ارتغل سیریز - اپنے دشمنوں سے پہلے اپنے غداروں کو قتل کرو ( ڈرامہ کا مرکزی خیال )
میں یہ خصوصی تحریر ارتغل غازی کا کردار نباہنے والے ایکٹر اینگن ا لتان دوزیتان کی پاکستان آمد پر پبلش کرنا چاہتا تھا مگر حالات تیزی سے پلٹا کھا گئے .میری یہ تخلیق حالات حاضرہ سے متعلق ہو چکی ہے . ترکوں کا ماننا ہے کے جو لوگ اپنے لوگ بہادروں کو بھلا دیتے ہیں ، تاریخ انھیں بھلا دیتی ہے . ہماری ٧٣ سالہ گھناؤنی تاریخ ہے اور ہماری تاریخ کے خاکی تخلیق کار شائد اسلئے ہمیں مسخ شدہ تاریخ کو پڑھانے کی بجائے دنیا کے سامنے چھپاتے ہیں.تمام تر تاریخی ناکامیوں کو خود ساختہ "ہائبرڈ جنگ" کے پلے باندھا جا رہا ہے جیسے سیاستدان جمہوریت کی پیچھے چھپتے ہیں . اس خطے میں رہنے والوں کی ازلی تاریخ محض محکومیت ، چودھریوں اور کمیوں کے باندر کلے میں پنہا ہے . باہر سے آئے حملہ اور اورفاتح ہی ہمارے ہیرو ٹہرے میں ڈرامہ سیریز ارتغل غازی کے پانچوں سیزن دیکھ چکا ہوں. یہ ایک طویل ترین ڈرامہ سیریز ہے لھذا.. اسے چند جملوں میں سمیٹ کر اس ڈرامہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا . موجودہ حالات میں اس سیریز کا تقابلی جائزہ لے کر ہمیں اس سیریز سے بآسانی رہنمائی مل سکتی ہے جو تخلیق کار اور وزیراعظم عمران خان کا اس ڈرامہ کو دکھانے کا بنیادی مقصد نظر اتا ہے . ہر کردار میں کسی نہ کسی پاکستانی کی جھلک آپکو ملتی ہے
اگر سردار کمزور ہو تو اس کے لوگ بھی کمزور ہوں گے لیکن جب تک وہ عقلمند ، دور اندیش اور ثابت قدم رہنے والا ہو تو لوگ بھی مظبوط ہوں گے . وہ لوہے کو پگھلا کر پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں . ارتغل غازی
سلطان / بادشاہ / وزیراعظم بننے کی خواہش ہمیشہ سے تخت سے تختہ کی جانب لے کر جاتی ہے . ارتغل غازی میں دکھایا جاتا ہے کے سلطان علاؤ الدین کو جب اپنی جان خطرے میں محسوس ہوتی ہے تو وہ سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اپنی دوسری بیگم کے بیٹے کو جانشین مقرر کرتے ہیں . پہلی بیگم کو جب علم ہوتا ہے تو وہ امیر سعد الدین کی سازش میں شریک ہو جاتی ہے . سلطان بننے کی خواہش لئے تمام کردار ایک ایک کر کے اپنی جان سے جاتے ہیں . اس ڈرامہ کا تقابلی جائزہ پاکستان سے کریں تو پاکستان کی پیدائش کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے . گاندھی جی ہندوستان کی آزادی حاصل کر لیتے ہیں مگر ساتھ ساتھ انکی روح بھی آزاد کروا دی جاتی ہے . بانی پاکستان کی ایمبولینس کا قصہ ایک سازش بتایا جاتا ہے . لیاقت علی خان شہید ملت ہو جاتے ہیں . بنگلہ دیش بنانے والے تمام کردار جن میں اندرا گاندھی ، ذالفقار علی بھٹو ، مجیب الرحمان شامل تھے ، ایک ایک کر کے مار دئے جاتے ہیں . فلحال بینظیر بھٹو اس لسٹ میں آخری حکمران ہیں
ہمارے بند کئے دروازے دشمنوں کے لئے کھلے ہیں تو اسکا مطلب ہے ہمارے بیچ ایک غدار ہے – ارتغل غازی
میں ایک مظلوم کی مدد کروں گا چاہے وہ میرا دشمن ہی کیوں نہ ہو ، میں کسی غدار کو معاف نہیں کروں گا چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو- ارتغل غازی
میں یہ خصوصی تحریر ارتغل غازی کا کردار نباہنے والے ایکٹر اینگن ا لتان دوزیتان کی پاکستان آمد پر پبلش کرنا چاہتا تھا مگر حالات تیزی سے پلٹا کھا گئے .میری یہ تخلیق حالات حاضرہ سے متعلق ہو چکی ہے . ترکوں کا ماننا ہے کے جو لوگ اپنے لوگ بہادروں کو بھلا دیتے ہیں ، تاریخ انھیں بھلا دیتی ہے . ہماری ٧٣ سالہ گھناؤنی تاریخ ہے اور ہماری تاریخ کے خاکی تخلیق کار شائد اسلئے ہمیں مسخ شدہ تاریخ کو پڑھانے کی بجائے دنیا کے سامنے چھپاتے ہیں.تمام تر تاریخی ناکامیوں کو خود ساختہ "ہائبرڈ جنگ" کے پلے باندھا جا رہا ہے جیسے سیاستدان جمہوریت کی پیچھے چھپتے ہیں . اس خطے میں رہنے والوں کی ازلی تاریخ محض محکومیت ، چودھریوں اور کمیوں کے باندر کلے میں پنہا ہے . باہر سے آئے حملہ اور اورفاتح ہی ہمارے ہیرو ٹہرے میں ڈرامہ سیریز ارتغل غازی کے پانچوں سیزن دیکھ چکا ہوں. یہ ایک طویل ترین ڈرامہ سیریز ہے لھذا.. اسے چند جملوں میں سمیٹ کر اس ڈرامہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا . موجودہ حالات میں اس سیریز کا تقابلی جائزہ لے کر ہمیں اس سیریز سے بآسانی رہنمائی مل سکتی ہے جو تخلیق کار اور وزیراعظم عمران خان کا اس ڈرامہ کو دکھانے کا بنیادی مقصد نظر اتا ہے . ہر کردار میں کسی نہ کسی پاکستانی کی جھلک آپکو ملتی ہے
اگر سردار کمزور ہو تو اس کے لوگ بھی کمزور ہوں گے لیکن جب تک وہ عقلمند ، دور اندیش اور ثابت قدم رہنے والا ہو تو لوگ بھی مظبوط ہوں گے . وہ لوہے کو پگھلا کر پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں . ارتغل غازی
سلطان / بادشاہ / وزیراعظم بننے کی خواہش ہمیشہ سے تخت سے تختہ کی جانب لے کر جاتی ہے . ارتغل غازی میں دکھایا جاتا ہے کے سلطان علاؤ الدین کو جب اپنی جان خطرے میں محسوس ہوتی ہے تو وہ سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اپنی دوسری بیگم کے بیٹے کو جانشین مقرر کرتے ہیں . پہلی بیگم کو جب علم ہوتا ہے تو وہ امیر سعد الدین کی سازش میں شریک ہو جاتی ہے . سلطان بننے کی خواہش لئے تمام کردار ایک ایک کر کے اپنی جان سے جاتے ہیں . اس ڈرامہ کا تقابلی جائزہ پاکستان سے کریں تو پاکستان کی پیدائش کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے . گاندھی جی ہندوستان کی آزادی حاصل کر لیتے ہیں مگر ساتھ ساتھ انکی روح بھی آزاد کروا دی جاتی ہے . بانی پاکستان کی ایمبولینس کا قصہ ایک سازش بتایا جاتا ہے . لیاقت علی خان شہید ملت ہو جاتے ہیں . بنگلہ دیش بنانے والے تمام کردار جن میں اندرا گاندھی ، ذالفقار علی بھٹو ، مجیب الرحمان شامل تھے ، ایک ایک کر کے مار دئے جاتے ہیں . فلحال بینظیر بھٹو اس لسٹ میں آخری حکمران ہیں
ہمارے بند کئے دروازے دشمنوں کے لئے کھلے ہیں تو اسکا مطلب ہے ہمارے بیچ ایک غدار ہے – ارتغل غازی
میں ایک مظلوم کی مدد کروں گا چاہے وہ میرا دشمن ہی کیوں نہ ہو ، میں کسی غدار کو معاف نہیں کروں گا چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو- ارتغل غازی
بظاھر یہ ترکوں کی بہادری پرمبنی شاندار تاریخ ڈرامہ سیریل ہے مگر مکمل سیریز میں ارتغل غازی محض ڈھائی دشمنوں سے نبرازما ہو سکے .ارتغل غازی کی زیادہ تر جدوجہد مقامی ترکی قبائل کے سازشی عناصر اور مقامی غداروں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی " چھاپہ مار /ایمبوش " ٹائپ جھڑپیں تھیں. ارتغل غازی سلطنت عثمانیہ کی بنیاد غداروں کو ختم کر کے اور انصاف قائم کر کے رکھتے ہیں جسکی وجہ سے سلطنت عثمانیہ ٦٠٠ سال تک چلی . منگولوں اور مسیحوں کو با آسانی مقامی ترک مسلمان غدار مل جاتے تھے . منگولوں کا جاسوسی نیٹ ورک انتہائی موثر اور کارگر تھا .منگول کمانڈر برکہ خان جو بعد ازاں مسلمان ہو جاتے ہیں ، انکا قریب ترین اور طویل ترین مشیر بھی منگولوں کا جاسوس اور غدار ہوتا ہے . ارتغل سوگوت سے خصوصی طور پر برکہ خان کے پاس جا کر نہ صرف اسکی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ اسکے لئے خصوصی جال بچھا کر اسکا خاتمہ بھی خود کر کے برکہ خان کا اعتبار جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں . سیریز کے آخر میں گلی سڑی ریاست سے چھٹکارہ پانے کے لئے ارتغل غازی کا سفید داڑھی والوں کے توسط سے برکہ خان کے ساتھ اگریمنٹ ہوتا ہے اور برکہ خان انھیں مستقبل کے اہم راز انکے حوالے کرتے ہیں. اسکے بعد کہانی عثمان سے شروع سے ہوتی ہے
ارتغل غازی کا برکہ خان کے ساتھ آخر میں کچھ اسطرح کا مقالمہ ہوتا ہے جو اس پوری سیریز کا مرکزی خیال بھی ہے
