جو پٹنا ہے پٹ لو

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
وجوہات کے تناظر میں میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا اصل سبب معاشی بدحالی ہے اور معاشی بدحالی کا سبب عوام کا مذہب (اسلام) سے جڑے ہونا ہے۔۔ جب آپ چودہ سو سال پرانے نظریات کو زبردستی اکیسیوں صدی میں گھسانے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ نہ تو آپ مکمل طور پر مذہب پر عمل پیرا ہوسکیں گے اور نہ ہی آپ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزار سکیں گے۔۔ پاکستانی عوام کے ساتھ بھی بالکل یہی ہورہاہے۔۔۔۔
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذہب سے جڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں میں دیانتداری اور دیگر اخلاقی اقدار کی تنزّلی واقع ہوئی ہے؟ مطلب کہ کیا مذہب ان کو تلقین کرتا ہے ان امور کی جو کسی صورت بھی مذہب سے تعلّق نہیں رکھتے؟

حالانکہ مذہب تو راست بازی، ایمانداری، دیانتداری اور اسی طرح کی اقدار کا درس دیتا ہے اور دنیا کے چھوٹے فائدے کے برعکس آخرت کے بڑے فائدے کو پانے کے لیئے صبر، استقامت اور قناعت کی ترغیب دیتا ہے۔ ان سب تعلیمات کے مسکن سے اخلاقی اقدار کا انحطاط کیونکر ممکن ہے؟
 

Zinda_Rood

Minister (2k+ posts)
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مذہب سے جڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں میں دیانتداری اور دیگر اخلاقی اقدار کی تنزّلی واقع ہوئی ہے؟ مطلب کہ کیا مذہب ان کو تلقین کرتا ہے ان امور کی جو کسی صورت بھی مذہب سے تعلّق نہیں رکھتے؟

حالانکہ مذہب تو راست بازی، ایمانداری، دیانتداری اور اسی طرح کی اقدار کا درس دیتا ہے اور دنیا کے چھوٹے فائدے کے برعکس آخرت کے بڑے فائدے کو پانے کے لیئے صبر، استقامت اور قناعت کی ترغیب دیتا ہے۔ ان سب تعلیمات کے مسکن سے اخلاقی اقدار کا انحطاط کیونکر ممکن ہے؟

آپ نے شاید غور نہیں کیا، میں نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کے اخلاقی انحطاط کا ایک بڑا سبب معاشی پسماندگی ہے اور معاشی پسماندگی کا سبب مذہب ہے۔۔ اصولاً آپ کا سوال مذہب کے معاشی پسماندگی کے سبب والے نکتے پر ہونا چاہئے تھا ۔خیر آپ نے جو فرمایا اس کے تناظر میں بھی کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔۔۔

مذہب جہاں اچھائی کی تلقین کرتا ہے وہاں برائی کرکے مفت میں چھوٹ جانے کے بے شمار نسخے بھی فراہم کرتا ہے۔ مذہب معاشروں کواخلاقی طور پر سنوار تو نہیں سکتا، ہاں معاشروں کو بگاڑنے میں خوب کردار ادا کرتا ہے۔ کبھی غور کریں کہ پاکستان کے لوگ اتنے زیادہ حج اور عمرے کیوں کرتے ہیں، مساجد پر اتنا زیادہ پیسہ کیوں خرچ کرتے ہیں، والدین نے اپنے بچے قرآن حفظ کرنے پرکیوں لگائے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ وہ لوپ ہولز ہیں جو مذہبِ اسلام نے گناہ بخشوانے کیلئے مہیا کررکھے ہیں۔ جب اسلام یہ کہتا ہو کہ ایک حج اور عمرہ کرنے سے بندہ گناہوں سے یوں پاک ہوجاتا ہے جیسے نومولود بچہ، اور قرآن حفظ کرنے والا اپنے والدین سمیت نہ جانے کتنوں کو جنت میں لے جائے گا۔ ایسی اور بے شمار تعلیمات ہیں جو لوگوں کو گناہ کرنے سے روکنے کی بجائے ترغیب کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث ہے کہ اگر لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ میاں سب کو ختم کرکے دوبارہ پیدا کرتے تاکہ لوگ گناہ کریں، پھر اللہ میاں کے حضور رو رو کر گڑا گڑا کر توبہ کریں ، کیونکہ یہ عمل اللہ میاں جی کو بہت پسند ہے۔۔۔ مزید برآں کئی حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ میاں جی کو بندے کی توبہ بہت پسند ہے، اس لئے بار بار گناہ کرو اور بس ایک بار توبہ کرو اور تمام گناہ معاف۔۔ یہ وہ سب سے بڑا لوپ ہول ہے کہ نقصان تو کسی انسان کا کرو، ، مگر معافی اللہ میاں جی سے مانگ لو اور قصہ خلاص۔

اور کبھی اس بات پر بھی غور کریں کہ جب بھی کہیں توہینِ رسالت، توہینِ قرآن وغیرہ کا واقعہ پیش آئے تو کیوں ہر مسلمان چاہے اس نے زندگی میں ایک بھی نماز نہ پڑھی ہو بہت بڑا عاشقِ رسول بن کر "ملزم" کو مارنے دوڑ پڑتا ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کو سرکارِ دو عالم سے کوئی عشق یا محبت ہے؟ نہیں، بلکہ اس لئے کہ اس کو مفت میں جنت کا ٹکٹ اور اپنے گناہوں کی بخشش نظر آرہی ہوتی ہے۔ بھلا کسی ایسے شخص سے محبت یا عشق کیسے ہوسکتا ہے جس کو آپ نے زندگی میں نہ کبھی دیکھا ہو، نہ کبھی اس سے بات کی ہو، نہ کبھی ملاقات کی ہو، نہ کبھی اس کی شخصیت کو خود اینالائز کیا ہو، بس بچپن میں آپ کو فیڈر میں گھول کر پلا دیا گیا ہو کہ فلاں شخص سے تم کو محبت کرنی ہے، عشق کرنا ہے۔۔ بھلا محبت یا عشق کسی دوسرے کے تلقین کرنے سےبھی کبھی ہوا ہے؟ یہ عشقِ رسول تو مسلمانوں میں پایا جانے والا سب سے بڑا فراڈ ہے۔۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ مذہب اپنے پیروکاروں کو بے شمار طریقے بتاتا ہے کہ گناہ کرکے کیسے بچ نکلنا ہے۔۔ اس پر بہت لمبی اور تفصیلی بحث ہوسکتی ہے، پر وقت کی کمی کے باعث فی الحال اتنا ہی۔۔۔ آخر میں ایک چٹکلہ ملاحظہ کیجئے جو مذہبی لوگوں کی نفسیات کی خوب وضاحت کرتا ہے۔۔۔

---------------------------------------------​
لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں پردے پر گڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ اسٹینڈ اَپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔ چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیوں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔

یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی اسٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گمبھیر آواز میں بولا

“دوستو! میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔ میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔ میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سمجھ گیا تھا”۔

اتنا کہہ کر ایمو فلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت اسٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔ ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گتّھیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا، اور بولا

“میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے”۔

اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا (اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے) اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا

۔“اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو توسمجھ لینا کہ وہ چوری کے بعد ضمیر ہلکا کرنے کی کوشش کررہا ہے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گتّھیاں سلجھا دی تھیں....۔

---------------------------------------------​
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
آپ نے شاید غور نہیں کیا، میں نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام کے اخلاقی انحطاط کا ایک بڑا سبب معاشی پسماندگی ہے اور معاشی پسماندگی کا سبب مذہب ہے۔۔ اصولاً آپ کا سوال مذہب کے معاشی پسماندگی کے سبب والے نکتے پر ہونا چاہئے تھا ۔خیر آپ نے جو فرمایا اس کے تناظر میں بھی کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔۔۔

مذہب جہاں اچھائی کی تلقین کرتا ہے وہاں برائی کرکے مفت میں چھوٹ جانے کے بے شمار نسخے بھی فراہم کرتا ہے۔ مذہب معاشروں کواخلاقی طور پر سنوار تو نہیں سکتا، ہاں معاشروں کو بگاڑنے میں خوب کردار ادا کرتا ہے۔ کبھی غور کریں کہ پاکستان کے لوگ اتنے زیادہ حج اور عمرے کیوں کرتے ہیں، مساجد پر اتنا زیادہ پیسہ کیوں خرچ کرتے ہیں، والدین نے اپنے بچے قرآن حفظ کرنے پرکیوں لگائے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ وہ لوپ ہولز ہیں جو مذہبِ اسلام نے گناہ بخشوانے کیلئے مہیا کررکھے ہیں۔ جب اسلام یہ کہتا ہو کہ ایک حج اور عمرہ کرنے سے بندہ گناہوں سے یوں پاک ہوجاتا ہے جیسے نومولود بچہ، اور قرآن حفظ کرنے والا اپنے والدین سمیت نہ جانے کتنوں کو جنت میں لے جائے گا۔ ایسی اور بے شمار تعلیمات ہیں جو لوگوں کو گناہ کرنے سے روکنے کی بجائے ترغیب کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث ہے کہ اگر لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ میاں سب کو ختم کرکے دوبارہ پیدا کرتے تاکہ لوگ گناہ کریں، پھر اللہ میاں کے حضور رو رو کر گڑا گڑا کر توبہ کریں ، کیونکہ یہ عمل اللہ میاں جی کو بہت پسند ہے۔۔۔ مزید برآں کئی حدیثوں میں آتا ہے کہ اللہ میاں جی کو بندے کی توبہ بہت پسند ہے، اس لئے بار بار گناہ کرو اور بس ایک بار توبہ کرو اور تمام گناہ معاف۔۔ یہ وہ سب سے بڑا لوپ ہول ہے کہ نقصان تو کسی انسان کا کرو، ، مگر معافی اللہ میاں جی سے مانگ لو اور قصہ خلاص۔

اور کبھی اس بات پر بھی غور کریں کہ جب بھی کہیں توہینِ رسالت، توہینِ قرآن وغیرہ کا واقعہ پیش آئے تو کیوں ہر مسلمان چاہے اس نے زندگی میں ایک بھی نماز نہ پڑھی ہو بہت بڑا عاشقِ رسول بن کر "ملزم" کو مارنے دوڑ پڑتا ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کو سرکارِ دو عالم سے کوئی عشق یا محبت ہے؟ نہیں، بلکہ اس لئے کہ اس کو مفت میں جنت کا ٹکٹ اور اپنے گناہوں کی بخشش نظر آرہی ہوتی ہے۔ بھلا کسی ایسے شخص سے محبت یا عشق کیسے ہوسکتا ہے جس کو آپ نے زندگی میں نہ کبھی دیکھا ہو، نہ کبھی اس سے بات کی ہو، نہ کبھی ملاقات کی ہو، نہ کبھی اس کی شخصیت کو خود اینالائز کیا ہو، بس بچپن میں آپ کو فیڈر میں گھول کر پلا دیا گیا ہو کہ فلاں شخص سے تم کو محبت کرنی ہے، عشق کرنا ہے۔۔ بھلا محبت یا عشق کسی دوسرے کے تلقین کرنے سےبھی کبھی ہوا ہے؟ یہ عشقِ رسول تو مسلمانوں میں پایا جانے والا سب سے بڑا فراڈ ہے۔۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ مذہب اپنے پیروکاروں کو بے شمار طریقے بتاتا ہے کہ گناہ کرکے کیسے بچ نکلنا ہے۔۔ اس پر بہت لمبی اور تفصیلی بحث ہوسکتی ہے، پر وقت کی کمی کے باعث فی الحال اتنا ہی۔۔۔ آخر میں ایک چٹکلہ ملاحظہ کیجئے جو مذہبی لوگوں کی نفسیات کی خوب وضاحت کرتا ہے۔۔۔
مذہب کی وجہ سے معاشی پسماندگی؟ جنابِ والا، میں اکثر آپ کی تحاریر میں سوائے جذباتیت کے کچھ اور تلاش کرنے سے اکثر قاصر ہی رہتا ہوں۔

