لگتا ہے کہ ٹھیکیدار کو ریلیف دلوایا جا رہا ہے

Sean

Politcal Worker (100+ posts)

قسطوں کی ادائیگی: ’بحریہ ٹاؤن کو عدالتی رعایت پر وفاقی حکومت کو اعتراض نہیں ہوگا‘

_118617272_92c64026-0691-4d49-a3b2-37e81d4e1939.jpg


پاکستان کی وفاقی حکومت نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں پاکستان کے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران وہ حکومت کے اس مؤقف کی حمایت کریں کہ اگر عدلیہ قسطوں کی ادائیگی کے معاملے میں بحریہ ٹاؤن کو کوئی رعایت دیتی ہے تو اس پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کی طرف سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے ان کے مؤکل کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے لہٰذا اس بنیاد پر انھیں قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دی جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے خلافِ قواعد زمین کے حصول کے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو سات سال کی مدت میں 460 ارب روپے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قومی خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔

ایک ہزار ارب روپے سے شروع ہونے والا یہ معاملہ 460 ارب روپے میں طے پا گیا۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے یہ درخواست دی گئی تھی کہ وفاق کو یہ رقم خرچ کرنے کا اختیار دیا جائے تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے مطابق ان کا کلائنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب تک 58 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہے۔ انھوں نے کہا کورونا کی صورت حال کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح ان کے مؤکل کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس ضمن میں گذشتہ ماہ وزارت قانون کا ایک خط بھی جمع کروایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن اور نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط ہونے کی توقع ہے جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اسلام آباد اور کراچی میں کم لاگت والے پانچ ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کر کے دے گی جن میں سے تین ہزار اسلام آباد میں جبکہ دو ہزار کراچی میں تعمیر کیے جائیں گے۔

اس خط میں کہا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا تعمیراتی سیکٹر میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے تو اس کا جواب ہے کہ یقینی طور پر اس شعبے میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کی طرف سے دی گئی درخواست پر غور کرتی ہے تو وفاقی حکومت کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دینے سے اس ڈیڈ لائن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا جو کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو رقم کی ادائیگی کے لیے دی ہوئی ہے۔

اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق وزارت قانون کے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کو قسطوں کی ادائیگی میں کوئی رعایت دیتی ہے تو ان قسطوں پر حاصل ہونے والے مارک اپ کا فیصلہ سپریم کورٹ طے کرے گی اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
اس خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے ریلیف ملنے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ عدالت یا حکومت سے کیے گئے عہد کو پورا نہیں کرتی تو وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے قسطوں کی ادائیگی میں دی گئی چھوٹ پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔
ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت اس بارے میں جو بھی حکم صادر کرے گی وفاقی حکومت اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
بحریہ ٹاؤن عملدرآمد مقدمے کی آخری سماعت گذشتہ برس جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی۔
جسٹس فیصل عرب گذشتہ برس ریٹائر ہوگئے تھے اور اس کے بعد بینچ تشکیل نہیں دیا گیا۔

source
 
Last edited by a moderator:

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)


قسطوں کی ادائیگی: ’بحریہ ٹاؤن کو عدالتی رعایت پر وفاقی حکومت کو اعتراض نہیں ہوگا‘

_118617272_92c64026-0691-4d49-a3b2-37e81d4e1939.jpg


پاکستان کی وفاقی حکومت نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں پاکستان کے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران وہ حکومت کے اس مؤقف کی حمایت کریں کہ اگر عدلیہ قسطوں کی ادائیگی کے معاملے میں بحریہ ٹاؤن کو کوئی رعایت دیتی ہے تو اس پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل اور حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر کی طرف سے ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کورونا کی وجہ سے ان کے مؤکل کا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے لہٰذا اس بنیاد پر انھیں قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دی جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے سنہ 2018 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے خلافِ قواعد زمین کے حصول کے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو سات سال کی مدت میں 460 ارب روپے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قومی خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔

ایک ہزار ارب روپے سے شروع ہونے والا یہ معاملہ 460 ارب روپے میں طے پا گیا۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے یہ درخواست دی گئی تھی کہ وفاق کو یہ رقم خرچ کرنے کا اختیار دیا جائے تاہم عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی تھی۔
بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے مطابق ان کا کلائنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اب تک 58 ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہے۔ انھوں نے کہا کورونا کی صورت حال کی وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح ان کے مؤکل کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس ضمن میں گذشتہ ماہ وزارت قانون کا ایک خط بھی جمع کروایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن اور نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط ہونے کی توقع ہے جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اسلام آباد اور کراچی میں کم لاگت والے پانچ ہزار اپارٹمنٹس تعمیر کر کے دے گی جن میں سے تین ہزار اسلام آباد میں جبکہ دو ہزار کراچی میں تعمیر کیے جائیں گے۔

اس خط میں کہا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے دوسرا سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا تعمیراتی سیکٹر میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے تو اس کا جواب ہے کہ یقینی طور پر اس شعبے میں بحریہ ٹاؤن ایک قابل ذکر کھلاڑی ہے۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کی طرف سے دی گئی درخواست پر غور کرتی ہے تو وفاقی حکومت کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا جائے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو قسطوں کی ادائیگی میں رعایت دینے سے اس ڈیڈ لائن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا جو کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو رقم کی ادائیگی کے لیے دی ہوئی ہے۔

اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق وزارت قانون کے خط میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کو قسطوں کی ادائیگی میں کوئی رعایت دیتی ہے تو ان قسطوں پر حاصل ہونے والے مارک اپ کا فیصلہ سپریم کورٹ طے کرے گی اور بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
اس خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے ریلیف ملنے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ عدالت یا حکومت سے کیے گئے عہد کو پورا نہیں کرتی تو وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے قسطوں کی ادائیگی میں دی گئی چھوٹ پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہے۔
ان دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالت اس بارے میں جو بھی حکم صادر کرے گی وفاقی حکومت اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔
بحریہ ٹاؤن عملدرآمد مقدمے کی آخری سماعت گذشتہ برس جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی۔
جسٹس فیصل عرب گذشتہ برس ریٹائر ہوگئے تھے اور اس کے بعد بینچ تشکیل نہیں دیا گیا۔

source
اس قوم کے منہ پر ایک کی جملہ ہوتا ہے
یہ کوئی کروا رہا ہے" جیسے یہ خود ذہنی مریض ہیں سارے
اور سب کچھ کوئی اور کروا رہا ہے
عجیب جاہل قوم ہیں ہم بھی
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی گورنمنٹ سمیت تمام دنیا میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کی طرف سے آپنے آپنے کسٹمرز/ کلائینٹس کو قسطوں میں سہولیات دی گئیں ہیں اور ان ملکوں میں پاکستان بھی شامل ھے چلیں ملک ریاض کو بھی یہ سہولت دے دیں اب اس میں کیا ھے
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
اگر عدلیہ قسطوں کی ادائیگی کے معاملے میں بحریہ ٹاؤن کو کوئی رعایت دیتی ہے تو اس پر وفاق کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا
اگر عدلیہ قسطوں کی ادائیگی کے معاملے میں بحریہ ٹاؤن کو کوئی رعایت دیتی ہے تو
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ قومی خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔
اگر وہ قومی خزانے میں ایک ہزار ارب روپے جمع کروا دیں تو ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے جائیں گے۔