پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ، حکومت اب تک کیا اقدامات کرچکی؟

Disable no follow links
Yes
5cb757bc52b33.jpg


ملکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے پوٹینشل پر کافی لکھا جا چکا۔ حکومتِ وقت کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے کیے گئے اقدامات سے ایک بات تو یقینی ہے کہ اعلیٰ سطح پر تعمیراتی شعبے کی روانی کی ضرورت، منسلک الائیڈ انڈسٹریز اور معیشت پر اُن کے مثبت اثرات کا ادراک ہوچکا ہے۔

یقیناً مسائل کا اندازہ ہی اُن کے حل کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ کورونا وبا کے بعد دنیا میں جہاں ہر طرف ایک جمود کے ڈیرے تھے، پاکستان میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اسٹریٹیجی، سب سے پہلے تعمیراتی شعبے کی روانی اور اسے باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے کر مراعاتی پیکج سے معاشی چیلنجز کا تدارک کرنا ایک ایسا فیصلہ تھا جسے ہر سطح پر سراہا گیا۔ یوں پاکستان نہ صرف کورونا وبا کے جانی و مالی وار سے ایک بڑی حد تک محفوظ رہا بلکہ تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب میں داخل ہوا۔

پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اصل مسائل کا ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مسائل کا ذکر کرنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ حکومت نے اِس ضمن میں کون کون سے اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ ہر طرح سے بہتری کا سامان ہیں۔ تحریر کے آخر میں دیکھیں گے کہ کون کون سے ایسے معاملات ہیں جو ابھی بھی اپنے حل کے منتظر ہیں۔ یہاں مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے ایک بڑے نام، گرانہ ڈاٹ کام کا بھی ذکر کیا جائیگا کہ کیسے پراپرٹی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج ہر طرح سے مسائل کے حل کی نوید ہے۔

مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟

پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہاں سرمائے کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ابھی تک کسی میکنزم کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ چونکہ یہاں ایک طویل عرصے تک دُرست معلومات کی عدم دستیابی رہی ہے لہٰذا سرمایہ کاروں کے اذہان میں یہ بات ایک مستقل جگہ بنا چُکی ہے کہ فراڈ اور دھوکہ دہی سے بچنے کا واحد طریقہ ہر پراجیکٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔

realestate.jpg


پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے مسائل کو اگر چار بڑے حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہاں دُرست حقائق، قوانین اور پلاننگ کا ایک بڑے پیمانے پر فقدان ہے جس کے نتیجے میں غلط طرزِ کاروبار رائج ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے اُن کے مطابق کسی بھی ملک کا ریئل اسٹیٹ سیکٹر اُس کے کُل معاشی حجم کا 60 سے 70 فیصد تک حصہ بنتا ہے۔

کسی بھی نظریے سے بالا ہو کر اگر صرف حقائق کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھا جائے تو یہ بات انتہائی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ ستر برس میں اگر مُلکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے پوٹینشل کا درست طریقے سے ادراک کیا جاتا تو آج تک مذکورہ مسائل کا حل تلاش کرلیا جاتا، یہاں غلط طریقِ کاروبار کا بازار گرم نہ ہوتا اور ہم بھی تعمیراتی صنعت اور الائیڈ انڈسٹریز کو ترقی دے کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکے ہوتے۔

حالیہ حکومت کا منشور اور ہمارا ریئل اسٹیٹ سیکٹر

حالیہ حکومت نے اپنے منشور میں تبدیلی اور نئے طور طریقوں کی بات کی۔ ہماری آبادی کا 64 فیصد سے زائد حصہ تیس سال سے کم عمر کے باصلاحیت نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کو دورِ جدید میں ڈیجیٹل میڈیا کی مرہونِ منت کافی حد تک سیاسی طور پر اپنے اچھے برے کی سمجھ بوجھ حاصل ہوچکی ہے اور یہ کسی طرح کی ڈائریکشن کی منتظر ہے۔ حکومتِ وقت نے یوتھ کے مسائل پر زور دیا اور اُس کے حل کی راہ ہموار کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا اور یہ ایک ایسی تبدیلی کی منتظر ہوگئی کہ جس سے اِن کو اپنے ٹیلنٹ کو ایک چینل دینے کا موقع مل سکے۔

