شعبہ تعلیم میں مالی طور پر درپیش مسائل کے حل کیلئے سفارشات

20211216_200241.png


پی وائے سی اے کی شعبہ تعلیم میں مالی طور پر درپیش مسائل کے حل کیلئے سفارشات

ہمارے پلیٹ فارم نے پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائے سی اے) کی جانب سے لکھے جانے والے وائٹ پیپرز کی روشنی میں معلومات شائع کرنے کا ایک سلسلہ وار پروگرام شروع کیا ہے جس میں اب تک بتایا گیا تھا کہ پاکستانی تعلیم میں حکومتی سرمایہ کاری اور یواین کے پائیدار ترقی کے اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول4) کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے اور کورونا سے پہلے اور بعد میں شعبہ تعلیم کے ترقیاتی یا غیرترقیاتی بجٹ میں کتنی کٹوتی کی گئی۔

Screenshot_2021-12-16-20-09-37-39_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg


Screenshot_2021-12-16-20-09-27-92_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg


اب دیکھتے ہیں کہ شعبہ تعلیم کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا وائٹ پیپرز میں کیا حل یا اس کے لیے کونسی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔

ان وائٹ پیپرز میں سے پہلے کو اس موضوع پر ترتیب دیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں حکومت پاکستان کی شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کی شرح کیا ہے جبکہ دوسرے وائٹ پیپر میں یہ پتہ لگایا گیا ہے کہ قدرتی آفات جیسے کورونا یا اس سے پہلے گزرنے والے واقعات کے بعد تعلیم کے شعبے پر حکومتی سرمایہ کاری کس طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان وائٹ پیپرز کو معروف پاکستانی ماہر معشیت عاصم بشیر خان نے ترتیب دیا ہے۔

وائٹ پیپر میں متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شناخت کیے گئے کلیدی مسائل کا براہ راست نتیجہ اور سفارشات میں ان رکاوٹوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان میں بنیادی طور پر 4 سفارشات مرتب کی گئی ہیں کہ سب سے پہلے جو آتا ہے وہ ہے۔

1۔ سیاسی انرشیا

مقالے میں پاکستان کے تعلیمی بحران سے نمٹنے کیلیے حکومت کے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر طریقہ کار کو غیر منظم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مثال ریاست کے ترجیحی اہداف اور تعلیم کے اندر اس کی سرمایہ کاری سے ظاہر ہوتی ہے۔ 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کی توثیق کے پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان نے ابھی تک اپنے قومی فریم ورک میں ابتدائی نشاندہی کی لیکن کوئی کام نہیں کیا۔

مقالے میں سفارش کی گئی ہے کہ یواین کے پائیدار ترقی کے ہدف کو پانے اور تیزی سے پیشرفت کو یقینی بنانے کے لیے اس جمود کی کیفیت کو بالآخر ختم ہونا چاہیے۔ عاصم بشیر صاحب کے مطابق ابتدائی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مزید فعال رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔

جہاں ایک سطح پر، یہ ملک گیر، بیک وقت عمل درآمد کی سہولت کے لیے ضروری دستاویزات اور بلیو پرنٹس کو حتمی شکل دینے میں تیز تر پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔ وہیں دوسری سطح پر، حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں غیر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے لیے بھی یہ یقینی بنانے کے لیے اتنا ہی اہم ہے کہ دستاویزی اور رپورٹنگ کی پیشرفت میں یکسانیت ہو تاکہ SDG 4 کا رئیل ٹائم جائزہ ممکن بنایا جا سکے،

عاصم بشیر صاحب کا کہنا ہے جب تک یہ پہلا قدم نہیں اٹھایا جاتا، تو بقیہ نو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ پیشرفت کا امکان بہت کم ہوگا۔

2۔ تعلیمی بجٹ کی درجہ بندی

دوسری سفارش میں کہا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کو علم ہونا چاہیے کہ آیا کہ شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کی رفتار عالمی اہداف کے تحت وعدوں کی تعمیل کرتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ تعلیم سے متعلق مداخلتوں کے لیے بجٹ، خواہ وہ دوسرے محکموں کی جانب سے کیے گئے ہوں،

