آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔
چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔
چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔
چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔
گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔
اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔
چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔
چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔
گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔
اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