تحریر
سردار زبیر
تاریخ گواہ ہے کہ انسانی شکل میں موجود درندوں نے اپنی حوس کی آگ بجانے کے لیے عورت کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے.زمانہ قدیم میں اپنے انتقام کی آگ بجانے کے لیے دشمن اپنے حریفوں کی بچیوں کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کیا کرتے تھے، آہستہ آہستہ یہ عمل خوفناک صورت اختیار کرتا چلا گیا اور عورتوں اور بچیوں کا ریپ ایک جنگی روایت بن گئی اور اسکی مثال ١٩٣٠ میں سوویت یونین کے بزدل فوجیوں نے جرمنی کے گلی کوچوں میں جو ظلم اور بربریت کا کھیل کھیلا اسنے ایک ایسی خوفناک روایت ڈالی کی دشمن کی عورتین حوس کا نشانہ بننے کے ڈر سے اپنی زندگی کا چراغ گل کر لیتی تھی
عصر حاضر میں اس کی مثال مقبوضہ کشمیر، عراق اور میانمار ہیں جہاں یہ غیر اخلاقی فہل باقاعدہ مشغلہ بن گیا ہے ، خیر جنگی اور دشمنی کے حالات میں ہم کسی طرح ہم یہ مان بھی لیں تو .....
انسانی ترقی کے نہرے ہم روز سنتے ہیں ، انسان بہت ترقی کر گیا ہے
لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور روایات کا جنازہ جس برے طریقے سے نکلا ہے شاید تاریخ بھی اس پر شرمندہ ہوگزشتہ کئی سالوں میں اس درندگی نے جنگوں سے نکل کر ایسے علاقوں کا رخ کر لیا ہے جہاں نہ جنگہے نہ اس طرح کی دشمن داری، درندوں نے مہصوم کلیوں کو نوچنے اور مسلنے کا بازار گرم کر رکھا ہے ، مہصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد انکو کھیتوں اور جنگلوں میں پھینکنے کا سلسلہ بڑتا جا رہا ہے
حوس کے پوجاری ان درندوں نے زینب منال اور اب فریال کی محصومیت کو جس دردناک طریقے سے نوچا ہے اس پر انسانیت بھی شرما کر رہ گئی ہے
حال ہی میں ایبٹ آباد کی تین سالہ مہصوم فریال کو جس درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے اس پر پورا علاقہ غم اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گاؤں جو امن اور شانتی کی علامت سمجے جاتے تھے یہ جنگلی بھیڑیے وہاں بھی آن پہنچے ہیں
مہصوم بچیوں کو معمولی لالچ دے کر انکو اپنے ساتھ لے جا کر انکے ساتھ زیادتی کر بعد جس برے طریقے سے انکو قتل کر دیا جاتا ہے شائد ایسا جنگی دور میں بھی نہ ہوتا ہوا ہو
حوانییت کے اس درجے پر فائز یہ درندے جب کسی فریال ، منال کے بدن کو اپنے ناپاک ہاتھوں سے چھوتے ہیں تو اپنے گھر میں موجود فریال اور منال کو پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں
حکومت وقت کی مجرمانہ غفلت اور عوام کی خاموشی نے انکے حوصلے بلند کر رکھے ہیں ، کے پی کے کی مثالی پولیس ننھی فریال کے قاتلوں کو پکڑنے میں ابھی تک ناکام نظر آئی ہے
جب تک ان حوس کے پوجاریوں کو سر بازار پھانسی نہیں دی جاتی یہ کھیل رکنے والا نہیں ہے
الله پاک ہم سب کو ہدایت نصیب کرے امین
سردار زبیر
تاریخ گواہ ہے کہ انسانی شکل میں موجود درندوں نے اپنی حوس کی آگ بجانے کے لیے عورت کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا ہے.زمانہ قدیم میں اپنے انتقام کی آگ بجانے کے لیے دشمن اپنے حریفوں کی بچیوں کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کیا کرتے تھے، آہستہ آہستہ یہ عمل خوفناک صورت اختیار کرتا چلا گیا اور عورتوں اور بچیوں کا ریپ ایک جنگی روایت بن گئی اور اسکی مثال ١٩٣٠ میں سوویت یونین کے بزدل فوجیوں نے جرمنی کے گلی کوچوں میں جو ظلم اور بربریت کا کھیل کھیلا اسنے ایک ایسی خوفناک روایت ڈالی کی دشمن کی عورتین حوس کا نشانہ بننے کے ڈر سے اپنی زندگی کا چراغ گل کر لیتی تھی
عصر حاضر میں اس کی مثال مقبوضہ کشمیر، عراق اور میانمار ہیں جہاں یہ غیر اخلاقی فہل باقاعدہ مشغلہ بن گیا ہے ، خیر جنگی اور دشمنی کے حالات میں ہم کسی طرح ہم یہ مان بھی لیں تو .....
انسانی ترقی کے نہرے ہم روز سنتے ہیں ، انسان بہت ترقی کر گیا ہے
لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور روایات کا جنازہ جس برے طریقے سے نکلا ہے شاید تاریخ بھی اس پر شرمندہ ہوگزشتہ کئی سالوں میں اس درندگی نے جنگوں سے نکل کر ایسے علاقوں کا رخ کر لیا ہے جہاں نہ جنگہے نہ اس طرح کی دشمن داری، درندوں نے مہصوم کلیوں کو نوچنے اور مسلنے کا بازار گرم کر رکھا ہے ، مہصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد انکو کھیتوں اور جنگلوں میں پھینکنے کا سلسلہ بڑتا جا رہا ہے
حوس کے پوجاری ان درندوں نے زینب منال اور اب فریال کی محصومیت کو جس دردناک طریقے سے نوچا ہے اس پر انسانیت بھی شرما کر رہ گئی ہے
حال ہی میں ایبٹ آباد کی تین سالہ مہصوم فریال کو جس درندگی کا نشانہ بنایا گیا ہے اس پر پورا علاقہ غم اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گاؤں جو امن اور شانتی کی علامت سمجے جاتے تھے یہ جنگلی بھیڑیے وہاں بھی آن پہنچے ہیں
مہصوم بچیوں کو معمولی لالچ دے کر انکو اپنے ساتھ لے جا کر انکے ساتھ زیادتی کر بعد جس برے طریقے سے انکو قتل کر دیا جاتا ہے شائد ایسا جنگی دور میں بھی نہ ہوتا ہوا ہو
حوانییت کے اس درجے پر فائز یہ درندے جب کسی فریال ، منال کے بدن کو اپنے ناپاک ہاتھوں سے چھوتے ہیں تو اپنے گھر میں موجود فریال اور منال کو پتا نہیں کیوں بھول جاتے ہیں
حکومت وقت کی مجرمانہ غفلت اور عوام کی خاموشی نے انکے حوصلے بلند کر رکھے ہیں ، کے پی کے کی مثالی پولیس ننھی فریال کے قاتلوں کو پکڑنے میں ابھی تک ناکام نظر آئی ہے
جب تک ان حوس کے پوجاریوں کو سر بازار پھانسی نہیں دی جاتی یہ کھیل رکنے والا نہیں ہے
الله پاک ہم سب کو ہدایت نصیب کرے امین