یہ تیرا جیسے ہی خبیث جج ہوگا جو یہ تمام پھدو دلیلیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گا۔ ایک بندہ پستول سے مارے یا خنجر سے دونون ہی طریقے قتل کیلئے معروف ہیں۔ دوسری تمہاری پھدو دلیل کے لوگوں کے سامنے حملہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر میں اسے داخل ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا وہ بڑی دیر سے اس کوشش میں تھا۔ تیسری بات کہ گھر میں خدیجہ محفوظ تھی کیونکہ کوی نہ کوی اس کے پاس ہوتا تھا، اور ہاں سزا دس سال ہوی تھی اسے صرف تین سال بعد چھوڑ دیا گیا ہے جس کا رونا رویا جارہا ہےسبھی معاملات پر سیاست اور جذباتیت بھی ضروری نہیں ۔۔ وکٹم کا وکیل تو زیادہ سے زیادہ سزا مانگے گا مگر لازم نہیں کہ جج میکسیم سزا یعنی دس سال ہی دے بلکہ جیسے واقعات اور شواہد ہوں گے ویسا فیصلہ دے گا
۔ اس کیس میں دو معاملات تھے
، اولاقدام قتل کی وجوہ کی گواہ صرف ایک اور وہ وکٹم خود ہی تھی، ایسے فیملی معاملات میں وکٹم کی ذاتی گواہی اتنی مضبوط نہیں مانی جاتی
۔۔ دوسرا مکمل دس سال سزا کیلئے ، بعین قتل کا ارادہ ہونا ضروری تھا ۔ ملزم نے سرے عام چاقو سے وار کئے ، اگر اسکا مقصد واضح قتل کرنا ہی ہوتا وہ چاقو خنجر کی بجائے پسٹل سے قتل کرتا اور یوں سرے عام حملہ نہ کرتا جبکہ اسکے پاس اسے مواقع بھی تھے اور دیگر ہتھیار بھی دسترس میں تھے ۔۔ اس لئے جج پوری طرح فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ملزم نے وار ڈرانے دھمکانے کیلئے کئے یا صرف زخمی کرنے لئے کئے یا صریح قتل کرنے کےلئے کئے ، اسی لئے سزا بھی اسی قدر ہوئی، سزا میں تخفیف جیل مینوئل اور قانون کے مطابق ہوئی ۔۔ یہ قوانین اسی لئے ہیں کہ جیل کا مقصد سزا بھی ہے اور اصلاح بھی ، اور جیل میں مجرم کےبہتر کنڈکٹ اور بہتر ماحول کے لئے بھی ۔۔ جب عادی مجرم نہ ہو اور متواتر جرم نہ ہو ، پہلا جرم ہو اور اور بچوں پر جرم کا واقعہ نہ ہو، معاشرے کو مزید جرم کا خطرہ نہ ہو تو ،ایسی صورت قید میں تخفیف کے ایسے قوانیں دنیا بھر ہر جگہ موجود ہیں اور یہ درست اور نیک نیئتی پر ہیں ، اور تجربہ کی بنیاد پر ہیں ،قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تو اتنی جذباتیت بلا وجہ ہے ۔
جج نے پانچ سال سزا دی ہے بری نہیں کیا۔۔ ان وجوہات پر ہائیکورٹ نے ـاقدام قتل کے جرم سے بری کیا تھا، مگر زخمی کرنے کے جرم سے پوری طرح نہیں ، ملزم نے جرم کیا اور وہ فیٹلی زخمی بھی ہوئی ۔۔ مگر ملزم کا ارادہ واضح نہیں ۔۔ قتل عمد کیلئے بھی میکسیمم سزا یعنی پھانسی کیلئے ارادہ بلا شک و شبہ ہونا چاہیے ۔ اور پھانسی بہت کم ہی ہوتی ہے کہ ملزم کو ہر طرح سے شک کا فائدہ ملتا ہے ۔ حضور مجھ پر جی بھر تبرہ بھیج لیں ، ہمری ذات خدا گواہ اس سے بھی کمتر اور گھٹیا ہے ، جتنی گالی دیں کم ہے۔۔ ، مگر صرف اتنا عرض کی کہ جذبات اور غصہ اچھا ہے مگر اتنا نہیں ، ہر معاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں ، وہی عرض کئے ہیں ،دوسرا پہلو تو وکیل نے بیان کر ہی دیا ہے ۔یہ تیرا جیسے ہی خبیث جج ہوگا جو یہ تمام پھدو دلیلیں سامنے رکھ کر فیصلہ کرے گا۔ ایک بندہ پستول سے مارے یا خنجر سے دونون ہی طریقے قتل کیلئے معروف ہیں۔ دوسری تمہاری پھدو دلیل کے لوگوں کے سامنے حملہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر میں اسے داخل ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا وہ بڑی دیر سے اس کوشش میں تھا۔ تیسری بات کہ گھر میں خدیجہ محفوظ تھی کیونکہ کوی نہ کوی اس کے پاس ہوتا تھا، اور ہاں سزا دس سال ہوی تھی اسے صرف تین سال بعد چھوڑ دیا گیا ہے جس کا رونا رویا جارہا ہے
ارے،،،، یہ تو مشہور درباری کا پُتر ہے، ۔۔۔۔
IT İS A POLITICAL SLOGANNaya Pakistan is a joke…..