معصوم۔۔
تحریر؛جانی۔
اس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ ۔۔اور ہم تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ اس نے اچانک سے گاڑی روکنے کو کہا۔ ۔ جسے میں نے انتہائی ادب سے مان لیا۔۔ اور مانتابھی کیسے نہ۔ وہ میرے باس کی صاحبزای تھیں ، اور میں انکا معمولی سا ڈرائیور۔
سنو ! ایسا کرو کہ تم مجھے یہیں اتار دو۔ اور گاڑی لے کر گھر چلے جانا۔۔اس نے شش و پنج بھرے لہجے میں کہا۔
گاڑی روکنے تک تو ٹھیک تھا۔ مگر اس سنسان سڑک پر اسے ایسے اکیلے چھوڑنے کا مطلب تھا، میری نوکری کے ساتھ، میری چمڑی بھی جاتی۔ کیونکہ وہاں سے اسکا گھر لوٹنا تقریبا ناممکن تھا۔ رات کے دس بجنے والے تھے، اور اسکے بعد اس سڑک سے کسی بس یا ٹیکسی کا گزر بھی شاید نہ ہوتا، پیدل آتی تو دو تین گھنٹے لگ جاتے۔اور راستے میں سو خطرات ہوتے ہیں، خاص طور پر صنف نازک کے لیئے۔
میرے ذہن نے برق رفتاری سےیہ سب کچھ صورت حال کی مناسبت سے سوچا۔ ۔۔
مگر آپ کو یہاں اکیلے میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ یہاں نہ تو کوئی گھر ہے،۔ نہ کوئی گاڑی یہاں سے ملے گی آپکو۔ آپنے جہاں جانا ہے مجھے بتائیں میں پہنچائے دیتا ہوں۔۔خود پر قابو پاتے ہوئے میں نے کہا۔۔
جیسا کہا ہے ویسا کرو، ۔ اور باپ بننے کی کوشش نہ کرو، اپنے اوقات میں رہو۔۔ وہ پہلے والی کیفیت سے نکل کربولی۔ ۔جیسے اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو چڑھ دوڑے گی۔
میرے لیئے اسکا یہ لہجہ حیران کن تھا۔ کہ باقی گھر والوں میں وہ سب سے کم گو اور نرم لہجہ رکھنے والی تھی۔ کچھ تو گڑبڑ تھی جو اسے کھائے جارہی تھی۔۔
جی باپ تو نہیں بن رہا بس اپنی فکر سے آپکو آگاہ کیا۔۔میں نے مدھم لہجے میں جواب دیا۔ ۔
میرا جملہ ابھی مکمل بھی نہ ہوپایا تھا، کہ اسنے گاڑی کا دروازہ دھڑام سے بند کردیا۔۔ جیسے میرے منہ پر دے مارا ہو۔۔اور اتر کر اس طرف چلنے لگی جس طرف سے ہم آئے تھے۔۔ یہ میرے لیئے اور بھی حیران کن بات تھی۔۔کہ اسنےگھر کی طرف چلنے کی بجائے واپسی کی راہ لی۔
میم آپ کیا کررہی ہیں۔ مجھ غریب پر رحم کھائیں۔ میں کیا جواب دونگا واپس پہنچ کر۔۔ میں نے التجائیہ انداز میں جلدی سے اسکے پیچھے اتر کر بولنا شروع کیا۔۔
تم کہاں آرہے ہو۔۔ جاو اپنا کام کرو۔۔ وہ مجھے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر تیز تیز چلنے لگی۔۔
جب سمجھ گئی کہ میں اسکا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تو رک گئی اور کہنے لگی۔۔
PART 1۔۔
======================================
PART 2..