مذہب کی وجہ سے معاشی پسماندگی کے مسئلے پر آپ کوئی مدلّل گفتگو نہ کر پائے۔ یہی پاکستان، اسی مذہب کے ساتھ سنہ ۱۹۶۰ کے عشرے تک دنیا کی سُبک ترین ترقیّ پانے والی ریاستوں میں سے تھا۔ سعودیہ، قطر، بحرین، برونائی دارالسّلام میں سرکاری مذہب کیا ہے اور وہاں ایسا کیوں نہیں؟ کیوں انگلینڈ میں آج تک چرچ آف انگلینڈ کو مرکزی ثیچیت حاصل ہے؟ ڈنمارک اور ناروے کے سرکاری مذاہب کا ادراک کسے نہیں؟ پھر کیا دنیا میں ایک یہودی مملکت بھی قائم ہوئی ہے، وہاں مذہب کی وجہ سے معاشی پسماندگی کیوں سامنے نہ آسکی؟

پھر دوسرے مسئلے پر آپ جہاں بات کرتے ہیں، تو یہ بھی بتانے سے قاصر ہیں کہ مسجدوں، مزاروں اور اسی طرح کی دیگر جگہوں پر لوگوں کے پیسہ لگانے سے معاشی پسماندگی کیسے پنپتی ہے؟ یا اس کی وجہ سے معاشرتی اقدار کا انحطاط کا میکینزم کیسے کام کرتا ہے؟

جناب، اگر ایک شخص بھوکا ہے اور فوری طور پر کام کرنے یا ملنے کی امید نہیں، تو اس کے پاس پاکستان میں دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ کہیں چوری کر لے اور دوسرا یہ کہ مذہب کے نام پر قائم کسی ادارے یا درگاہ وغیرہ پر جا کر کچھ گزارہ کر لے۔

لہٰذا اگر آپ کے دلائل دیکھے جائیں تو کہیں سے کوئی لِنک نہ تو مذہب کی وجہ سے معاشی تنزّلی کا نظر آتا ہے اور نہ ہی مذہب کی وجہ سے معاشرتی اخلاقی اقدار یا جرائم کے اسباب کا۔

لہٰذا آپ کے نظائر کو ذاتی حیثیت کی رائے تو سمجھا جا سکتا ہے، جس کی وجہ زندگی کے مختلف تجربات کی بناء پر مذہب سے نفرت کو ہی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس رائے میں کہیں کوئی مدلّل زاویہ اخذ کرنا کسی علمی بحث کے لیئے ناممکن ہے۔

---------------------------------------------​
لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں پردے پر گڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ اسٹینڈ اَپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔ چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیوں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔

یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی اسٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گمبھیر آواز میں بولا

“دوستو! میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔ میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔ میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سمجھ گیا تھا”۔

اتنا کہہ کر ایمو فلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت اسٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔ ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گتّھیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا، اور بولا

“میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے”۔

اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا (اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے) اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا

۔“اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو توسمجھ لینا کہ وہ چوری کے بعد ضمیر ہلکا کرنے کی کوشش کررہا ہے”۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گتّھیاں سلجھا دی تھیں....۔

---------------------------------------------​
چٹکلے کی حد تک تو واقعی یہ بہت ہی اچھا لطیفہ ہے، لیکن فلسفے کے حساب سے یہ بھانڈ پن کے علاوہ کچھ نہیں۔

کوئی مذہب چوری کا درس نہیں دیتا۔ توبہ کا فلسفہ بھی وہیں لاگو ہوتا ہے جہاں انسان انجانے میں کسی گناہ کا مرتکب ہو۔ کوئی یہ جانتے ہوئے گناہ کرے کہ بعد میں اللہ سے معافی مانگ لوں گا، تو ایسے توبہ کا منہہ پر مارے جانے کا ذکر بھی موجود ہے۔

لیکن چلیں اب بات اگر چٹکلوں اور لطیفوں پر آہی گئی ہے تو ایک میری طرف سے بھی حاضر خدمت ہے:

ایک شخص کا اللہ پر بہت ایمان تھا۔ ہوا یہ کہ اس کے گاوٗں میں سیلاب آگیا۔ جب پانی گھٹنوں تک چڑھ آیا تو لوگ محفوظ مقام پر ہجرت کرنے لگے تو ایک قافلہ اس کے پاس بھی آیا کہ میاں چلوہمارے ساتھ نہیں تو ڈوب مرو گے۔ اس شخص نے کہا کہ نہیں، مجھے میرا اللہ بچا لے گا۔ قافلہ گزر گیا، پانی کی باڑھ مزید آئی تو اس کے مکان کی پہلی منزل زیر آب آگئی۔ وہ دوسری منزل پر چلا گیا۔ کچھ کشتی والوں کا گزر وہاں سے ہوا، انھوں نے اسے بلایا کہ بھائی چلو ہمارے ساتھ۔ وہ شخص پھر نہ مانا اور کہنے لگا کہ اللہ مجھے بچا لے گا۔ وہ بھی چلے گئے۔ پانی کی سطح مزید بلند ہوئی، دوسری منزل بھی ڈوب گئی، اور وہ شخص اپنے گھر کی چمنی پر جا بیٹھا۔ علاقے میں کچھ ہیلی کاپٹر آئے، انھوں نے نیچے رسّا پھینکا اور اسے اوپر آنے کو کہا، اس شخص نے قوّتِ ایمانی سے رسّے کو بھی جھٹک دیا اور کہا، فکر نہ کرو، میرا اللہ مجھے بچا لے گا۔ ہیلی کاپٹر چلا گیا، پانی کی سطح مزید بلند ہوئی، اور وہ شخص ڈوب کر مرگیا۔

مرنے کے بعد جب عالم ارواح میں بیداری ہوئی تو فرشتے کو پکڑ کر پوچھنے لگا، اوئے، میں نے اللہ پر اتنا ایمان رکھا،لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بچانے کے لیئے کچھ بھی نہیں کیا اور مجھے مرنے دیا۔۔۔۔ کیوں؟

فرشتے نے جواب دینے سے پہلے ایک ریپٹا (دھپّا) رسید کیا اور کہا ’’ اوئے، وہ قافلہ، وہ کشتی اور وہ ہیلی کاپٹر تیرے پاس کس نے بھیجا تھا؟‘‘

بات یہ کہ انسان اور روبوٹ میں فرق ہوتا ہے۔ انسانی عقل اس بات کا شعور رکھتی ہے کہ دعا کے ساتھ دوا کی فراہمی ضروری ہے۔ تقدیر کے ساتھ تدبیر کا اشتراک ہے، وسیلے کے ساتھ حیلے کا ربط ہے۔

گھٹیا طرز کی پھبتیاں کسنے کے لیئے تو ٹھیک ہے کہ انسان دعا کی افادیت کو رَدّ کرنے کے لیئے ایسے دلائل دے کہ دعا سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن کسی مذہب میں کہیں یہ تعلیم نہیں ملے گی کہ خالی دعا کیا کرو اور تمھیں تمھارا رزق گھر پر فرشتہ شریف بذاتِ خود پکا کر پیش کریں گے۔ دعا اور ایمان کے فلسفے میں ایک عزم، امید اور صحیح راستے کا تعیّن، یعنی اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے کسی جائز یا نیک مقصد کے حصول کی کاوش ہے۔ ظاہر سی بات ہے کوئی چوری کرتے ہوئے تو اللہ سے دعا نہیں کرے گا۔ اسی طرح سب کو معلوم ہے کہ دعا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انسان سعی کے مرحلے سے بے نیاز ہوگیا۔ دعا کے فلسفے میں اسباب کا مہیّا ہونا اور بظاہر ناممکنات کے حصول کی جہد میں اسکو ممکنات میں لانے کے عزم میں پختگی کا سامان کرنا شامل ہوتا ہے۔ اسلام کیا، کسی بھی مذہب میں اگر دعا اور ایمان کے کچھ اور نظائر ہیں تو مطلع کیجیئے یا پھر اگر فلسفے میں اس کی کوئی اور تشریح موجود ہے تو آگاہ کیجیئے۔ یہ چٹکلوں اور لطیفوں کے استعمال سے پھر وہ شعر یاد آجاتا ہے کہ :

یہ ہر وقت کا ہنسنا کہیں برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر۔
 
Last edited: