غامدی صاحب کیسی کیسی علمی بددیانتی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب جاوید غامدی نے "سماء ٹی وی" پر افغان جہاد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ ارشادات فرمائے۔ ایک صاحب، ڈاکٹر الطاف قادر، نے مطالبہ کیا: "جن لوگوں نے افغان جہاد کی سرپرستی کی اور قبائلی علاقے کے لوگوں کو استعمال کیا ، ان لوگوں کو سزا دی جائے "۔ اس پر جاوید غامدی فرماتے ہیں:
مجھے اِن سے سو فیصد اتفاق ہے۔ میرے نزدیک اصل جرم کا ارتکاب امریکہ نے کیا، اور پھر ہماری اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔ ان کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس قسم کی پرائویٹ آرمی بنائیں، اور مذہبی بنیاد
پر لوگوں کو منظم کریں اور ان کے ذریعے سے جہاد فرمائیں – افغانستان میں بھی اور کشمیر میں بھی – دونوں جگہ یہ بنیادی غلطی کی گئی۔ میں نے اس زمانے میں بھی بڑی شدت کے ساتھ اس کی طرف توجہ دلائی تھی، کہ ہم اپنے وجود میں بارود بھر رہے ہیں اور اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ - - - اور میں یہ بات درست سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے اس طرح کی پالیسیاں بنائیں، ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔- - - میں نے اپنے کانوں سے یہ سنا ہے کہ ہلیری کلنٹن نے کہا کہ [افغان جہاد میں] ہم سے غلطی ہوئی، ہم نے سارے معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا۔ جو کچھ ڈاکٹر الطاف کہہ رہے ہیں، میں بھی ہمیشہ یہی کہتا
رہا ہوں۔ - - - بجائے اس کے کہ ہم ان قبائلیوں کو جدید ریاست میں منظم کرتے، ہم نے انہیں اس کام کے لیے استعمال کیا ۔ - - - جنہوں نے یہ کام کیا وہ سرتاسر مجرم ہیں۔ - - - میں ہمیشہ یہی کہتا رہا ہوں
غور کیجیے غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کا ہمیشہ سے یہی موقف ہے
اور یہ ہے ان کے ۱۹۸۸ کے ایک مضمون کا اقتباس۔
یہ قوم ان کی ہر بات فراموش کر دے سکتی ہے، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پامردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندانِ لینن کے مقابلے میں حق کا علم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبح نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کر سکیں گی۔ میں جب فیصل مسجد کے بلند و بالا مناروں کے سایے میں ان کے مرقد کو دیکھتا ہون تو مجھے بے اختیار اپنے وہ شعر یاد آ جاتے ہیں جو میں نے اب سے برسوں پہلے، غالباً ۱۹۷۳ء میں شہادت گاہ بالاکوٹ کی زیارت کے موقع پر کہے تھے:
فضا خموش، سواد فلک ہے تیرہ و تار کہ لٹ گئی ہے کہیں آبروئے چرخ بریں
نگاہ قلب کے تاروں میں اختلال سرود مرے وجود میں شاید مرا وجود نہیں
شروع وادی کاغان میں مقام جنوں مقام حاصل انساں، مقام اِلّا ہُو
مری حیات پریشاں کی رفعتوں کا مقام مری قبائے دریدہ کی آرزوئے رفو
یہی مقام ہے اس قافلۃ حق کا مقام گواہ جس کی شہادت پہ عصمتِ جبریل
مری نگاہ تمنا کی جستجو کا کمال نواح مشہد احمد، مقام اسماعیل
میں اس مقام کے ذروں کو آسماں کہہ دوں اور اپنی منزل فردا کے رازداں کہہ دوں
ستمبر سنہ ۱۹۸۸ء
:lol::lol::lol:
نادر عقیل انصاری صاحب کا تفصیلی مضمون اس لنک پر ملاحظہ فرمائیں
https://ia601300.us.archive.org/28/...hamidi Sahib The Quarterly Jee Vols 11&12.pdf
- Featured Thumbs
- https://i.ytimg.com/vi/ZrbCBZu-hjM/maxresdefault.jpg