خبریں

اڈیالہ جیل کے باہر سے پولیس نے علیمہ خان، عظمیٰ خان، نورین خان، زرتاج گل، صاحبزادہ حامد رضا، عمر ایوب، ملک احمد خان بچھر کو گرفتار کر لیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچنے والے اہم پارٹی رہنما اور ان کی تین بہنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ گرفتار ہونے والوں میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، صاحبزادہ حامد رضا، احمد خان بچھر، علیمہ خان، نورین خانم اور عظمیٰ خانم شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے یہ رہنما اور عمران خان کی بہنیں جیل میں ملاقات کے لیے جا رہے تھے، جب پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے قریب ایک ناکے پر روک لیا۔ اس موقع پر پولیس اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان شدید بحث و تکرار ہوئی، جس کے بعد پولیس نے سات افراد کے وارنٹ گرفتاری دکھائے، جن میں عمران خان کی تینوں بہنوں، قریبی عزیز قاسم خان، اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے نام شامل تھے۔ پولیس کے مطابق عمران خان سے آج اہل خانہ کی ملاقات کا دن نہیں تھا، اس کے باوجود ان کی بہنیں اصرار کے ساتھ ملاقات کے لیے پہنچیں۔ واپسی سے انکار پر پولیس نے تمام افراد کو حراست میں لے کر قیدیوں کی وین میں منتقل کر دیا۔ واقعے کے بعد علاقے میں سخت کشیدگی پائی گئی، جبکہ سوشل میڈیا پر اس اقدام کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اظہار رائے اور ملاقات جیسے بنیادی حقوق کو بھی سلب کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع نے اس واقعے کو سیاسی انتقام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومتی طاقت کا استعمال صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے۔ پارٹی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا جائے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قائد عمران خان کی بہنیں اور دیگر رہنما پولیس کے روکنے کے باوجود اڈیالہ جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ گزشتہ روز عمران خان سے ملاقات کے دوران پولیس نے علیمہ خان اور دیگر رہنماؤں کو جیل کے قریب جانے سے روک دیا، جس پر علیمہ خان اور ان کے ہمراہ پی ٹی آئی رہنما شدید احتجاج کرتے ہوئے سڑک کے کنارے زیر تعمیر پلازے میں دھرنا دینے پر مجبور ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں علیمہ خان کو پلازے کی زمین پر چادر بچھا کر بیٹھتے ہوئے دیکھا گیا، جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ احتجاج میں شریک ہیں۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری پلازے کے چاروں طرف تعینات کر دی گئی تھی تاکہ دھرنا دینے والوں کو منتشر کیا جا سکے۔ علیمہ خان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آج ان کی ملاقات عمران خان سے کرائی جائے گی، مگر پولیس نے ان کا راستہ روک کر یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔ پولیس کی جانب سے اڈیالہ جیل کے باہر بچھائی گئی چٹائیاں اٹھانے کا اقدام بھی سامنے آیا، تاکہ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکنان کو دھرنا دینے سے روکا جا سکے، ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار اڈیالہ جیل کے سامنے موجود چٹائیاں لپیٹ کر اٹھا رہے ہیں تاکہ کسی بھی طرح احتجاج کا راستہ روکا جا سکے۔ علیمہ خان نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس دن ہمیں ایک دفعہ تو ان پر یقین کرنا تھا سو ہم نے کر لیا اور چلے گئے لیکن یہ اتنے بے شرم ہے انکو جھوٹ بولتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی آج ہم بلکل بھی نہیں اٹھیں گے جب تک ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمر ایوب اور زرتاج گل بھی پولیس کی روک تھام کا سامنا کرتے ہوئے جیل کے قریب پہنچے، تاہم پولیس نے انہیں ملاقات سے روک دیا۔ عمر ایوب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ ظلم کی انتہا ہے، جس کے ذریعے حکومت عدلیہ کے فیصلوں کی دھجیاں اُڑاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے لیڈر سے ملاقات کرنے کا حق نہیں مل رہا تو پھر عوامی احتجاج کی گونج بھی سننی پڑے گی۔ عمر ایوب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ عدلیہ اور ملک کی سالمیت کے لیے ایک سنگین لمحہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ملاقات کی اجازت دی جانی چاہیے، کیونکہ یہ ایک جمہوری حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جبر اور ظلم کی علامت ہے اور حکومت اس بات سے خوف زدہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے قائد سے بات کرے۔ اس دوران علیمہ خان، زرتاج گل، اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں نے پولیس کی جانب سے روکے جانے کے باوجود جیل کے باہر اپنے احتجاج کو جاری رکھا۔ پولیس نے اس موقع پر پلازے کے مالک کو طلب کر کے وہاں دفتر کو تالے لگانے کا حکم دیا، تاہم علیمہ خان اور ان کے ہمراہ دیگر رہنماؤں نے باہر آنے سے انکار کر دیا۔
اسلام آباد: شاہد خاقان عباسی کی حکومت پر شدید تنقید عوام پاکستان پارٹی کے کنوینر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومتی فیصلوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو، تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو ملک میں کسانوں کے بحران اور پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دینے کے حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کسان آج بدترین مشکلات کا شکار ہے، اور پورے ملک میں کسان احتجاج کر رہے ہیں، مگر ان کی آواز حکومت تک نہیں پہنچ رہی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسان ملک کی معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان گندم اگاتا ہے، تو ملک کو آٹا ملتا ہے، لیکن اگر کسان پریشان ہوگا تو پورا ملک متاثر ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ 2023 میں کسان پہلے ہی مسائل کا سامنا کر رہا تھا اور 2024 میں حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 4000 روپے فی من گندم نہیں خریدے گی، جس کے نتیجے میں کسانوں کو گندم مختلف قیمتوں پر فروخت کرنا پڑی۔ کچھ کسانوں نے 2200 روپے فی من جبکہ کچھ نے 2400 روپے فی من میں گندم بیچی۔ انہوں نے کہا کہ یوریا اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور کسانوں کو مجبوراً گندم 2100 روپے فی من کے حساب سے بیچنا پڑ رہا ہے۔ جب کسان خوشحال ہوگا، تو ملک خوشحال ہوگا، لیکن آج کسان اپنا اثاثہ لگا کر بھی منافع نہیں کما رہا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ حالات برقرار رہے تو اگلے سال ملک کو گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اگر کسانوں کے لیے ملک کی منڈی سازگار نہیں، تو کم از کم انہیں اپنی گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ کسان کی پیداوار کی لاگت 3000 روپے فی من ہو چکی ہے، لیکن اسے 2100 روپے میں اپنی گندم بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند ووٹوں کے لیے کسان کو قربان نہ کیا جائے، کیونکہ جب کسان کی آمدنی نہیں بڑھے گی تو معیشت کے دیگر شعبے جیسے ٹریکٹر اور موٹرسائیکل کی خریداری بھی متاثر ہوگی۔ پریس کانفرنس کے دوسرے حصے میں شاہد خاقان عباسی نے پیٹرولیم مصنوعات پر عوام کو ریلیف نہ دینے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئی مرتبہ کمی آئی، مگر حکومت نے اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرانے بلوں میں 10 روپے تک ریلیف کی گنجائش تھی، مگر عوام کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے، لیکن جب قیمتیں کم ہوتی ہیں تو عوام کو ریلیف کیوں نہیں ملتا؟ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کے منافع سے بلوچستان میں سڑکیں بنانے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن اگر پیٹرول سے بچت نہ ہو تو کیا بلوچستان کی سڑکیں نہیں بن سکتیں؟ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملک صرف حکومت کے مثبت فیصلوں سے ترقی کرتا ہے، مگر موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا ایک اور موقع ضائع کر دیا ہے۔
کراچی: ناصر حسین شاہ کی پیپلز پارٹی کی جانب سے متنازع نہروں کے منصوبے پر سخت تنقید سندھ کے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر متنازع نہروں کے منصوبے کو واپس نہ لیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے علیحدہ ہو جائے گی۔ فرنیچر ایکسپو کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے لیے ایک سرخ لکیر ہے، اور اگر اسے زبردستی جاری رکھا گیا تو ہم وفاقی حکومت کا حصہ نہیں رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی انتشار نہیں چاہتی، مگر قومی مفاد اور صوبائی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کر سکتی۔ ناصر حسین شاہ نے الزام لگایا کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے پانی سے متعلق غلط اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اتنی مقدار میں پانی دستیاب ہی نہیں کہ اس منصوبے کو جاری رکھا جا سکے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم اور سیاسی قیادت دانشمندانہ فیصلہ کریں گے اور نہروں کے منصوبے کو منسوخ کیا جائے گا۔ انہوں نے دہشت گردی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے تانے بانے پاکستان دشمن قوتوں سے ملتے ہیں اور وہ آرمی چیف کے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو عناصر دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ ناصر حسین شاہ نے فوج کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں افواج کو کمزور کر کے ان ممالک کو افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوج کمزور ہو جائے تو دشمنوں کو ملک کے اندر کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا، اس لیے ریاست کو ملک دشمن عناصر کے خلاف سختی سے نمٹنا ہوگا۔ وزیر نے فرنیچر ایکسپو کے انعقاد کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے عوام کو انٹیریئر ڈیزائن اور فرنیچر کے نئے رجحانات سے آگاہی ملے گی، جہاں 100 سے زائد اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ معدنیات کے شعبے پر بات کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل اور مواقع موجود ہیں، تاہم ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ معدنیات کے شعبے سے صوبوں کا عمل دخل ختم کیا جا رہا ہے، بلکہ انہیں اس میں پورا حق اور اہمیت دی جائے گی۔ ناصر حسین شاہ نے سندھ سے گیس کے ذخائر ملنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ گیس کی پیداوار کے مقابلے میں صوبے کو اس کا کم حصہ دیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں گیس پیدا ہو، وہاں اس صوبے کا پہلا حق بنتا ہے، تاہم پورے ملک میں تمام صوبوں کو گیس فراہم کی جانی چاہیے۔ ایس آئی ایف سی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ کئی مثبت منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور اگر کسی منصوبے پر اعتراض ہے تو وہ اُمید رکھتے ہیں کہ قیادت اسے ختم کر دے گی۔ انہوں نے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور کہا کہ سندھ میں جہاں پانی دستیاب ہے، اگر جدید ٹیکنالوجی سے زراعت کو فروغ دیا جائے تو یہ ایک خوش آئند بات ہوگی، اور پنجاب و دیگر صوبوں میں بھی جدید زرعی اقدامات پر کوئی اعتراض نہیں۔ آخر میں ناصر حسین شاہ نے نہروں کے منصوبے پر سیاسی ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو ایشو بنا کر بعض سیاسی مخالفین پیپلز پارٹی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی رہنما محب وطن ہیں اور سب کے لیے سب سے اہم پاکستان ہونا چاہیے۔ عوام کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہے، اور ہمیں پاکستان کے مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی کسی بھی کمپنی کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف کسی خاص بیانیے کی بنیاد پر کمپنیوں کو نشانہ بنانا قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ پاکستانی نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے حالیہ دنوں میں ملکی فوڈ چینز پر ہونے والے حملوں کے بارے میں بات کی، جن میں نامعلوم افراد نے مختلف ریسٹورنٹس کو نقصان پہنچایا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ملک میں انتشار پھیلانے کی کسی بھی کوشش کو روکنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور عوام سے اپیل کی کہ وہ افواہوں اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غیر مصدقہ معلومات پر یقین نہ کریں۔ عطاء تارڑ نے مزید کہا کہ حکومت تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی اقدام کی اجازت دے گی اور کسی بھی غیر قانونی عمل کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ وفاقی فنڈنگ کے مستحق نہیں رہا۔ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہارورڈ اب کسی معیاری تعلیمی ادارے کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا اور اسے دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں کی فہرست سے نکال دینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہارورڈ ایک مذاق بن چکا ہے جو نفرت اور حماقت سکھاتا ہے، اسے مزید وفاقی فنڈز نہیں ملنے چاہئیں۔" ٹرمپ کی یہ تنقید اس وقت سامنے آئی جب ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومتی دباؤ کے باوجود اپنے تعلیمی و انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب ہارورڈ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات پر کان نہ دھرا، جس کے نتیجے میں اس کی وفاقی امداد منجمد کر دی گئی۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق، ٹرمپ نے گزشتہ روز یونیورسٹی کا غیر منافع بخش ادارے کی حیثیت سے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی دھمکی دی تھی، اور اس کے ساتھ ہی ہارورڈ کی 2.2 ارب ڈالر کی وفاقی فنڈنگ کو منجمد بھی کر دیا گیا تھا۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی اپنی داخلہ پالیسی، بھرتیوں، اور تعلیمی شعبہ جات میں تبدیلی کرے اور اپنے تعلیمی پروگرامز اور شعبہ جات کا آڈٹ کرائے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر ایلن گاربر نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "ہم اپنی خودمختاری یا آئینی حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے"۔ گاربر کا یہ بیان یونیورسٹی کی جانب سے اپنی آزادی اور خودمختاری کا دفاع تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے یہ موقف اختیار کیا کہ ہارورڈ یونیورسٹی میں "یہود مخالف جذبات" کو فروغ دیا جا رہا ہے، خاص طور پر اسرائیل کے غزہ پر حملے کے خلاف ہونے والے طلبہ احتجاج کے تناظر میں یہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ یہ فیصلہ اور اس پر اٹھنے والی بحث، امریکی سیاست اور تعلیمی اداروں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو مزید اجاگر کرتی ہے، خاص طور پر جب بات قومی مفادات اور آئینی حقوق کے درمیان توازن کی ہو۔
برطانیہ کی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ "عورت" کی قانونی تعریف پیدائش کے وقت کی جنس پر منحصر ہے، اور جنس کی تبدیلی کے بعد عورت بننے والے افراد کو "عورت" نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ فیصلہ ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے حوالے سے جاری بحث پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ بین الاقوامی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، یہ مقدمہ فار ویمن اسکاٹ لینڈ (ایف ڈبلیو ایس) نامی تنظیم نے برطانوی سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ "مساوات ایکٹ 2010" میں "عورت" اور "جنس" کی اصطلاحات سے مراد صرف ایک حیاتیاتی عورت اور حیاتیاتی جنس ہے۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرانس جینڈرز کو، جو سرٹیفکیٹ کے ذریعے خود کو عورت تسلیم کرتے ہیں، قانونی طور پر عورت نہیں سمجھا جائے گا۔ یعنی صرف پیدائشی طور پر عورت ہونے والی افراد ہی "عورت" کہلائیں گی۔ تاہم، عدالت نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا کہ مساوات ایکٹ ٹرانس جینڈرز کو امتیازی سلوک سے تحفظ فراہم کرتا ہے، جس سے ان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یہ فیصلہ اسکاٹش حکومت اور فار ویمن اسکاٹ لینڈ کے درمیان برسوں کی قانونی لڑائی کا نتیجہ ہے۔ اس تنظیم نے اسکاٹش عدالتوں میں خواتین کے لیے مخصوص قانون کے خلاف اپیل کی تھی جس میں سرکاری اداروں میں مزید خواتین کی بھرتی کے لیے غیر واضح قانون متعارف کرایا گیا تھا۔ فیصلے کے بعد، ایف ڈبلیو ایس اور دیگر صنفی تنقیدی مہم چلانے والی تنظیموں کے حامیوں نے خوشی کا اظہار کیا، اور عدالت کے باہر جشن منایا۔ وہ اس بات پر خوش تھے کہ عدالت نے ان کے موقف کو تسلیم کیا کہ حیاتیاتی جنس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب، ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے کارکنوں میں اس فیصلے کے خلاف شدید تشویش پائی گئی۔ "اسٹون وال"، جو ٹرانس جینڈرز اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے، نے اس فیصلے کو "ٹرانس کمیونٹی کے لیے انتہائی تشویشناک" قرار دیا۔ اسٹون وال کے سی ای او، سائمن بلیک نے کہا کہ اس فیصلے کے نتائج پر ان کی تنظیم کو گہری تشویش ہے۔ فیصلہ ٹرانس جینڈرز کی مخصوص جنس کے لیے مخصوص جگہوں تک رسائی کے حوالے سے بھی ایک اہم تنازعہ پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، برطانیہ کی حکومت پر یہ دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے کہ وہ اس حوالے سے قانون سازی کو مزید واضح کرے، کیونکہ وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے ابھی تک ٹرانس جینڈرز کے مسائل پر کم ہی تبصرہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ برطانیہ میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے حوالے سے جاری بحث میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے قانونی، سماجی، اور سیاسی سطح پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر تجزیہ دیتے ہوئے معروف تجزیہ کار ریما عمر نے جیو نیوز کے پروگرام "رپورٹ کارڈ" میں وزیراعظم کے حالیہ بیان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ہائی وے مکمل کی جائے گی۔ ریما عمر کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف سڑکیں اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں سے نہیں نکلے گا۔ انہوں نے کہا، "میرے خیال میں یہ اقدامات بلوچستان کی موجودہ صورتحال کے لیے محض عارضی حل ثابت ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پینل میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو بلوچستان سے تعلق رکھتا ہو، جو اس بات کی ایک بڑی کمی ہے۔ اگر ایسا ہوتا، تو ہم براہ راست وہاں کے لوگوں کے نقطہ نظر سے واقف ہو سکتے تھے۔" ریما عمر نے مزید کہا، "جو کچھ میں نے مقامی لوگوں سے سنا اور سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ سڑکیں، انفراسٹرکچر یا طلباء کو لیپ ٹاپ فراہم کرنا نہیں ہے۔ اصل مسئلہ عزت، احترام، حقوق اور نمائندگی کا ہے۔ اور یہ تمام مسائل صرف سڑکوں کی تعمیر سے حل نہیں ہو سکتے۔" انہوں نے مزید کہا، "یقیناً سڑکوں کے بننے سے لوگوں کو سہولت ملے گی، اور اس سے کچھ لوگوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر بات مرہم کی ہو تو یہ حل نہیں ہے۔ اگر آپ مجموعی صورتحال پر نظر ڈالیں، تو بلوچ نوجوانوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہ ان کی عزت نفس پر حملہ ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے علاوہ بھی کئی مسائل ہیں۔ عدلیہ اور دیگر اداروں کا بھی بلوچ عوام کے ساتھ رویہ انہی شکایات کو بڑھا رہا ہے۔" ریما عمر نے اس بات پر زور دیا کہ "یہ وہ حالات ہیں جو لوگوں میں ریاست کے خلاف غم و غصہ بڑھا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے علیحدگی پسندی کے حامی نہیں تھے، اب ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہو رہی ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف سڑکوں یا ترقیاتی منصوبوں سے نہیں حل ہوگا، بلکہ اس کی جڑیں وہاں کے لوگوں کی شناخت، عزت اور حقوق میں ہیں۔" آخر میں انہوں نے کہا، "اگر ریاست واقعی ان مسائل کا حل چاہتی ہے، تو اسے عوام کو احتجاج کرنے کا حق دینا ہوگا، لانگ مارچ کی اجازت دینی ہوگی، جبری گمشدگیوں پر قابو پانا ہوگا، اور لوگوں کی عزت و احترام کی حفاظت کرنا ہوگی۔ تب ہی ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ ورنہ، میرے خیال میں یہ اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔"
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں بارشوں اور برفباری نے سردی کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ طوفانی ہواؤں اور موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی گندم کی فصل تباہ ہو گئی، جبکہ متعدد علاقوں میں بجلی کی فراہمی بھی منقطع ہو گئی۔ **حادثات میں جانی نقصان:** جہلم کے علاقے سوہاوہ میں ٹریکٹر ٹرالی پر گرنے والی دیوار کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہو گئے، جبکہ دو دیگر زخمی ہوئے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق، یہ حادثہ تیز ہواؤں اور بارش کے باعث پیش آیا۔ ڈیرہ غازی خان میں بھی طوفانی ہواؤں کے ساتھ بارش نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ **غذر میں برفباری نے نقل و حرکت کو معطل کر دیا:** غذر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر گاہکوچ کے پہاڑی علاقوں میں برفباری شروع ہو گئی ہے، جس کے باعث غذر-چترال روڈ بند ہو چکی ہے۔ درکوت اور لنگر میں بھی برفباری کے باعث سردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جس سے مقامی افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ **خیبرپختونخوا میں تباہی:** لنڈی کوتل اور گردونواح میں طوفانی بارشوں اور ژالہ باری کے باعث ندی نالے طغیانی پر آ گئے ہیں۔ پاک-افغان شاہراہ پر سیلابی ریلے آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ کوہاٹ میں موسلا دھار بارشوں نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی گندم کی فصل کو تباہ کر دیا، جبکہ دیہی علاقوں میں کچے مکانات بھی گر گئے ہیں۔ بجلی کی فراہمی متاثر: مظفرآباد، جہلم اور پلندری میں تیز آندھی اور بارش کے باعث بجلی کے متعدد فیڈرز ٹرپ ہو گئے ہیں، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ راولاکوٹ اور باغ میں ژالہ باری سے فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ موسمیاتی پیشگوئی: محکمہ موسمیات نے خیبرپختونخوا اور شمالی علاقوں میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔ پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کی ہے، کیونکہ موسلا دھار بارشوں سے ندی نالوں کے مزید بپھرنے کا خطرہ موجود ہے۔ پشاور میں موسم خوشگوار: پشاور شہر میں ہلکی بوندا باندی سے گرمی کی شدت میں کمی آئی ہے، جس سے موسم خوشگوار ہو گیا ہے۔ تاہم، محکمہ موسمیات کے مطابق، آنے والے دنوں میں مزید بارشوں کا امکان ہے۔ اس صورتحال میں حکومتی اداروں نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو آپریشنز تیز کر دیے ہیں، جبکہ مقامی انتظامیہ نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔
پبلک نیوز کے خصوصی پروگرام میں پی ٹی آئی رہنما شیخ وقاص اکرم نے اہم انکشافات کرتے ہوئے کہا کہ "معدنیات بل عمران خان کی مشاورت اور اجازت کے بغیر ہرگز منظور نہیں ہوگا"۔ انہوں نے بتایا کہ جب اس بل پر بحث شروع ہوئی تو اکثریت نے اسے پڑھا تک نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ "140 صفحات پر مشتمل اس بل کو پڑھنا ہمارے ملک میں ایک مشکل کام ہے۔ شروع میں تو یہ محض ایک بھیڑ چال کا پروگرام بن گیا تھا جہاں بغیر پڑھے ہی سب نے ٹویٹس کرنا شروع کر دیے تھے"۔ پی ٹی آئی رہنما نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ 2017 کے پی ٹی آئی کے بنائے ہوئے قانون میں صرف 5-6 ترامیم ہیں۔ معدنیات کے شعبے میں کام کرنے والے مفاداتی گروہوں نے اس پر بے جا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے"۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ "پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ یہ بل عمران خان کی منظوری کے بغیر کسی صورت منظور نہیں ہوگا، چاہے اس پر پانچ سال یا دس سال تک بحث ہو۔ خیبر پختونخوا حکومت نے بھی پارٹی کے اس فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ہے"۔ شیخ وقاص نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "حیرت کی بات ہے کہ اس واضح موقف کے باوجود بعض حلقے مسلسل بے بنیاد کہانیاں گھڑ رہے ہیں اور روزانہ نئے تبصرے کر رہے ہیں"۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ "آخر انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟"
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور چیف آرگنائزر پنجاب عالیہ حمزہ نے کہا ہے کہ ملک میں کرپشن کا گراف بلند ہو چکا ہے جبکہ جمہوریت میں پاکستان کا درجہ بھی کم ہو گیا ہے۔ منصور علی خان کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عالیہ حمزہ نے کہا کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہ کوئی بہار ہے اور نہ ہی معاشی ترقی کی کوئی خوشخبری۔ عالیہ حمزہ نے مزید کہا کہ "پاکستان کا قرضہ 45 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 75 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جبکہ مہنگائی کی شرح 9 سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود پیٹرول، ڈیزل، دودھ اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔" ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول کی قیمت 150 روپے تھی جو اب 255 روپے تک پہنچ چکی ہے اور ڈیزل کی قیمت بھی 160 روپے سے بڑھ کر 260 روپے ہو گئی ہے۔ عالیہ حمزہ نے اس کے علاوہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں 45 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، اور پنجاب میں قیدی نمبر 804 کو عدالت تک لے جانے میں بھی سیکیورٹی کے انتظامات مکمل نہیں کیے جا سکے ہیں، حالانکہ یہ تمام مسائل حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی موجودہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں کر رہی، بلکہ ان کے تمام تر اقدامات صرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہیں۔ "ابھی تک پورے پاکستان میں جہاں ترقی کے ریکارڈ بن رہے تھے، وہاں یہ حکومتی افراد ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور ہمیں مختلف طریقوں سے تنگ کر رہے ہیں۔" عالیہ حمزہ نے عوام کو ایک مرتبہ پھر یاد دہانی کرائی کہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک سنجیدہ اور محنتی قیادت کی ضرورت ہے۔
مستونگ: عوامی نیشنل پارٹی (مینگل) نے اپنے 20 روزہ دھرنے کے اختتام کا اعلان کردیا۔ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مستونگ میں پریس کانفرنس کے دوران دھرنا ختم کرنے کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں اور تحریک کو ختم نہیں کیا بلکہ اب سے عوامی رابطہ مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پارٹی عوامی جلسوں اور احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی، جس کے پہلے مرحلے میں مستونگ، قلات، خضدار اور سوراب میں جلسے منعقد ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں تربت، گوادر اور مکران کے علاقے شامل ہوں گے جبکہ تیسرے مرحلے میں نصیر آباد، جعفر آباد، ڈیرہ مراد جمالی اور دیگر علاقوں میں جلسے کیے جائیں گے۔ اختر مینگل نے اپنے احتجاجی منصوبے کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ پہلی ریلی مستونگ میں منعقد کی جائے گی لیکن اس کی تاریخ کی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس کے بعد 20 اپریل کو قلات میں ریلی نکالی جائے گی۔ انہوں نے بلوچ کارکنوں کی گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کو "غیر آئینی طور پر" گرفتار کیا گیا ہے اور افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست نے ان کے پرامن لانگ مارچ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ سردار اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ لکپاس میں احتجاج کے دوران ایک لمحہ بھی کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر احتجاج کی اجازت ہے مگر بلوچستان کے مسئلے پر نہیں۔ بی این پی مینگل کے سربراہ نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کے وفد نے ان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل، بی این پی نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی دیگر خواتین کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف گزشتہ کئی دنوں سے مستونگ میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ بلوچستان حکومت نے کئی بار ان مذاکرات کے لیے کوشش کی تھی، جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ دھرنا ختم کردیا جائے۔
اسلام آباد: اڈیالہ جیل انتظامیہ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ان کے ذاتی معالجین سے میڈیکل چیک اپ کروانے اور اپنے بچوں سے ٹیلیفون پر بات چیت کرنے کی عدالتی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، اسلام آباد کی اسپیشل عدالت نے پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے دائر کی گئی دو درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں طبی معائنے اور اپنے بچوں سے رابطے کی اجازت دی تھی۔ تاہم، جیل انتظامیہ نے عدالت کے حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان کے وکیل خالد یوسف چوہدری نے اس اقدام کو "عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے عدالت سے دوبارہ رجوع کیا ہے تاکہ احکامات پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔ یہ صورتحال قانون اور انسانی حقوق دونوں کے منافی ہے۔" وکیل نے زور دے کر کہا کہ عمران خان کو بنیادی قانونی اور انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے اور ان کے موکل کو تمام قانونی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ معاملہ عدالتی نظام میں موجود چیلنجز اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے ایک بار پھر بحث کا باعث بنا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی مخالفین کے خلاف انتظامیہ عدالتی احکامات کو نظرانداز کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا عدالت اپنے احکامات کی تعمیل کے لیے کوئی مزید اقدامات کرتی ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اس معاملے کو عدالت عظمیٰ تک لے جانے کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مائنز اینڈ منرلز بل کو صوبوں کے وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل صوبائی خودمختاری اور آئین کے خلاف ہے، اور اگر حکومت اس پر نظرثانی نہیں کرتی تو عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے میدان میں آنا پڑے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وفاق کو چاہیے کہ وہ آئین کی بالادستی کو مدنظر رکھے اور ایسے قوانین نہ بنائے جو صوبوں کے حقوق کو مجروح کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی، اور صوبوں کے اختیارات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ نہ تو بین الاقوامی طاقتوں کو اور نہ ہی وفاقی حکومت کو صوبوں کے وسائل پر کنٹرول دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے فاٹا کے انضمام پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ عجلت میں لیا گیا تھا، جس کے پیچھے بیرونی دباؤ تھا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، جس کی کوئی قانونی یا اخلاقی توجیہہ نہیں بنتی۔ افغان مہاجرین کے جبری انخلا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیرمنصفانہ اور جذباتی فیصلہ ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہیں، اور انہیں واپس بھیجنے کا کوئی منظم طریقہ کار ہونا چاہیے۔ خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی عدم تحفظ کی صورتحال پر بھی انہوں نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے سیاسی کارکنان اور علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آخر میں، مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ 27 اپریل کو مینار پاکستان پر "اسرائیل مردہ باد" ملین مارچ منعقد ہوگا، جبکہ 11 مئی کو پشاور میں ایک اور بڑا احتجاجی مارچ نکالا جائے گا، جس میں صوبے بھر سے عوام بڑی تعداد میں شرکت کریں گے۔
سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ فائل میں ایک عجیب و غریب دعویٰ سامنے آیا ہے جس کے مطابق 1989ء یا 1990ء کے دوران یوکرین میں تعینات سوویت فوجیوں کا ایک گروپ ایک نامعلوم فضائی شے سے ٹکرا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد 23 فوجیوں کو پتھر میں تبدیل ہوتے دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ سرد جنگ کے دور میں پیش آیا جب روسی فوجیوں نے تربیتی مشقوں کے دوران آسمان میں ایک عجیب الشکل اڑن طشتری دیکھی۔ ایک فوجی نے گھبرا کر اس پر میزائل داغ دیا جس کے بعد وہ زمین پر آگرا۔ حیرت انگیز طور پر ملبے سے پانچ چھوٹے قد کے مخلوقات باہر نکلے جن کے بڑے سر اور گہری سیاہ آنکھیں تھیں۔ یہ مخلوقات آپس میں مل کر ایک روشن گیند کی شکل اختیار کر گئیں جو اچانک تیز روشنی کے ساتھ پھٹ گئی۔ اس دھماکے کے فوری بعد 23 فوجی پتھر کے مجسموں میں بدل گئے۔ صرف دو سپاہی اس واقعے سے بچ پائے کیونکہ وہ سائے میں کھڑے تھے اور روشنی سے کم متاثر ہوئے۔ بعد میں پتھر میں تبدیل ہونے والے فوجیوں اور تباہ شدہ یو ایف او کو ایک خفیہ فوجی اڈے پر منتقل کر دیا گیا۔ سائنسی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ متاثرہ فوجیوں کے جسمانی خلیات مکمل طور پر چونے کے پتھر جیسے مادے میں تبدیل ہو چکے تھے۔ یہ فائل اصل میں 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سی آئی اے کے ہاتھ لگی تھی جو 250 صفحات پر مشتمل تھی۔ اسے 2000ء میں عوامی سطح پر جاری کیا گیا لیکن اس سے پہلے 1993ء میں کینیڈین ہفتہ وار اخبار اور یوکرینی اخبار میں بھی اس کا ذکر آچکا تھا۔ سابق سی آئی اے اہلکار مائیک بیکر نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ یہ واقعہ پیش آیا بھی ہو تو موجودہ کہانی میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی اضافے اور تبدیلیاں ہو چکی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں اصل حقائق اور فرضی کہانیاں اکثر آپس میں گڈمڈ ہو جاتی ہیں۔ اس واقعے نے سائنسدانوں اور محققین کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا واقعی کوئی غیر زمینی تہذیب ایسی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی رکھتی ہے جو انسانی فہم سے بالاتر ہے؟ یا پھر یہ محض سرد جنگ کے دور کی کوئی پراسرار گھڑی ہوئی کہانی ہے؟ فی الحال یہ سوالات بے جواب ہیں اور یہ راز سی آئی اے کی خفیہ فائلوں میں دفن ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے ان دعوؤں کو غلط قرار دیدیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ منگل کو عمران خان نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے توسط سے اپنے تحفظات سلمان اکرم راجہ کو پہنچائے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے یہ سلمان اکرم راجہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں کو اسکول کلاس روُم کی طرح نہیں چلایا جا سکتا۔‘‘ بیرسٹر سلمان صفدر نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے منسوب خبر غلط ہے۔ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ سلمان اکرم راجہ ٹک ٹاکرز کی طرح پارٹی نہ چلائے یا سیاسی جماعت کو کلاس روم کی طرح چلائے۔ ان کا پیغام یہ تھا کہ سلمان اکرم راجہ کو اندر نہیں آنے دیا گیا، خان صاحب نے کہا تھا کہ تحریک انصاف بہت بڑی پارٹی ہے، پارٹی میں ایشو ہوتے ہیں مگر انہیں میڈیا اور عوام کے سامنے رکھنے سے اجتناب کیا جائے اور اگر کوئی ایشو آتا ہے تو اسے آپس میں ڈسپلنری کمیٹی میں ڈسکس کرکے حل کریں۔ اگر پارٹی میں ایشو آتے ہیں تو انہیں آپس میں ہی ڈسپلنری کمیٹی میں حل کریں سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں کہا ، ان کا کہنا تھا ک میری انڈرسٹینڈنگ اور فیلنگ ہے کہ خان صاحب کا بیرسٹر سلمان اکرم راجہ پر بہت اعتماد ہے۔
بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ، بیورو آف امیگریشن کی رپورٹ جاری اسلام آباد: بیورو آف امیگریشن نے سال 2025 کے پہلے تین ماہ کے دوران بیرون ملک روزگار کی غرض سے جانے والے پاکستانیوں کے تازہ اعداد و شمار جاری کر دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جنوری سے مارچ کے دوران مجموعی طور پر 1 لاکھ 72 ہزار 144 پاکستانی بیرون ملک ملازمت کے لیے روانہ ہوئے، جن میں سے 99 ہزار 139 افراد کا تعلق مزدور پیشے سے تھا۔ تفصیلی اعداد و شمار کے مطابق، 38 ہزار 274 ڈرائیورز، 1 ہزار 859 مستری، اور 1 ہزار 689 باورچی بھی بیرون ملک کام کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پیشہ ور افراد میں 849 ڈاکٹرز، 1 ہزار 479 انجینئرز، 390 نرسز، 3 ہزار 474 ٹیکنیشنز اور 1 ہزار 58 ویلڈرز شامل تھے۔ اس کے علاوہ 2 ہزار 130 الیکٹریشنز اور 436 اساتذہ نے بھی بیرون ملک ملازمت اختیار کی۔ ممالک کے لحاظ سے، سعودی عرب پاکستانیوں کی پہلی ترجیح رہا جہاں 1 لاکھ 21 ہزار 970 افراد گئے۔ دیگر نمایاں مقامات میں یو اے ای (6 ہزار 891)، عمان (8 ہزار 331)، قطر (12 ہزار 989)، بحرین (939)، ملائیشیا (775)، چین (592)، آذربائیجان (350)، جرمنی (264) اور یونان (815) شامل ہیں۔ اسی طرح 108 پاکستانی جاپان، 109 اٹلی، 870 ترکیہ، 1 ہزار 454 برطانیہ اور 257 امریکی ریاستوں میں ملازمت کے لیے روانہ ہوئے۔
