خبریں

لاہور: وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف فورسز کامیابی سے کارروائیاں جاری رکھیں گی، تاہم اصل چیلنج علیحدگی پسند دہشت گردوں کا بیانیہ ہے، جو صوبے میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میر خلیل الرحمان میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف فورسز کامیابی سے لڑ رہی ہیں، اور یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ناراض بلوچ" کی اصطلاح پنجاب کے بعض دانشوروں کی طرف سے استعمال کی جا رہی ہے، جو حقیقت سے ہٹ کر ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ دہشت گرد صرف انتشار اور فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کا اسلام یا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے خاص طور پر اُن خواتین کا ذکر کیا جن کے بیٹے اور شوہر بسوں سے اُتار کر مارے گئے، اور کہا کہ وہ ان خواتین کے ساتھ ہیں، لیکن ان خواتین کے ساتھ نہیں کھڑے جو مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اگر دوبارہ منظم ہونے کا موقع پائیں گے تو وہ پاکستان کو بندوق کے زور پر توڑنے کی کوشش کریں گے، تاہم لڑائی ریاست نے نہیں، بلکہ ان دہشت گردوں نے شروع کی تھی۔ سرفراز بگٹی نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل نوجوانوں کو وسائل فراہم کرنا اور میرٹ پر نوکریاں دینا ہے۔ جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کی بات دل سے کی ہے اور بلوچستان میں صرف دو یا تین فیصد افراد ملک توڑنے کے خواہش مند ہیں، جو کہ حقیقت میں ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کی ضرورت ہے، جو کہ پہلے سے جاری ہے۔ سرفراز بگٹی کا یہ مؤقف تھا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل ترقی میں ہے، اور اس میں نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کرنا شامل ہے۔
لاہور: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں معدنیات اور کان کنی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور 60 ممالک کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور ترقی کا حصہ بنیں۔ وزیراعظم نے لاہور میں منعقدہ ہیلتھ انجینئرنگ اینڈ منرلز شو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار دوست ماحول فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ وقت پاکستان میں معدنیات کے شعبے میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اب ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے، معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہیں، اور عالمی سطح پر پاکستان کے چین، افریقہ، یورپ اور امریکا سے مضبوط کاروباری اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ وزیراعظم نے ملکی معاشی اشاریوں میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی شرح جو پہلے 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی، اب سنگل ڈیجٹ میں آ چکی ہے۔ اسی طرح پالیسی ریٹ ساڑھے 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد ہو گیا ہے، جو کہ معیشت کی بحالی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت جیسے جدید شعبوں میں مہارت حاصل کر رہے ہیں، اور یہی ہمارا اصل اثاثہ ہیں۔ انجینئرنگ، زراعت اور معدنیات کے شعبے میں پاکستان کے پاس بے پناہ پوٹینشل موجود ہے، جسے بروئے کار لا کر ہم ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے تقریب کے انعقاد پر وزیرِ تجارت اور متعلقہ اداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس ایونٹ میں دنیا بھر سے ماہرین اور سرمایہ کاروں کی موجودگی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے نمائش میں لگائے گئے زرعی مشینری، قیمتی پتھروں، ادویات اور دیگر مصنوعات کے اسٹالز کو بھی سراہا۔ شہباز شریف نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بہترین کام کر رہے ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو قدرت نے بیش بہا معدنی وسائل سے نوازا ہے، جنہیں بروئے کار لا کر پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔ آخر میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو جدت، تحقیق اور ترقی کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلا جا سکے، اور اس کے لیے حکومت مکمل طور پر پرعزم ہے۔
ٹھٹہ: وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کھیئل داس کوہستانی ٹھٹہ سے کراچی جا رہے تھے کہ اسی دوران کچھ شرپسندوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ وزیر مملکت نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سجاول کی جانب روانہ تھے کہ ایک قوم پرست جماعت کے درجن بھر کارکنان نے اچانک ان کی گاڑی پر حملہ کیا، جن کے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے تھے اور وہ کینالوں کی تعمیر کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ کھیئل داس کوہستانی نے کہا کہ جیسے ہی حملہ کیا گیا، ان کے ڈرائیور نے فوراً گاڑی نکالی، تاہم حملہ آوروں نے ان کے قافلے میں موجود دیگر گاڑیوں پر بھی حملہ کیا۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ حملے کے دوران گاڑیوں پر پتھراؤ اور ڈنڈوں سے حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں ان کے کچھ ساتھی زخمی ہو گئے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ کھیئل داس نے کہا کہ یہ حملہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ تھا جس کا مقصد انہیں نقصان پہنچانا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر مملکت کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے وزیر مملکت سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے ہمدردی کا اظہار کیا اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس حملے میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بھی اس حملے کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے رپورٹ طلب کی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے رابطہ کیا اور واقعہ کی تفصیلات معلوم کی ہیں۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ عوامی نمائندوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں اور سندھ حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کرے اور ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے ترجمان اسد عثمانی نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کھیئل داس کوہستانی پر حملہ ٹھٹہ سے کراچی جاتے ہوئے کیا گیا، تاہم ان کے قافلے میں موجود پولیس نے بروقت کارروائی کر کے حملے کو ناکام بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو اس حملے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور پاکستان مسلم لیگ ہاؤس سندھ میں تمام رہنماؤں کو طلب کر لیا گیا ہے تاکہ فوری طور پر حکمت عملی طے کی جائے اور اس معاملے پر پریس کانفرنس کی جائے۔ اس حملے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں نے اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیالکوٹ: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے کھوئی ہوئی قیادت کو دوبارہ تلاش کرنا ہو گا، جو ملکی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے۔ وہ سیالکوٹ میں ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے صنعتکاروں سے خطاب کر رہے تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان میں معاشی اور سماجی مسائل کی بڑی وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں چوتھی اڑان کے لیے تیار ہے، مگر اس کے لیے قومی سطح پر معاشی پالیسیوں کو ترجیح دینا ہو گا، خاص طور پر برآمدات کو قومی ایمرجنسی قرار دے کر پیداواری شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ خطاب کے دوران وزیر دفاع نے ملک میں موجود گداگری کے بڑھتے رجحان کو بھی سنگین مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد فقیر موجود ہیں، جو نہ صرف ملکی ساکھ بلکہ بیرون ملک ویزہ مسائل کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ سعودی عرب میں بھی چھ ہزار افراد پاکستانی وزٹ ویزوں پر جا کر مانگ رہے ہیں، اور دیگر ممالک اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سیالکوٹ میں دو بار گداگروں کو صاف کیا گیا، مگر وہ دوبارہ واپس آ جاتے ہیں۔ انہوں نے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ معیشت کو سنبھالنے میں حکومت کا ساتھ دیں اور ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہا کہ 1 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کے بعد وزارت خزانہ نے بتایا تھا کہ ہمارے پاس ایک کوارٹر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی رقم نہیں ہے، لیکن اس وقت کی قیادت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ملک کی امپورٹ پر اس وقت 4 بلین ڈالر کا خسارہ ہے، جو کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔ انہوں نے ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 2015 میں لگائے گئے پاور پلانٹس میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی، ہر گرام پر چونا لگایا گیا، جس کے اثرات اب بھی ملک بھگت رہا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں اس وقت 533 کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 70 کمپنیاں ایسی ہیں جو 10 ہزار ڈالرز سے زیادہ کی سطح پر کام کر رہی ہیں، یہ مثبت اشاریے ہیں جنہیں بروئے کار لا کر معیشت کو دوبارہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آئی پی پیز کے معاہدوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 90 کی دہائی میں ہونے والے معاہدے جلد ختم ہو رہے ہیں، جبکہ مشرف دور کے پاور پراجیکٹس کے معاہدے 2035 تک چلیں گے۔ خواجہ آصف نے بزنس کمیونٹی کو ملک کا محسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایمانداری سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان سنجیدگی سے اپنی سمت درست کرے، اور اس کے لیے باصلاحیت، دیانت دار اور تجربہ کار قیادت کی واپسی ناگزیر ہے۔
اسلام آباد/راولپنڈی: رواں ہفتے کے آغاز میں ہونے والی اچانک اور شدید ژالہ باری نے دارالحکومت اور گرد و نواح کے شہریوں کو نہ صرف حیران بلکہ مالی لحاظ سے پریشان بھی کر دیا۔ بغیر کسی پیشگی انتباہ کے آنے والے اس موسم نے سینکڑوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، خاص طور پر شیشے، سائیڈ مررز اور چھتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ژالہ باری کے فوراً بعد بڑی تعداد میں شہری اپنی گاڑیوں کی مرمت اور شیشے تبدیل کرانے بازاروں کا رخ کر رہے ہیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ مارکیٹ میں اسٹاک نایاب ہو چکا ہے۔ راولپنڈی کے صدر بازار اور اسلام آباد کے مختلف آٹو مارکیٹوں میں ونڈ اسکرینز کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ دکانداروں کے مطابق عام دنوں میں 15 ہزار روپے میں دستیاب ونڈ اسکرین اب 35 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے، وہ بھی محدود تعداد میں۔ چھوٹے سائز کے شیشے، جو پہلے چند سو روپے میں مل جاتے تھے، اب ایک ہزار روپے سے بھی تجاوز کر چکے ہیں۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق ژالہ باری کے بعد دکانوں پر خریداروں کا رش غیر معمولی ہو چکا ہے، اور کئی دکاندار سپلائی ختم ہونے کے باعث مزید آرڈر لینے سے بھی قاصر ہیں۔ دوسری جانب سپلائرز نے وقتی طور پر نئے آرڈر لینا روک دیے ہیں، جس سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ صدر بازار کے بعض دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت صرف مہنگی یا نایاب گاڑیوں کے شیشے دستیاب ہیں، جن کی قیمتیں 10 سے 15 ہزار روپے تک بڑھ چکی ہیں۔ شہری، جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اب ژالہ باری کے نتیجے میں گاڑیوں کی مرمت پر اٹھنے والے غیر متوقع اخراجات سے مزید پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں آٹو پارٹس اور شیشے کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 30 سے 40 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں متعدد گاڑی مالکان کم قیمت اور دستیاب پرزے حاصل کرنے کے لیے لاہور، گوجرانوالہ اور پشاور جیسے قریبی شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ژالہ باری جیسی موسمی شدت کا تو کوئی علاج نہیں، لیکن حکومت کو مارکیٹ میں مصنوعی مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پر فوری قابو پانا چاہیے۔
اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے قومی معاملات پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، تاہم انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کسی بھی قسم کے گرینڈ الائنس کے امکان کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز عوام پاکستان پارٹی کے خواتین ونگ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے کبھی کسی بڑے سیاسی اتحاد یا گرینڈ الائنس کی بات نہیں کی، البتہ وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے ملک کے مسائل کا حل نکالے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) اور پی ٹی آئی جیسے اہم اپوزیشن گروہوں کے تحفظات کو سننا اور دور کرنا وقت کی ضرورت ہے، تاہم خاص طور پر پی ٹی آئی کو اپنی سوچ اور رویہ بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں قیمتیں کم ہونے کے باوجود حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اضافی آمدنی کو بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کے بجائے لاپتا افراد کے مسئلے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی، کیونکہ بلوچستان کے عوام سڑکیں نہیں، انصاف اور شناخت مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں اور ان کی آوازوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جب تک وہاں احساس محرومی کا خاتمہ اور قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوتی، پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ عباسی نے خبردار کیا کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں میں کمی نہ کرکے بجلی سستی کرنے کا جواز پیش کیا، لیکن اگر عالمی منڈی میں قیمتیں دوبارہ بڑھ گئیں تو حکومت کے پاس بجلی سستی رکھنے کا کیا جواز ہوگا؟ ان کے مطابق معقول اور واضح اقتصادی پالیسیاں ہی مہنگائی سے نمٹنے اور عوام کو ریلیف دینے کا راستہ ہیں۔ نئی نہروں کے منصوبوں پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ منصوبے قابلِ تحسین ہیں، مگر ان کے لیے پانی کی دستیابی ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ انہوں نے سندھ میں اس معاملے پر پیدا ہونے والی بدامنی اور عوامی مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو پانی کی صورتحال اور منصوبوں کی حقیقت سے بروقت آگاہ کرے تاکہ انتشار سے بچا جا سکے۔ شاہد خاقان عباسی نے وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر بھی تنقید کی جس کے تحت وہ معدنیات جیسے صوبائی معاملات پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کو صوبائی خودمختاری کا احترام کرنا ہوگا۔ اس سے قبل عوام پاکستان پارٹی کے خواتین ونگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی اور آئینی بالادستی کے لیے مؤثر سیاسی نمائندگی ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین کو سیاسی میدان میں زیادہ مواقع دیے جائیں تاکہ وہ عوام کی بہتر نمائندگی کر سکیں، اور سیاسی نظام کو مضبوط بنایا جا سکے۔
