مریم نواز نے پہلی بار ایک جارحانہ تقریر کی ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود

hello

Chief Minister (5k+ posts)
آخر ڈاکٹر صاحب نے طویل انتظار کیا ۔۔۔ نہ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ آفر ہوئی نہ کسی ملک کا سفیر بننا اور نہ ہی کچھ اور بلکہ جیل علحیدہ دیکھ لی لہذا ڈاکٹر صاحب نے سوچا اب بس بہت ہو گیا انقلاب آتے آتے رہ گیا ہمیں تو کچھ نظر نہیں آ رہا ڈاکٹر دانش کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

zain786

Chief Minister (5k+ posts)
آخر ڈاکٹر صاحب نے طویل انتظار کیا ۔۔۔ نہ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ آفر ہوئی نہ کسی ملک کا سفر بننا اور نہ ہی کچھ اور بلکہ جیل علحیدہ دیکھ لی لہذا ڈاکٹر صاحب نے سوچا اب بس بہت ہو گیا انقلاب آتے آتے رہ گیا ہمیں تو کچھ نظر نہیں آ رہا ڈاکٹر دانش کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ulta fawad se litar parede karwa betha hun banda gusa v na kade
 

Diesel

Chief Minister (5k+ posts)
haram ke mal par politics karna or leader ban-na aik lamha e fikriya hai. jab state institutions khud corruption me involve hogi To pir nani aik din zaror is qom par musalit hogi
 

Haha

Minister (2k+ posts)
آخر ڈاکٹر صاحب نے طویل انتظار کیا ۔۔۔ نہ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ آفر ہوئی نہ کسی ملک کا سفر بننا اور نہ ہی کچھ اور بلکہ جیل علحیدہ دیکھ لی لہذا ڈاکٹر صاحب نے سوچا اب بس بہت ہو گیا انقلاب آتے آتے رہ گیا ہمیں تو کچھ نظر نہیں آ رہا ڈاکٹر دانش کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈلکولیکس لے لیتا یہ پاگل ڈاکٹر تو بہت
آسانی
سے انقلاب آجاتا
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
کل تک انہیں ہر کوئی حاجی نمازی دینی لوگ سمجھتے تھے آج انہیں لوگ ان کو حرامی سمجھتے ہیں کیسے ڈر پوک ماؤں کے جنازے پر نہیں آئے لوگوں نے ان کی ماؤں کے جنازے اٹھائے اور قبروں میں دفنائے اور یہ کمینے مال جان بچاکر وہاں چھپے بیٹھے رہے اصل میں یہ ڈنگر گنگلوں کے منہ والے بد صورت ہونے کے ساتھ ساتھ بد کردار بھی ثابت ہوئے کس کو نہیں پتا مدینہ شریف پاک دھرتی پر رمضان کے مہینے میں کیسے ملک ارشد جج کو حسین نواز کسی بندر کے منہ والا اس کی فحش ویڈیوز دیکھا کر بلیک میل کر رہا تھا کہ پیسے بھی ملے گیں جہاں کہوں گے وہاں کی شہریت بھی ملے گی ہمارے لیے کام کرو اور بات نہ بنی یا ادھوری پوری ہوئی تو مریم نمودار ہوئی اس کی فحش ویڈیوز لے کر اورپریس کانفرنس کرکے لوگوں کو دیکھانے لگی کہ ہم نے کس طرح اسے ٹریپ کیا کیلبری فونٹ کی جعلی موجددو نمبر عورت کہتی میری کہیں جائیداد نہیں اور پھر اربوں کی جائیداد نکل آئی اس غلیظ عورت کی لوگ ان کے چہرے جان چکے یہ ننگیں ہوگیے کہ یہ ہیں کیا
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)

safe_image.php

کل تک انہیں ہر کوئی حاجی نمازی دینی لوگ سمجھتے تھے آج انہیں لوگ ان کو مال حرام کمانے والے سپریم کورٹ سے سزا یافتہ سمجھتے ہیں کیسے ڈر پوک ماؤں کے جنازے پر نہیں آئے لوگوں نے ان کی ماؤں کے جنازے اٹھائے اور قبروں میں دفنائے اور یہ کمینے مال جان بچاکر وہاں چھپے بیٹھے رہے اصل میں یہ ڈنگر گنگلوں کے منہ والے بد صورت ہونے کے ساتھ ساتھ بد کردار بھی ثابت ہوئے کس کو نہیں پتا مدینہ شریف پاک دھرتی پر رمضان کے مہنے میں کیسے ملک ارشد جج کو حسن نواز بے شرم انسان اس کی فحش ویڈیوز دیکھا کر بلیک میل کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ پیسے بھی ملے گیں جہاں کہوں گے وہاں کی شہریت بھی ملے گی ہمارے لیے کام کرو اور بات نہ بنی یا ادھوری پوری ہوئی تو مریم نمودار ہوئی اس کی فحش ویڈیوز لے کر اورپریس کانفرنس کرکے لوگوں کو دیکھانے لگی کہ ہم نے کس طرح اسے ٹریپ کیا کیلبری فونٹ کی جعلی موجددو نمبر عورت کی طرح کہتی ہے میری کہیں جائیداد نہیں اور پھر اربوں کی جائیداد نکل آئی اس عورت کی ۔۔۔۔۔۔۔ لوگ ان کے چہرے جان چکے یہ ننگیں ہوگیے کہ یہ ہیں کیا اب چلی ملک کے ٹکڑے کرنے والوں کی حمایت کرنےتو جو مرضی کر لے پنجاب تک تم محدود ہو گئے ہوآگے آگے دیکھو تمھارے ساتھ ہوتا کیا ہے
گلگت کا الیکشن آ گیا خوب مہم چلائی بلاول تو اپنے اندر بھٹو کی روح آنے کی ایکٹنگ کرتا رہا مریم کو 24 حلقوں میں صرف 6 امیداوار کھڑے کرنے کو ملے لیکن سوٹ 8 سلا بیٹھی تو پھر کیا 8 حلقوں میں جلسے کر آئی لیکن جیت آخر عمران خان گیا اور گلگت میں حکومت بھی بنالی اور یہ منہ دیکھتے رہ گئے
پھر چلائی مولانا نے مریم سمیت ایک تحریک شکست خوروں کے بچے لے کر شاید عوام ترس کھا لے جگہ جگہ جلسے کیے اور مرکزی جلسہ رکھا مینار پاکستان لاہور اوقات سے زیادہ دعوے کیے آریا پار کی باتیں کی جب جلسہ ہوا تو بڑی طرح فلاپ کسی کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہے
 

Haha

Minister (2k+ posts)
تاریخ صرف فتوحات گنتی ہے۔
دستر خوان پر پڑے انڈے ،جیم اور مکھن نہیں!

یہ 1973ء کی بات ہے۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔
ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم ”گولڈہ مائیر“ کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔
ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔

چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مائیر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ”مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔

یاد رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مائیر نے کتنی ”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا موقف تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا :
”آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ اسکے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔“

گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: ”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟“گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی :
”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ۔۔جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو یا سات تلواریں لٹک رہی تھیں۔

میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“

گولڈہ مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے ”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔ وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبیﷺ کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔

اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔

گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: ”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ۔۔
”تاریخ فتوحات گنتی ہے،
دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔

گولڈہ مائیر کے انٹرویو نگار کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل میں شائع ہوا تو دنیا اس ساری داستان سے آگاہ ہوئی ۔ یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے، بیداری کا درس دے رہا ہے، ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟

ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کر لئے؟ اگر پُرشکوہ محلات، عالی شان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔

آہ ! وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ ، آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا۔:
’’جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ!‘‘۔
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا:
’’میں سونا کیسے کھاؤں؟‘‘
ہلاکو نے فوراً کہا
’’پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘ ۔

وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘۔
خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔
’’اللہ کی یہی مرضی تھی‘‘۔
ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’ پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی۔‘‘۔

پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔‘‘۔

تاریخ تو فتوحات گنتی ہے ۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے نہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ہوتا۔ اندازہ کرو جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے۔ تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا۔ جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے۔ تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور طاؤس و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔

ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟ یاد رکھیے! تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عُذر قبول نہیں کرتی۔

افسوس صد افسوس!
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یہودی عورت نے تو سبق حاصل کر لیا۔ مگر مسلمان اِس پہلو سے نا آشنا رہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کام میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے..
Copy paste
 
Last edited: