RIAZ-UD-DIN
Banned
آپکی سونے جیسی تحریر پر سہاگے کی ضرورت تو نہیں لیکن استاد کی عزت افزائی اور عامۃ الناس کی معلومات کیلئے چار سطریں بطور نذارانہ پیش ہیں۔
-x-x-x-x-x-x-x-x-
ریاض صاحب! گھریلو زندگی کے جس پہلو کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے یہ گھر (اگر انہیں گھر کہا جا سکے) اوائلِ زمانہ میں شرفا کی بستیوں سے دور فوجی چھاؤنیوں،منڈیوں، سرایوں وغیرہ کے قریب بنائے جاتے تھے جہاں دن بھر سناٹا ہوتا لیکن راتوں کو فضا ناچ، نغموں سے کنجرا سی جاتی۔ گذرتے وقت کی کروٹوں کے ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس پیشے نے بھی پہلو بدلا اور اس میں میں بھی جدت در آئی۔ اس محلے کے لوگوں نے بھی اپنا دھندا مری کے مضافاتی دیہاتوں سے قریبی شہر منتقل کر لیا۔ اسلام آباد جو اسلام کے نام پر بسایا گیا شہر تھا میں اسلام کے علاوہ ہر کام ہونے لگا۔ یہ لوگ انسانی تاریخ کے قدیم پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے وقت کی مد و جزر کو سمجھتے میں ماہر تھے چنانچہ بھانپ لیا کہ اسلام آباد ایک نو آباد شہر ہے اسکے متوقع مکینوں کی اکثریت دور دراز کے رہنے والے ہوں گے چنانچہ خوشحال آبادیوں میں کشادہ گھر لے کر اسکے ایک حصے کے چند کمرے شب بسری کیلئے کرائے پر اٹھا دیتے اور مسافر جنہیں بعد ازاں کسٹمر کہا جانے لگا کو گھر سے دور "گھر جیسی سہولیات" مناسب نرخوں پر مہیا کرتے۔ ان سہولیات کو کوڈ ورڈ میں منجی بسترا کہا جاتا۔ رنگین منجی یا سادہ، نرم مخملی گدا یا صرف بچھونا، پھولوں والی چادر، نرم سرہانا، گرم رضائی، ریشمی یا سوتی ہر لفظ کا ایک مخصوس مطلب ہوتا۔
مری کی مضافاتی بستی "ڈھوک عباسیاں" سے ایک مختصر فیملی بھی اپنے قبیلے کی دیکھا دیکھی اسلام آباد آ کر آباد ہو گئی۔ ان کا ایک کمسن لڑکا جس کا نام عبدل عطار تھا کی ماں نے شبانہ روز کمائی (جس میں شبانہ کا حصہ زیادہ ہے) سے اپنے لڑکے کو ایم بی اے کروایا۔ لڑکا بچپن سے محنتی تھا اور خوبصورت بھی۔ محنتی کا فائدہ پڑھائی اور خوبصورتی کا فائدہ کمائی میں ہوا۔ آبادی کے چھڑوں، بڑوں نے اس لڑکے کو بچپن سے ہی گود لے لیا۔ لڑکا دن سکول اور راتیں انکے ڈیروں اور بیٹھکوں میں گزارتا۔ صبح اپنا معاوضہ لے کر گھر چلا جاتا جہاں اس نے ایک گلک لے رکھا تھا جس میں وہ اپنی کمائی جمع کرتا رہتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ لوگ پیشہ ورانہ مجبوریوں کی وجہ سے کئی دہائیوں تک فوجی چھاؤنیوں کے ارد گرد آباد رہے لہذا فوجیوں نے وطن کی محبت انکے خون میں ڈال رکھی تھی لہذا یہ لڑکا ملنے والے پیسے گلک میں جمع کر کے چودہ اگست کا انتظار کرتا تاکہ جھنڈے خرید کر فوجیوں سے اپنی بھولی بسری خونی محبت اور وطن سے لگاؤ کا اظہار کر سکے۔
مستقبل میں یہی لڑکا بڑا ہو کر کتنا ہونہار ثابت ہوا اور کیسا کاروباری دماغ رکھتا تھا؟
اس نے کس طرح پراپرٹی انویسٹمنٹ کانفرنسوں کی آڑ میں دبئی میں اپنا دھندا پہنچایا؟ . . . منجی بسترے والے خاندانی کام کو گیسٹ ہاؤس سے فائیو سٹار ہوٹلوں تک پھیلایا؟ . . . . ہر ذوق کے کسٹمرز کی استراحت کے لیے اسلام آباد میں الماس بوبی کے ساتھ پارٹنرشپ کر کے "میلہ مویشاں" کا اہتمام کرتا اور اپنے بھتجوں، بھانجوں کی تعارفی نمائش . . . . ای کامرس کے تقاضوں کے مطابق کاروبار کو آنلائن لے گیا؟ . . . . . تفصیل آئندہ کبھی عرض کروں گا۔
:jazak:بہت بہتر جناب
جھوٹ کا رد خوب کیا ہے آپ نے ، اس گالی بریگیڈ کا مسلہ یہی ہے ، جب جواب نا ہو ، جواز نا رہے ، پھر گالیوں سے ثواب کماؤ
جھوٹ ،مکروفریب جوازکیسا؟
ڈاکٹر صاحب ! سبحان اللہ ایسی منظرکشی اورانداز بیان کیا کہنے، اب ایسا انداز کوئی لائے کہاں سے ۔چند سطریں ہیں جو شاید کسی لائق ہوں
"عبدل عطار" گئے وقتوں کی بات ہے لیکن مجھے آج تک یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو جوانی،جھوٹ ،مکروفریب،طبیعت میں جولانی علاقہ کی کوئی خوبصورت عورت محفوظ نا تھی جسے چاہا گیسٹ ہاؤس کی زینت بنا دیا - اوروہ یہ سب کچھ اسےاپنا حق سمجھ کر کرتے
کوئی پوچھنے والا نا تھا بستی "ڈھوک عباسیاں " میں اب "راجہ میاں" کے نام سے باجتے تھے
یکایک ہواؤں کا رخ بدل گیا----- پہلے راجہ میاں کا راج پاٹ گیا پھر وہ جھوٹا بھرم جو انہیں ورثہ میں ملا تھا دھڑام سے زمیں بوس ہو ا۔۔۔ رفتہ،رفتہ ساری چیزیں فروخت ہو گئیں ،وہ گیسٹ ہاؤس جہاں عبدل عطار(راجہ میاں) نے آنکھ کھولی تھی وہ بھی فروخت ہوگیا ایک،ایک کرکے تمام دوست احباب یہاں تک کہ ان کا سگا بھانجہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا ،اور تو اوران کا نام جو پشتوں سے ان کے خاندان کے ساتھ لگا ہوا تھا وہ بھی نا رہا اب وہ اپنی شباہت کی وجہ سے "کلومیاں" کہلانے لگے راجہ کا لفظ حرف غلط کی طرح ان کی زندگی سے کٹ گیا تھا
گیسٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد "کلو میاں "نے اپنی زندگی کے دن کیسے بسر کئے؟ یہ توکچھ وہی جانتے ہیں جیسے انہیں صلیب پر لٹکا دیا گیا ہو، لیکن روح تھی کہ نکلتی ہی نا تھی آجکل وہ اپنا گزر بسر "چندابائی" کے کوٹھے پر طبلچی بنے طبلہ پر تا،تھی،تھیا کرتے کسی نا کسی طور کرر ہے ہیں اور وہ اب بالا خانوں میں استاد کلو میاں" کے نام سے جانے جاتے ہیں
بس اب ان کی زندگی کے دن یونہی تمام ہو رہے ہیں
رہے سدا نام اللہ کا
ڈاکٹر صاحب ! سبحان اللہ ایسی منظرکشی اورانداز بیان کیا کہنے، اب ایسا انداز کوئی لائے کہاں سے ۔چند سطریں ہیں جو شاید کسی لائق ہوں
"عبدل عطار" گئے وقتوں کی بات ہے لیکن مجھے آج تک یاد ہے جیسے کل ہی کی بات ہو جوانی،جھوٹ ،مکروفریب،طبیعت میں جولانی علاقہ کی کوئی خوبصورت عورت محفوظ نا تھی جسے چاہا گیسٹ ہاؤس کی زینت بنا دیا - اوروہ یہ سب کچھ اسےاپنا حق سمجھ کر کرتے
کوئی پوچھنے والا نا تھا بستی "ڈھوک عباسیاں " میں اب "راجہ میاں" کے نام سے باجتے تھے
یکایک ہواؤں کا رخ بدل گیا----- پہلے راجہ میاں کا راج پاٹ گیا پھر وہ جھوٹا بھرم جو انہیں ورثہ میں ملا تھا دھڑام سے زمیں بوس ہو ا۔۔۔ رفتہ،رفتہ ساری چیزیں فروخت ہو گئیں ،وہ گیسٹ ہاؤس جہاں عبدل عطار(راجہ میاں) نے آنکھ کھولی تھی وہ بھی فروخت ہوگیا ایک،ایک کرکے تمام دوست احباب یہاں تک کہ ان کا سگا بھانجہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر چلا گیا ،اور تو اوران کا نام جو پشتوں سے ان کے خاندان کے ساتھ لگا ہوا تھا وہ بھی نا رہا اب وہ اپنی شباہت کی وجہ سے "کلومیاں" کہلانے لگے راجہ کا لفظ حرف غلط کی طرح ان کی زندگی سے کٹ گیا تھا
گیسٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد "کلو میاں "نے اپنی زندگی کے دن کیسے بسر کئے؟ یہ توکچھ وہی جانتے ہیں جیسے انہیں صلیب پر لٹکا دیا گیا ہو، لیکن روح تھی کہ نکلتی ہی نا تھی آجکل وہ اپنا گزر بسر "چندابائی" کے کوٹھے پر طبلچی بنے طبلہ پر تا،تھی،تھیا کرتے کسی نا کسی طور کرر ہے ہیں اور وہ اب بالا خانوں میں استاد کلو میاں" کے نام سے جانے جاتے ہیں
بس اب ان کی زندگی کے دن یونہی تمام ہو رہے ہیں
رہے سدا نام اللہ کا