ڈاکٹر صاحب۔۔ جلدی آئیں، لگتا ہے مریض کو ہوش آگیا۔۔
اس نے آنکھ آدھی سی ہی کھولی تھی کہ پاس کھڑی نرس کی آواز اس کے کانوں پر پڑی۔
آہ۔ہ۔ہ۔ آہ۔ہ۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے، کہاں ہوں میں۔ ۔ وہ کمزور آواز کے ساتھ بڑبڑایا۔۔
جی کچھ کہنا ہے۔ ۔ ٹہریں ڈاکٹر صاحب آرہے ہیں۔ ۔۔ نرس اس کے قدرے قریب آکر بولی۔ اور اس نے دوبارہ سے آنکھ بند کرلی۔ جیسے کہانی سمجھ گیا ہو۔ اور مسیحا کے انتظار میں ہو۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اچھا خاصا گاڑی میں اس لڑکی کو گھر پہنچا رہا تھا ، مگر اب یہاں ہسپتال کے بستر پر۔۔۔؟۔
ڈاکٹر نے آکر اس کا معائنہ کیا۔اور اسے بتایا کہ آپ خوش قسمت ہیں۔ یقینا دعاوں کا اثر ہوگا۔۔ورنہ اس حال سے گزر کر بہت کم لوگ واپس آتے ہیں اور کومہ میں ہی اس دنیا سےچلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یہ سب بتا کر چلا گیا۔۔ ۔۔اور وہ پھر سے بے ہوش سا ہوگیا۔ نرس نے قریب آکر دیکھا اور تھوڑی دیر اس کا معائنہ کرکے چلی گئی۔۔ کہ مریض کو آرام درکار ہوتا ہے۔
اگلے روز اسکی آنکھ صبح سویرے کھل گئی۔ ۔ شاید آرام ، دواوں اور دعاوں کا اثر تھا کہ اب نہ اسکا سر چکرا رہا تھا نہ اس میں درد تھا۔
مگر درد کی اک ٹھیس سی اس کے دل و دماغ سے نکلی جب وہ تھوڑی ہی دیر میں دواوں کے اثر سے نکلا۔۔اور حقیقی دنیا میں آیا۔
وہ کچھ عرصہ قبل گاوں سے شہر آیا تھا، اور یہاں وہ ایک پرائیویٹ ایپ کی ٹیکسی سروس میں گاڑی چلاتا تھا۔ ۔۔ اکثر خواتین بھی اس کی گاڑی میں سفر کرتی تھیں۔ شروع شروع میں تو وہ ٹھیک جارہا تھا۔۔ مگر شیطان جو آہستہ آہستہ دل میں راہ کرتا ہے، خاص طور پرتنہا لوگوں کے۔۔ اس کے دل میں بھی اتنی آہستگی سے راہ کرگیا تھا۔ کہ اسے محسوس بھی نہ ہوسکا۔
شروع میں وہ کام پر نکلتا تو، روزی روٹی کے لیئے ، مگر اب کسی روزی کے لیئے۔۔ یعنی کھبی تو اپنا چانس بھی لگے گا۔۔
شروع میں جو آنکھ ملانا بھی نہیں جانتا تھا، اب باقاعدہ بیک مرر یا گاڑی کا مرکزی آئنہ سیٹ کرنے لگا تھا۔ اور ایک آنکھ سڑک پر تو دوسری پیچھے بیٹھے خلق پر۔
ہاں یہ بات تھی کہ، اس سے قبل وہ آنکھوں کے کھیل سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ کہ کسی کو ہیلو سے آگے لفظ بھی بول سکے۔۔ مگر اس دن جانے کیا تھا اس پیسنجر میں کہ اس کا دل چاہا اس سے بات کرنے کو۔۔اور وہ شیطان کے جالے میں پھنستے پھنستے ہنسنے اور مسکُرانے پر آگیا۔۔۔
اسے لگا جیسے مہینوں کی خواری کا صلہ ملنے والا ہے۔ اور بات بہت آگے بڑھنے والی ہے۔۔ وہ ہنسی مزاق میں لگا رہا اور سڑک سے زیادہ پیسنجر کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔۔ کہ۔۔
ایک موڑ ایسا آیا جب وہ سمجھ نہ سکا اور سامنے سے آتی گاڑی میں اپنی گاڑی گھسا بیٹھا۔۔۔ گاڑی ٹکرانے کے بعد اس کے جسم پر خراشیں آئی تھیں۔ مگر سر کی چھوٹ سے دو تین روز کومہ میں گزرے ۔۔
خواب میں جو لڑکی اس نے دیکھی تھی وہ اسکے باس کی بیٹی نہیں بلکہ اسکی وہ پیسنجر تھی ، جس سے وہ خوش گپیوں میں لگا رہا۔۔اور تقریبا دو دن کے عرصے میں وہ اتنا چھوٹا سا خواب دیکھ سکا تھا۔۔۔مگر۔۔ کیا بھیانک قسم کا خواب تھا۔۔ کہ ایک لڑکی کی ذمے داری اس کے سر تھی اور وہ خود کو تن تنہا اندھیری رات میں گم کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ اس لڑکی کے آخری الفاظ منہ سے نکلنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔
وہ میرے ساتھ ایک لڑکی بھی آئی تھی وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔۔ اسنے ہسپتال چھوڑنے سے پہلے انتظامیہ سے پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو اسی روز ڈسچارج کردی گئی تھی۔۔ اور اپنے ہزبنڈ کے ساتھ چلی گئی۔۔۔یہ جان کر اسے اس خواب کی حقیقت بھی سمجھ میں انےٓلگی۔ کہ کیوں وہ لڑکی اس کے لیئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔۔۔۔۔
کیا عجیب لڑکی تھی۔۔۔۔ خیر۔۔ وہ ہسپتال سے نکلتے ہوئے خود سے بڑبڑایا۔۔ اور اپنی کمپنی کی ایپ سے گاڑی منگوائی اور گھر کو روانہ ہوا۔۔راستے میں وہ سوچوں میں چلا گیا۔۔ کہ اسکے ساتھ جو بھی ہوا، رب العالمین کی طرف سے اس میں یقینا بھلائی تھی۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتا تو جانے وہ اپنی حرکتوں میں کتنے آگے نکل جاتا۔۔ اور شاید آنکھ کھلتی تو قبر میں۔۔ جہاں آنکھ کھلتی نہیں بلکہ بند ہوا کرتی ہے۔۔۔
اس نے آنکھ آدھی سی ہی کھولی تھی کہ پاس کھڑی نرس کی آواز اس کے کانوں پر پڑی۔
آہ۔ہ۔ہ۔ آہ۔ہ۔۔۔ یہ کیا ہورہا ہے، کہاں ہوں میں۔ ۔ وہ کمزور آواز کے ساتھ بڑبڑایا۔۔
جی کچھ کہنا ہے۔ ۔ ٹہریں ڈاکٹر صاحب آرہے ہیں۔ ۔۔ نرس اس کے قدرے قریب آکر بولی۔ اور اس نے دوبارہ سے آنکھ بند کرلی۔ جیسے کہانی سمجھ گیا ہو۔ اور مسیحا کے انتظار میں ہو۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اچھا خاصا گاڑی میں اس لڑکی کو گھر پہنچا رہا تھا ، مگر اب یہاں ہسپتال کے بستر پر۔۔۔؟۔
ڈاکٹر نے آکر اس کا معائنہ کیا۔اور اسے بتایا کہ آپ خوش قسمت ہیں۔ یقینا دعاوں کا اثر ہوگا۔۔ورنہ اس حال سے گزر کر بہت کم لوگ واپس آتے ہیں اور کومہ میں ہی اس دنیا سےچلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر یہ سب بتا کر چلا گیا۔۔ ۔۔اور وہ پھر سے بے ہوش سا ہوگیا۔ نرس نے قریب آکر دیکھا اور تھوڑی دیر اس کا معائنہ کرکے چلی گئی۔۔ کہ مریض کو آرام درکار ہوتا ہے۔
اگلے روز اسکی آنکھ صبح سویرے کھل گئی۔ ۔ شاید آرام ، دواوں اور دعاوں کا اثر تھا کہ اب نہ اسکا سر چکرا رہا تھا نہ اس میں درد تھا۔
مگر درد کی اک ٹھیس سی اس کے دل و دماغ سے نکلی جب وہ تھوڑی ہی دیر میں دواوں کے اثر سے نکلا۔۔اور حقیقی دنیا میں آیا۔
وہ کچھ عرصہ قبل گاوں سے شہر آیا تھا، اور یہاں وہ ایک پرائیویٹ ایپ کی ٹیکسی سروس میں گاڑی چلاتا تھا۔ ۔۔ اکثر خواتین بھی اس کی گاڑی میں سفر کرتی تھیں۔ شروع شروع میں تو وہ ٹھیک جارہا تھا۔۔ مگر شیطان جو آہستہ آہستہ دل میں راہ کرتا ہے، خاص طور پرتنہا لوگوں کے۔۔ اس کے دل میں بھی اتنی آہستگی سے راہ کرگیا تھا۔ کہ اسے محسوس بھی نہ ہوسکا۔
شروع میں وہ کام پر نکلتا تو، روزی روٹی کے لیئے ، مگر اب کسی روزی کے لیئے۔۔ یعنی کھبی تو اپنا چانس بھی لگے گا۔۔
شروع میں جو آنکھ ملانا بھی نہیں جانتا تھا، اب باقاعدہ بیک مرر یا گاڑی کا مرکزی آئنہ سیٹ کرنے لگا تھا۔ اور ایک آنکھ سڑک پر تو دوسری پیچھے بیٹھے خلق پر۔
ہاں یہ بات تھی کہ، اس سے قبل وہ آنکھوں کے کھیل سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ کہ کسی کو ہیلو سے آگے لفظ بھی بول سکے۔۔ مگر اس دن جانے کیا تھا اس پیسنجر میں کہ اس کا دل چاہا اس سے بات کرنے کو۔۔اور وہ شیطان کے جالے میں پھنستے پھنستے ہنسنے اور مسکُرانے پر آگیا۔۔۔
اسے لگا جیسے مہینوں کی خواری کا صلہ ملنے والا ہے۔ اور بات بہت آگے بڑھنے والی ہے۔۔ وہ ہنسی مزاق میں لگا رہا اور سڑک سے زیادہ پیسنجر کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔۔ کہ۔۔
ایک موڑ ایسا آیا جب وہ سمجھ نہ سکا اور سامنے سے آتی گاڑی میں اپنی گاڑی گھسا بیٹھا۔۔۔ گاڑی ٹکرانے کے بعد اس کے جسم پر خراشیں آئی تھیں۔ مگر سر کی چھوٹ سے دو تین روز کومہ میں گزرے ۔۔
خواب میں جو لڑکی اس نے دیکھی تھی وہ اسکے باس کی بیٹی نہیں بلکہ اسکی وہ پیسنجر تھی ، جس سے وہ خوش گپیوں میں لگا رہا۔۔اور تقریبا دو دن کے عرصے میں وہ اتنا چھوٹا سا خواب دیکھ سکا تھا۔۔۔مگر۔۔ کیا بھیانک قسم کا خواب تھا۔۔ کہ ایک لڑکی کی ذمے داری اس کے سر تھی اور وہ خود کو تن تنہا اندھیری رات میں گم کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ اس لڑکی کے آخری الفاظ منہ سے نکلنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔۔۔
وہ میرے ساتھ ایک لڑکی بھی آئی تھی وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔۔ اسنے ہسپتال چھوڑنے سے پہلے انتظامیہ سے پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ وہ تو اسی روز ڈسچارج کردی گئی تھی۔۔ اور اپنے ہزبنڈ کے ساتھ چلی گئی۔۔۔یہ جان کر اسے اس خواب کی حقیقت بھی سمجھ میں انےٓلگی۔ کہ کیوں وہ لڑکی اس کے لیئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔۔۔۔۔
کیا عجیب لڑکی تھی۔۔۔۔ خیر۔۔ وہ ہسپتال سے نکلتے ہوئے خود سے بڑبڑایا۔۔ اور اپنی کمپنی کی ایپ سے گاڑی منگوائی اور گھر کو روانہ ہوا۔۔راستے میں وہ سوچوں میں چلا گیا۔۔ کہ اسکے ساتھ جو بھی ہوا، رب العالمین کی طرف سے اس میں یقینا بھلائی تھی۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتا تو جانے وہ اپنی حرکتوں میں کتنے آگے نکل جاتا۔۔ اور شاید آنکھ کھلتی تو قبر میں۔۔ جہاں آنکھ کھلتی نہیں بلکہ بند ہوا کرتی ہے۔۔۔
Dr Adam Iconoclast Terminator; samkhan atensari Okara taban
Modest Nice2MU Wake Up Pakistan zaheer2003 Sohail Shuja
(Citizen X dont worry , no hijab ? )