معلوم ہوا ہے کہ پیرنی کا ایک اور نزدیکی پیروکار ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پیرنی کی ٹوکری کے سارے انڈے ہی گندے ہیں۔ علی زیدی کی لیک ٹیل فون کال سے اس کے عمران خان کے بارے میں جذبات تو پہلے ہی قوم کو پتا چل چکے ہیں۔ اب وہ چاہے جتنا بھی انکار کرلے جہاندیدہ لوگ جانتے ہیں کہ جعلی فون کالر جتنی بھی کوشش کرلے بعض چیزیں جو کسی انسان کی نیچر میں ہوتی ہیں کاپی نہیں کرسکتا۔ اور علی زیدی سے اکثر بات کرنے والے جانتے کہ فون کال اسی کی تھی۔ حامد میر بھی ایک فون کال کا انکار کرتا آیا ہےجو ایک دھشت گرد دشمن پاکستان کے ساتھ اس کی بات چیت پر مشتمل تھی مگر یار لوگ جانتے ہیں کہ جس نمبر پر بات ہوی وہ کس کا تھا اور دوران گفتگو جو بات ہورہی تھی وہ کسی جعلی کالر کی کارستانی نہیں ہوسکتی۔ اور ویسے بھی اس کال کا کوی جواز نہیں بنتا تھا۔ اس کال کے اثرات سے بچنے کیلئے حامد میر کو اپنی کار میں ایک بم ڈیوائیس کا ڈرامہ بھی کرنا پڑا مگر کال کے بداثرات سے حامد میر کبھی نہیں نکل سکے گا۔ جس کو دھشت گردوں سے ذرا سا بھی تعلق ہو وہ محب وطن نہیں وطن فروش ہے۔
خیر بجٹ کے بعد دیکھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کو پکڑنے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے؟ ترین نے اپنا آخری چانس بھی کھو دیا تو پھر باقی کی عمر سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہوگی۔ ترین کا بیٹا بھی جیل میں ہوگا ۔ ان لو گوں کے دامن سیاہ ہونے کے باوجود پاکبازی کے ڈرامے اب مزید نہیں چلنے والے۔ چینی مافیا کا زور ٹوٹ گیا تو پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ عوام کو اس بے رحمی کے ساتھ لوٹ سکے۔ فواد چودھری نے ترین گروپ کو جو گارنٹی دی تھی اس کی کوی حیثیت ہی نہیں۔ سب سے زیادہ جو بندے کرپشن اور مکروہ دھند ے میں ملوث ہیں وہ وزیراعلی پنجاب اور اس کی ٹیم کے ممبران ہیں۔ یاد رہے کہ رنگ روڈ جیسے ملتے جلتے فراڈ میں چوہدری نثار خود بھی ملوث ہے اور اس ایک بندے کی وجہ سے موٹر وے پر چکری انٹرچینج کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ موٹروے کو اڑتیس کلومیٹر کا اضافی فاصلہ اور اربوں کے زائد اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑا جو ظاہر ہے عوام نے ہی ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو سالانہ اربوں روپے کا اضافی ایندھن پھونکنا پڑتا ہے
اس وقت اس کابھای ایک جرنیل تھا اور یہ موٹروے پراجیکٹ میں واحد سیاستدان تھا جس نے اپنے فوجی اور سول اثرورسوخ سے موٹروے کو اس کے اصل نقشے سے ہٹا کر اپنے حلقے کے اندر سے گزارا تھا۔
غلام سرور اعوان اور اس کا بیٹا بھی ترین گروپ میں شامل ہوچکے ہیں ظاہر ہے کہ رنگ روڈ فراڈ کے بعد ان کیلئے اور کوی ٹھکانہ بھی نہیں تھا
جاوید آفریدی بھی ٹیکس فراڈ کے باوجود ابھی تک زلمی کا اونر ہے اور اس کو کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ اگر اسی طرح کا احتساب ہوتا رہا تو ایکدن ملک کے دو دھڑے بن جائیں گے امیر اور کرپٹ لوگ ایک طرف اور غریب عوام دوسری طرف
