خواتین کا پردہ: چودہ سو سال پہلے کا زمانہ بمقابلہ آج کا زمانہ

Baadshaah

MPA (400+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کر برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
Apna culture apnay ghar tak rakh
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
images
 

boss

Senator (1k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔

ماشااللہ آپ کا علم تو اللہ سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اللہ کو بھی ان باتوں کا نہیں پتہ تھا، جہنیں آج آپ بتا رہے ہیں

?
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

جانی صاحب
آپ تو لاجک سے بات کرتے ہیں لعنت بھیج کر تو اپنی جان نہ چھڑائیں

تھریڈ اسٹاٹر نے اپنی ذہنی عیاشی سے تھریڈ میں جو چول ماری ہے اس پر اس کے ساتھ تھوڑی گفتگو کریں
اس قصے پر سرسری سی نگاہ ڈال کر ہی اس کی جہالت کا پتہ چل گیا۔۔
اور جاہل سے جتنا چاہو بحث کرلو باس جی۔۔۔ فائدہ نہیں۔۔

199180277_5775215832520228_8423214160755291535_n.jpg
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔

حضور جس پردے کا آپ ذکر خیر فرما رہے ہیں وہ پردہ دراصل آپ کی عقل پر پڑا ہوا ہے
 

AhmadSaleem264

Minister (2k+ posts)
Naive thoughts religion and morality are not something very simple as you have described. And i have put considerable effort into getting my hwad around morality
 

Baadshaah

MPA (400+ posts)
Rules and laws which are defined and are given in Islam are forever and not only for the time when Islam originated, these laws and rules are given how to spend the life in all the times

جن ہمیشہ کیلئے بنائے گئے رولز کی آپ بات کررہے ہیں، ان کے حساب سے تو آج بھی انسانی غلامی حرام نہیں ہے۔۔ انسانی غلامی کو ختم کیا ہے انسانی فکر کے ارتقاء نے۔۔۔ اب بہتر کیا ہے اس کا فیصلہ آپ کرلیں، وہ ہمیشگی کا رول جس کے مطابق عورت کو لونڈی بنا کر اس کے ساتھ زبردستی سیکس کرنا جائز ہے یا پھر آج کے زمانے کے رولز جن کے مطابق عورت کو غلام یا لونڈی بنانا کسی بھی صورت جائز نہیں۔۔۔
 

Mujahid Ali Awan

Minister (2k+ posts)
The bottom line is modesty

Quran asks both men and women to be modest
“Tell the believing men to reduce [some] of their vision and guard their private parts. That is purer for them. Indeed, Allah is Acquainted with what they do”. [24:30]
“And tell the believing women to reduce [some] of their vision and guard their private parts and not expose their adornment except that which [necessarily] appears thereof and to wrap [a portion of] their headcovers over their chests and not expose their adornment except to their husbands, their fathers, their husbands' fathers, their sons, their husbands' sons, their brothers, their brothers' sons, their sisters' sons, their women, that which their right hands possess, or those male attendants having no physical desire, or children who are not yet aware of the private aspects of women. And let them not stamp their feet to make known what they conceal of their adornment. And turn to Allah in repentance, all of you, O believers that you might succeed”. [24:31]
 

concern_paki

Chief Minister (5k+ posts)
جن ہمیشہ کیلئے بنائے گئے رولز کی آپ بات کررہے ہیں، ان کے حساب سے تو آج بھی انسانی غلامی حرام نہیں ہے۔۔ انسانی غلامی کو ختم کیا ہے انسانی فکر کے ارتقاء نے۔۔۔ اب بہتر کیا ہے اس کا فیصلہ آپ کرلیں، وہ ہمیشگی کا رول جس کے مطابق عورت کو لونڈی بنا کر اس کے ساتھ زبردستی سیکس کرنا جائز ہے یا پھر آج کے زمانے کے رولز جن کے مطابق عورت کو غلام یا لونڈی بنانا کسی بھی صورت جائز نہیں۔۔۔
Insaani ghulaami to Hazrat Muhammad Mustafa SAW ne apne aakhri khytbay mein hi khatam kardi this jab yeh kaha ke kisi ajmi ko kisi Arabi par aur kisi Arabi ko kisi ajami par koi bartari nahin swayed taqwa ke, ap kis ghulaami ki baat kar rahe hain
 

Nazimshah

Senator (1k+ posts)
Simple and clear womens in the west are dying for loyal partners. They are desperate to be respected and be married rather been used and abused as their partners are not welling to take any responsibilities . They are desperate to stay with kids but can't there partners want them to pay bills and mortgages. In short women are suffering most of them care for kids on their own as the father of the kids seeing someone else
 

webnise

MPA (400+ posts)
Women of these days are SLAVES to their own desires and wishes. It is a curse on them to go astray and at the same time men are also SLAVES who do not practice true Islam.

All human have limited knowledge and Allah's knowledge is limitless so one should keep his/her mouth shut when they don't know the objective of the thing they are talking about.

As for the 1400 year argument, this definition for TIME is for us. For Allah, 1400 year ago might just have happened less than a second ago and same for the any number of years to come. TIME does not apply to Allah SWT.
 
Last edited:

Hunter_

MPA (400+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
bhai yea suub batain aap ky demag main kon dalta hy, bulcul bhe sahi information nahi hy aap ky pass
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
چودہ سو سال اور اس سے پہلے ہم جنس پرستی معاشرہ موجود تھا. آج کا ہم جنس پرست خود کو جدت پسند کہتا ہے. شراب نوشی، جوا، زنا، سود معاشرت کا حصہ تھا. خود کو ترقی یافتہ کہنے والے اسی معاشرت کو اپنائے ہوئے ہیں

چودہ سو سال میں فرق پڑا ہے تو مادی اسباب کا. اس لحاظ سے کوئی خود کو دوسرے کے مقابلے میں ترقی یافتہ کہے تو اچھا بھی لگے. ہم جنس پرستی، شراب نوشی، جوا، سود اور زنا قبل تاریخ میں بھی موجود تھے
 

NCP123

Minister (2k+ posts)
آپ ذرا آج کے زمانے کا تقابل چودہ سو سال پہلے کے زمانے سے کریں، یعنی اس زمانے سے کریں جب عرب میں اسلام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ آج ہم کاروں، موٹر سائیکلوں، جہازوں پر سواری کرتے ہیں اور یہ ایک نارمل بات ہے، اس زمانے میں سواری کیلئے گھوڑے، گدھے اور خچر ہی دستیاب تھے۔ آج ہم برگر کھاتے ہیں، پیزا کھاتے ہیں، ملک شیک پیتے ہیں، ہزاروں قسم کی ڈشز ہر علاقے میں کھائی جاتی ہیں، چودہ سو سال قبل کھانے کیلئے کیا تھا، زیادہ تر خام فروٹ اور سبزیاں، کھجور، جو یا گندم کی روٹی، دودھ۔۔عرب میں دودھ اور شہد کو اعلیٰ ترین اور لذیذ ترین غذا سمجھا جاتا تھا، اسی لئے قرآن میں جنت کی گنتی کی جو چند "پرلذت غذائیں" بیان کی گئیں ہیں ان میں دودھ اور شہد نمایاں ہیں، اسی سے اندازہ کرلیں کہ عرب میں دودھ اور شہد کو کتنی لذیذ قسم کی چیز سمجھا جاتا تھا، آج کے زمانے میں ہمارے پاس کھانوں میں اتنے زیادہ آپشنز ہیں کہ دودھ اور شہد کی تو کوئی وقعت ہی نہیں ۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں انسانوں کے پاس کرنے کے کام یعنی ذرائع روزگارکیا تھے؟ سب سے بڑا مشغلہ تھا لڑائی اورجنگیں۔۔ ایک دوسرے پر حملہ کرکے دوسروں کے مال لوٹ لینا۔ دوسرا کام تھا، کھیتی باڑی اور جانور پالنا۔۔تیسرا کام تھا تجارت۔۔ بس یہی گنے چنے کام تھے۔۔ جبکہ آج روزگار کمانے کیلئے ہمارے سامنے لاکھوں ذرائع موجود ہیں۔۔

چودہ سو سال قبل کے معاشرے میں عورت کا مصرف کیا تھا۔۔؟ اس زمانے میں عورت کو صرف بچے پیدا کرنے اور سیکس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، اسی لئے احادیث میں ایسی عورت کے ساتھ شادی کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو بچہ نہ پیدا کرسکتی ہو,مرد کو "زرخیز" عورت سے شادی کرکے زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی اور عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنے کی بھی اسلام میں اسی لئے اجازت دی گئی ہے۔۔ جبکہ آج کے زمانے میں عورت کسی بھی طرح مرد سے کم نہیں ہے اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مرد کے برابر خدمات سرانجام دے رہی ہے، آج کی عورت کا کام محض بچے پیدا کرنا یا مرد کی جنسی ہوس پوری کرنا نہیں ہے، بلکہ وہ مرد کی طرح پورا اختیار رکھتی ہے اپنی زندگی کے ہر فیصلے کا۔۔

چودہ سو سال قبل کے زمانے میں غلامی ایک عام بات تھی، مرد اور عورت کو بطور غلام رکھا جاتا تھا، ان کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو تحفے کے طور پر دیئے جاتے تھے۔ اسی لئے اسلام میں بھی غلامی کو حرام قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ یہ اس دور کے معاشرے کی ایک رِیت تھی۔ آج کے متمدن معاشروں میں آپ انسانوں کو غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔۔۔

گنوانے کو اور بھی بے شمار فرق ہیں مگر پھر بات طویل ہوجائے گی۔ اس سارے فرق کو گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے کا اپنا کلچر، اپنی روایات، اپنی اخلاقیات اور اقدار ہوتی ہیں اور جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ، اقدار ، روایات اور طرزِ زندگی بھی تبدیل ہوتا ہے۔۔ آپ سینکڑوں سال قبل کی روایات کو آج کے زمانے میں اپنانے کی کوشش کریں گے تو بھی ناکام رہیں گے، کیونکہ فرق ہی بہت زیادہ ہے۔

اسلام نے جس زمانے میں عورتوں پر پردہ لاگو کیا تھا، اس زمانے میں اور آج کے زمانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس زمانے میں تو عورت کو بطور لونڈی سیکس کیلئے استعمال کرنا بھی نارمل بات تھی اور اسلام میں اس کی بھی اجازت تھی اور آج بھی ہے۔ مگر کیا آج آپ کسی عورت کو لونڈی بناسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح آج کے زمانے کی عورت کو بھی پردے میں ڈھکنے کی بات کرناممکن نہیں۔ آج کی عورت ایک آزاد اور خودمختار عورت ہے جو کسی بھی طرح مرد کی محتاج نہیں، وہ اپنا روزگار بھی خود کما سکتی ہے اور ہر شعبے میں بہترین خدمات سرانجام دینے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔۔ جو لوگ عورتوں کو برقعے اور پردے میں ڈھکنے کے لئے اتاولے ہوئے پھررہے ہیں، وہ جتنی جلدی خود کو جدید زمانے کے مطابق ڈھال لیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہے۔۔
you want to say that Quran was valid 1400years ago and not valid anymore.......????
You have serious problem man..........whatever was right 1400 years ago is also right today....the rest of your comparison has nothing to do with anything............1400 years go people do sex and today did you cut off your penis because you are busy......how about this ???
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
خواتین کی صورت میں محنت کی رسد بڑھ جانے سے سرمایہ دار کو سستی محنت میسر ہے. پہلے جہاں سو مزدور میسر تھے اب دو سو. بظاہر مرد اور عورت کی اجرت یکساں ہے لیکن رسد زیادہ ہونے سے محنت کی اجرت کتنی کم ہوئی اس کے حساب کتاب کونی نہیں لگاتا

اعلی عہدے جن کے لئے حد مقرر نہیں مغرب میں عام بحث ہے کے خواتین کو مردوں کے برابر کا حصہ نہیں ملتا. خواتین اداکار اور کھلاڑیوں کو مردوں کے مقابلے میں اوسطا کم معاوضہ ملتا ہے. مردوں کے مقابلے میں خواتین سربراہان مملکت بہت کم ہیں. اعلی فوجی عہدوں پر مرد براجمان ہیں

 
Last edited:

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
جانی صاحب
آپ تو لاجک سے بات کرتے ہیں لعنت بھیج کر تو اپنی جان نہ چھڑائیں

تھریڈ اسٹاٹر نے اپنی ذہنی عیاشی سے تھریڈ میں جو چول ماری ہے اس پر اس کے ساتھ تھوڑی گفتگو کریں
enjoyed it!!!