیسے اضافے کے بعد 137 روپے 79 پیسے فی لیٹر ہوگیا، جبکہ آٹا، چینی ، دال ،گوشت سمیت ہر شے ہی مہنگی ہوگئی ہے۔
عائشہ ریمبو کو دھمکیاں دیتی تھی اور اسے گھر میں نہیں رہنے دیتی تھی۔ عامر سہیل عرف ریمبو کے والدین کا دعویٰ ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم اردو پوائنٹ کی جانب سے عامر سہیل عرف ریمبو کے اہلخانہ سے دونوں کے تعلقات اور رفاقت سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ریمبو اور عائشہ گزشتہ ڈھائی سال سے ایک ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا عائشہ ریمبو کو دھمکیاں دیتی تھی اور اسے گھر میں نہیں رہنے دیتی تھی۔ ریمبو کی والدہ نے بتایا کہ عامر سہیل (ریمبو) کے 3 بچے ہیں بیوی ہے مگر وہ جب گھر آتا تھا تو عائشہ اسے فون کر کے واپس بلا لیتی تھی دونوں اکٹھے کھاتے پیتے گھومتے اور ویڈیوز بناتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں ویڈیو بنانے مری اور ناران کاغان بھی گئے تھے۔ ریمبو کی والدہ نے کہا کہ ان کے بیٹے کو عائشہ کی طرف سے دھمکیاں دی جاتی تھیں کہ اگر اس نے کسی اور لڑکی کے ساتھ ویڈیو بنائی تو وہ اسے جیل کی ہوا کھلائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس نے ان کے بیٹے کو جیل بھجوا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عائشہ ریمبو کے ساتھ مری گئی تھی اور واپسی پر ایک رات اس نے ان کے گھر بھی قیام کیا تھا۔ ریمبو کی ماں نے کہا کہ 14 اگست کے واقعے کے بعد ان کا بیٹا بیمار ہوا تو اسے گھر بھیج دیا تاکہ وہ ان کے پاس رہتے ہوئے مر نہ جائے۔ اس کا علاج کرایا جب اس کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو پھر عائشہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ غریب ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں اس کی پیروی کرنے سے وہ خود بھی نہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں۔ عامر سہیل عرف ریمبو کے والد نے کہا کہ وہ دل کے مریض ہیں جب ان کے بیٹے کو گرفتار کیا گیا اس سے قبل وہ گھر تھا عائشہ اور ان کے بیٹے کی فون پر لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد ریمبو لاہور گیا اس نے گھر بتایا کہ ملزموں کو شناخت کرنے کیلئے پولیس نے بلایا ہے مگر وہاں پہنچنے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک ریمبو کی گرفتار کے بعد سے ملاقات کرنے نہیں گئے انہیں گرفتاری سے متعلق بھی ٹی وی پر خبریں سننے کے بعد پتا چلا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عائشہ نے ان کے بیٹے کو پھنسا دیا ہے ہم ڈرتے اس کے پیچھے نہیں جاتے کہ کہیں ہم بھی نہ پکڑ میں آ جائیں۔ ریمبو کے والد نے بتایا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے باپ کا پوچھتے ہیں تو انہیں بھی جھوٹا دلاسہ دیتا ہوں کہ ان کا باپ کل آ جائے گا۔ ریمبو کے بھائی نے کہا کہ عائشہ جھوٹی اور 420 ہے وہ ڈھائی سال سے اس کے ساتھ تھی، اس نے الزام لگایا ہے کہ ریمبو نے اسے بلیک میل کر کے 10 لاکھ روپے لیے ہیں وہ اگر 10 لاکھ روپے اسے دے چکی ہے تو خود کہاں سے کھاتی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ جب ویڈیو بنواتی تھی تو کپڑوں تک کی میچنگ کرتی تھی وہ بلیک میل کر کے پیسے لیتا تھا کیا وہ اسے ایسے کپڑے پہننے کیلئے بھی مجبور کیا کرتا تھا۔ اس نے مزید کہا کہ عائشہ نے مینارپاکستان پر پیش آنے واقعے کے بعد دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی مردوں کو بدنام کیا ہے، وہ صرف اپنا نام بنانے کیلئے یہ سب کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈیڑھ ماہ میں اس کی اڑائی گئی گرد بیٹھنے ہی لگی تھی کہ اس نے نیا شوشہ چھوڑا ریمبو کو پھنسایا اور دوبارہ خبروں کی زینت بن گئی۔ ریمبو کے بھائی کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے بھائی سے پوچھا تھا کہ اب یہ کیس کیونکر ختم نہیں ہو رہا جس پر ریمبو نے بتایا تھا کہ عائشہ پیسوں کے لالچ میں آ گئی ہے وہ بڑا گھر، گاڑی اور دیگر آسائشوں کے خواب دیکھ رہی ہے اور گرفتار لوگوں سے پیسے لینے کا منصوبہ بنا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ کیس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
کیا واقعی شراب میں مچھلی ڈال دیں تو شراب حلال ہوجاتی ہے؟ سوشل میڈیا صارفین کے دلچسپ تبصرے جمعیت علمائے اسلام ف کے رکن قومی اسمبلی اور انسداد منشیات کمیٹی کے چیئرمین مولانا صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ شراب کو حلال کرنا ہے تو اس میں مچھلی ڈال دیں ، شراب جائز ہوجائے گی۔ تفصیلات کے مطابق مولانا صلاح الدین ایوبی اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے جب انہوں نےکہا کہ اگر شراب میں مچھلی ڈال دیں تو وہ سرکہ بن جاتی ہے جسے پینا حرام نہیں ہوگا۔ ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ اس کے علاوہ اور کیا طریقہ ہے جس کو استعمال کرکے شراب کو حلال کیا جاسکتا ہے ؟ جس پر مولانا نے جواب دیا کہ آپ کسی دن وقت نکال کر مدرسے کا چکر لگائیں آپ کو پورا نظام دکھائیں گے جس سے شراب کو حلال بنایا جاتا ہے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں ملک میں شراب کو حلال کیا جائے ؟ جس پر جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ جس چیز کو اللہ پاک نے حرام قرار دیدیا ہے ہم اسے کیسے حلال کرسکتے ہیں، میں نے شراب کو جائز کرنے کے طریقے سے متعلق بات ایک مثال کے طور پر کی۔ انہوں نے کہا کمیٹی کے اجلاس میں بات ہورہی تھی کہ مولوی بھنگ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں آپ لوگ بھنگ کا پیچھا چھوڑ دیں، کوئی حکمت عملی بنا لو کہ حرام کو حلال کردیا جائے، مولوی سے پوچھ ہو، اس پر مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر شراب کے پیالے میں مچھلی ڈال دی جائے تو وہ شراب نہیں سرکہ بن جاتی ہے اور حرام بھی نہیں رہتی۔ احسن جان کا کہنا تھا کہ بات کو غلط رنگ نہ دیں، انگوری شراب میں مچھلی ڈالنے سے وہ سرکہ بن جاتی ہے ظہیر احمد گوندل نے مولانا کے اس فتوے کو عادی شرابیوں کیلئے خوشخبری قرار دیا صہیب بلوچ نے تبصرہ کیا کہ سب سے پہلے جہنم میں یہی دین کے ٹھیکیدار ڈالے جائیں گے جو اپنے چسکے کیلئے دین میں گنجائشیں نکالتے ھیں حرام کو حلال کرتے کرتے ھیں۔ درویش کا کہنا تھا کہ میں نے سنا تھا ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے، یہاں تو مچھلی تالاب کو صاف اور جائز کر رہی ہے، وہ بھی شراب کی۔ جلیل افغان نے طنز کیا کہ صاحب اب تو شراب پینے دے کیونکہ کے مچلی ڈالنے سے شراب شراب نہیں رہتی۔ قاضی طاہر نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہم نے تو فقہ میں پیاز نمک یا دھوپ رکھنے سے سرکہ بنانے کا پڑھا اور سنا تھا لیکن جمعیت علماء اسلام کے پارلیمینٹین ممبر نے مچھلی کو شراب میں ڈال کر پینا جائز قرار دیا قاضی طاہر کامزید کہنا تھا کہاب کوئ جمعیتی رہنماء ہے کہ اسے جواب طلب کرے یا کوئی مدرسہ مولانا صلاح الدین سے اس مسئلے کی وضاحت طلب کرے؟ مولانا صلاح الدین ایوبی نے اپنے انٹرویو پر وضاحت دی کہ میرا ایک انٹرویو جس کو غلط تعبیر دی گئی ہےجس میں شراب میں مچھلی کےحوالےسےمیرےمؤقف کوغلط طریقے سے پیش کیاگیاہے،میراکہنا تھاکہ شراب میں مچھلی ڈال دی جائےتواس سےشراب کی حقیقت تبدیل ہوجائے گی اور یہ سرکہ بن جائے گا تو وہ سرکہ استعمال کرنا جائز ہے ۔ مولانا کا مزید کہنا تھا کہ باقی اللہ ہدایت دے جو اسطرح علماء کو بدنام کرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں
پیٹرول کی قیمت میں لگی آگ نے سب کو جھلسا دیا، سوشل میڈیا پر بھی خوب شور شرابا ہورہا ہے، ٹوئٹر پر پیٹرول پرائس سمیت دیگر ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے،صارفین کی جانب سے حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جارہاہے،صارفین کا پارہ اس وقت بہت ہائی ہے اور وہ اپنا غصہ سوشل میڈیا پر نکال رہے ہیں۔ لیگی رہنما حنا پروزیز بٹ نے لکھا عمران نیازی کچھ عرصہ مزید وزیراعظم رہا تو پیٹرول ، چینی، گھی ، کوکنگ آئل وغیرہ دکانوں پر نہیں لوگوں کو عجائب گھر میں ملیں گے۔۔۔اس نااہل کو ہٹاؤ ملک بچاؤ جواب میں بابر بٹ نے کہا کہ آپ بھی مہربانی فرما کر لانگ مارچ کی کال دے دیں بہت ہو گیا تماشا غریب عوام مر رہے ہیں، مہنگائی سنگل ایجنڈا رکھیں۔ عمر غنی نے کہا کہ جب وزیرِاعظم صاحب نے کہا تھا کہ ہم ملک کا جی ڈی پی اوپر لے کر جائیں گے تب کوئی نہیں سمجھا تھا کہ اس کا مطلب گیس، ڈیزل اور پیٹرول ہے۔ اقصی نے طنزیہ لکھا آہستہ آہستہ لیکن پیٹرول کی قیمت ایک ہزار روپے لیٹر تک پہنچ جائے گی۔ سوشل میڈیا صارفین پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کو حکومت کی ناکامی قرار دے کر خوب طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔
اے پیا جے انقلاب۔۔ ن لیگ کے موقف میں تبدیلی پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا دلچسپ ری ایکشن ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر حکومت پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ تنقید ن لیگ کے حامی صحافیوں اور ن لیگی رہنماؤں کی جانب سے ہورہی ہے جن کا موقف ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی لگانا چاہتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم فوج کے معاملات میں بے جا مداخلت کررہے ہیں تو کچھ کا کہنا ہے کہ عمران خان جان بوجھ کر معاملے کو متنازعہ بنارہے ہیں۔ ن لیگ جو سویلین سپریمیسی کا نعرہ لگاتی ہے وہ بھی اس ایشو پر فوج کیساتھ کھڑی ہے اور عمران خان پر تنقید کررہی ہے، ایک طرف کیپٹن صفدر کہتے ہیں کہ فوج کی تعیناتیوں میں مداخلت وزیراعظم کا اختیار نہیں تو دوسری طرف مریم نواز یہ الزام لگاتی نظر آتی ہیں کہ عمران خان جنات کے ذریعے تقرریاں کرنا چاہتے ہیں دو روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن صفدر نے کہا تھا کہ فوج کی تعیناتیوں میں مداخلت وزیراعظم کا اختیار نہیں،گریڈ 21، 22 کی پوسٹنگ ٹرانسفر وزیراعظم کا کام نہیں، انکاکام مہنگائی کنٹرول کرنا ہے، کیا کبھی آرمی چیف نے کہا ہے کہ فلاں کو سیکرٹری داخلہ ، فلاں کو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ لگاؤ؟ مریم نواز نے بھی گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اہم تقرریوں پر ملک کو تماشا بنا دیا ہے اور وزیر اعظم کی جگہ اہم ترین تقرریاں جنات کرتے ہیں۔ یہ آدمی جادو ٹونے کے ذریعے ملک چلارہا ہے۔ مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ سچ ایک دن ضرور سامنے آتا ہے، آئین، جو اختیارات ایک منتخب وزیر اعظم کو دیتا ہے اس پر کوئی دو آرا نہیں ہیں لیکن عمران خان آئینی وزیر اعظم نہیں ہیں، انہوں نے نواز شریف کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا ہے۔عمران خان کا حساب کتاب جادوٹونہ ، جنترمنتر، عوام کیلئے کیوں نہیں؟ اگر جادو ٹونہ چلتا ہے تو آٹا چینی سستی کرواؤ۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مسئلہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نہیں ایک لیفٹیننٹ جنرل کا مسئلہ ہے جو آرمی چیف کے حکم کا پابند ہے وزیراعظم ایک غلط چیز پر جاہلانہ انداز میں کھڑے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل آرمی چیف کے ماتحت ہے، وزیراعظم کو اس حد تک مداخلت نہیں کرنی چاہیئے کہ نظام متاثر ہو ۔ مریم نواز، کیپٹن صفدر، مولانا فضل الرحمان اور انکے حامی صحافیوں کے ان بیانات پر مختلف صحافی اور سوشل میڈیا صارفین یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کہاں گئی ان کی سویلین سپریمیسی؟ کہاں گیا انقلاب؟ جو لوگ دن رات سویلین سپریمیسی کی باتیں کررہے تھے، اب ایکسپوز ہورہے ہیں اینکر عمران خان نے اس پر تبصرہ کیا کچھ لوگ اپنا سی وی لیکر جی ایچ کیو کے باہر کھڑے ہیں۔ خاورگھمن نے اس پر تبصرہ کیا کہ وہ لوگ جو ہمیں دن رات بتاتے تھے وزیر اعظم عمران خان کی حثیت اسلام آباد کے مئیر جتنی ہے۔۔۔اب کچھ اور فلسفے بیان کرتے سنائی دیتے ہیں،،ویسے کتنی عجیب بات ہے۔ خاور گھمن کا مزید کہنا تھا کہ صرف ایک سمری کے معاملے نے کتنے سارے دانشوروں کو بے لباس کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سر میں دھول ڈال کر کپڑے پھاڑ کر سڑکوں پر دیوانہ وار گھو منے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔۔۔۔ ارم زعیم نے تبصرہ کیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی والے معاملے پر ن لیگی انقلاب پاکستان کے سب سے گندے گٹر میں بہہ گیا۔ رایونڈ سے پنڈی تک “سرکار مالشی حاضر” کی صدائیں بلند۔ بلاگر مغیث علی کا کہنا تھا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی مریم صفدر نے آج پریس کانفرنس کے ذریعے سی وی کو ٹاکی مار کر جی ایچ کیو بھیجنے کی کوشش کرکے یہ ثابت کیا ہے " آپ حکم کریں ہم حاضر ہیں " مریم صفدر نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر "باس" کی چاپلوسی میں شوباز شریف کو بھی پیچھے چھوڑ دیا یہ ہے منافقت اعزازسید نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی وزیراعظم عمران خان پر تنقید، ڈی جی آئی ایس آئی کی پوسٹنگ جنرل باجوہ کا ساتھ دینے کا اعلان جس پر اکبر نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ اے پیا جے انقلاب جس چیف گناہ زدہ ایکسٹنشن پر بیٹھا ہے جسکی ایکسٹنشن کے گناہ میں مریم شامل نہں تھی مریم اسکے ساتھ کھڑی ہوگئی اتنے یو ٹرن اتنی منافقت ؟ روز نیا چورن ؟
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف کی جانب سے وزیراعظم کی اہلیہ سے متعلق جادو ٹونے کے بیان نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، مخالفین اور حامیوں نے ٹویٹر پر اپنی اپنی جانب کے موقف کو پیش کرنے کیلئے ٹرینڈز چلادیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق مریم نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاوزیراعظم کے جنات اہم تقرریاں کرتے ہیں، یہ آدمی جادو ٹونے کے ذریعے ملک چلارہا ہے، عمران خان کا حساب کتاب جادوٹونہ ، جنترمنتر، عوام کیلئے کیوں نہیں؟ اگر جادو ٹونہ چلتا ہے تو آٹا چینی سستی کرواؤ۔ مریم نواز کے اس بیان پر مخالفین نے 'سیاسی چڑیل' کا ٹرینڈ چلایا تو مریم کے حمایتیوں نے 'جادو ٹونے' کی سرکار کے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈنگ میں لانے کیلئے زوروشور سے ٹویٹس کرنا شروع کردیں۔ مریم نواز کے اس بیان پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی سخت ردعمل دیا معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ ایک سیاسی چڑیل دوسروں کو جادوٹونے کا طعنہ دے رہی ہے، اس سیاسی چڑیل سے نہ چچامحفوظ ہے اور نہ کوئی اور وہ کونسے جنات تھے جو پاکستان کا پیسہ باہر لے گئے؟کیاآپکے تہہ خانوں میں جنات، چڑیلیں دولت بانٹ رہی تھیں؟ تحریک انصاف کے ناراض رہنما ڈاکٹر عام لیاقت حسین بھی مریم نواز کے اس بیان پر شدید ناراض نظر آئے انہوں نے کہا کہ بشری بھابھی ہماری ماں جیسی ہیں ،میں الگ ہواہوں لیکن خان صاحب اور بھابھی کی عزت کے لیے کھڑا ہوں۔ ٹویٹر پر مریم نواز کے خلاف 'سیاسی چڑیل' کا ٹرینڈ چلانے والوں نے ان کی ایڈیٹڈ تصاویر شیئر کیں اور ان پر شدید تنقید کرتے دکھائی دیئے۔ اسی طرح کچھ مخالفین نے مریم نواز کی جانب سے عمران خان پر ذاتی حملے کرنے کی مذمت کرتے ہوئے'بدزبان ، بداخلاق ، مریم نواز' کا ٹرینڈ بھی چلایا اور سیاست میں غیر اخلاقی زبان کے استعال کے خلاف شدید الفاظ میں ردعمل دیا۔ دوسری جانب مریم نواز کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان کی حمایت میں خوب ٹویٹس کی اور مخالفین کے دانت کھٹے کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے، مریم نواز کے حامی سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت جادو ٹونے سے اقتدار میں آئی ہے اور ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرچکی ہے انہیں چاہیے کہ اسی جادو ٹونے کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں مہنگائی کے جن پر قابو پا لیں۔
مریم نواز کے وزیراعظم عمران خان پر جادوٹونے سے ملک چلانے کے بیان پر تحریک انصاف کے ناراض رکن اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت بھی بول پڑے اور مریم نواز کو کھری کھری سنادیں۔ آج اسلام آباد ہائیکورٹ پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ وزیراعظم کے جنات اہم تقرریاں کرتے ہیں، یہ آدمی جادو ٹونے کے ذریعے ملک چلارہا ہے، عمران خان کا حساب کتاب جادوٹونہ ، جنترمنتر، عوام کیلئے کیوں نہیں؟ مریم نواز نے مزید کہا کہ اگر جادو ٹونہ چلتا ہے تو آٹا چینی سستی کرواؤ، یہ سارے جنترمنتر عوام کی بھلائی کیلئے کیوں نہیں؟ وزیراعظم کو جنات ٹائمنگ بتاتے ہیں کہ کب کس کو کہاں رکھنا ہے، جنات ، طوطافال سے تقرریاں ہوں تو اداروں کا تماشہ حیرانی کی بات نہیں۔ اس پر تحریک انصاف کے سپورٹرز کی طرف سے جہاں سخت ردعمل دیکھنے کو ملا، وہیں تحریک انصاف کے ناراض رکن عامرلیاقت بھی سامنے آگئے اور مریم نوازشریف کو کہا کہ بشریٰ بھابھی ہماری ماں جیسی ہیں ، کہاں ایک درویش عورت اور کہاں ایک جھوٹی جعلساز۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں عامر لیاقت نے لکھا کہ مریم صاحبہ ہم نےآپ کے گھر کی عورتوں کو جو سیاست میں نہیں کچھ نہیں کہا بشری بھابھی ہماری ماں جیسی ہیں ،میں الگ ہواہوں لیکن خان صاحب اور بھابھی کی عزت کے لیے کھڑا ہوںُ ،وہ جادو ٹونہ کرتیں تو گھر سے بھاگنے والی پر اس کا زیادہ اثر ہوتا کہاں پاک پتنُ کی درویش اور کہاں جھوٹی جعلساز عامر لیاقت نے مزید کہا کہ جنات حضرت سلیمان کےطابع تھے، گھر سے “جن” کے ساتھ آپ بھاگیں وہ آپ کے ساتھ رہ کر پاگل ہوگئے، آپ میں سیکڑوں جنات حلول کر چکے ہیں باپ کھاگئیں ،شوہر ایک ہی نوالےمیں نگل گئیں عامر لیاقت نے مریم نواز کو مشورہ دیا کہ وہ بشری بھابھی سے روحانی علاج کرائیں مگر سونے کی تلوار سے بدتمیز کی بدتمیزی ختم نہیں ہوتی ناراض رکن اسمبلی نے مزید کہا کہ ور جنوں نے بھی سن لیا ہے کہ آپ نے ان کو بھی جعلی دستاویزات کی طرح للکارا ہے ، چڑھ گئے نا تو بستر جاتی عمرہ سے اڑتا ہوا راوی میں غرق ہو جائے گا۔ بدتمیز ، نائنجار ، جاہل مطلق اور لڑاکا۔ حق خطیب کو کہہ دیا ہے ان کی سانس پھول گئی مگر مسلسل چھو چھو کررہے ہیں حالانکہ مریم صاحبہ کی بات پر تو چھی چھی کرنا چاہئے تھا میں نے چھی چھی کا وظیفہ شروع کردیا ہے چلو بھائی لوگو بھابھی کی عزت کے لیے سب مریم صفدرکو ٹیگ کر کے لکھیں “چھی چھی گندی بات”
ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر کامران خان کی قلابازیاں۔۔ ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ تعیناتی وزیراعظم کرتا ہے اور دوسرے ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر نے اعلان کردیا تو وزیراعظم توثیق کرے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا معاملہ آج کل سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر زیربحث ہے۔ اس معاملے پرمختلف قیاس آرائیاں چل رہی تھیں زیادہ تر صحافی وزیراعظم عمران خان کو موردالزام ٹھہرارہے تھے جن میں سے ایک کامران خان بھی تھے۔ کامران خان ایک ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی سربراہ تعیناتی اختیار وزیر اعظم کا ہے مگر سرونگ لیفٹیننٹ جنرل کا انتخاب آرمی چیف مشورے کے بغیر نہیں ہوسکتا اور دوسرے ٹویٹ کہتے ہیں کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی اعلان کو 5 دن گزر چکے ہیں مگر حکومت پاکستان ،وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے آج تک اعلان کی توثیق نہ ہوئی اپنے ایک ٹویٹ میں کامران خان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ افغانستان کی وجہ سے عالمی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں پاکستان چند گھنٹوں کے لئے قومی سلامتی فیصلہ سازی میں عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا ضروری ہے وزیر اعظم عمران آرمی چیف جنرل باجوہ ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی پر متحد ہوں یہ ادارہ دونوں شخصیات کی مشترکہ پسند کے سربراہ کے بغیر نہیں چل سکتا دوسرے ٹویٹ میں کامران خان نے لکھا کہ آئی ایس آئی سربراہ تعیناتی اختیار وزیر اعظم کا ہے مگر سرونگ لیفٹیننٹ جنرل کا انتخاب آرمی چیف مشورے کے بغیر نہیں ہوسکتا یقیننا ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم کو رپورٹ کرتا ہے ہدایت لیتا ہے مگر وہ آرمی چیف کا بھی تابع ہوتا ہے آرمی ڈسپلن کاپابند ہے یک شخصی پسند آئی ایس آئی سربراہ خطرے کی گھنٹی ہوگا خدانخواستہ تیسرے ٹویٹ میں کامران خان نے ایک مختلف لائن لی اور لکھا کہ سوچ سوچ کر دماغ ماؤف ہورہا ہے عرض پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے میرا وطن کن ناقابل برداشت قومی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے ان حالات میں اس کیفیت میں آئی ایس پی آر کی جانب سے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی اعلان کو 5 دن گزر چکے ہیں مگر حکومت پاکستان وزیر اعظم ہاؤس آج تک اعلان کی توثیق نہ ہوئی سینئر صحافی نے مزید کہا کہ بارہ اکتوبر 1999 کے پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کو مارشل لا کی کاری ضرب نے ایک اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا 22 سال بعد آج پھر احساس ہورہا ہے ہمارے پاکستان کی لیڈرشپ نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا نہ جانے قصور سول سربراہ کا ہے یا فوجی سربراہ کا نقصان 22 کروڑ پاکستانیوں کا کامران خان نے دعا کی کہ اللہ کرے درست ہو متعدد واقفان حال بتا رہے ہیں ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن آج کسی وقت جاری ہو جائے گا ۔کیا عجیب ملک ہے ہمارا یہاں کہیں درج نہیں آئی ایس آئی کا سربراہ کس طریقہ کار سے تعینات ہوگا آدھی تاریخ تو فوجی سربراہان مملکت کی زاتی منشا رہی ،منتخب وزرائے اعظم آرمی چیف مل جل منتخب کرتے رہے
گزشتہ روز مینار پاکستان واقعہ کی تحقیقات میں نئی پیشرفت سامنے آئی جس میں ٹک ٹاکر عائشہ اکرم اور اس کے ساتھی ریمبو کے مابین ملزموں سے پیسوں کے عوض سمجھوتہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اس پہلو پر تفتیش ایک مبینہ آڈیو ٹیپ کے باعث آگے بڑھی ہے جس میں مبینہ طور پر عائشہ اکرم اور ریمبو کے درمیان 6 ملزموں سے 5،5 لاکھ فی کس لیکر ان سے سمجھوتہ کرنے سے متعلق بات کی جا رہی ہے۔ اس آڈیو کلپ میں خاتون کہتی ہے کہ ملزم غریب ہیں اور وہ پانچ پانچ لاکھ روپے ہی دے دیں تو بہت ہیں۔ دوسری طرف ریمبو عائشہ کو جواب دیتا ہے کہ چلیں ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔ آڈیو ٹیپ ریمبو نے فراہم کی جسے پولیس نے ریکارڈ کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ جس خاتون کی پاکستان حمایت کرتا رہا، اسے انصاف دلانے کیلئے کمپین چلاتا رہا وہی خاتون لالچی نکلی اور ریمبو کیساتھ ملکر فی کس 5، 5 لاکھ روپیہ لینے کی کوشش کرتی رہی۔ سوشل میڈیا صارفین نے یہ بھی کہا کہ عائشہ اکرم نے جو حرکت کی ہے اس سے جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، اب کوئی ایسا واقعہ ہوا تو لوگ پہلے سوچیں گے کہ کہیں یہ کوئی ڈرامہ تو نہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عائشہ اکرم اور ریمبو نے مردوں کو بھیڑیا ثابت کرنے اور ملک کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سوشل میڈیا صارف عثمان صدیق نے اس پر تبصرہ کیا کہ پاکستان کا نام خراب کرنے والوں کی اصلیت! خاتون ٹک ٹاکر کیس میں نیا موڑ، عائشہ اور ریمبو کی مبینہ آڈیو گفتگو سامنے آگئی ریمبو ٹک ٹاکر عائشہ سے کہتاہے کہ فی مجرم کتنے پیسے لیے جائیں،زیادہ تر تو غریب ہیں،جس پر عائشہ جواب دیتی ہے کہ مشکل سےان لوگوں نے 5، 5 لاکھ کرنےہیں ارم زعیم نے اقرارالحسن کا نام لئے بغیر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ جی پاکستانی ہونے پر شرم تو ان دونوں کو دیکھ کر انی چاہیے۔ اب کیا ریمبو (ڈیلر) کو دیکھ کر بیٹا نا ہونے کی دعا کرنی نہیں کس نے ؟؟ بلال بشیر کا کہنا تھا کہ عائشہ اکرم اور ریمبو کی جو کال ریکارڈ سامنے آئی ہے اسکے بعد انکا سارا ڈرامہ ایکسپوز ہو چکا ہے اب یہاں اقرار الحسن صاحب سے سوال یہ بنتا ہے کہ آپ کا اس میں کتنا حصہ تھا؟ سوال کرنا ہمارا حق ہے صحافی فرید قریشی کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے معاملے میں وہی ہوا جو اکثر کیسز میں ہوتا ہے، میڈیا آواز اٹھاتا ہے، مظلوم بعد میں دے دلا کر، دیت لے کر، کنبے برادری کی وجہ سے صلح کر لیتا ہے۔ عائشہ اکرم نے بھی وہی کوشش کی ملزمان سے کچھ لے دے کر مقدمہ ختم کرے مگر اچھی بات ہے کہ قانون اپنا راستہ بنا رہا ہے۔ میر محمد علی خان کا کہنا تھا کہ عائشہ اکرم جیسی عورت کی وجہ سے خواتین کو ایمپاور کرنے کا اصل مقصد ڈیمیج ہوا ہے۔ سامری نامی سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ عائشہ اکرم جیسی عورتیں پاکستان کو عورتوں کیلئے خطرناک ملک ڈیکلئیر کرواتی ہیں۔ حماد نے اقرارالحسن پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جھوٹ سامنے آگیا اور یہ معلوم ہوگیا کہ یہ سب سکرپٹڈ ہے۔ احسان نے آڈیوکال شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا، میں پہلے ہی اس گندگی کی سپورٹ میں نہیں تھا جو لوگ ان کا دفاع کر رہے تھے خود سنیں. کہانی میں ایک اور موڑ عائشہ اکرم اور ریمبو کی آڈیو لیک جس میں ریمبو کہہ رہا ہے کہ فی مجرم سے کتنے پیسے لیے جائیں؟ اور عائشہ کہتی ہے 5 لاکھ فی بندہ۔ چوہدری حمزہ نے تبصرہ کیا کہ الحاج ریمبو بھائی اور حاجن عائشہ جی جن کی پاکدامنی کی قسمیں کھا کر اقرار الحسن بھائی نے سارے پاکستان کو جنسی جہنمی جنونی بھیڑیے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی، انکی آڈیو ملاحظہ فرمائیں۔ علی ساہی کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاکر عائشہ اکرم اور ریمبو نے کس طرح جال بچھاکر غریب لوگوں کوپھنسایا اور پھرمبینہ ملزمان سےپیسے لینے کی پلاننگ کررہے تھے کہ اپس میں ہی لڑائی ہوگئی اور اڈیو لیک ہوگئی۔۔۔اب دیکھتے ہیں عائشہ اکرم بھی نامزد ہوتی ہے کہ نہیں لیکن گریٹر اقبال پارک واقعہ سےملک کی بہت بدنامی کوئی۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین نے عائشہ اکرم کی آڈیوکال شئیر کی اور تبصرہ کیا کہ یہ سب ملک کو بدنام کرنے کی سازش تھی، اصل مسئلہ انصاف نہیں پیسہ تھا جو انہوں نے ملزمان نے بٹورنے کی کوشش کی۔
اسلام آباد میں ربیع الاول کی مناسبت سے عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ کی مرکزی تقریب ہوئی، ڈاکٹر عامر لیاقت کو تقریب میں تقریر کا موقع نہیں ملا، جس پر انہوں نے ٹوئٹر پر افسردگی کا اظہار کردیا۔ اپنے ایک ٹویٹ میں عامر لیاقت کا کہنا تھا کہاسلام آباد میں فجر کا وقت مکمل ہونے کے بعد کچھ افراد کو بتانا چاہتا ہوں عمران خان اور بشری بھابھی میری فیملی ہیں، پی ٹی آئی میں آتے ہوئے واضح کہا تھا کہ یہ میری آخری جماعت ہے میں پی ٹی آئی میں نہیں تو کہیں نہیں لیکن مجبور ہوں وجہ بتائی تو ملک کو نقصان پہنچے گا ڈاکٹر عامر لیاقت نے ٹویٹ کیا کہ صرف اتنا ذلیل کرنا دیکھ لیجیے کہ جو شخص اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے ایک ایک لمحے کا حافظ ہو اُس کو آقا کی کانفرنس میں پوچھا تک نہیں جاتا۔ انہوں نے مزید شکوہ کیا کہ آٹھ کتابیں لکھ چکا ہو حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے 500 طاقت ور مسلمانوں کی فہرست میں تین بار مسلسل میرا نام آیا،عامر لیاقت تنقید کرنا نہیں بھولے۔ انہوں نے لکھا کہ منگل والے تالاب میں چھوڑی ہوئی پخ پخ کرنے والی بطخوں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ عمران خان اور خان اور بشری بھابھی جن کی میں اپنی ماں جیسی عزت کرتا ہوں اس تعلق پر حملہ آور نہ ہوں،ہمارے درمیان احترام، رواداری اور اخلاق کا تعلق کوئی ختم نہیں کرسکتا، یہ عامر ہی کہہ سکتا تھا۔ ایک اور ٹوئٹر پیغام میں عامرلیاقت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک اعلی ترین شخصیت سے ملاقات کے بعد اب واپس کراچی لوٹ رہا ہوں ان سے یادگار ملاقات کے لمحات تر و تازہ رہیں گے، اہل اسلام آباد اپنا خیال رکھیے گا پاکستان زندہ باد عشرہ رحمت اللعالمین ﷺ کی مرکزی تقریب دس اکتوبر کو اسلام آباد میں ہوئی، تقریب سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مغفرت کیلئے دعا بھی کروائی،عمران خان نے کہا تھا کہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں پرملک کو چلائیں گے تو ملک اوپر اُٹھے گا، سیرت النبی کا مطالعہ کرکے حیرت ہوئی کہ اسکول میں یہ کیوں نہیں پڑھائی گئی، ملک بھر میں بارہ ربیع الاول بروز منگل ہوگی۔
ڈان لیکس کے موجد صحافی سرل المیڈا نے کچھ روز انتقال کرجانیوالے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ایک متنازعہ بیان دیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین پھٹ پڑے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو گزشتہ ر وز انتقال کرگئے تھے، انکے انتقال پر سوشل میڈیا صارفین اور سیاستدان جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کررہے ہیں، وہیں سرل المیڈا نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی۔ سرل المیڈا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان براہ راست کرپشن میں ملوث تھے، انہوں نے مبینہ طور پر نیوکلیئر ٹیکنالوجی تیسری دنیا کے ممالک کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کیا ہے، یہ ایک ایسی سکیم ہے جس کے ذریعے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ سرل المیڈا کے اس متنازعہ بیان پر سوشل میڈیا صارفین شدید غصے میں دکھائی دیتے ہیں، صارفین کا کہنا ہے محسن پاکستان کے انتقال کے بعد ایسے پراپیگنڈے سے ملک و قوم کا سر جھکانے کے مترادف ہے۔ مطیع اللہ جان نے کہا ہے کہ ایسےا نکشافات صرف کسی بہت ہی باوثوق اور گہری تحقیقات کے بعد ہی کیے جاسکتے ہیں، کیا آپ کے بیان کے پیچھے ایسی کوئی تحقیق ہے؟ ہوسکتا ہے کسی نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو بدنام کرنے کی سازش رچائی ہو۔ صائمہ ارشد نے کہا ہےکہ نواز شریف کے ٹکڑوں پر پلنے والے صحافی ایسی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ صارفین نے شدید الفاظ میں سرل المیڈا کے بیان کی مذمت کی اور انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ڈان لیکس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق ایسے بیان پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
کیا حسین نواز واقعی سڑک سے روٹی کے ٹکڑے چن رہے ہیں؟ برطانیہ میں تعینات نجی چینل کے صحافی کا دعویٰ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز ان دنوں لندن میں مقیم ہیں اور ایون فیلڈ فلیٹس کیس میں عدالت کو مطلوب ہیں۔ لندن میں مقیم ایک صحافی نے انکی ایک ویڈیو شئیر کی ہے جس میں ویڈیو میں واضح طور پر نظر نہیں آرہا کہ حسین نواززمین سے کیا اٹھارہے ہیں۔لیکن انکا دعویٰ ہے کہ حسین نواز سڑک سے روٹی کے ٹکڑے چن کر ساتھ لے گئے۔ لندن میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے فرید قریشی کے مطابق " حسین نواز نے دفتر کی طرف واک کرتے ہوے زمین پر روٹی کے ٹکڑے پڑے دیکھے تو وہ چُن کر ساتھ لے گئے۔" سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر دلچسپ تبصرے کئے ہیں، ن لیگ کے حامیوں نے اسے نوازشریف کی تربیت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے شریف خاندان کو اسی لئے بہت نوازا ہے کیونکہ وہ رزق کی بہت قدر کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ن لیگ کے مخالف سپورٹرز کا کہنا تھا کہ جو یہ عوام کی روٹی اٹھا کر ساتھ لندن لے گئے ہیں اسکا بھی حساب دیں، کچھ سوشل میڈیا صارفین نے تو اسے سٹنٹ قرار دیا ۔ شہزاد لیاقت نے تبصرہ کیا کہ اور جو 23 کروڑ عوام کی روٹی اٹھا کر ساتھ لے گئے ہیں اس کا حساب بھی تو دیں فرحان منہاج نے تبصرہ کیا کہ صحافت کی نئی معراج کو نظر نہ لگ جائے
ٹوئٹر صارف نے قومی ٹیم کے سابق لیجنڈری کرکٹر کپتان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم سے سفارش کی اپیل کر دی۔ تفصیلات کے مطابق محمد جنید نامی صارف نے مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر ایک سکرین شاٹ شیئر کیا جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صارف کو وسیم اکرم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بلاک کیا ہوا ہے۔ محمد جنید نے صارف نے وسیم اکرم سے اپیل کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وسیم اکرم نے مجھے کیوں بلاک کیا ہے براہ مہربانی مجھے ان بلاک کر دیں۔ ٹوئٹر صارف نے شنیرا سے مخاطب کرتے ہوئے درخواست کی کہ کہ میری سفارش کردیں، شاید آپ کی سفارش سے میری مدد ہوجائے۔ شنیرا اکرم نے محمد جنید کی سفارش کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کوئی منفی ٹوئٹ کیا ہوگا، جس کی وجہ سے وسیم نے آپ کو بلاک کیا ہوگا۔ سابق کپتان کی اہلیہ شنیرا نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ آئندہ سوچ سمجھ کر ٹوئٹ کرنا۔