یہ بابا جی ہارون رشید صاحب کا وہ والا کالم ہے جو وہ کبھی نہ کبھی ضمیر جاگنے پر ضرور تحریر کریں گے اگر اللہ نے توفیق دی
انانیت حضور انانیت, یہ خبط عظمت ہی تھا جس نے اس اخبار نویس کو یوں رسوا کیا ورنہ ایسا ناعاقبت اندیش بھی نہ تھا کہ بنی بنائی توقیر کو یوں سر بازار نیلام کرتا
لیکن ذرا ٹھہریے, دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ وہ شخص جسے میں نے انگشت پکڑ کر خارزار سیاست میں چلنا سکھایا ہو آج اس سے دو گھڑی کی ملاقات کے لیے مجھ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو گھنٹوں انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے. بھاڑ میں جائے ایسی مصروفیت جو حفظ مراتب میں فرق روا نہ رکھے.
دل مضطرب کی کیفیت کیا عرض کروں
دل کی ساری رگیں چٹختی ہیں
جب تجھ سے رابطہ نہیں ہوتا
چند برس ادھر کا قصہ ہے, موسم بہار کی اس شام جب مہمیز ہوائیں محو رقص تھیں, سرسراتے لہجے میں, میں نے دریافت کیا "" کپتان فرض کرو اگر کبھی ہما تمہارے سر پر بیٹھ گیا تو مجھے فراموش تو نہیں کر دو گے"" خود فراموشی کی کیفیت میں یوں گویا ہوا "" بھولا تو اسے جاتا ہے جسے کبھی یاد کیا ہو"" یقینا یہ ایک بھونڈا مذاق ہی تھا کیونکہ اسی آن وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا.
غالبا آپ کا قیاس یہ ہو کہ میں جھلاہٹ کا شکار ہوں, خدا لگتی کہوں تو آپ کا قیاس مبنی بر حقیقت ہے. درگزر فرمائیے کہ میں بھی بندہ بشر ہوں. کتنی بار عرض کیا کہ حضور میرے ساتھ گوجرخان مرشد کے آستانے پر حاضری کے لیے چلیے لیکن مجال ہے جو کپتان نے پکڑائی دی ہو. دنیا جہان کی روحانی شخصیات سے اس کے روابط لیکن میرے مرشد سے ایسی بے اعتنائی چہ معنی. آج راست گوئی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے جان لیجئے کہ میری اور اس کی خفگی کی سب سے اساسی اور اہم وجہ یہی ہے
وہ شخص جسے سیاسی سکنات و حرکات کی ابجد اس اخبار نویس نے سکھلائی اور جس کے بارے میں گمان یہ تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ مجھے اپنا مشیر خاص تعینات کرے گا. آج مشیرخاص تو درکنار, وہ میری سفارش پر ایک تعیناتی کا بھی روادار نہیں. آگ میں جھونک دو ایسی ایمانداری اور میرٹ پرستی کو
غالب کی طرح آج میں بھی خدا معلوم جنوں میں کیا کیا بک گیا, پتہ نہیں وہ کہہ بھی پایا جو کہنا چاہتا تھا کہ نہیں. ایک شعر بار بار ٹپکنے کی ضد کر رہا ہے, سنتے چلیے
گرتے رہے سجدوں میں ہم اپنی ہی حسرتوں کی خاطر
عشق خدا میں گرے ہوتے تو کوئی حسرت نہ رہتی باقی
انانیت حضور انانیت, یہ خبط عظمت ہی تھا جس نے اس اخبار نویس کو یوں رسوا کیا ورنہ ایسا ناعاقبت اندیش بھی نہ تھا کہ بنی بنائی توقیر کو یوں سر بازار نیلام کرتا
انانیت حضور انانیت, یہ خبط عظمت ہی تھا جس نے اس اخبار نویس کو یوں رسوا کیا ورنہ ایسا ناعاقبت اندیش بھی نہ تھا کہ بنی بنائی توقیر کو یوں سر بازار نیلام کرتا
لیکن ذرا ٹھہریے, دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ وہ شخص جسے میں نے انگشت پکڑ کر خارزار سیاست میں چلنا سکھایا ہو آج اس سے دو گھڑی کی ملاقات کے لیے مجھ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو گھنٹوں انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے. بھاڑ میں جائے ایسی مصروفیت جو حفظ مراتب میں فرق روا نہ رکھے.
دل مضطرب کی کیفیت کیا عرض کروں
دل کی ساری رگیں چٹختی ہیں
جب تجھ سے رابطہ نہیں ہوتا
چند برس ادھر کا قصہ ہے, موسم بہار کی اس شام جب مہمیز ہوائیں محو رقص تھیں, سرسراتے لہجے میں, میں نے دریافت کیا "" کپتان فرض کرو اگر کبھی ہما تمہارے سر پر بیٹھ گیا تو مجھے فراموش تو نہیں کر دو گے"" خود فراموشی کی کیفیت میں یوں گویا ہوا "" بھولا تو اسے جاتا ہے جسے کبھی یاد کیا ہو"" یقینا یہ ایک بھونڈا مذاق ہی تھا کیونکہ اسی آن وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا.
غالبا آپ کا قیاس یہ ہو کہ میں جھلاہٹ کا شکار ہوں, خدا لگتی کہوں تو آپ کا قیاس مبنی بر حقیقت ہے. درگزر فرمائیے کہ میں بھی بندہ بشر ہوں. کتنی بار عرض کیا کہ حضور میرے ساتھ گوجرخان مرشد کے آستانے پر حاضری کے لیے چلیے لیکن مجال ہے جو کپتان نے پکڑائی دی ہو. دنیا جہان کی روحانی شخصیات سے اس کے روابط لیکن میرے مرشد سے ایسی بے اعتنائی چہ معنی. آج راست گوئی کا فیصلہ کر ہی لیا ہے جان لیجئے کہ میری اور اس کی خفگی کی سب سے اساسی اور اہم وجہ یہی ہے
وہ شخص جسے سیاسی سکنات و حرکات کی ابجد اس اخبار نویس نے سکھلائی اور جس کے بارے میں گمان یہ تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد وہ مجھے اپنا مشیر خاص تعینات کرے گا. آج مشیرخاص تو درکنار, وہ میری سفارش پر ایک تعیناتی کا بھی روادار نہیں. آگ میں جھونک دو ایسی ایمانداری اور میرٹ پرستی کو
غالب کی طرح آج میں بھی خدا معلوم جنوں میں کیا کیا بک گیا, پتہ نہیں وہ کہہ بھی پایا جو کہنا چاہتا تھا کہ نہیں. ایک شعر بار بار ٹپکنے کی ضد کر رہا ہے, سنتے چلیے
گرتے رہے سجدوں میں ہم اپنی ہی حسرتوں کی خاطر
عشق خدا میں گرے ہوتے تو کوئی حسرت نہ رہتی باقی
انانیت حضور انانیت, یہ خبط عظمت ہی تھا جس نے اس اخبار نویس کو یوں رسوا کیا ورنہ ایسا ناعاقبت اندیش بھی نہ تھا کہ بنی بنائی توقیر کو یوں سر بازار نیلام کرتا