مجھے تو صدی کا سب سے بڑا لطیفہ یہ لگتا ہے جب ایک پرانا پیپلیا فراڈیا بابر اعوان ٹی وی شوز میں کرپشن پر بھاشن دیتا ہوا دکھای دیتا ہے ابھی کل کی بات ہے کہ اس نے خود کو ڈاکٹر لکھنا چھوڑ دیا تھا
ابھی کل کی بات ہے طاہر اشرفی شراب کے کریٹس کے ساتھ پکڑا گیا تھا ، ابھی کل کی بات ہے چوہدری برادران اسپین میں اربوں کی جائیداد کے اسکینڈل تلے کسی بھی وقت جیل جانے کو تیار تھے ابھی کل کی بات ہے کہ بزدار رنگ روڈ لاہور کے اسکینڈ ل میں پھنسا ہانپ رہا تھا مگر اب رنگ روڈ پنڈی کی انکوائری کروا رہا ہے
خیر بجٹ کے بعد دیکھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کو پکڑنے کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے؟ ترین نے اپنا آخری چانس بھی کھو دیا تو پھر باقی کی عمر سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہوگی۔ ترین کا بیٹا بھی جیل میں ہوگا ۔ ان لو گوں کے دامن سیاہ ہونے کے باوجود پاکبازی کے ڈرامے اب مزید نہیں چلنے والے۔ چینی مافیا کا زور ٹوٹ گیا تو پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ عوام کو اس بے رحمی کے ساتھ لوٹ سکے۔ فواد چودھری نے ترین گروپ کو جو گارنٹی دی تھی اس کی کوی حیثیت ہی نہیں۔ سب سے زیادہ جو بندے کرپشن اور مکروہ دھند ے میں ملوث ہیں وہ وزیراعلی پنجاب اور اس کی ٹیم کے ممبران ہیں۔ یاد رہے کہ رنگ روڈ جیسے ملتے جلتے فراڈ میں چوہدری نثار خود بھی ملوث ہے اور اس ایک بندے کی وجہ سے موٹر وے پر چکری انٹرچینج کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ موٹروے کو اڑتیس کلومیٹر کا اضافی فاصلہ اور اربوں کے زائد اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑا جو ظاہر ہے عوام نے ہی ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ عوام کو سالانہ اربوں روپے کا اضافی ایندھن پھونکنا پڑتا ہے
اس وقت اس کابھای ایک جرنیل تھا اور یہ موٹروے پراجیکٹ میں واحد سیاستدان تھا جس نے اپنے فوجی اور سول اثرورسوخ سے موٹروے کو اس کے اصل نقشے سے ہٹا کر اپنے حلقے کے اندر سے گزارا تھا۔
غلام سرور اعوان اور اس کا بیٹا بھی ترین گروپ میں شامل ہوچکے ہیں ظاہر ہے کہ رنگ روڈ فراڈ کے بعد ان کیلئے اور کوی ٹھکانہ بھی نہیں تھا
جاوید آفریدی بھی ٹیکس فراڈ کے باوجود ابھی تک زلمی کا اونر ہے اور اس کو کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ اگر اسی طرح کا احتساب ہوتا رہا تو ایکدن ملک کے دو دھڑے بن جائیں گے امیر اور کرپٹ لوگ ایک طرف اور غریب عوام دوسری طرف
مجھے تو صدی کا سب سے بڑا لطیفہ یہ لگتا ہے جب ایک پرانا پیپلیا فراڈیا بابر اعوان ٹی وی شوز میں کرپشن پر بھاشن دیتا ہوا دکھای دیتا ہے ابھی کل کی بات ہے کہ اس نے خود کو ڈاکٹر لکھنا چھوڑ دیا تھا
ابھی کل کی بات ہے طاہر اشرفی شراب کے کریٹس کے ساتھ پکڑا گیا تھا ، ابھی کل کی بات ہے چوہدری برادران اسپین میں اربوں کی جائیداد کے اسکینڈل تلے کسی بھی وقت جیل جانے کو تیار تھے ابھی کل کی بات ہے کہ بزدار رنگ روڈ لاہور کے اسکینڈ ل میں پھنسا ہانپ رہا تھا مگر اب رنگ روڈ پنڈی کی انکوائری کروا رہا ہے