کو تعلیمی بجٹ کے تحت ہی کلاسیفائی کیا جائے۔ عاصم بشیر صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت بعض اوقات بڑے تعلیمی ترقیاتی منصوبوں کو "سماجی بہبود،" "آبادی کی ترقی" یا دیگر محکموں کے تحت کلاسیفائی کیا جاتا ہے، جو صرف کام کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے، جس سے وجہ سے پیشرفت کی نگرانی کرنا غیر ضروری طور پر تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔

Screenshot_2021-12-16-20-28-22-20_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

Screenshot_2021-12-16-20-26-45-80_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

3۔ مناسب نگرانی اور پیشرفت کا جائزہ

تیسری سفارش میں کہا گیا ہے کہ تعلیم کے محکمے کے ایس ڈی جی (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول) پر غور کیا جائے اور وزارت سے مطالبہ کیا جائے کہ بجٹ کال سرکلر کو ایڈجسٹ کیا جائے۔ایس ڈی جی بجٹ ٹیگنگ کو متعارف کرایا جائے اور فنانشل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایف ائی ایم ایس ) کو اس میں ضم کیا جائے۔

جہاں ضرورت ہو وہاں وزارتی معاونت حاصل کی جانی چاہیے۔تعلیم سے متعلقہ پالیسی کی جانچ پڑتال اور پارلیمانی کنٹرول کیلئے ایس ڈی جی (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول) کمیٹی قائم کی جائے۔

صرف ہدف کے بجائے بجٹ کے تمام اشاریوں کو سمجھانے کیلئے وزارت اور تعلیم کے محکموں کے حکام کو صلاحیت کی مدد فراہم کریں۔مربوط منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کے عمل، یعنی وفاقی اور صوبائی تعلیمی شعبے کے منصوبوں میں SDG 4 اہداف کےانضمام کو یقینی بنایا جائے۔

4۔ ترجیحی اہداف کے تحت سرمایہ کاری کے شعبے

اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کے پروگرام کو شروع کیا جائے خاص طور پر ان اضلاع میں، جہاں ڈراپ آؤٹ ریٹ اور غربت کی شرح زیادہ ہے۔لڑکیوں اور معذور بچوں کیلئے وظیفہ یا مشروط نقد رقم کی منتقلی کا طریقہ کار بنایا جائے اور اس کے دائرہ کار بڑھایا جائے۔

صوبوں کو اپنے بجٹ کا ایک حصہ اسکول سے باہر بچوں کی مردم شماری کے لیے مختص کرنا چاہیے اور طلبہ کے لیے ایک الیکٹرانک ڈیٹا بیس بنانا چاہیے۔ہنگامی حالات کے دوران تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مخلوط اور متبادل سیکھنے کے ذرائع کع مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تعلیم میں صنفی فرق کو ختم کرنا اور تمام سطحوں کی تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایس ڈی جی کے تقاضوں کے مطابق جینڈر رسپانسیو بجٹ کو اپنانا چاہیے۔

لڑکیوں کی تعلیم کی قدر کو فروغ دینے کے لیے مضبوط آگاہی مہم کے ذریعے لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں نمایاں کمی کو ہدف بنائیں جن میں اسکول جانے والی شادی شدہ لڑکیاں، نوجوان مائیں، اور معذور لڑکیاں شامل ہیں۔

ایسی تعلیمی سہولیات کی تعمیر اور اپ گریڈ کریں جو سب کے لیے محفوظ، غیر متشدد، جامع اور موثر سیکھنے کا ماحول فراہم کریں۔ قابل اساتذہ کی فراہمی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

سکول کے ماحول کو صنفی اور معذوری کے موافق بنانے کے لیے اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن اور تدریسی اور انتظامی عملے کی تربیت پر زور دیا جائے

ایسی سہولیات کی فراہمی پر غور کیا جائے جن کی عدم دستیابی کے باعث لڑکیاں اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں مثلاً فعال بیت الخلا، ہاتھ دھونے کی جگہ، بجلی، باؤنڈری وال وغیرہ۔

تمام تعلیمی سطحوں پر خواتین تدریسی عملے کی تعداد میں اضافہ کریں، خاص طور پر ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی عہدوں کے لیے پیشہ ورانہ طور پر خواتین کو آگے لایا جائے۔ریاضی پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد میں نہ صرف اضافہ کیا جائے بلکہ اہل اساتذہ کو آگے لایا جائے۔

عاصم بشیر خان کے دوسرے وائٹ پیپر میں بھی اسی طرح کچھ سفارشات رکھی گئی ہیں جن میں وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، خدمات پر واحد صوبائی ٹیکس اور تعلیمی بجٹ سے آگاہ کرنے کے لیے ڈیش بورڈز کی ضرورت شامل ہے۔

ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مشکل ہے کہ حکومت تعلیم سب کے لیے کا وعدہ پورا کرے۔ کیونکہ معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی، غیر دستاویزی ہے، اسی لیے ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لیے حکومت کو بتدریج ٹیکس کی شرح میں کمی لانی چاہیے اور غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس کے دائرے میں لا کر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔

ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو سروسز پر ٹیکس لگانے کا خصوصی حق ہونا چاہیے، اور وفاق کو بھی جو حصہ بنتا ہے وہ بھی صوبوں کو ہی ملنا چاہیے ۔ اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ ایک آئینی نظام بنایا جا سکتا ہے کہ اضافی ٹیکس جو وفاق کا حصہ ہے اسے صرف تعلیم کے پر صرف کیا جائے۔

جبکہ ڈیش بورڈ کی ضرورت سے متعلق ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو سکول سے باہر بچوں، ڈراپ آؤٹ ہونے والے بچوں ، اساتذہ کی تربیت اور مالیات کی نقشہ سازی کرنے کے لیے ڈیش بورڈز قائم کرنے چاہئیں۔ ڈیش بورڈ کا یہ طریقہ جامع ہدف پر مبنی بجٹ ڈیزائن کرنے میں مدد کرے گا۔

یہ مضمون پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کی مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب ہینڈلز کو فالو کریں
 
Last edited by a moderator:

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
Very good article. More of this please.
20211216_200241.png

پی وائے سی اے کی شعبہ تعلیم میں مالی طور پر درپیش مسائل
کے حل کیلئے سفارشات

ہمارے پلیٹ فارم نے پاکستان یوتھ چینج ایڈوکیٹس (پی وائے سی اے) کی جانب سے لکھے جانے والے وائٹ پیپرز کی روشنی میں معلومات شائع کرنے کا ایک سلسلہ وار پروگرام شروع کیا ہے جس میں اب تک بتایا گیا تھا کہ پاکستانی تعلیم میں حکومتی سرمایہ کاری اور یواین کے پائیدار ترقی کے اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول4) کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے اور کورونا سے پہلے اور بعد میں شعبہ تعلیم کے ترقیاتی یا غیرترقیاتی بجٹ میں کتنی کٹوتی کی گئی۔
Screenshot_2021-12-16-20-09-37-39_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg


Screenshot_2021-12-16-20-09-27-92_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

اب دیکھتے ہیں کہ شعبہ تعلیم کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا وائٹ پیپرز میں کیا حل یا اس کے لیے کونسی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان وائٹ پیپرز میں سے پہلے کو اس موضوع پر ترتیب دیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں حکومت پاکستان کی شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کی شرح کیا ہے جبکہ دوسرے وائٹ پیپر میں یہ پتہ لگایا گیا ہے کہ قدرتی آفات جیسے کورونا یا اس سے پہلے گزرنے والے واقعات کے بعد تعلیم کے شعبے پر حکومتی سرمایہ کاری کس طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان وائٹ پیپرز کو معروف پاکستانی ماہر معشیت عاصم بشیر خان نے ترتیب دیا ہے۔

وائٹ پیپر میں متعدد سفارشات پیش کی گئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شناخت کیے گئے کلیدی مسائل کا براہ راست نتیجہ اور سفارشات میں ان رکاوٹوں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان میں بنیادی طور پر 4 سفارشات مرتب کی گئی ہیں کہ سب سے پہلے جو آتا ہے وہ ہے۔

1۔ سیاسی انرشیا
مقالے میں پاکستان کے تعلیمی بحران سے نمٹنے کیلیے حکومت کے وفاقی اور صوبائی سطحوں پر طریقہ کار کو غیر منظم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مثال ریاست کے ترجیحی اہداف اور تعلیم کے اندر اس کی سرمایہ کاری سے ظاہر ہوتی ہے۔ 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کی توثیق کے پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان نے ابھی تک اپنے قومی فریم ورک میں ابتدائی نشاندہی کی لیکن کوئی کام نہیں کیا۔

مقالے میں سفارش کی گئی ہے کہ
یواین کے پائیدار ترقی کے ہدف کو پانے اور تیزی سے پیشرفت کو یقینی بنانے کے لیے اس جمود کی کیفیت کو بالآخر ختم ہونا چاہیے۔ عاصم بشیر صاحب کے مطابق ابتدائی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مزید فعال رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔ جہاں ایک سطح پر، یہ ملک گیر، بیک وقت عمل درآمد کی سہولت کے لیے ضروری دستاویزات اور بلیو پرنٹس کو حتمی شکل دینے میں تیز تر پیش رفت کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔ وہیں دوسری سطح پر، حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں غیر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کے لیے بھی یہ یقینی بنانے کے لیے اتنا ہی اہم ہے کہ دستاویزی اور رپورٹنگ کی پیشرفت میں یکسانیت ہو تاکہ SDG 4 کا رئیل ٹائم جائزہ ممکن بنایا جا سکے،
عاصم بشیر صاحب کا کہنا ہے جب تک یہ پہلا قدم نہیں اٹھایا جاتا، تو بقیہ نو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ پیشرفت کا امکان بہت کم ہوگا۔

2۔ تعلیمی بجٹ کی درجہ بندی
دوسری سفارش میں کہا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کو علم ہونا چاہیے کہ آیا کہ شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری کی رفتار عالمی اہداف کے تحت وعدوں کی تعمیل کرتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ تعلیم سے متعلق مداخلتوں کے لیے بجٹ، خواہ وہ دوسرے محکموں کی جانب سے کیے گئے ہوں، کو تعلیمی بجٹ کے تحت ہی کلاسیفائی کیا جائے۔ عاصم بشیر صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت بعض اوقات بڑے تعلیمی ترقیاتی منصوبوں کو "سماجی بہبود،" "آبادی کی ترقی" یا دیگر محکموں کے تحت کلاسیفائی کیا جاتا ہے، جو صرف کام کو بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے، جس سے وجہ سے پیشرفت کی نگرانی کرنا غیر ضروری طور پر تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔
Screenshot_2021-12-16-20-28-22-20_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

Screenshot_2021-12-16-20-26-45-80_e2d5b3f32b79de1d45acd1fad96fbb0f.jpg

3۔ مناسب نگرانی اور پیشرفت کا جائزہ
تیسری سفارش میں کہا گیا ہے کہ
تعلیم کے محکمے کے ایس ڈی جی (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول) پر غور کیا جائے اور وزارت سے مطالبہ کیا جائے کہ بجٹ کال سرکلر کو ایڈجسٹ کیا جائے۔
ایس ڈی جی بجٹ ٹیگنگ کو متعارف کرایا جائے اور فنانشل مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایف ائی ایم ایس ) کو اس میں ضم کیا جائے۔
جہاں ضرورت ہو وہاں وزارتی معاونت حاصل کی جانی چاہیے۔
تعلیم سے متعلقہ پالیسی کی جانچ پڑتال اور پارلیمانی کنٹرول کیلئے ایس ڈی جی (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول) کمیٹی قائم کی جائے۔


صرف ہدف کے بجائے بجٹ کے تمام اشاریوں کو سمجھانے کیلئے وزارت اور تعلیم کے محکموں کے حکام کو صلاحیت کی مدد فراہم کریں۔

مربوط منصوبہ بندی اور بجٹ سازی کے عمل، یعنی وفاقی اور صوبائی تعلیمی شعبے کے منصوبوں میں SDG 4 اہداف کے
انضمام کو یقینی بنایا جائے۔
4۔ ترجیحی اہداف کے تحت سرمایہ کاری کے شعبے
اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کے پروگرام کو شروع کیا جائے خاص طور پر ان اضلاع میں، جہاں ڈراپ آؤٹ ریٹ اور غربت کی شرح زیادہ ہے۔


لڑکیوں اور معذور بچوں کیلئے وظیفہ یا مشروط نقد رقم کی منتقلی کا طریقہ کار بنایا جائے اور اس کے دائرہ کار بڑھایا جائے۔

صوبوں کو اپنے بجٹ کا ایک حصہ اسکول سے باہر بچوں کی مردم شماری کے لیے مختص کرنا چاہیے اور طلبہ کے لیے ایک الیکٹرانک ڈیٹا بیس بنانا چاہیے۔
ہنگامی حالات کے دوران تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مخلوط اور متبادل سیکھنے کے ذرائع کع مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تعلیم میں صنفی فرق کو ختم کرنا اور تمام سطحوں کی تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایس ڈی جی کے تقاضوں کے مطابق جینڈر رسپانسیو بجٹ کو اپنانا چاہیے۔

لڑکیوں کی تعلیم کی قدر کو فروغ دینے کے لیے مضبوط آگاہی مہم کے ذریعے لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح میں نمایاں کمی کو ہدف بنائیں جن میں اسکول جانے والی شادی شدہ لڑکیاں، نوجوان مائیں، اور معذور لڑکیاں شامل ہیں۔


ایسی تعلیمی سہولیات کی تعمیر اور اپ گریڈ کریں جو سب کے لیے محفوظ، غیر متشدد، جامع اور موثر سیکھنے کا ماحول فراہم کریں۔ قابل اساتذہ کی فراہمی میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

سکول کے ماحول کو صنفی اور معذوری کے موافق بنانے کے لیے اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن اور تدریسی اور انتظامی عملے کی تربیت پر زور دیا جائے


ایسی سہولیات کی فراہمی پر غور کیا جائے جن کی عدم دستیابی کے باعث لڑکیاں اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں مثلاً فعال بیت الخلا، ہاتھ دھونے کی جگہ، بجلی، باؤنڈری وال وغیرہ۔

تمام تعلیمی سطحوں پر خواتین تدریسی عملے کی تعداد میں اضافہ کریں، خاص طور پر ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی عہدوں کے لیے پیشہ ورانہ طور پر خواتین کو آگے لایا جائے۔

ریاضی پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد میں نہ صرف اضافہ کیا جائے بلکہ اہل اساتذہ کو آگے لایا جائے۔
عاصم بشیر خان کے دوسرے وائٹ پیپر میں بھی اسی طرح کچھ سفارشات رکھی گئی ہیں جن میں وفاقی اور صوبائی سطحوں پر ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، خدمات پر واحد صوبائی ٹیکس اور تعلیمی بجٹ سے آگاہ کرنے کے لیے ڈیش بورڈز کی ضرورت شامل ہے۔

ماہر معیشت کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مشکل ہے کہ حکومت تعلیم سب کے لیے کا وعدہ پورا کرے۔ کیونکہ معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر رسمی، غیر دستاویزی ہے، اسی لیے ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لیے حکومت کو بتدریج ٹیکس کی شرح میں کمی لانی چاہیے اور غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس کے دائرے میں لا کر ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔

ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو سروسز پر ٹیکس لگانے کا خصوصی حق ہونا چاہیے، اور وفاق کو بھی جو حصہ بنتا ہے وہ بھی صوبوں کو ہی ملنا چاہیے ۔ اس سلسلے میں صوبوں کے ساتھ ایک آئینی نظام بنایا جا سکتا ہے کہ اضافی ٹیکس جو وفاق کا حصہ ہے اسے صرف تعلیم کے پر صرف کیا جائے۔
جبکہ ڈیش بورڈ کی ضرورت سے متعلق ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو سکول سے باہر بچوں، ڈراپ آؤٹ ہونے والے بچوں ، اساتذہ کی تربیت اور مالیات کی نقشہ سازی کرنے کے لیے ڈیش بورڈز قائم کرنے چاہئیں۔ ڈیش بورڈ کا یہ طریقہ جامع ہدف پر مبنی بجٹ ڈیزائن کرنے میں مدد کرے گا۔

This article is part of Pakistan Youth Change Advocates’

#InvestInEducationStrengthenPakistan campaign. For more information follow their Facebook, Twitter, Instagram and YouTube handles.



یہ مضمون پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کی مہم کا حصہ ہے۔ مزید معلومات کے لیے ان کے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب ہینڈلز کو فالو کریں