سیاسی

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا حلف نامہ جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ دوران سماعت دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی ، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں۔ اس دوران میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں ہی نہیں تھے۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔ عدالتی سماعت کا ابتدائی احوال بتاتے ہوئے صدیق جان کا کہنا تھا کہ ایسی ایسی باتیں سامنے آئی ہیں اور انکشافات ہوئے ہیں کہ ہاوس آف شریف کے حامی بھی سکتے میں آگئے.. آج کی سماعت نے پوری گیم کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا انکا مزید کا کہنا کہ اللہ معاف کر! پیسے اور مفاد کی خاطر کوئی کیسے اتنا گر سکتا ہے؟؟؟ صدیق جان کے مطابق رانا شمیم کا بھائی 6 نومبر کو فوت ہوا،اس وقت رانا شمیم امریکہ میں تھے۔امریکہ سے بھائی کا منہ دیکھنے پاکستان آنے کے بجائے نواز شریف کے حکم پر بیان حلفی دینے برطانیہ چلے گئے، مطلب مرے ہوئے بھائی سے نواز شریف زیادہ اہم تھا؟ عدیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں ہی نہیں تھے ، جسٹس عامر فاروق بنچ کا حصہ کیسے ہو سکتے تھے ؟ ان ریمارکس کے دوران کمرہ عدالت میں Pin Drop Silence تھی عدیل وڑائچ کےمطابق چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہ بیان حلفی غلط ہے اسکے قانونی نتائج ہونگے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے گرد اپوزیشن نے گھیرا تنگ کرنے کی ٹھان لی ہے، اپوزیشن کی جانب سے صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے،جس کا مقصد اس بات کا بغور جائزہ لینا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تین سال قبل جن سہاروں کے بل بوتے پر اقتدار میں آئے تھے کیا اب وہ حقیقت میں ان سہاروں سے محروم ہوتے جارہئ ہیں یا اب بھی عمران خان کو ان کی سپورٹ حاصل ہے۔ جنگ نیوز کی خبر کے مطابق خبریں سرگرم ہیں کہ حکومت کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کیلئے اپوزیشن جماعتیں متحرک ہوچکی ہیں، اپوزیشن نے حکومت کیخلاف پارلمینٹ میں اپنی مہم مزید تیز کرنئ کی تیاری کرلی ہے، اور اب اپوزیشن جماعتیں سنجیدگی سے اپنی پارلیمانی حیثیت کا جائزہ لینے کی کوششوں میں ہیں۔ جنگ نیوز کے مطابق اپوزیشن ایک صفحے پر ہونے کے حکومتی دعوے کے تناظر میں حکومت کی تنہائی کو بھی جانچنا چاہتی ہے، جس کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا منصوبہ زیر غور ہے، اور اگر اپوزیشن جماعتیں صادق سنجرانی کو ہٹانے میں کامیاب ہوئیں تو انہیں وزیراعظم کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ صادق سنجرانی کے جانے سے حکومت لازمی طور پر مزید دباؤ میں آجائے گی،لیکن اگر اپوزیشن کسی بھی وجہ سے سینیٹ میں اپنے مقاصد کے حصول شکست کھاتی ہے تو پھر اپوزیشن کا حکومت گرانے کا خواب ادھورا رہ سکتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفد نے وزارت سائنس وٹیکنالوجی کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وفدکو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پربریفنگ دی۔ وفاقی وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز نے ایم کیو ایم وفد کو بریفنگ کے دوران ای وی ایم کے معاملے پر مطمئن کرنے کی کوشش کی تاہم ایم کیو ایم وفد بریفنگ سے مطمئن نہ ہوا جس کے بعد مزید مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی آدھی بریفنگ ہوئی ہے، ووٹنگ مشین پربریفنگ تسلسل سے جاری رہے گی۔ وفاقی وزرا نے ایم کیو ایم اور ووٹنگ مشین بریفنگ پرجواب دینےسےگریز کیا جبکہ ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیوایم نے ای وی ایم ووٹنگ کے معاملے پر حکومت سے مزید وقت مانگ لیا ہے۔۔ ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ ایم کیوایم کے اندرون خانہ مطالبات کچھ اور ہیں اور جلد ہی ایم کیوایم ووٹنگ کیلئے راضی ہوجائے گی۔ خیال رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراض کیا تھا،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا تھاکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے بارے میں یہ خدشہ موجود ہے، یہ مشین جس کے قبضے میں ہوگی، اس میں اسے ٹیمپر کرنے کی بھی صلاحیت ہوگی۔ گزشتہ روز یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ حکومت نے ای وی ایم پر مشترکہ اجلاس طلب کرلیا ہے اور اتحادی بھی ووٹ دینے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعت ق لیگ کے سینئر رہنما کامل علی آغا نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر معاملات طے پاجانے کے حوالے سے حکومتی دعوے کی تردید کردی ہے۔ نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام "فیصلہ آپ کا" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کامل علی آغا نے کہا کہ اس معاملے میں فیصلے کا اختیار اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کو دیا گیا تھا، میرے علم میں نہیں ہے کہ کوئی میٹنگ ہوئی ہے نہ ہی میرے علم میں ایسا کوئی فیصلہ ہے جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہوا تو چوہدری پرویز الہی مجھے اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو ضرور آگاہ کریں گے، پوری پارٹی نے چوہدری پرویز الہی کو فیصلے کا اختیار دیتے ہوئے یہ بھی باور کروادیا کہ حکومت کے اتحاد میں رہنا اب ممکن نہیں ہے کیونکہ عوام کی اذیت بڑھتی جارہی ہے اور عوامی مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب ہم سے عوام کا سامنا کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ کامل علی آغا نے کہا کہ میرے لیے قبل از وقت ہوگا کہ میں تائید کروں کہ حکومت کے ساتھ معاہدے یا مفاہمت کے حوالے سے کوئی فیصلہ ہوگیا ہے، میرے علم میں نہیں ہے تو میں بالکل یہی کہوں گا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ق لیگی رہنما نے کہ فواد چوہدری کے دعوے سے متعلق کہا کہ فواد چوہدری اکثر ایسی باتیں کرتے ہیں پھر خود ہی ان باتوں پر پہرا نہیں دیتے ، مجھے ان کی کسی بات پر یقین نہیں ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے ووٹنگ میں شریک ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں کامل علی آغا نے کہا کہ گزشہ روز ہونے والے پارٹی اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ یہ حکومت اصل عوامی مسائل کے بجائے دوسرے معاملات پر اپنی صلاحیتیں صرف کررہی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے انکشافات پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت تمام متعلقہ افراد کو طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اجلاس 22 نومبر کو طلب کیا ہے، جس کا ایجنڈا جاری کردیا گیا ہے، ایجنڈے کے مطابق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جاوید لطیف نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے انکشافات معاملے پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سمیت تمام متعلقہ افراد کو طلب کرلیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے سابق چیف جج رانا شمیم کو بھی اس معاملے پر وضاحت کے لئے آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔ کمیٹی ایجنڈا کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل 2021 پر بھی غور کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان کی سپریم ایپلٹ کورٹ کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کے حوالے سے نشر کی جانے والی خبر پر ردعمل دیتے ہوئے اسے اللہ کا انصاف قرار دیدیا ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ پر مریم نواز شریف نے اپنی ٹویٹ میں ایک تصویر پوسٹ کی جس میں نواز شریف آسمان کی جانب نظریں اٹھائے دکھائی دے رہے ہیں، اسی تصویر میں چیف جسٹس گلگت بلتستان سے منسوب کیے جانے والے حلف نامے کی نقل اور صحافی انصار عباسی کی خبر کی سرخی بھی شامل کی گئی۔ اسی تصویر کے اوپر قرآن کی آیت "ان اللہ مع الصبرین" بھی درج تھی اور اس کے نیچے نواز شریف کا ماضی میں دیا گیا ایک بیان جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ مریم نواز شریف نے یہ پوسٹر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ "اس شخص سے ڈرنا چاہیے جو صبر کرے اور اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دے ، اس میں ظالموں کیلئے بہت بڑا سبق ہے"۔ اس سے قبل مریم نواز شریف نے اس خبر کے حوالے سے اپنی ٹویٹ میں نواز شریف کی ایک خوش و خرم تصویر شیئر کی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کیا آپ جانتے ہیں اصل خوشی کیا ہوتی ہے، کہ آپ کو اپنی زندگی میں ہی کسی لگائے گئے الزام سے بری قرار دیدیا جائے ۔ واضح رہے کہ خبررساں ادارے دی نیوز کے صحافی انصار عباسی کی ایک خبر نے ملک کے سیاسی منظر نامےپر ہلچل مچادی ہے، خبر میں سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان محمد شمیم کا ایک حلف نامہ شامل کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان نے ان کے سامنے فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت الیکشن سے قبل نہ دینے کی ہدایات دیں۔
کیا سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان نے لندن میں بیٹھ کر شریف خاندان کے ایماء پر بیان حلفی دیا؟ بیان حلفی کو لیکر سوشل میڈیا پر اہم سوالات اٹھ گئے۔ وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر شہبازگل کا کہنا ہے کہ سابق چیف جسٹس کا بیان لندن سے نوٹرائز ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے اس پر کہا کہ حالات چیک کر لیں زرا بھگوڑے مجرم کو بچانے کی کوشش کرنے والے شمیم صاحب کا بیان حلفی بھی لندن سے نوٹرائزڈ ہوا ہے ۔ شہباز گل نے سوال کیا کہ کیا شمیم صاحب نواز شریف کے خرچے پر لندن میں رہائش پذیر ہیں ؟ ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے صحافی اظہر جاوید کا کہنا تھا کہ سابق چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی انہوں نے یہ بیان لندن میں دس نومبر کو اوتھ کمشنر نوٹری پبلک کے سامنے ریکارڈ کروایا یہ حلفیہ بیان برطانوی قوانین کے مطابق مصدقہ دستاویز اور کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ن لیگ کے ایک اور حامی سمجھے جانیوالے صحافی نے دعویٰ کیا کہ رانا شمیم کی اہلیہ امریکا میں زیر علاج تھیں اور امریکا سے واپسی پر لندن میں قیام کے دوران سابق چیف جج نے جن لوگوں کے متعلق یہ سچ تھا انکے روبرو بیان کر کے حلفیہ اقرار کیا اس حلف نامے پر سب سے پہلے سوال صحافی عدیل وڑائچ نے اٹھایا، عدیل وڑائچ کا اس پر کہنا تھا کہ کیسا حسین اتفاق ہے کہ جسٹس ثاقب نثار پر الزامات لگانے والے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس نے لندن جا کر بیان حلفی دیا ہے، لندن کے نوٹری پبلک کی مہر بیان حلفی پر موجود ہے نواز شریف اور جج رانا شمیم کے حلف نامے لندن کے چارلس گوتھری نامی ایک ہی پبلک نوٹری سے تصدیق یافتہ ہیں۔نوازشریف کے پرانے حلف نامے میں ڈیوڈ لارنس کے ذاتی معالج ہیں جس کی نوازشریف نے اگست 2020 میں رپورٹ ارسال کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے بعد صورتحال معمول پر آنے کے بعد نواز شریف کے دل کا علاج ہونا ہے۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف ایک معمر شخص ہیں اور ان کا کورونا وائرس کے دنوں میں باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے وہ نواز شریف کو لندن میں مقیم رہنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ ان کا مناسب علاج ممکن بنایا جا سکے۔ اس حلف نامے کی لندن سے تصدیق کی گئی ہے جسے چارلس ڈروستان گوتھری ایل ایل سی نے تصدیق کروایا اور اس کمپنی کی اس پر مختلف مہریں لگاکر تصدیق کی گئی ہے۔ یہ لندن والے حلف نامہ میں جسٹس عامر فاروق کا جو ذکر کیا گیا، لیکن ہم بات یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے جو بنچ تھا اس میں جسٹس عامر فاروق شامل ہی نہیں. اس پر ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال اٹھایا کہ آخر جج صاحب کا ضمیر لندن میں ہی کیوں جاگا؟ مجاہد حسین کا کہنا تھا کہ عام لوگوں کا ضمیر سعودی عرب میں جبکہ اشرافیہ کا لندن میں جاگتا ہے۔ سابق جسٹس رانا شمیم کا ضمیر بیقرار ہوا تو وہ لندن بھاگے اور وہاں کے نوٹری پبلک کے سامنے بیان حلفی دے دیا۔ نواز شریف کی دولت کیسے کیسے کرشمے دکھاتی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ عمران خان اب بھگتو نوازشریف کو جانے دیا اب وہ لندن میں بیٹھا سازشیں کررہاھے سابقہ ججوں کو بلاکر کہتا ھے میرے حق میں بیان حلفی لکھ کر دو اقتدار ملا تو مالامال کردوں گا آنے والی نسلیں بھی موج کریں گی اسی کی مثال سابقہ جج شمیم بھی ھے جس نے لندن میں بیان حلفی لکھ کردیا ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ جج شمیم صاحب کا بیان حلفی بھی لندن سے آگیا ہے لیکن وہ پھر بھی نہیں آیا جو کی دوائی لینے گیا تھا ،چور داڑھی میں تنکا ضرور ہوتا ہے میاں صاحب ججوں کو استعمال کررہے ہیں۔ اس پر قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ لندن سے آیا یہ حلف نامہ بھی شریف خاندان کو ریلیف نہیں دے سکے گا، سابق چیف جسٹس شمیم کو خود عدالت کے سامنے پیش ہونا ہوگا اور بیان دینا ہوگا جبکہ اسکے جواب پر ثاقب نثار اپنا دفاع پیش کریں گے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت بیان حلفی دینے والے سابق چیف جسٹس سے ثبوت بھی مانگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان نے عدالت کے روبرو کئی ثبوت پیش کئے تھے جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا ، انہیں بھی نوٹری اور سفارتخانے سے تصدیق کیا گیا تھا جبکہ قطری خط بھی عدالت نے مسترد کردیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق گلگت بلتستان کورٹ کے سابق جج کے انکشافات کے بعد معاملے کا نوٹس لے لیا۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ہائیکورٹ کے جج کا نام آنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کچھ دیر میں نوٹس پر سماعت کریں گے۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو حکم دیا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ عدالت یہ خبر دینے والے صحافی دی نیوز کے عہدیدار انصار عباسی کو بھی عدالت میں طلب کر لے۔ جب کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنا موقف دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے ماتحت ججوں کو کسی بھی عدالتی فیصلے کے حوالے سے کوئی احکامات نہیں دیئے چاہے وہ آرڈر نواز شریف، شہباز، مریم کیخلاف ہو یا کسی اور کیخلاف ہو۔ ثاقب نثار نے یہ بھی کہا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کا بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، رانا شمیم کو شائد ایکسٹینشن نہ ملنے کا غصہ ہے، انہوں نے پاکستان کے دائرہ کار میں فعال نہ کرنے والے کچھ فیصلے دیئے تھے جنہیں میں نے اڑا دیا تھا شاید یہ وجہ ہو سکتی ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین جس کے ہاتھ میں ہو گی وہ اس میں ردوبدل بھی کر سکے گا، خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینیئر خالد مقبول صدیقی نے جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے متعلق سے متعلق یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ یہ مشین جس کے ہاتھ یا قبضے میں ہو گی وہ اس میں ردوبدل یا ٹمپرنگ کر سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مشین وزارت اطلاعات نے نہیں بلکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بنائی تھی، مگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ مشین جس کے پاس ہو گی وہ اس میں نتائج سمیت سب کچھ ٹمپر کر سکے گا۔ خالد مقبول صدیقی کے علاوہ پروگرام میں فواد چودھری نے بتایا تھا کہ اس مشین کا سارا بل ایم کیو ایم نے بنایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق نے اسے منظور کیا تھا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یہ بھی کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بل تو سارا کا سارا ایم کیو ایم کا بنایا ہوا ہے، اسے ان کے وزیر فروغ نسیم نے ڈرافٹ کیا جبکہ ووٹنگ مشین سے متعلق تکنیکی امور پر کام آئی ٹی کے وزیر امین الحق نے کیا اور دونوں کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔
روزنامہ جنگ میں اپنے آرٹیکل میں انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں! انصار عباسی کے مطابق یہ قیاس آرائیاں جارہی ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد پیش آنے والے واقعات اور حالات کے نتیجے میں عمران خان اپنی بڑی حمایت کھو چکے ہیں اور اب یہ چند ماہ کی کہانی رہ گئی ہے کہ حکومت شاید چلی جائے۔ سینئر صحافی انصار عباسی کا مزید کہنا تھا کہ حکمران اتحاد میں دراڑیں پڑنے اور پی ٹی آئی میں اندرونی طور پر فیصلے نہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے عمران خان حکومت کو فی الحال ایسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو انہیں پہلے کبھی درپیش نہ تھے۔ انکے مطابق تحریک انصاف کے 2 اتحادیوں ق لیگ اور ایم کیوایم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے معاملے پر تحفظات ہیں، پی ٹی آئی کے کچھ اراکین کو بھی تحفظات ہیں اور کئی ارکان الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے انتخابی اصلاحات کے بل پر ووٹنگ کیلئے غیر حاضر تھے یا حامی نہیں تھے اور اجلاس ملتوی کیے جانے سے ایک گھنٹہ قبل ہی وزیراعظم کو اپنی پارٹی کے ارکان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ اس بل کو سنجیدہ لیں اور جہاد سمجھ کر اسے پارلیمنٹ سے منظور کرائیں مسلم لیگ (ق) کے لیڈر پرویز الٰہی نے ق لیگ کے اندر عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کیخلاف بڑھتی ہوئی شکایات پر بات کرنے کیلئے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ انصار عباسی نے اس صورتحال کو ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے بعد چند ہفتوں کے اندر پیدا ہونے والے تنازع کو قرار دیا ، انکے مطابق اس صورتحال نے تقسیم شدہ اپوزیشن کو موقع فراہم کیاہے کہ وہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر ممکنہ طور پر ایسی مشترکہ سٹریٹجی بنائیں جس سے عمران حکومت کو چلتا کیاجا سکے۔ انصار عباسی نے بلاول بھٹو زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور خورشید شاہ، شہبازشریف ملاقات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس نہیں آئی، اپوزیشن جماعتیں مل کر پارلیمنٹ میں سوچ بچار کر رہی ہیں۔ سینئر صحافی کے مطابق بگڑتی معاشی صورتحال، مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مزید بے قدری اور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مثبت نتیجہ آنے میں تاخیر کی وجہ سے عمران خان بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہیں اور انہوں نے جمعہ کے روز تحریک انصاف کی کور کمیٹی بلاکر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا اور نئی حکمت عملی مرتب کی۔ انصار عباسی نے اپنے آرٹیکل میں کامران خان کے ویڈیو لاگ کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان صاحب میری کوشش رہی عوام کی امیدیں قائم رہیں ، تبدیلی کے وعدے پورے کرنے میں آپکی حوصلہ افزائی کرتا رہوں لیکن اب میں تھک رہا ہوں،آپ سے جڑی امیدیں مدھم پڑ گئیں ہیں۔ کامران خان کا مزید کہنا تھا کہ ،آپ کے خوشامدیوں میں سے کسی نہیں بتایا تو میں بتا دیتا ہوں کہ آپ کی حکومت خطرناک بھنور میں پھنس چکی ہے،خطرہ ہےکہ کنارہ لگنے سے پہلے کشتی ڈوب جائے گی،آپ کپتان ہیں،اسے ڈوبنے سے بچائیں،کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں،چالیس ماہ گذر گئے، بہتری کیا آتی،ہر گزرتاہفتہ بگاڑ میں اضافہ کررہا ہے۔ کامران خان نے اپنے بیان میں ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے معاملے میں تنازع کا بھی حوالہ دیا کہ یہ عمران حکومت کی سب سے بڑی غلطی تھی اور کہا کہ فوج عمران خان کی حمایت کیلئے اب بھی موجود ہے لیکن عوام مہنگائی کی چکی میں پس چکے ہیں۔ جنگ کے ہی ایک اور صحافی فاروق اقدس نے دعویٰ کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں واقعتاً تبدیلی آ رہی ہے بلکہ خاصی حد تک آ چکی ہے۔ کچھ ہونے کا تاثر ہے اور وزراء گھبراہٹ کا شکار۔۔کچھ دن پہلے تک جو حکومتی وزراء یہ دعویٰ بڑے یقین اور اعتماد سے کررہے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئندہ پانچ سال میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکمرانی کرے گی، اب ان کے اس بیان میں بھی اعتماد کا فقدان محسوس ہوتا ہے ۔ انکے مطابق اسلام آباد میں سفارتی کمیونٹی نے اب اپنے غیر اعلانیہ اور سیاستدانوں سے اعلانیہ رابطے فی الوقت روک دیئے ہیں
پیپلزپارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی، خورشیدشاہ اور شہبازشریف نے اہم کردار ادا کیا خبررساں ادارے اے آر وائے کے مطابق پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں واپسی پرراضی ہوگئی، شہبازشریف اور خورشیدشاہ نے پی پی کی اس اتحاد میں واپسی کیلئے اہم کردارادا کیا۔ شہباز شریف اور خورشید شاہ نے فضل الرحمان اور پی پی میں صلح کرائی، سربراہ پی ڈی ایم اور خورشید شاہ میں ہونیوالی ملاقات نے ناراضگیاں دور کر دیں۔ نجی چینل کا دعویٰ ہے کہ خورشیدشاہ فارمولے پر عملدرآمد کے لیے شہباز شریف متحرک ہیں۔ اب پی ڈی ایم ان ہاؤس چینج، لانگ مارچ ،استعفوں پرمرحلہ وار عمل کرے گی جبکہ عمران خان حکومت کو مزید وقت نہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر نواز شریف وطن واپس آ جائیں گے۔ ن لیگ کا مزاحتمی گروپ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم میں واپسی پرخوش نہیں، بلاول بھٹو اور پیپلزپارٹی نے نوازشریف کو بےجا تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسلم لیگ ن کے مزاحمتی گروپ کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی بیماری کا حکومت اور پیپلز پارٹی نے مذاق بنایا تھا۔ یاد رہے کہ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان آج ملاقات طے پاگئی ہے ، جس میں حکومت مخالف تحریک اور مہنگائی کے بعد کی صورتحال پر بات چیت ہوگی۔
متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لانے کے لئے حکومت کے اپوزیشن سے رابطے، اپوزیشن نے مذاکرات کیلئے نئی شرط رکھ دی۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی کے لئے اپوزیشن اراکین سے رابطے شروع کردیئے ہیں جس پر اپوزیشن نے مذاکرات کے لئے قانون سازی کی تحریری تفصیلات فراہم کرنے کی شرط رکھ دی۔ اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو اپوزیشن سے پھر رابطے کی ہدایت دی گئی تھی، اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی خصوصی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کی، ملاقات کے دوران اپوزیشن نے اپنے تحفظات اور شرائط سے آگاہ کیا اور کہا کہ پہلے مشترکہ اجلاس میں پیش کئے جانے والے بلوں کی مکمل تحریری تفصیلات فراہم کی جائیں پھر مذاکرات شروع کریں گے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے رابطے شروع کردیئے ہیں، اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطوں میں ہیں، اتحادی جماعتوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اسپیکر کو اپنے موقف سے آگاہ کردیا ہے،اپوزیشن کو جلد تحریری طور پر اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس سے قبل خواجہ سعد رفیق، خورشید شاہ اور شاہدہ اختر علی نے مسلم لیگ ق کے وفد سے ملاقات کی ہے، مسلم لیگ ق کی جانب سے اپوزیشن سے تعاون پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے مسلم لیگ ق سے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے اور انتخابی اصلاحات بل کی حمایت نہ کرنے کی درخواست بھی کی، جس پر ق لیگ نے انتخابی اصلاحات بل کی حمایت سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بتایا کہ انتخابی ‏اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کررہے ہیں کہ اتفاق رائے پیدا ہو۔
اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور‬‎ شروع کر دیا ہے، اپوزیشن نے حکومتی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے شروع کردیئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے مرحلہ وار تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے تجویز پیش کی گئی کہ اِن ہاؤس تبدیلی مرحلہ وار لائی جائے جس میں پہلے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک لائی جائے گی بعد ازاں سینیٹ میں کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ لائحہ عمل کے لئے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی اہم ملاقاتیں جاری ہیں، خواجہ سعد رفیق، خورشید شاہ اور شاہدہ اختر علی نے مسلم لیگ ق کے وفد سے ملاقات کی ہے، مسلم لیگ ق کی جانب سے اپوزیشن سے تعاون پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے مسلم لیگ ق سے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے اور انتخابی اصلاحات بل کی حمایت نہ کرنے کی درخواست بھی کی، جس پر ق لیگ نے انتخابی اصلاحات بل کی حمایت سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد صوبائی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔
سانحہ اے پی ایس کیس میں وزیراعظم عمران خان کی سپریم کورٹ میں طلبی اور ان کے دلائل پر سینیئر تجزیہ کار اپنے تجزیئے پیش کررہے ہیں،ڈان نیوز کے پروگرام نیوز آئی میں سلیم صافی نے بھی اظہار خیال کردیا۔ سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان نے عدالت میں غلط بیانی کی، عمران خان نے کہا کہ وہ پہلے دن سے مشرف حکومت کی پالیسی کیخلاف تھے،یہ تاریخی طور پر جھوٹ ہے، کیونکہ پرویز مشرف کا اپنا فیصلہ تھا امریکا کا انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے کا۔ سلیم صافی نے کہا کہ دوہزار دو کے الیکشن تک عمران خان پرویز مشرف کے بھرپور حامی رہے،ریفرنڈم میں ان کے لئے ووٹ بھی مانگا، اور یہ بیان بھی ریکارڈ ہے کہ پروزیرمشرف اور ان کی حکومت کے پاس امریکا کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان نے عدالت میں ڈرون حملوں کی مخالفت کا بہت ذکرکیا تو سانحہ اے پی ایس کا جو ماسٹر مائنڈ تھا عمر منصور ان کو امریکیوں نے افغانستان میں ڈرون حملے میں مارا تھا،باقی پانچ کو عدالتوں سے سزاملی،ملافضل اللہ ڈرون حملے میں مارے گئے،حکیم اللہ محسود،بیت اللہ محسودڈرون حملے میں مارے گئے،ٹی ٹی پی کو اگر کسی نے نقصان پہنچایا تو وہ ڈرون حملے نے پہنچایا،خان صاحب ڈرون حملوں کے خلاف اپنی مہم کا کریڈٹ لینا چاہ رہے تھے مجھے سمجھ نہیں آرہا خان صاحب کس کے ساتھ ہیں۔ سلیم صافی نے کہا کہ عدالت میں پیش ہونے سے زیادہ اہمیت فیصلوں کی ہوتی ہے، سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے ہم سب غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں، ہم یہ دیکھیں گے فیصلہ کیا آتا ہے،اس سانحے کے بعد سب نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا کہا تھا،اس وقت کے پی میں عمران خان کی حکومت تھی لیکن انہوں نے کمیشن نہیں بنایا،ہائیکورٹ کے حکم پر کمیشن بنایا گیا۔ابھی تک یہ معاملہ زیرسماعت ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے وزیر اعظم سے استفسار کیا کہ کیا سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے اور اس سانحہ میں جاںبحق بچوں کے ورثا نے اس وقت کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی کیا اس بارے میں کچھ ہوا؟ اس پر وزیر اعظم نے پہلے تو یہ جواب دیا کہ اس وقت تو ان کی مرکز میں حکومت ہی نہیں تھی اور پھر یہ معاملہ عدالت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے کوئی مقدس گائے نہیں ہے اور اگر عدالت اس بارے میں حکم دے تو اس پر عمل درآمد ہو گا۔ وزیر اعظم نے عدالت سے اپیل کی کہ ان ذمہ داروں کے تعین کے لیے بھی احکامات جاری کرے جنھوں نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اور جس کے اثرات دہشت گردی کی صورت میں ملک پر پڑے اور 80 ہزار پاکستانیوں کی جانوں کا ضیاع ہوا۔
جمعے کے روز انتخابی اصلاحات اور دیگر اہم معاملات پر بات چیت کیلئے بلایا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مؤخر کردیا گیا ، میڈیا رپورٹ میں اجلاس مؤخر ہونے کی وجوہات سامنے آگئیں۔ خبررساں ادارے دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق اجلاس موخر کرنے سے متعلق اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق حکومت کے اپنے اتحادی بھی انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ کے معاملے پر مطمئن نہیں تھے اور اتحادی جماعتوں نے حکومت سے اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ کا مطالبہ کررکھا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومت اور اتحادی جماعتوں کے ظہرانے میں وزیراعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر سب کو اعتماد میں لیا، تاہم اتحادیوں کی جانب سے اس معاملے پر اعتماد کا اظہار کرنے کے بجائے وقت مانگ لیا ۔ اتحادیوں کی جانب سے اس معاملے پر وقت مانگنے کےبعد حکومت نے مشترکہ اجلاس کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس کا اعلان وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹویٹ کے زریعے کیا ۔
اہم حکومتی اتحادی ایم کیوایم کا وزارت چھوڑنے پر غور، جمہوریت کی خاطر پی ٹی آئی اتحاد برقرار رہے گا، وسیم اختر کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما وسیم اختر نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ہر لمحہ پرجوش میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت ایم کیوایم پاکستان وفاقی حکومت کی جانب سے ملنے والی وزارت چھوڑنے پر غور کر رہی ہے مگر وزارت چھوٹنے کی صورت میں بھی وہ جمہوریت کی خاطر پی ٹی آئی کے اتحادی رہیں گے۔ سابق میئر نے کہا کہ وزارت چھوڑنے کے معاملے پر بڑی دیر سے غور کیا جا رہا ہے کیونکہ جن وجوہات کی بنا پر اتحاد ہوا تھا ان مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا ہم نے کراچی شہر اور پارٹی مسائل کی وجہ سے حکومت سے اتحاد کیا تھا مگر شہر کے مسائل حل نہیں ہوئے مردم شماری کو لے لیں یا حیدرآباد یونیورسٹی کا معاملہ کسی وعدے کو پورا کرنے کیلئے کام نہیں ہوا۔ وسیم اختر نے کہا کہ ایسی صورتحال میں حکومت کے ساتھ رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اس لیے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ سے الگ ہو جائیں مگر جمہوریت کی خاطر حکومت کا ساتھ دیں گے، انہوں نے بتایا کہ ہماری جانب سے بارہا ان مسائل کا ذکر کیا گیا ہے مگر وفاق کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے عثمان بزدار کی کارکردگی کو شہباز شریف سے بہتر کہا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں تحریک انصاف کی کارکردگی صفر ہے، ہمارا حکمران جماعت کے ساتھ اتحاد وقت کی ضرورت تھی۔ وسیم اختر نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے کراچی کیلئے جس 1100 ارب کے پیکج کا اعلان کیا گیا تھا اس میں سے صرف 5 ارب کراچی کو ملے ہیں۔ آنے والے وقت میں ملکی سیاست سے متعلق وسیم بادامی کے سوال پر وسیم اختر نے کہا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ابھی کسی کا نام وزیراعظم کیلئے لیا جائے تو یہ قبل از وقت ہو گا کیونکہ عوام جسے چاہیں گے ووٹ دے کر آگے لے آئیں گے ابھی کسی کا نام نہیں لیا جانا چاہیے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کی تنقید پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کیلئے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھراگھونپا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کے بغیر بحال اور عمل میں ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پی پی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لئے پی ڈی ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے جبکہ جس روزسینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا تھا اس روز پی پی جاتی عمرہ میں موجود تھی۔ حافظ حمداللہ کا پیپلز پارٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قمرزمان کائرہ اور پیپلز پارٹی نے ایک ٹکٹ میں دومزے لینے کی کوشش کی ہے، کیا یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے ووٹوں سے سینیٹر نہیں بنے؟ پی پی پی نے صادق سنجرانی کو جتوایا اور غفور حیدری کو ہروایا، کیا ایسا نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پیپلز پارٹی حکومت کی نہیں اپوزیشن کی مخالفت کررہی ہے، اگر پیپلز پارٹی واپس آناچاہتی ہے تو مولانافضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی دیگر قیادت سے رجوع کرنا ہوگا، مہربانی کریں یہ مناسب نہیں کہ جس تھالی میں کھایا جائے اس میں چھید نہیں کر رہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر میں اپوزیشن رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہوا تھا جہاں پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے پی ڈی ایم اور مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے بعد پی ڈی ایم ختم ہو چکی ہے، ن لیگ مان جاتی تو پنجاب میں عدم اعتماد سے حکومت فارغ ہو چکی ہے۔انہوں نے مزید کا تھا کہ ن لیگ بیک ڈور رابطوں کا سلسلہ بند کرے۔
سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آج قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ کےدوران تصدیق کی گئی کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں ، تاہم یہ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے میزبان ارشد شریف کے سوالوں کے جوابات دیئے۔ شاہد خاقان عباسی نے نے محتاط انداز میں سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کی نوعیت بیان کرنا ممکن نہیں ہے، ویسے بھی سوالات کے بجائے اس میٹنگ میں سب نے اپنی آراء کا اظہار کیا۔ انہو ں نے بتایا کہ اجلاس میں 40 منٹ ڈی جی آئی ایس آئی نے افغانستان کی بدلتی صورتحال، اسٹرٹیجک ایشوز اور ٹی ٹی پی سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی جس کے بعد 4 سے 5 گھنٹوں تک سوالات اور تقاریر کا سلسلہ جاری رہا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ ایک اچھی بیٹھک تھی جس میں کھل کر تمام معاملات پر بات چیت ہوئی ، مجھے امید ہے کہ آج کے اجلاس سے حکومت کیلئے ایک سمت کا تعین ہوجائے گا، ویسے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ حکومت کسی کی سنتی نہیں ہے، اجلاس میں حکومت کے 7،8وزراء کی تقاریر سے یہ تاثر ملا کہ وہ اس بریفنگ کے معاملات سے ناآشنا ہیں اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس بریفنگ میں ہونے والی گفتگو پہلی بار سن رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ ابھی مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں اور یہ معاملہ پارلیمان میں ہی حل کیا جائے گا اور پارلیمان ہی ٹی ٹی پی سے معاہدے کے محرکات کا تعین کرے گی۔
گیلپ پاکستان کا نیا سروے۔۔ 54 فیصد تاجروں کا کاروباری صورتحال پر اظہار ِاطمینان گیلپ پاکستان کے نئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مہنگائی کی شرح اس قدر بڑھنے کے باوجود بھی ملک کے 54 فیصد تاجر موجودہ صورتحال پر مطمئن ہیں، جبکہ آنے والے وقت کے لحاظ سے تاجروں میں غیر یقینی پائی جاتی ہے بلکہ ماضی کے مقابلے اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جب کہ رپورٹ کے مطابق ملک میں اچھے مستقبل سے مایوس تاجروں کی تعداد 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ گیلپ پاکستان کے بزنس کانفیڈنس انڈیکس کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طبی سامان کی خرید و فروخت کرنے والے سب سے زیادہ مطمئن دکھائی دیئے ہیں اور ان کی تعداد 68 فیصد ہوگئی ہے۔ اس طرح خدمات کا شعبہ بھی 64 فیصد تک مطمئن نظر آیا ہے۔ گیلپ پاکستان کے میں سروے میں 580 شعبوں کی آرا شامل کی گئیں۔ جس سے سامنے آنے والی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملکی سمت کو درست نہ سمجھنے والوں کی شرح میں بھی 22 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بھارت میں پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافہ، بھارتی جماعت کانگریس مودی سرکار پر برس پڑی، پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں خطے میں سب سے کم قرار دیدیں۔ تفصیلات کے مطابق بھارتی جماعت کانگریس نے بھارت اور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ایک موازنہ پیش کیا ہے اور مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی جھوٹ بول سکتی ہے، اعدادوشمار جھوٹ نہیں بولتے۔ بھارت کی دوسری بڑٰ جماعت کانگریس کے جاری کردہ اعدادوشمار کےمطابق بھارت میں پٹرول کی قیمتیں بھارتی کرنسی میں 108روپے 42 پیسے ، ڈیزل کی قیمتیں 80 روپے 6 پیسے ہیں جبکہ پاکستان میں پٹرول 60 روپے اور ڈیزل 58 روپے ہے۔ کانگریس کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں سری لنکا میں پٹرول 68 روپے، افغانستان میں 62 روپے، بنگلہ دیش میں 77 روپے 7 پیسے، نیپال اور بھوٹان میں 81 روپے کا ہے۔ کانگریس کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اور بھارت میں پٹرول کی قیمتوں کا فرق 48 روپے بنتا ہے۔ اس موقع پر کانگریس نے ایک ہیش ٹیگ "بی جے پی کو شکست دیکر انڈیا کو بچائیں" بھی چلایا۔ اس پر پبلک نیوز کے صحافی عدیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ بھارت میں اپوزیشن کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے، خطے میں پاکستان کی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیسی ہیں آپ خود دیکھیں ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ لو جی پاکستانیوں اب بھارت میں بھی پاکستان کی مثال دی جارہی ہے۔