فیصل آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ کاروباری اداروں پر حملے غیر اسلامی فعل ہیں اور ریاست ان واقعات کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا جو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیصل آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں، اور سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے اداروں پر حملے کسی صورت قبول نہیں کیے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں بین الاقوامی فوڈ چینز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملک بھر میں تقریباً 20 مختلف مقامات پر نجی ریسٹورنٹس پر حملے کیے گئے، جن میں وہ ادارے شامل ہیں جہاں 25 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ جو لوگ پاکستان میں سرمایہ کاری لاتے ہیں، ان پر حملہ آور ہونا نہ صرف معیشت دشمنی ہے بلکہ قومی مفاد کے بھی خلاف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب ان حملہ آوروں کو گرفتار کیا گیا تو وہ فوراً معافی مانگنے لگے۔ وزیر مملکت کے مطابق پنجاب میں تشدد اور توڑ پھوڑ کے مختلف واقعات میں 142 افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ اسلام آباد میں دو واقعات میں 15 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ طلال چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست قانون شکن عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کرے گی اور ملکی امن، روزگار اور سرمایہ کاری کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔
لاہور: پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے کروڑوں روپے کی اسکالرشپس لے کر فرار ہونے والے 12 اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ اساتذہ بیرون ملک پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپس پر گئے تھے، لیکن تعلیمی ادارے میں خدمات دینے کے عوض ان سے معاہدہ کیا گیا تھا جسے انہوں نے نظرانداز کیا۔ تفصیلات کے مطابق ان اساتذہ نے یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 5 سال تک یونیورسٹی میں خدمات فراہم کرنی تھیں، لیکن 56 اساتذہ میں سے 12 نے اسکالرشپ کے بعد یونیورسٹی جوائن نہیں کی۔ اب ان اساتذہ سے اسکالرشپ کی رقم کی ریکوری کے لیے پنجاب یونیورسٹی نے ایف آئی اے کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بلاک کرنے کے لیے وزارت خارجہ کو بھی درخواست کی جائے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل میں 7 اساتذہ ایچ ای سی کی اسکالرشپ اور 5 اساتذہ یونیورسٹی کی اسکالرشپ پر بیرون ملک گئے تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی واپس آ کر اپنی خدمات یونیورسٹی میں دینے نہیں آیا۔ اس کے علاوہ، مختلف اساتذہ کی جانب سے ادھار کردہ رقم کی تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں۔ جی آئی ایس سینٹر کی فرح ستار 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں، جی آئی ایس کے سید محسن علی پر 1 کروڑ 40 لاکھ روپے واجب الادا ہیں، انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی کرن عائشہ نے 1 کروڑ روپے واپس کرنے ہیں، ایم ایم جی کے شعبے کی رابعہ عباد پر 90 لاکھ روپے کا قرض ہے، آئی کیو ٹی ایم کے خواجہ خرم خورشید 84 لاکھ روپے، طہیلی کالج آف کامرس کی شمائلہ اسحاق نے 1 کروڑ 61 لاکھ روپے کی رقم واپس کرنی ہے، سینٹر فار کل ٹیکنالوجی کے عثمان رحیم پر 72 لاکھ روپے واجب الادا ہیں، کالج آف انجینئرنگ کے سلمان عزیز 90 لاکھ روپے، جی آئی ایس کے محمد نواز 72 لاکھ روپے، پی یو سی آئی ٹی کی جویریہ اقبال 60 لاکھ روپے، ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی سیماب آرا کو 1 کروڑ روپے اور سامعہ محمود کو 1 کروڑ 16 لاکھ روپے واپس کرنے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اور مفرور اساتذہ سے رقوم کی فوری ریکوری کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اسکینڈل نے یونیورسٹی کے انتظامی امور اور اسکالرشپ اسکیم کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ انہیں دس مقدمات کی نقول فراہم کی گئی ہیں حالانکہ وہ اس وقت ملک میں موجود ہی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف کی قبر کھودی جارہی ہے اور انصاف کی کشتی ڈوبو دی گئی ہے۔ راولپنڈی میں عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق 36 ہزار کیسز کو چار ماہ میں نمٹانا مشکل ہے، اور یہ مقدمات ان کی زندگی میں نہیں نمٹ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انصاف کو مستحکم کرنے کے لیے صاف اور شفاف ٹرائل ضروری ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، غریبوں کی حالت زار دیکھیں، وہ دن بدن غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنا ناانصافی کے مترادف ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ ان کی اپیل ہے کہ چار ماہ میں کیس کے فیصلے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دس مقدمات کی نقول دی گئی ہیں حالانکہ وہ اس ملک میں موجود ہی نہیں تھے، اور اس طرح انصاف کی قبر کھودنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیخ رشید نے عدالت سے ذاتی طور پر استدعا کی کہ ہم روزانہ عدالتوں کے دھکے کھا رہے ہیں، اور چار ماہ میں فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سب کو انصاف دیا جائے۔ وکیل سردار عبدالرزاق، جو شیخ رشید احمد کے وکیل ہیں، نے بتایا کہ نو مئی کے مقدمات کی آج سماعت ہو رہی ہے، اور نو مئی کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں، مگر اب تک چالان عدالت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پراسیکیوشن دو سال بعد چالان عدالت میں پیش کر رہی ہے، اور مقدمات میں تاخیر کی ذمہ دار پراسیکیوشن ہے، جبکہ ملزمان ہر پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے پاکستان سے دو بڑے مطالبات: 4.32 ارب ڈالر اور 1971 کے واقعات پر معافی کا مطالبہ ڈھاکہ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ سفارتی رابطوں میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان سے دو بڑے مطالبات کر دیے ہیں۔ ان میں 1971 میں علیحدگی کے بعد واجب الادا اثاثوں کی مد میں 4 ارب 32 کروڑ ڈالر کی ادائیگی اور 1971 کے جنگی واقعات پر باضابطہ معافی شامل ہے۔ یہ مطالبات پاکستان کی سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ کے حالیہ دورہ ڈھاکہ کے دوران بنگلہ دیش کے سیکرٹری خارجہ جاسم الدین کے ساتھ باضابطہ ملاقات میں سامنے آئے۔ آمنہ بلوچ نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس اور مشیر خارجہ سے بھی الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ جاسم الدین نے بتایا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کی جنگ کے دوران مبینہ مظالم پر پاکستان سے باضابطہ معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی، بنگلہ دیش نے 1970 کے طوفان کے متاثرین کے لیے بھیجی گئی غیر ملکی امداد کی منتقلی اور بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں کی واپسی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ جاسم الدین کے مطابق، بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تین لاکھ 24 ہزار 447 ہے۔ ان میں سے کچھ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ نے بنگلہ دیش میں ہی رہنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ صحافیوں کے سوال پر کہ آیا بنگلہ دیش کا جھکاؤ اب بھارت کے بجائے پاکستان کی طرف ہو رہا ہے، جاسم الدین نے جواب دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ مسائل کا سنجیدگی سے حل نکالا جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان معاملات پر پاکستان کی جانب سے بات چیت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، اور اسی سلسلے میں پاکستان کے وزیر خارجہ 27 اور 28 اپریل کو ڈھاکہ کا دورہ کریں گے۔ یہ 2012 کے بعد کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا پہلا دورۂ بنگلہ دیش ہوگا۔
لاہور: پولیس نے مشہور ٹک ٹاکر کاشف ضمیر اور ایک پولیس اہلکار کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، کاشف ضمیر پر الزام ہے کہ اس نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ویڈیوز میں پولیس وردی کا مذاق اڑایا اور قانون کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ پولیس حکام کے مطابق، وائرل ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاکر نے ایک تقریب میں نہ صرف وردی میں موجود اہلکار کے ساتھ غیر سنجیدہ حرکات کیں بلکہ ایک موقع پر اہلکار کو پیسوں سے بھرا تھال اٹھائے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ اس حرکت کو پولیس کے ادارہ جاتی وقار کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والا اہلکار محکمہ پولیس سے وابستہ ہے اور پولیس لائنز میں تعینات تھا۔ انہوں نے کہا کہ اہلکار نے ڈیوٹی کے اوقات کے بعد ذاتی طور پر کاشف ضمیر کی تقریبات میں شرکت کی، جو کہ محکمے کے ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اہلکار کو فوری طور پر حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس قسم کی حرکات عوام میں پولیس کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچاتی ہیں، جو قانون کے مطابق قابل گرفت جرم ہے۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ واقعے کی مکمل چھان بین جاری ہے اور ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ دوسری جانب، ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کی طرف سے تاحال اس واقعے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد نے اس ویڈیو پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025 میں پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں 10 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مارچ کے دوران نجی شعبے میں ایک کروڑ 4 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی، جبکہ بیرونی سرمایہ کاروں نے سرکاری شعبے سے 11 کروڑ 61 لاکھ ڈالر نکالے۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2025 کے 9 ماہ کے دوران بیرونی سرمایہ کاری میں 19 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جو کہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک محدود ہوگئی۔ نجی شعبے کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کمی دیکھی گئی، جو 8.8 فیصد کم ہو کر ایک ارب 37 کروڑ ڈالر رہی۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ سے 9 ماہ کے دوران 26 کروڑ 89 لاکھ ڈالر نکالے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں، جہاں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اقتصادی ترقی کے لئے ایک چیلنج بنتی جا رہی ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد سرکاری شعبے اور اسٹاک مارکیٹ سے کم ہوا ہے، جس کے اثرات مستقبل میں اقتصادی استحکام اور ترقی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے لئے موثر پالیسی اقدامات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