انشاللہ ہم عالم اسلام کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑا لیں گے . اصل چیز ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے . اسطرح ہم مستقبل تعمیر کر سکیں گے . جس فتنے نے ہماری جڑیں کاٹیں اور عالم اسلام کو اس حال میں لا پونھچایا ، وہ ہے عھدوں کی لالچ اور حرص . غداروں نے اپنی انفرادی مصلحتوں کی خاطر عالم اسلام کو نقصان پونھچایا جس سے کمزوری پیدا ہوئی . غلط چیزوں کو نقصان دہ نہیں سمجھا . ہمارے کم ہونے کا ڈر نہیں ،انکے زیادہ ہونے کا تردد نہیں . اگر ہم اپنے خامیوں کے سامنے اور ظالموں کے ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں ، ہم فقط ایک شخص ہی رہ جائیں اور انکے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں تو سمندر بنانے والے الله ایک کو ہزار بنا دیں گے
ارتغل غازی کا برکہ خان کے ساتھ آخر میں کچھ اسطرح کا مقالمہ ہوتا ہے جو اس پوری سیریز کا مرکزی خیال بھی ہے
انشاللہ ہم عالم اسلام کو ظالموں کے پنجوں سے چھڑا لیں گے . اصل چیز ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہے . اسطرح ہم مستقبل تعمیر کر سکیں گے . جس فتنے نے ہماری جڑیں کاٹیں اور عالم اسلام کو اس حال میں لا پونھچایا ، وہ ہے عھدوں کی لالچ اور حرص . غداروں نے اپنی انفرادی مصلحتوں کی خاطر عالم اسلام کو نقصان پونھچایا جس سے کمزوری پیدا ہوئی . غلط چیزوں کو نقصان دہ نہیں سمجھا . ہمارے کم ہونے کا ڈر نہیں ،انکے زیادہ ہونے کا تردد نہیں . اگر ہم اپنے خامیوں کے سامنے اور ظالموں کے ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں ، ہم فقط ایک شخص ہی رہ جائیں اور انکے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں تو سمندر بنانے والے الله ایک کو ہزار بنا دیں گے
اور الله کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور اپس میں پھوٹ مت ڈالو....... القرآن
جو قوم خواب نہیں دیکھتی ، وہ کچھ نہیں پاتی.......... ( ارتغل غازی کا قائی قبیلہ کے سرداروں سے خطاب
ہر درخت کو کھانے والا کیڑا اسی درخت میں پیدا ہوتا ہے – ترک کہاوت
ارتغل غازی کے خواب اور سوچ دونوں بڑ ے تھے جبکہ انکے دونوں بڑے بھائی انکے لامتناہی عزائم اور جنگجو نیچر کی وجہ سے خائف تھے . وہ امن کے متلاشی تھے . ترکوں میں ایک کہاوت ہے ...جب بھیڑیا بوڑھا ہوتا ہے تو وہ اپنے بچوں کی خوراک بن جاتا ہے . گلدارو نے قائی قبیلہ کی سرداری اپنی ہی والدہ سے حاصل کرنے کے لئے نادانستہ طور پر ٹیمپلیرز کا سونا استعمال کیا . یہ چلن بھی ہر پاکستانی الیکشن میں عام ہے . دونوں بھائیوں نے قائی قبیلہ میں تفرقہ ڈالا اور اپنا آسان راستہ پکڑا اور علیحدہ ہو گئے . ارتغل غازی نے مشکل راستہ پکڑا اور ہدایات کے مطابق اسلام دشمن کے علاقوں میں جا بسے . ارتغل غازی نے انہیں متنبہ کر دیا تھا کے منگول بلاخر انکی گردنوں پر سوار ہوں گے . ارتغل کا ایک ویژن تھا . دونوں بھائیوں کوآخر میں جان کے لالے پڑتے ہیں جب آخر کار وہ منگولوں کے ہتھے چڑھتے ہیں . دوسری طرف ارتغل اپنی عقل اور بہادری سے سلطان صلاح الدین کا نہ صرف اعتماد جیتتا ہے بلکے سوگت میں سردار اعلی کا عھدہ حاصل کر لیتے ہیں . اس وقت کے " سفید داڑھی " والے اس تمام تحریک کے ماسٹر مائنڈ ہوتے ہیں جو ارتغل غازی کو اپنی مجلس شوریٰ کا ممبر بنا لیتے ہیں اور گاہے بگاہے انکی مدد کرتے رہتے ہیں اور مستقبل کی گائیڈ لائن دیتے ہیں . ارتغل غازی مجلس شوریٰ میں بیٹھے رہنے کی بجائے عملی میدان میں ہمہ وقت مشغول رہتے ہیں . ہم دیکھتے ہیں کے پاکستان میں تمام سیاسی پارٹی کے لیڈر اپنی سیاست پریس کانفرنسز اور ٹالک شوز کے توسط سے چلاتے ہیں . لوگوں کے مسائل اور عملی میدان میں یہ لوگ ڈھونڈھے سے نہیں ملتے
اس ڈرامہ سیریز میں دکھایا گیا ہے کے تمام ترک سرداروں نے اپنی علیحدہ ایک ایک اینٹ کی مسجد بنائی ہوئی تھی . ان میں دور اندیشی کی عدم موجودگی ، جنگوں سے پرہیز ، قبیلوں کے ترک سرداروں کی ذاتی لالچ ، گھمنڈ ، غداری ، اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ الحاق ، در پردہ شیطانی چالوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے . ترک سرداروں کی غداریوں کے نتیجے میں مسلمان جنگجوں کی زندگیاں شہادت پر منتج ہوئی تھی . اس سیریز میں دکھایا گیا کے ترک ہر قسم کی مکروہ کاروایاں کرنے کے بعد قبیلوں کے ترک روایات اور ترک طریقہ انصاف کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے . روایت کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے لھذا مکاریاں ، عیاریاں اور چالاکیوں کو بہت زیادہ تفصیل سے دکھایا گیا ہے . ترک سرداروں کی لا متناہی غداریوں کوترک قومیت کی عظمت دکھانے کے لیے چھپایا بھی جا سکتا تھا مگرحیرت انگیز طور پر اس سیریل کو پاکستانی درسی نصاب بننے نہ دیا گیا . مجھے نہیں پتا کہ یہ کس نے کہا ( سوشل میڈیا پر اداکار شان یہ قول لکھ کر پھنس گئے تھے ) ہے مگر پوری ارتغل سیریز اس ایک جملے کے گرد گھومتی نظر اتی ہے اور یہ جملہ کافروں اور منافقوں پر پہاڑ بن کر گرتا نظر اتا ہے کیونکے یہ لوگ غداروں کو نہ صرف پیدا کرتے ہیں بلکے پرورش کر کے انکا تحفظ بھی کرتے ہیں ." زا نی کو چوک میں پھانسی پر لٹکا دو " جیسے جملے بھی ایسے لوگوں کے دلوں میں تیر کی مانند لگتے ہیں جبکہ یہ عام عوام کی دلی خواہش ہے . حیران کن طور پر دونوں اقوال زریں کو جن سے منسوب کی جاتی ہیں ،جعلی کہا جاتا ہے مگر عام لوگوں میں یہ اقوال بہرحال بہت مقبول ہیں کیونکے یہ انکے دلوں کی آواز ہیں
.
" اپنے دشمنوں سے پہلے اپنے غداروں کو قتل کرو "
جو لوگ انگلش سے مطمئن ہوتے ہیں ، انکے لئے بھی ایک جملہ ہے
A murderer is less to fear. The traitor is the plague.”
~ Marcus Tullius Cicero
(106-43 B.C.) Roman Statesman, Philosopher and Orator
If this is also a misquote, it is well accepted. Misquote or not, it is still rates several stars. (One of the comment underneath this quote)
سلمان شاہ کا بھائی کردغلو بھی انتہائی خود غرض انسان اور غدار ہوتا ہے جو منگولوں اور ٹیمپلیرز کے ساتھ سازشیں کر کے قائی قبیلہ کو ناقابل تلافی نقصان پونھچاتا ہے . کردغلو بھی سرداری حاصل کرنے کیلئے ہر حد سے گزر جاتا ہے . کردغلو کا کھیل بھی فضل الرحمان کی طرح لمبا چلتا ہے . فضل الرحمان کا انجام پتا نہیں کب ہو گا . چراغ تلے اندھیرا ، ساری دنیا کی نظر میں کردغلو مشکوک ہوتا ہے مگر سلمان شاہ اندھیرے میں رہتے ہیں کیونکے وہ انکے ساتھ کافی محاذ پر ساتھ لڑا ہوتا ہے . سرداری کی جنگ میں ٹیمپلیرز اور منگولوں کا سونا استعمال کیا جاتا ہے جیسے ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز نے نواز شریف پر پیسا لگایا تھا . ہم دیکھتے ہیں کے نواز شریف کا چھوٹا بھائی شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے دو ہاتھ اگے ہوتا ہے . الباستی / بے بولت بے کردار کی ہو بہو جھلک شہباز شریف میں ملتی ہے . یہ ایک ایسا کردار ہے جس پر عمران خان کی خاموشی بھی انتہائی معنی خیز ہے .ظاہر ہے دونوں کا تعلق سلیکٹرز کے ساتھ ہے .میں یہ بات ببانگ دہل لکھتا ہوں کے جب تک پنجابی رہزنوں کو سزا نہیں ہو گی ، کسی کا باپ بھی زرداری کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور ایسا ہی ہو رہا ہے
محترمہ بشریٰ انصاری کے بقول ، عمران خان ایک چھید والی کشتی کا کپتان ہے . یہ ایک جملہ ہی پوری کتاب کے برابر ہے . عمران خان کرپشن پر کوئی مصالحت نہیں کرنا چاہتے باقی تمام چیزوں کے لئے وہ مخالفین کے ساتھ مصالحت پر تیار ہیں
ہم پاکستان میں تمام قومیتوں کے سرداروں کی غداری کے چشم دید گواہ ہیں . تمام زی شعور فضل الرحمان ، الطاف حسین ، پنجاب ، بلوچستان اور سرحد کے سیاستدانوں ، ججوں ، جنرلوں ، افسروں اور اہل علم کی غداریوں کے عینی شاہد ہیں . سلجوق سلطنت کے امیر سعد الدین کا کردار پاکستانی جنرلز کما حقہ ادائیگی کر رہے ہیں . جب قائی قبیلہ کا سردار گلدارو اپنے بد ترین منگول دشمن کمانڈر " نویان " کا سر قلم کرنے لگتا ہے تو عین اس وقت امیر سعد الدین موقع پر پہنچ کر اسے بچا لیتا ہے جو اگے جا کر مسلمانوں کی زندگی اور اجیرن کرتا ہے . اس طرز پر ہم دیکھتے ہیں کے طاقتور ممالک ہماری فوج میں بیٹھے ایجنٹ کے توسط سے کیسے الطاف حسین، جنرل مشرف ، نواز شریف اور زرداری کو قدم قدم پر بچاتے ہیں "تمام ملکی رازوں کے امین " اشرافیہ کو بیرون ملک فرار کروایا جاتا ہے . موقع ملنے پر وہ پاکستان اتے ہیں اور تمام قوانین کو بلائے طاق رکھ کر پاکستان کو ضلالتوں کے مزید گہرایوں میں دھکیل کر نظام کو زمیں بوس کر دیتے ہیں اور دشمن ممالک کا کام انتہائی آسان کر دیتے ہیں . انکے بیرونی آقا تمام ملکی قوانین بلائے طاق رکھ اپنے اپنے ملکوں میں تحفظ دیتے ہیں
قائی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے سرداروں کی ریاست کے امیر سلطان الاؤ الدین سے غیر مشروط وابستگی ہوتی ہے . ارتغل غازی اپنے قبیلہ کے سردار کے طور پر بھر پور شجاعت دکھاتے ہیں جسکے نتیجے میں انھیں سردار اعلی کا منصب عطا کیا جاتا ہے. ڈرامہ سیریز ارتغل غازی میں امیر سعد الدین کا کردار سب سے طاقتور اور دلچسپ ہے . امیر ایک انتہائی عقلمند اور زیرک سیاستدان ہوتا ہو جو ماہر تعمیرات ہونے کے ساتھ متعد چیزوں کا تخلیق کار ہوتا ہے . ریاست کے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کی بجائے یہ کردار زیادہ تر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ان سے مصالحت کرتا ہے . چونکے امیر سعد الدین سمجھتا ہے کے سیاست اسکے گھر کی لونڈی ہے اور شاطرانہ سیاسی چلیں اسکی بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لھذا امیر کو ارتغل غازی کی کامیابیاں ایک آنکھ بھی نہیں بھاتیں . امیر انکے خلاف متعد جال بچھا تا ہے مگر ارتغل ہر ایک جال سے نکل جاتا ہے . انتہائی شاطرانہ ار ظالمانہ کھیل دیکھ کر لا محالہ عمران خان کی ٢٢ سالہ جدوجہد سامنے ا جاتی ہے . سلطان بننے کے عزائم میں امیر سعد الدین کے سامنے ارتغل ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا رہتا ہے . ہر وقت "پولیٹیکل انجینرنگ" میں مصروف یہ کردار ہمیشہ دشمنوں کو ہی فائدہ پونھچاتا ہے
دشمن اپنی تمام تر نفرت کے باوجود اس سے مفاہمت کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں . سیسلیو ن گاڈ فادر کی مانند ، وہ ہمیشہ انھیں ایسی پیش کش کرتا جسے رد کرنا نا ممکن ہوتا . سلطان بننے کا خواب دیکھنے والا متعد مرتبہ انتہائی صفائی سے نہ صرف سلطان کو زہر دے دیتا ہے بلکہ ارتغل اور سپہ سالار ترگت کو بھی زہر دینے میں کامیاب رہتا ہے . آخر کار سلطان صلاح الدین کو دیا جانے والا زہر اثر کرتا ہے . سلطان صلاح الدین اپنوں کی محلاتی سازش کا شکار ہو جاتا ہے . سلطان کس بھی مرحلے پر امیر سعد الدین کے جالوں اور مکر و فریب کو سمجھ نہیں پاتا اور نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے . سلطان الاؤالدین کا المیہ بھی یہ ہوتا ہے کے امیر سعد الدین بہت سی جھڑپوں میں سلطان کے ساتھ ہوتا ہے . عمران خان کا بھی یہی المیہ سیاسی جمعدار جہانگیر خان ترین کے ساتھ تھا
پاکستان میں انصاف نا پید ہے . ڈرامہ کی کہانی انصاف اور مقامی سازشوں کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے . انصاف کی راہ میں پاکستانی جنرل بطور پاکستانی امیر سعد الدین حائل ہیں . ایک وقت ایسا بھی اتا ہے جب ملکہ اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے کے لئے اپنے سلطان کو امیر سعد الدین کے توسط سے زہر دلواتی ہے . نوجوان بیٹا تخت پر تو بیٹھ جاتا ہے مگر وہ حقیقی طور پر امیر سعد الدین کا کٹھ پتلی بن جاتا ہے کیونکے امیر سعد الدین محل میں اپنے دشمنوں کو مروا دیتا ہے اور حامیوں کو اپنا چیلا بنا لیتا ہے . ہم دیکھتے ہیں کے پاکستانی جنرلز میڈیا اور جاسوسوں کا جال بچھا کر پنجابی لیڈرشپ کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر لے جاتے ہیں اور ہمارا ارتغل شہزادہ سلطان غیاث الدین کی مانند اس سفاکی کو دیکھتا رہ جاتا ہے .انگلیاں ڈاکٹر یاسمین اور عدلیہ پر اٹھائی جاتی ہیں . عمران خان کی کیبنٹ میں غداروں کا اندازہ اس وقت لگا تھا جب اس وقت کی انفارمیشن منسٹر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں بتایا کے تحریک انصاف کے لیڈرز نے نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لئے ایک نہیں بلکہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھاۓ تھے
غداری اور کیا ہوتی ہے جب پاکستان کا مفاد سامنے رکھنے کی بجائے علی بابا چالیس چور سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ذاتی مفادات کو مقدم جانیں . میڈیا کی غداری کی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے انہوں نے آجتک نواز زرداری سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈلوانے والوں سے یہ نہیں پوچھا کے آپلوگوں نے پاکستان کو اس لسٹ نکلوانے کے لئے کیا کیا اقدامات کئے تھے . کیا یہ صرف عمران خان کی ذمہ داری ہے . وسیم بادامی جیسے چھکے نے یہ معصومانہ سوال کسی سے نے نہیں پوچھا کے اپوزیشن والے اس قانون پر جو اعتراض لگا رہے ہیں ، کیا وہ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق تو نہیں ؟
پاکستانی غدار میڈیا کا مکروہ کھیل ایک مرتبہ پھر اپنے عروج پر جانے کے لئے شروع ہو چکا ہے . پاکستانی غداروں کی تمام جنگ صرف اور صرف میڈیا پر لڑی جائے گی
پارلیمنٹ میں امیر سعد الدین ایکسٹینشن کے بل کو قانون بنوا لیتے ہیں اور تمام غدار چپ چاپ تمام کار خیر میں شامل ہو جاتے ہیں . عدالت کی طرف سے دئیے گئے معین چار ہفتے گزرنے کے بعد بھی ریاست خاموش رہتی ہے . بدلے میں غدار بھی چپ رہتے ہیں جس سے اس سازشی تھیوری کو مزید تقویت ملتی ہے . پنجاب کے سیاستدانوں کو امان دی جاتی ہے لھذا سندھ سمیت تمام قبیلوں کے غدار قانون کو مونہ چڑاتے جیل سے اپنے محلوں کا رخ کرتے ہیں . میں زرداری صاحب کی سیاسی فراصت سے اب متفق نظر اتا ہوں کے پاکستان میں ریاست اور احتساب ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے . پاکستان میں تا قیامت احتساب نہیں ہو سکتا کیونکے اسکے لپیٹے میں خلائی مخلوق بھی دھری جا سکتی ہے
بہت عرصے بعد پہلی مرتبہ چند جج حضرات جرنیلوں اور انٹیلی جنس اداروں کے سحر سے نکلے نظر اتے ہیں . پولٹیکل انجینرنگ وقتی طور پر ختم ہو چکی ہے . کھلاڑی دو بدو لڑائی کے تیار نظر اتے ہیں . اگر پاکستان میں غداروں کو وقتی خاموش کروانے کی بجائے اپنے منطقی انجام پر پونھچا دیا گیا ہوتا تو آج پاکستان پوری دنیا میں تماشہ نہ بنتا . فوج نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے لئے تو قوانین بنا لئے مگر سیاستدان جب جنرلوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے تو کیا ہو گا . اسلئے میں لکھتا تھا کے کانے ہونے کی وجہ سے جنرل احمقوں والے کام کرتے ہیں . اس کھیل میں لڑائی سیاستدانوں اور جنرلوں کے درمیان ہو گی . عوام اور حکومت تماشائی ہوں گے
عمران خان بھی اگر سازشیوں کو اپنے منطقی انجام پر نہیں پونھچاتے ، ریاست کا طاقتور طبقہ اپنے بیرونی آقاؤں کا مدد گار رہتا ہے تو عمران خان کا حشر بھی سلطان صلاح الدین جیسا ہو گا . ترک کہاوت ہے کے جس شیر کے گلے میں گھنٹی ہو گی وہ مر جاۓ گا. غدار کو جب بھی موقع ملے گا ، وہ قانون کو نہیں دیکھے گا مگر موصوف کا خاتمہ کر دے گا . انصاف ثبوت کا انتظار کرتا رہتا ہے اور غدار آخر تک نقصان پونھچاتا ہے. بہت نقصان اٹھانے کے بعد امیر سعد الدین کے خلاف تمام ثبوت اکھٹے ہوتے ہیں اور ارتغل غازی اسکا سر تن سے جدا کر دیتے ہیں . ثبوت اکھٹے کرتے کرتے دوسروں کی طرح امیر سعد الدین ارتغل اور سلطان کی مہم کو بہت نقصان پونھچاتا ہے . آج پاکستان بھی دیوالیہ ہے اور ہر صاحب منصب غدار بھی اور امیر سعد الدین کا حقیقی پیروکار اور جانشین بھی نظر اتا ہے
جیسا کے میں بار بار عرض کر رہا ہوں کے ڈرامہ ارتغل غازی کی پاکستان سمیت بیشمار اسلامی ریاستوں کے ساتھ غیر معمولی مشاہبت ہے . ارتغل غازی کو جتنا نقصان دشمنوں نے نہیں پونھچایا اتنا ترک سردار غداروں نے پونھچایا . ارتغل غازی کو ایک طویل عرصہ محض ترک غداروں سے نبٹنے میں لگا . اسی طرح عمران خان کو دو سال کا عرصہ حکومتی سطح پر سرایت کر جانے والے غداروں سے پونھچا ہے . ریاست کو چلانے والوں کو پاکستانی کی بقاء کا یقین ہی نہیں لھذا اسٹیبلشمنٹ میں اکثریت کے پاس غیر ملکی شہریت ہے وہ رقبے پاکستان میں حاصل کرتے ہیں اور بال بچوں سمیت سرمایہ کاری لندن اور امریکہ میں کرتے ہیں سیاست ، صحافت ، فوج ، افسر شاہی اور عدلیہ میں بیرونی ایجنٹ سرایت کر گئے ہیں . ہر ادارے کے ہیڈ کو طاقتور ممالک اپنا اطاعت گزار بناتے ہیں اور انکے توسط سے پورا سسٹم کا کنٹرول حاصل کرتے ہیں . پاکستان میں الیکشن کے نتائج تک انکی مرضی سے جاری ہوتے ہیں
پنجاب سے ایک پروفیشنل اور تجربہ کار پولیس افسر خیبر پختونخوا جاتے ہیں اور عمران خان سے فری ہینڈ مانگتے ہیں . مقامی سیاستدان رخنے ڈالتے ہیں مگر عمران خان سنی ان سنی کرتے ہیں . محض چند سالوں بعد خیبر پختونخوا کی پولیس پرفارمنس پر عمران خان الیکشن جیت جاتے ہیں . عمران خان اب وزیراعظم بن چکے ہیں . ناصر خان درانی تمام تر تجربہ سے لیس پنجاب میں اتے ہیں اور اتے ہی ہاتھ کھڑے کر کے خاموشی سے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں . ہم دیکھ رہے ہیں کے پنجاب میں چیف سیکٹری اور پولیس چیفس کو متعدبار تبدیل کیا جا چکا ہے . پنجاب کے میڈیا مافیہ سمیت طاقتور افسر شاہی ابھی تک ریاست پاکستان کے مفادات کے تابع نہیں ہے بلکے وہ ابھی تک امیر سعد الدین کے تابع ہیں . پنجابی مافیا کا رنڈی رونا میں اسلئے لگاتا ہوں کیونکے الیکشن سیٹ اپ کے مطابق پنجاب ہی پاکستان ہے . یہاں پر ہر مکتب فکر کا انسان انتہائی کرپٹ اور غدار ہے . تمام اندوہناک واقعات ( خواتین کو گولیاں مارنا ، گاؤں کے تمام بچوں کو گانڈو کر دینا ، بچیوں اور خواتین کی عصمت دری اور قتل جیسے لاتعداد واقعات ) یہیں پر ظہور پذیر ہوتے ہیں کیونکے یہاں غداروں پر انویسٹمنٹ ہوتی ہے انسانوں پر نہیں . انسانیت یہاں پر حیوانیت اور شیطانیت کا روپ دھار چکی ہے جسکی ذمہ داری بگلول بھائیوں کے سر پر ہے . پاکستان میں جنھیں سزا دینی چاہئے انھیں ہسپتال یا سیدھا باہر بھیج دیا جاتا ہے . پاکستان میں رہنے والے دولے شاہ کے چوہے رہبر اور رہزن میں فرق روا ہی نہیں رکھ سکتے . یہاں کے کے سنگدل غدار اس پر سیاست کرتے ھوے جگت بازی کرنے سے بھی نہیں چوکتے . کراچی بھی اس سے مبرا نہیں . جہاں جہاں غداروں پر ایونسٹمنٹ ہوتی ہے ، ہر صوبہ میں حالات ایک جیسے ہیں
اس بات میں اب مجھے کوئی شبہ نہیں رہا کے عمران خان کے حقیقی مینٹور/ سیاسی استاد ارتغل غازی ہی ہیں کیونکے انکا نظریہ اور تمام تقاریر ارتغل غازی کے نظریات اور خیالات سے مشابہ ہیں اور ان میں حیرت انگیز مماثلت ہے . عھد حاضر میں ہونے والے واقعات میں بھی حیران کن مشابہت دیکھی جا سکتی ہے . ہمارا ارتغل محض ماضی کے گند کو صاف اور معشیت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرتا نظر اتا ہے . پاکستانی میڈیا سازشوں کا گڑھ ہے جو گدھ کمیونٹی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے . یہاں سے پاکستان کی جڑیں کا ٹی جا رہی ہیں . عمران خان پاکستان میں علم اور انصاف رائج کرنے سے کوسوں دور نظر اتے ہیں . عمران خان اپنے بنیادی منشور ( علم اور انصاف ) کا اب ذکر تک نہیں کرتے . غداروں سے چھٹکارا پائے بغیر ، انصاف اور تعلیم کے بغیر مدینہ کی ریاست ایک دیوانے کے خوا ب سے زیادہ کچھ نہیں. اگر پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے طرز پر بنانا ہے تو ہر طبقہ میں غداروں کا قلعہ قمع کرنا ناگزیز ہے . یہ لوگ پہلے ہی سب کچھ تباہ و برباد کر چکے ہیں. ہر طبقہ کا غدار چیخیں گے اور چلائیں گے مگر ان ناسوروں پر پر رحم نہیں کیا جا سکتا ورنہ ہمارا نام بھی نہ ہوگا افسانوں میں
پنجاب سے ایک پروفیشنل اور تجربہ کار پولیس افسر خیبر پختونخوا جاتے ہیں اور عمران خان سے فری ہینڈ مانگتے ہیں . مقامی سیاستدان رخنے ڈالتے ہیں مگر عمران خان سنی ان سنی کرتے ہیں . محض چند سالوں بعد خیبر پختونخوا کی پولیس پرفارمنس پر عمران خان الیکشن جیت جاتے ہیں . عمران خان اب وزیراعظم بن چکے ہیں . ناصر خان درانی تمام تر تجربہ سے لیس پنجاب میں اتے ہیں اور اتے ہی ہاتھ کھڑے کر کے خاموشی سے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں . ہم دیکھ رہے ہیں کے پنجاب میں چیف سیکٹری اور پولیس چیفس کو متعدبار تبدیل کیا جا چکا ہے . پنجاب کے میڈیا مافیہ سمیت طاقتور افسر شاہی ابھی تک ریاست پاکستان کے مفادات کے تابع نہیں ہے بلکے وہ ابھی تک امیر سعد الدین کے تابع ہیں . پنجابی مافیا کا رنڈی رونا میں اسلئے لگاتا ہوں کیونکے الیکشن سیٹ اپ کے مطابق پنجاب ہی پاکستان ہے . یہاں پر ہر مکتب فکر کا انسان انتہائی کرپٹ اور غدار ہے . تمام اندوہناک واقعات ( خواتین کو گولیاں مارنا ، گاؤں کے تمام بچوں کو گانڈو کر دینا ، بچیوں اور خواتین کی عصمت دری اور قتل جیسے لاتعداد واقعات ) یہیں پر ظہور پذیر ہوتے ہیں کیونکے یہاں غداروں پر انویسٹمنٹ ہوتی ہے انسانوں پر نہیں . انسانیت یہاں پر حیوانیت اور شیطانیت کا روپ دھار چکی ہے جسکی ذمہ داری بگلول بھائیوں کے سر پر ہے . پاکستان میں جنھیں سزا دینی چاہئے انھیں ہسپتال یا سیدھا باہر بھیج دیا جاتا ہے . پاکستان میں رہنے والے دولے شاہ کے چوہے رہبر اور رہزن میں فرق روا ہی نہیں رکھ سکتے . یہاں کے کے سنگدل غدار اس پر سیاست کرتے ھوے جگت بازی کرنے سے بھی نہیں چوکتے . کراچی بھی اس سے مبرا نہیں . جہاں جہاں غداروں پر ایونسٹمنٹ ہوتی ہے ، ہر صوبہ میں حالات ایک جیسے ہیں
اس بات میں اب مجھے کوئی شبہ نہیں رہا کے عمران خان کے حقیقی مینٹور/ سیاسی استاد ارتغل غازی ہی ہیں کیونکے انکا نظریہ اور تمام تقاریر ارتغل غازی کے نظریات اور خیالات سے مشابہ ہیں اور ان میں حیرت انگیز مماثلت ہے . عھد حاضر میں ہونے والے واقعات میں بھی حیران کن مشابہت دیکھی جا سکتی ہے . ہمارا ارتغل محض ماضی کے گند کو صاف اور معشیت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرتا نظر اتا ہے . پاکستانی میڈیا سازشوں کا گڑھ ہے جو گدھ کمیونٹی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے . یہاں سے پاکستان کی جڑیں کا ٹی جا رہی ہیں . عمران خان پاکستان میں علم اور انصاف رائج کرنے سے کوسوں دور نظر اتے ہیں . عمران خان اپنے بنیادی منشور ( علم اور انصاف ) کا اب ذکر تک نہیں کرتے . غداروں سے چھٹکارا پائے بغیر ، انصاف اور تعلیم کے بغیر مدینہ کی ریاست ایک دیوانے کے خوا ب سے زیادہ کچھ نہیں. اگر پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے طرز پر بنانا ہے تو ہر طبقہ میں غداروں کا قلعہ قمع کرنا ناگزیز ہے . یہ لوگ پہلے ہی سب کچھ تباہ و برباد کر چکے ہیں. ہر طبقہ کا غدار چیخیں گے اور چلائیں گے مگر ان ناسوروں پر پر رحم نہیں کیا جا سکتا ورنہ ہمارا نام بھی نہ ہوگا افسانوں میں