ڈیرہ اسماعیل خان: تحصیل کلاچی کے علاقے کوٹ دولت کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے پولیو مہم کے دو اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق واقعے کے دوران مسلح افراد نے ایک فلائنگ کوچ کو فائرنگ کر کے روکا اور رضا محمد اور محمد آصف نامی دو پولیو ملازمین کو گاڑی سے اتار کر اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس کے مطابق مغوی اہلکار نیشنل ایمرجنسی پولیو مہم کی تربیت مکمل کرنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ مسلح افراد نے شناختی کارڈز چیک کرنے کے بعد جان بوجھ کر انہی دو اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، جبکہ سیکیورٹی اداروں نے بھرپور تلاشی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ تاہم، اب تک اغوا کاروں یا مغوی اہلکاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ واقعہ پولیو ورکرز کے تحفظ کے حوالے سے ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کر گیا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پولیو ورکرز کو نشانہ بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں پولیو کے خلاف مہمات متاثر ہوئی ہیں۔ عوامی حلقوں اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد نے حکومت سے فوری طور پر پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تعینات کی ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق، علاقے میں سیکیورٹی چیک پوسٹس بڑھا دی گئی ہیں، جبکہ ممکنہ طور پر اغوا کاروں کے خلاف آپریشن بھی جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مغوی اہلکاروں کو جلد از جلد بازیاب کرانے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ اس واقعے پر صحت کے شعبے سے وابستہ تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پولیو ورکرز کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، تو ملک سے پولیو کے خاتمے کی مہم مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پولیو ٹیموں کے ساتھ سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔ اداروں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ پولیو مہم میں تعاون کریں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی صورت میں فوری طور پر سیکیورٹی فورسز کو اطلاع دیں۔
نیویارک: امریکا میں کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی طالبعلم محسن مہداوی کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق گرین کارڈ ہولڈر محسن مہداوی اسرائیل مخالف مظاہروں میں سرگرم تھے۔ تفصیلات کے مطابق محسن مہداوی ورمونٹ امیگریشن دفتر میں امریکی شہریت کے انٹرویو کے لیے گئے تھے جہاں سے انہیں پولیس نے ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لیا۔ ورمونٹ کی عدالت کے ڈسٹرکٹ جج ولیم سیشنز نے محسن کی ملک بدری یا ورمونٹ سے منتقلی روکنے کا عارضی حکم امتناع جاری کیا ہے۔ محسن مہداوی فلسطینی طلبہ کے ایک گروپ کے شریک بانی ہیں جس کی تشکیل میں پہلے گرفتار ہونے والے طالبعلم محمود خلیل کا بھی اہم کردار تھا۔ واضح رہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والے محمود خلیل کو بھی گزشتہ دنوں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں امریکا بھر میں جاری اسرائیل مخالف مظاہروں کے تناظر میں سامنے آئی ہیں جہاں متعدد یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تحریکوں کو سختی سے کچلا جا رہا ہے۔
مستونگ: بلوچستان کے ضلع مستونگ میں دشت روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کی بس پر ہونے والے آئی ای ڈی بم حملے میں 3 اہلکار شہید ہو گئے جبکہ 18 زخمی ہوئے۔ پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکا کنڈ مسوری کے قریب موٹرسائیکل میں نصب ریموٹ کنٹرول بارودی مواد سے کیا گیا۔ حادثے کے وقت بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ڈیوٹی سے واپس جا رہے تھے۔ واقعے کے بعد فورسز کے اہلکاروں نے جائے وقوعہ کا محاصرہ کر لیا جبکہ شہید اور زخمی اہلکاروں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ڈی ایس پی مستونگ یونس مگسی نے بتایا کہ یہ اہلکار بی این پی کے دھرنے کی سیکیورٹی پر مامور تھے اور روزانہ کی بنیاد پر ڈیوٹی کرکے واپس آتے تھے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے تصدیق کی کہ حملے میں 3 اہلکار شہید ہوئے جبکہ 16 زخمی ہوئے، جن میں سے دو کی حالت تشویشناک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تمام زخمیوں کو کوئٹہ کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر قومی رہنماؤں نے اس دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ "دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے گا"۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ "دہشت گرد پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں اور ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا"۔ واقعے کے بعد بولان میڈیکل کالج ہسپتال اور کوئٹہ سول ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے شہدا کے خاندانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا کہ "دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ انسانیت کے دشمن ہیں"۔ حکام نے حملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں کارروائی تیز کر دی ہے۔

Back
Top