کراچی: ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی نے عامر مصطفیٰ قتل کیس کے ملزم ارمغان کے خلاف پہلا مقدمہ درج کرلیا ہے، جس میں کئی چشم کشا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ملزم ارمغان ڈی ایچ اے کراچی میں ایک غیر قانونی کال سینٹر چلا رہا تھا، جس کے ذریعے متعدد جرائم جیسے ہراسانی، دھوکہ دہی، شناخت کی نقالی، جعل سازی، فشنگ اور بھتہ خوری کی کارروائیاں کی جا رہی تھیں۔ ملزم ارمغان نے اپنے ملازمین کو فراڈ کی کارروائیوں کے لیے حساس معلومات جیسے نام، والدہ کا نام، تاریخ پیدائش، کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات اور سوشل سکیورٹی نمبرز نکالنے کے لیے باقاعدہ تربیت دی۔ ان کارروائیوں کی ہدایات ارمغان عرف ایلیکس باس کی طرف سے دی گئی تھیں۔ مقدمے کے مطابق، اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے ملزم کے قبضے سے 63 لیپ ٹاپز تحویل میں لیے ہیں، جنہیں فارنزک تجزیے کے لیے بھیجا گیا۔ ڈیجیٹل تحقیقات میں سافٹ ویئر، یو ایس پی ٹی او پورٹلز تک رسائی، وی پی این سافٹ ویئر اور رجسٹرڈ ٹریڈ مارک سیریل نکالنے کے مجرمانہ شواہد ملے ہیں۔ فارنزک رپورٹ میں "لاگز12" اور "لاگز04" نامی فائلوں کے شواہد بھی سامنے آئے۔ ایف آئی آر کے مطابق، ارمغان کے کال سینٹر کے ملازمین متاثرین کی ذاتی اور مالی معلومات غیر قانونی طور پر نکالتے تھے۔ متاثرہ افراد کی خفیہ بینکنگ معلومات اور کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات ارمغان کو فراہم کی جاتی تھیں۔ ان معلومات کے ذریعے متاثرین کے آن لائن اکاؤنٹس سے رقوم منتقل کی جاتی تھیں جو ارمغان کے فراہم کردہ اکاؤنٹس میں جاتی تھیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کرپٹو کرنسی والیٹس میں رقوم کی منتقلی بھی ارمغان کے ملازمین کے مقامی بینک اکاؤنٹس میں کی جاتی تھی، جس سے اس فراڈ کی پیچیدگی اور وسعت کا پتا چلتا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے اس کیس میں مزید تحقیقات جاری ہیں، اور ملزم کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے۔
اسلام آباد: وزارت مذہبی امور نے رواں سال فریضہ حج ادا کرنے والے پرائیویٹ عازمین حج کے لیے ہدایات نامہ جاری کر دیا ہے، جس میں اہم معلومات اور ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ وزارت کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، 2025 میں پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت صرف 23 ہزار 620 عازمین فریضہ حج ادا کر سکیں گے۔ اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ حج 2025 کے کوٹہ اور سروس پرووائیڈرز کی فہرست وزارت مذہبی امور کی ویب سائٹ اور پاک حج ایپ پر اپ ڈیٹ کر دی گئی ہے۔ عازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ویب سائٹ پر رجسٹرڈ سروس پرووائیڈرز کے ساتھ اپنی بکنگ سمیت درخواست کی حیثیت اور معاہدہ چیک کریں اور اپ ڈیٹس کے لیے پاک حج 2025 موبائل ایپ کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام سروس پرووائیڈرز کمپنیاں منظور شدہ کوٹے کے مطابق عازمین کو اپ ڈیٹ شدہ معاہدہ (حج فارم) فراہم کریں گی اور سعودی عرب کی تعلیمات کے مطابق 18 اپریل تک عازمین حج کے ویزا اجراء کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ عازمین کی سہولت کے لیے وزارت نے لینڈ لائن نمبر 051-9218571 اور 051-9207519 کے علاوہ ای میل فراہم کی ہے، جہاں عازمین اپنی شکایات درج کروا سکتے ہیں۔ ای میل ایڈریس: [email protected] یہ ہدایات پرائیویٹ عازمین حج کو سفر کی تیاری اور عمل کی تفصیلات میں رہنمائی فراہم کریں گی تاکہ وہ آسانی سے اپنے سفر کی تیاری کر سکیں۔
کراچی: رواں سال 2025 کی پہلی سہ ماہی میں متحدہ عرب امارات جانے والے پاکستانی کارکنوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ اماراتی ویزا پالیسیوں میں بار بار ہونے والی تبدیلیاں بتائی گئی ہیں۔ اس کے برعکس سعودی عرب پاکستانی افرادی قوت کے لیے سب سے بڑی منزل بن کر ابھرا ہے، جہاں 70 فیصد سے زائد پاکستانی کارکن ہجرت کر چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار جے ایس گلوبل کی حالیہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں، جو بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ڈیٹا پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، متحدہ عرب امارات جو ماضی میں پاکستانیوں کے لیے ایک مرکزی منزل رہا ہے، اب صرف 4 فیصد حصہ رکھتا ہے، جب کہ ماضی میں یہی شرح 35 فیصد تک تھی۔ جے ایس گلوبل کے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ یو اے ای کی ویزا اسکروٹنی اور پالیسی میں تبدیلیوں نے پاکستانی کارکنوں کے لیے مواقع محدود کر دیے ہیں، جس سے افرادی قوت کی برآمدات میں سست روی آئی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نے اپنی لیبر مارکیٹ پاکستانیوں کے لیے کھلی رکھی ہے، جس سے وہاں ہجرت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات کی جانب سے ویزا پالیسیوں میں نرمی کی جاتی ہے تو یہ ترسیلات زر میں بڑی بہتری لا سکتا ہے۔ یو اے ای پہلے ہی پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار اور ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک نے پاکستانی شہریوں پر کسی قسم کی ویزا پابندیوں کی خبروں کی تردید کی ہے، تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستانی درخواست دہندگان کو ویزے مسترد ہونے اور سخت جانچ پڑتال کا سامنا ضرور رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان میں یو اے ای کے سفیر حماد عبید الزعابی نے اطمینان دلایا کہ پاکستانی شہری اب پانچ سالہ ویزہ اسکیم سے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ "ماضی کے بیشتر مسائل حل ہو چکے ہیں"۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، مارچ 2025 میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلات زر 4.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو ملکی تاریخ میں پہلی بار 4 ارب ڈالر کی حد سے تجاوز کر گئیں۔ یہ شرح مارچ 2024 کے مقابلے میں 37 فیصد اور فروری 2025 کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ رہی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب اور یو اے ای سے مستقل ترسیلات زر جاری رہیں اور غیر رسمی ذرائع کی روک تھام کی جائے تو پاکستان کو ان دونوں ممالک سے ترسیلات زر کا 50 فیصد سے زائد حصہ مل سکتا ہے، جو ملکی معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
کراچی: سندھ لیبر اپیلٹ ٹربیونل نے پاکستان اسٹیل ملز کے 5744 ملازمین کو بحال کرتے ہوئے لیبر کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ ٹربیونل نے پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ کو 14 مئی تک جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اسٹیل کی انتظامیہ نے ملازمین کو فارغ کر کے اس فیصلے کے خلاف لیبر کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس پر 22 فروری کو لیبر کورٹ نے پاکستان اسٹیل کی درخواست کو منظور کر لیا تھا۔ تاہم سندھ لیبر اپیلٹ ٹربیونل نے اس فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان اسٹیل کے وکیل نے کہا کہ پاکستان اسٹیل کا آڈٹ کرنے والے گواہوں کا ریکارڈ غائب ہو چکا ہے، اور یہ سوال اٹھایا کہ اگر پاکستان اسٹیل نقصان میں جا رہی ہے تو کیوں نئی اسٹیل مل کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈان نیوز نے گزشتہ سال ستمبر میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں نئی اسٹیل ملز قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے لیے 700 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔ یہ اراضی پاکستان اسٹیل ملز کی موجودہ زمین پر ہی مختص کی گئی ہے، اور اس منصوبے میں روس کا تعاون بھی شامل ہے۔ روس کے نائب وزیر صنعت و تجارت اور پاکستان کے وزیر صنعت نے نئی اسٹیل مل کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز جون 2015 سے بند ہے، اور اس کی نجکاری کی تجاویز بھی کئی بار زیر غور آ چکی ہیں۔
کراچی: کے الیکٹرک نے ایک وکیل کو 62 یونٹس کا بل 99 ہزار روپے بھیج دیا جس پر وہ ششدر رہ گیا اور فوری طور پر کنزیومر کورٹ شرقی سے رجوع کر لیا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق، وکیل رضا حسین نے کے الیکٹرک کے خلاف پانچ لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا ہے۔ رضا حسین نے اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں اتنے بڑے بل کا پتہ چلا تو وہ بہت حیران ہوئے اور اس میں موجود غلطی کی اصلاح کی درخواست کرنے کے لیے کے الیکٹرک کے دفتر گئے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کے نمائندوں نے اس غلطی کا اعتراف کیا لیکن باوجود اس کے بل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب غلطی تسلیم کر لی گئی تھی تو اس کے بعد بل کو درست کیوں نہیں کیا گیا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ رضا حسین نے اس غلطی کے سبب اپنے حقوق کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کیا اور پانچ لاکھ روپے کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔ یہ واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ کراچی کے صارفین کو مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے، جس کے لیے نیپرا سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کے الیکٹرک کا آزادانہ آڈٹ کرائے تاکہ عوام کو اس قسم کی پریشانیوں سے بچایا جا سکے۔
اسلام آباد: حکومت پاکستان نے ٹریژری بلز (ٹی بلز) اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) کی حالیہ نیلامی کے ذریعے مجموعی طور پر 1,220 ارب روپے کا قرض حاصل کر لیا ہے، جس سے حکومتی سکیورٹیز میں سرمایہ کاروں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ اعداد و شمار اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق حکومت کو ٹی بلز کے لیے 1,730 ارب روپے اور پی آئی بیز کے لیے 1,592 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ سرمایہ کار موجودہ غیر یقینی معاشی حالات میں تقریباً 33 کھرب روپے حکومتی کاغذات میں لگانے کو تیار ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ رجحان نجی شعبے کی مالیاتی ضروریات سے توجہ ہٹنے اور معیشت کی حقیقی ترقی کی رفتار میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ٹی بلز کی نیلامی میں حکومت نے مقررہ 850 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 965 ارب روپے اکٹھے کیے، جبکہ میچیورٹی رقم 821 ارب روپے رہی۔ اتنی بڑی مالیت میں بولیوں کی وصولی نے بینکوں کی نجی شعبے کو قرض دینے میں عدم دلچسپی کو مزید واضح کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق دسمبر 2024 سے نجی قرضوں میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بار بار قرض لینے کے رجحان نے سرمایہ کاروں کی ترجیحات کو سرکاری کاغذات کی طرف موڑ دیا ہے، جو ایک "رسک فری" سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے، مگر اس کا نتیجہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کی سست روی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ منڈی میں شرحِ منافع میں بھی کسی بڑی تبدیلی کا رجحان نہیں دیکھا گیا۔ ایک ماہ کے ٹی بلز پر کٹ آف ریٹ 6 بیسس پوائنٹس کی کمی کے بعد 12.32 فیصد ہو گیا، جبکہ 3 ماہ، 6 ماہ اور 12 ماہ کی مدت کے بلز پر شرح منافع بالترتیب 11.99 فیصد، 12.01 فیصد اور 12.01 فیصد پر برقرار رہی۔ دوسری جانب پی آئی بیز کی نیلامی میں بھی سرمایہ کاروں نے بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت کو 1,592 ارب روپے کی بولیاں موصول ہوئیں، تاہم حکومت نے مقررہ 400 ارب روپے کے ہدف کے برعکس صرف 261 ارب روپے ہی اکٹھے کیے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے واضح ہے کہ بینک اور دیگر مالی ادارے نجی شعبے کو قرض دینے سے گریزاں ہیں اور رسک فری منافع کو ترجیح دے رہے ہیں، جو ملکی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے خطرے کی گھنٹی تصور کی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں مسلسل اضافے کے فیصلے نے صارفین پر مزید مالی بوجھ ڈال دیا ہے، جس سے حکومت کی ماہانہ آمدنی میں سو ارب روپے تک کا اضافہ متوقع ہے۔ عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتیں گرنے کے باوجود حکومت نے مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی، جس کے باعث صارفین 168 روپے فی لیٹر والے پیٹرول کو 254.63 روپے میں خریدنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، جس سے رواں مالی سال کے اختتام تک لیوی کی مد میں 1100 ارب روپے تک کی اضافی آمدنی ہو گی۔ اس وقت حکومت کا پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف 1281 ارب روپے ہے، اور مسلسل بڑھتی لیوی سے وہ اپنے ہدف کے قریب پہنچ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق 30 جون تک حکومت کو لیوی کی مد میں 17 ارب روپے اضافی آمدنی حاصل ہونے کا امکان ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 78 روپے کی لیوی شامل ہو چکی ہے، جس سے صارفین کو مہنگا پیٹرول خریدنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے 2 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد حکومت فی لیٹر پیٹرول پر 78 روپے 2 پیسے کی لیوی وصول کر رہی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 7 روپے 1 پیسہ کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 77 روپے 1 پیسہ فی لیٹر لیوی وصول کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی کے تیل پر سات روپے 99 پیسے اور لائٹ ڈیزل پر سات روپے 62 پیسے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے ذریعے اپنے مالی اہداف کو پورا کرنے کے لیے صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی ہے، جس کے نتائج عوامی سطح پر مہنگائی کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی معروف کارکن اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم مزاحمت کار گلزادی بلوچ نے جیل سے ایک دل دہلا دینے والا پیغام جاری کردیا۔۔۔۔۔۔۔ گلزادی بلوچ کا جیل سے جھنجھوڑ دینے والا پیغام کچھ یوں ہے کہ بلوچ خواتین محض حادثاتی طور پر اس جدوجہد کا حصہ نہیں بنیں وہ شعور اور شعریت کے ساتھ اس تحریک کا حصہ ہیں ہمیں نہ دھمکیاں روک سکتی ہیں نہ جبری گمشدگیاں اور نہ بندوق کی زبان اگر جبر کسی کو خاموش کرا سکتا تو دو ہزار چھ کے بعد ماہ رنگ جیسی بچی مزاحمت کا استعارہ نہ بنتی اگر ظلم حل ہوتا تو دودا کی سمی ریاست کے یزید کو للکارنے والی نہ بنتی انہوں نے کہا اگر تشدد سے نظریات دبائے جا سکتے تو راشد حسین کی ماں محض ایک غمزدہ عورت ہوتی لیکن آج وہ پورے بلوچستان کی ماں بن چکی ہیں اگر بندوق ذہنوں کو غلام بنا سکتی تو آج میں گلزادی بلوچ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود تمہارے سامنے مزاحمت کا نشان نہ بنتی تم نے چار گھنٹے مسلسل مجھ پر تشدد کیا لیکن میرے نظریے کو نہ توڑ سکے گلزادی نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بلوچستان کی ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ مسخ شدہ پیاروں کی تلاش میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ریاستی جبر کے سامنے کھڑی ہو چکی ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ مزاحمت صرف آنسوؤں یا جذبات کی پیداوار نہیں بلکہ ایک باشعور پختہ ارادوں والی تحریک ہے یہ پیغام نہ صرف بلوچ خواتین کی جدوجہد کو ایک نئی روح دے رہا ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر بھی ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے کیا تشدد اور خوف واقعی کسی نظریے کو شکست دے سکتے ہیں یا وہ صرف مزید مزاحمت کو جنم دیتے ہیں گلزادی بلوچ کا پیغام ایک چیخ ہے ایک سوال ہے اور ایک واضح اعلان کہ ہم نہ رکیں گے نہ جھکیں گے

Back
Top