عمران خانی میانوالی مذہب کے پیروکار کھوتے یوتھیوں کو میں کل سے دیکھ رہا ہوں کہ سب نہیں تو 90 فیصدی کھوتوں کو یقین ہے کہ مطیع اللہ جان نے کسی بازپرس سے بچنے کے لیے اغوا ہونے کا ڈرامہ رچایا ہے۔
ڈرامہ رچانے کے لیے وہ خاص اپنی بیگم کے اسکول کے پاس آیا جہاں کم سے کم دو سی سی ٹی وی نے واقعہ کی فوٹیج محفوظ کی۔ فوٹیج کا مطلب یہ ہے کہ اغوا کاروں یا اداکاروں کی گاڑیوں کا رنگ اور میک پتہ چلا، ان کی تعداد اور ہیئت کا اندازہ ہوا۔ یعنی ایسا احمق ڈرامے باز ایک یوتھیہ ہو سکتا ہے، مطیع اللہ جان نہیں ہوسکتا۔
اور بالفرض یہ ڈرامہ تھا تو شیرلاک ہومز کے میاں والی ورژن کھوتیوں کی حکومت میں کوئی ایسا ادارہ ہے جو اغوا کاروں کا کھوج لگا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکے؟
آخر کو یہ واقعہ میاں چنوں کے دور دراز قصبے میں نہیں، دارالحکومت کے اندر رونما ہوا ہے۔
اس ڈرامے کے اداکار اگر پکڑے نہیں جاتے، تو یقین پختہ ہو جائے گا کہ اغواکاروں کا تعلق اسی گروہ سے ہے جو سلیم شہزاد سمیت کئی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے قتل، اقدام قتل اور اغوا میں ملوث رہا ہے۔
کچھ بوٹ پالشیوں کا ماننا ہے کہ اگر کسی ایجنسی نے مطیع اللہ کو اٹھایا تھا تو ٹھیک اٹھایا ہوگا، ہمیں اپنی ایجنسیوں پر بھروسہ ہونا چاہیے، یہ لوگ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ اٹھایا تھا تو کسی پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ اگر مطیع اللہ آرام سے یعنی شرافت سے ان کے ساتھ چلے جاتے تو ان لوگوں کو زبردستی نہ کرنی پڑتی۔
اب بوٹ پالشیوں اور بوٹ چاٹیوں کو کون سمجھائے کہ ان کی طرح ہر کسی نے ایجنسی والوں کو اپنا بہنوئی نہیں بنایا ہوا ہے کہ ان پر اندھا اعتماد ہو کہ یہ ہمیشہ ملک و قوم کا اچھا سوچتے ہیں، اور اپنا بالکل نہیں سوچتے۔
ڈرامہ رچانے کے لیے وہ خاص اپنی بیگم کے اسکول کے پاس آیا جہاں کم سے کم دو سی سی ٹی وی نے واقعہ کی فوٹیج محفوظ کی۔ فوٹیج کا مطلب یہ ہے کہ اغوا کاروں یا اداکاروں کی گاڑیوں کا رنگ اور میک پتہ چلا، ان کی تعداد اور ہیئت کا اندازہ ہوا۔ یعنی ایسا احمق ڈرامے باز ایک یوتھیہ ہو سکتا ہے، مطیع اللہ جان نہیں ہوسکتا۔
اور بالفرض یہ ڈرامہ تھا تو شیرلاک ہومز کے میاں والی ورژن کھوتیوں کی حکومت میں کوئی ایسا ادارہ ہے جو اغوا کاروں کا کھوج لگا کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر سکے؟
آخر کو یہ واقعہ میاں چنوں کے دور دراز قصبے میں نہیں، دارالحکومت کے اندر رونما ہوا ہے۔
اس ڈرامے کے اداکار اگر پکڑے نہیں جاتے، تو یقین پختہ ہو جائے گا کہ اغواکاروں کا تعلق اسی گروہ سے ہے جو سلیم شہزاد سمیت کئی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے قتل، اقدام قتل اور اغوا میں ملوث رہا ہے۔
کچھ بوٹ پالشیوں کا ماننا ہے کہ اگر کسی ایجنسی نے مطیع اللہ کو اٹھایا تھا تو ٹھیک اٹھایا ہوگا، ہمیں اپنی ایجنسیوں پر بھروسہ ہونا چاہیے، یہ لوگ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ اٹھایا تھا تو کسی پوچھ گچھ کے لیے اٹھایا تھا۔ اگر مطیع اللہ آرام سے یعنی شرافت سے ان کے ساتھ چلے جاتے تو ان لوگوں کو زبردستی نہ کرنی پڑتی۔
اب بوٹ پالشیوں اور بوٹ چاٹیوں کو کون سمجھائے کہ ان کی طرح ہر کسی نے ایجنسی والوں کو اپنا بہنوئی نہیں بنایا ہوا ہے کہ ان پر اندھا اعتماد ہو کہ یہ ہمیشہ ملک و قوم کا اچھا سوچتے ہیں، اور اپنا بالکل نہیں سوچتے۔