حکومت نے آسان اقساط اور شرائط پر پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کی بہت بات کی۔ اس ضمن میں اُس کے سامنے کافی سارے چیلنجز تھے۔ اس بات کا اندازہ اسی امر سے لگا لیں کہ جب وزیرِ اعظم کے شکایات پورٹل کا اجراء کیا گیا تو کُل شکایات کا نصف سے زائد صرف پراپرٹی سے متعلق تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر چھٹے اوورسیز پاکستانی کو ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش رہا ہے۔ پاکستان کا واحد پلانڈ شہر اسلام آباد ہے جس میں 28 ہزار ایکڑ سے زائد قبضہ مافیا کے زیرِ تسلط ہے۔ ابتدائی ایام میں جب کم لاگت ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر کا بیڑا اٹھانے کی بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ پاکستان میں مارگیج فنانسنگ اور فورکلوثر قوانین کا کوئی رجحان نہ تھا۔ بینکوں کی جانب سے کم آمدن والے افراد کو گھروں کی تعمیر کیلئے قرضوں کی فراہمی ناممکن تھی۔

حکومت کے اٹھائے گئے اقدامات

پھر آہستہ آہستہ باقاعدہ اقدامات اٹھانے کی باری آئی۔ تعمیراتی سیکٹر کو ایک صنعت كا درجہ دیا گیا اس کیلئے مراعاتی پیکج کا اعلان کیا گیا۔ قومی رابطہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کی نمائندگی یقینی بنائی گئی۔ ہر ہفتے اس کا اجلاس اور وزیرِ اعظم کی جانب سے اُس کی صدارت اِس امر کی نشاندھی ہے کہ حکومت ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے مسائل کے حل کیلئے کس قدر کوشاں ہے۔

EwwOKu7XIAMXJ2B (1).jpg


پھر کیڈسٹرل میپنگ پر زور دیا گیا۔ مُلک بھر میں کیڈسٹرل میپنگ کا ابتدائی مرحلہ کامیابی سے مکمل کیا گیا جس کی تکمیل کے بعد پتہ چلا کہ 5.6 ٹریلین مالیت کی سرکاری اراضی لینڈ مافیا کے زیرِ قبضہ ہے۔ صرف تین بڑے شہروں یعنی لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 2.63 ٹریلین کی حکومتی اراضی پر قبضہ رپورٹ ہوا۔ جنگلات کے لیے مخصوص سرکاری اراضی، جس کا معاشی حجم 1.86 ٹریلین بنتا ہے، پر بھی لینڈ مافیا کے ڈیرے ہیں۔ اِس قبضہ گروہ کے خلاف بھرپور آپریشن کا فیصلہ کیا گیا اور بڑے پیمانے پر سرکاری زمین واگزار کرائی گئی۔ وزیرِ اعظم نے پاکستان بھر میں کیڈیسٹرل میپنگ کے عمل کو مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں جو کے اعداد و شمار بھی جلد عوام کے سامنے ہوں گے۔ پورے پاکستان کے پلانڈ ایریاز کی ڈیجیٹل میپنگ کی تکمیل بھی ایک شاندار اقدام ہے۔
مزید برآں عام پاکستانیوں کیلئے کم قیمت گھروں کی تعمیر اور بعد از تعمیر اُن کی حوالگی کا سلسلہ بھی بڑے پیمانے پر شروع کردیا گیا ہے۔ بینک آسان ترین شرائط اور کم شرح سود پر مکانات کی تعمیر کیلئے قرضے فراہم کررہے ہیں۔

ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ایک محفوظ ماحول کا فروغ

سب سے بڑی کامیابی ایک ایسے ماحول کا فروغ ہے جس سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں پراپرٹی اور ٹیکنالوجی کا امتزاج پنپ سکے۔ یہاں پر ملکی ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی پہلی مارکیٹ پلیس گرانہ ڈاٹ کام کا ذکر کلیدی ہے جو پراپرٹی اور ٹیکنالوجی کے سنگم یعنی پراپٹیک کے ذریعے اس سیکٹر میں انقلاب کی بنیاد ہے۔ گرانہ ڈاٹ کام پر آپ آسان، شفاف اور محفوظ ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز اور سرمایہ کاری کے آپشنز سے مستفید ہوسکتے ہیں جس سے آپ ایک شاندار مستقبل کی ضمانت پاسکتے ہیں۔
 
Last edited by a moderator: