تحریر
سردار زبیر
ایک وقت تھا جب عمران خان صاحب خود ہی پارٹی سربراہ بھی تھے اور پارٹی بھی تھے کیوں کہ پارٹی میں لوگ تو موجود تھے مگر کوئی ایسی قابل ذکر شخصیت نہ تھی جو پارٹی پالیسی کو ڈیفنڈ کر سکتی یا پارٹی پالیسی کو میڈیا پر آ کر بیان کر سکتی، ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ساتھ عمران خان صاحب کو ٹالک شوز میں بلایا جاتا تھا اور اکیلا فرد واحد عمران خان ہر چنیل پر بیٹھا نظر آتا تھا جرنل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جب میڈیا چنیل کی برمار ہوئی تو چھوٹی سیاسی پارٹیز کے لوگوں کو موقع ملا کے وہ میڈیا پر آ کر اپنی پارٹی کی پالیسی کو بیان یا ڈیفنڈ کر سکیں
اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ اگر آج عمران خان صاحب وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے تو اسکے پیچھے پرائیویٹ میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، جہاں میڈیا نے جموریت کے فروغ کے لیے کام کیا وہیں ایک عام آدمی کے لیے آگاہی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ، اکیلے عمران خان کی آواز پوری پارٹی کی آواز بنی اور پھر پورے پاکستان کی آواز بن گی اور یہ سارا کام پرائیویٹ میڈیا نے احسن طریقے سے سر انجام دیا اور اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ اسکے لیے میڈیا کو اس وقت کی حکومتوں کا شدید پریشر بھی برداشت کرنا پڑا ہو گا عمران خان صاحب اور انکی پوری ٹیم کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے اور میڈیا کے مسائل اور میڈیا کو درپیش چلینجز کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے
اشتھارات کی منصفانہ تقسیم اور طریق کار کو وضح کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دینی چاہیے جو مکمل طور پر میڈیا مینجمنٹ کا کام کرے کیوں کہ میڈیا جموریت کا ستون ہے اور کوئی بھی سرکار بہتر میڈیا مینجمنٹ کے بغیر اپنا فحال کردار ادا نہیں کر سکتی دوسری طرف میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشان دہی کرے اور میڈیا بلیک میلنگ کا جو دہندہ چل رہا ہے
اسکی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے مجودہ صورت حال کو مد نظر رکتھے ہوے زیادہ ذمداری سرکار کی ہے وہ بہتر میڈیا مینجمنٹ کرے اور ایسے لوگوں کو میڈیا کے ساتھ روابط استوار کرنے پر مامور کرے جو اس کام کو کرنے کا بہتر سلیقہ رکتھے ہوں.
سردار زبیر
ایک وقت تھا جب عمران خان صاحب خود ہی پارٹی سربراہ بھی تھے اور پارٹی بھی تھے کیوں کہ پارٹی میں لوگ تو موجود تھے مگر کوئی ایسی قابل ذکر شخصیت نہ تھی جو پارٹی پالیسی کو ڈیفنڈ کر سکتی یا پارٹی پالیسی کو میڈیا پر آ کر بیان کر سکتی، ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ساتھ عمران خان صاحب کو ٹالک شوز میں بلایا جاتا تھا اور اکیلا فرد واحد عمران خان ہر چنیل پر بیٹھا نظر آتا تھا جرنل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں جب میڈیا چنیل کی برمار ہوئی تو چھوٹی سیاسی پارٹیز کے لوگوں کو موقع ملا کے وہ میڈیا پر آ کر اپنی پارٹی کی پالیسی کو بیان یا ڈیفنڈ کر سکیں
اس بات میں رتی برابر شک نہیں کہ اگر آج عمران خان صاحب وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے تو اسکے پیچھے پرائیویٹ میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، جہاں میڈیا نے جموریت کے فروغ کے لیے کام کیا وہیں ایک عام آدمی کے لیے آگاہی فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ، اکیلے عمران خان کی آواز پوری پارٹی کی آواز بنی اور پھر پورے پاکستان کی آواز بن گی اور یہ سارا کام پرائیویٹ میڈیا نے احسن طریقے سے سر انجام دیا اور اسمیں بھی کوئی شک نہیں کہ اسکے لیے میڈیا کو اس وقت کی حکومتوں کا شدید پریشر بھی برداشت کرنا پڑا ہو گا عمران خان صاحب اور انکی پوری ٹیم کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے اور میڈیا کے مسائل اور میڈیا کو درپیش چلینجز کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے
اشتھارات کی منصفانہ تقسیم اور طریق کار کو وضح کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنا دینی چاہیے جو مکمل طور پر میڈیا مینجمنٹ کا کام کرے کیوں کہ میڈیا جموریت کا ستون ہے اور کوئی بھی سرکار بہتر میڈیا مینجمنٹ کے بغیر اپنا فحال کردار ادا نہیں کر سکتی دوسری طرف میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشان دہی کرے اور میڈیا بلیک میلنگ کا جو دہندہ چل رہا ہے
اسکی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے مجودہ صورت حال کو مد نظر رکتھے ہوے زیادہ ذمداری سرکار کی ہے وہ بہتر میڈیا مینجمنٹ کرے اور ایسے لوگوں کو میڈیا کے ساتھ روابط استوار کرنے پر مامور کرے جو اس کام کو کرنے کا بہتر سلیقہ رکتھے ہوں.