رانا ثناء اللہ جیت گئے : حامد میر

naveed

Chief Minister (5k+ posts)
یہ کہانی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ یہ 1997کی بات ہے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد آصف علی زرداری پر نت نئے مقدمات بنوا رہے تھے۔ ایک دن نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا ایک مقدمہ بنارہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تعاون کی ضرورت تھی۔ چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے سنائی گئی کہانی بڑی کمزور لگی اور انہوں نے اے این ایف پر دبائو ڈالنے سے گریز کیا کیونکہ یہ محکمہ ان کے پاس تھا۔

hamid-mir.png


ایک دن سینیٹر سیف الرحمان نے بہت دبائو ڈالا تو چوہدری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل مشتاق حسین کو اپنے دفتر بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آصف علی زرداری کے خلاف الزامات کا جائزہ لیا ہے؟ ڈی جی نے جواب میں کہا کہ سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور جس شخص کو گواہ بنایا گیا ہے وہ بذات خود ایک بدنام شخص ہے۔ یہ سننے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی سے کہا کہ آپ اپنی دیانت دارانہ رائے لکھ کر مجھے بھیج دیں۔ اگلے دن ڈی جی صاحب اپنی رائے لکھ کر لے آئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے این ایف کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرنا انتہائی نامناسب ہوگا کیونکہ مقدمے کو سچا ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا اور اے این ایف کی ساکھ مجروح ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے اس سمری پر دستخط کرکے فائل واپس اے این ایف کو بھجوا دی اور پھر آصف علی زرداری کے وکلاء نے یہی سمری عدالت میں پیش کرکے یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔


اسی زمانے میں ایک انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اپریل 1999کی ایک رات لاہور کے گورنر ہائوس کے قریب اے این ایف نے رحمت شاہ آفریدی کو روکا اور تلاشی لینے کے بعد ان کی گاڑی میں سے 20کلو حشیش برآمد کرنے کا دعویٰ کرلیا۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی لیکن رحمت شاہ آفریدی نو سال جیل میں رہے۔ 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے رحمت شاہ آفریدی کو رہائی دلوائی۔ اے این ایف نے اسی قسم کے سیاسی مقدمے مخدوم شہاب الدین، حنیف عباسی اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف بنوائے۔ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا بھی دلوائی لیکن ہائیکورٹ نے حنیف عباسی کو رہا کردیا۔ اب ایسا ہی مقدمہ پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ پر بنایا گیا ہے۔ وہی پرانی کہانی ہے، کچھ کردار اور واقعات مختلف ہیں۔

رانا ثناء اللہ پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی پروگراموں اور نجی محفلوں میں بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب اور نیب ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکا تو اے این ایف میدان میں آگئی۔ گرفتاری پہلے ہوئی الزامات بعد میں تلاش کئے گئے اور جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں بیان کی گئی کہانی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چوہدری شجاعت حسین آج وزیرِ داخلہ ہوتے تو اے این ایف سمیت پوری حکومت کو بدنامی سے بچا لیتے کیونکہ یہ ایف آئی آر رانا ثناء اللہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو پہلے سے کیسے پتہ تھا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا؟ وہ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ 1990کے الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے اور مسلم لیگ(ن) کو بہت ٹف ٹائم دیا کرتے تھے۔ 1993میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو رانا ثناء اللہ مسلم لیگ(ن) میں آگئے۔ 1997میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے۔ اکتوبر 1999میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تو پارٹی کے اکثر رہنما گرفتار ہوگئے۔ ایک دن رانا ثناء اللہ پارٹی قیادت کو تلاش کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور سردار ذوالفقار کھوسہ پر زور دیا کہ ہمیں مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہئے۔ اگلے ہی دن وہ گرفتار ہوگئے اور انہیں ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر بہت مارا گیا۔ پھر ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ لکھا ہے اور غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالت نے تین ماہ کے بعد انہیں رہا کردیا۔ 2002کے الیکشن میں وہ تیسری مرتبہ ایم پی اے بن گئے

اور پنجاب اسمبلی میں مشرف حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ 8مارچ 2003کو انہیں فیصل آباد میں کچھ نقاب پوشوں نے اغواء کیا اوران پر لوہے کی راڈیں برسائی گئیں۔ پھر جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈوں سے زخم لگا کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا۔ اس دوران ایک اغواء کار کی نقاب سرک گئی اور رانا صاحب نے اسے پہچان لیا، پھر ان ایک درجن مسلح افراد نے رانا ثناء اللہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کی مونچھیں، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دئیے اور فیصل آباد سے لاہور موٹر وے کے راستے پر پھینک دیا۔ چند دن کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ پھر پرویز مشرف کو للکار رہے تھے۔ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ سختی پیدا ہوگئی۔ 2010میں اسلام آباد میں ’’دی نیوز‘‘ کے عمر چیمہ کو اغواء کرکے ان کے ساتھ وہی کیا گیا

جو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ رانا صاحب پنجاب کے وزیرِ قانون تھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جس نقاب پوش کو انہوں نے فیصل آباد میں پہچانا تھا، عمر چیمہ پر تشدد اسی کی نگرانی میں ہوا تھا۔ رانا صاحب اس تشدد کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اسلام آباد میں پیش ہوگئے اور ملزم کی نشاندہی کردی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔

اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں انہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تھی اور 25جولائی کے یوم سیاہ کے لئے وہ ایک جلسے کی تیاری کررہے تھے۔ آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں منشیات لے کر گھومیں گے۔ آپ انہیں اے این ایف کے ذریعہ سزا بھی دلوادیں لیکن عام لوگوں کو اس مقدمے کی حقیقت کا پتہ ہے۔ ذرا سوچیے! پانچ سال بعد، دس سال بعد نجانے کیا حالات ہوں گے لیکن رانا ثناء اللہ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنے والوں کا انجام ان سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے آصف علی زرداری اور رحمت شاہ آفریدی پر ایسے ہی مقدمے بنائے تھے۔ آج عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔ دونوں کا انجام آپ کے سامنے ہے، رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ ہمیں موجودہ حکمرانوں کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔

 
Last edited by a moderator:

Khan125

Chief Minister (5k+ posts)
یہ کہانی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ یہ 1997کی بات ہے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد آصف علی زرداری پر نت نئے مقدمات بنوا رہے تھے۔ ایک دن نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا ایک مقدمہ بنارہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تعاون کی ضرورت تھی۔ چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے سنائی گئی کہانی بڑی کمزور لگی اور انہوں نے اے این ایف پر دبائو ڈالنے سے گریز کیا کیونکہ یہ محکمہ ان کے پاس تھا۔

hamid-mir.png


ایک دن سینیٹر سیف الرحمان نے بہت دبائو ڈالا تو چوہدری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل مشتاق حسین کو اپنے دفتر بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آصف علی زرداری کے خلاف الزامات کا جائزہ لیا ہے؟ ڈی جی نے جواب میں کہا کہ سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور جس شخص کو گواہ بنایا گیا ہے وہ بذات خود ایک بدنام شخص ہے۔ یہ سننے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی سے کہا کہ آپ اپنی دیانت دارانہ رائے لکھ کر مجھے بھیج دیں۔ اگلے دن ڈی جی صاحب اپنی رائے لکھ کر لے آئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے این ایف کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرنا انتہائی نامناسب ہوگا کیونکہ مقدمے کو سچا ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا اور اے این ایف کی ساکھ مجروح ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے اس سمری پر دستخط کرکے فائل واپس اے این ایف کو بھجوا دی اور پھر آصف علی زرداری کے وکلاء نے یہی سمری عدالت میں پیش کرکے یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔


اسی زمانے میں ایک انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اپریل 1999کی ایک رات لاہور کے گورنر ہائوس کے قریب اے این ایف نے رحمت شاہ آفریدی کو روکا اور تلاشی لینے کے بعد ان کی گاڑی میں سے 20کلو حشیش برآمد کرنے کا دعویٰ کرلیا۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی لیکن رحمت شاہ آفریدی نو سال جیل میں رہے۔ 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے رحمت شاہ آفریدی کو رہائی دلوائی۔ اے این ایف نے اسی قسم کے سیاسی مقدمے مخدوم شہاب الدین، حنیف عباسی اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف بنوائے۔ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا بھی دلوائی لیکن ہائیکورٹ نے حنیف عباسی کو رہا کردیا۔ اب ایسا ہی مقدمہ پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ پر بنایا گیا ہے۔ وہی پرانی کہانی ہے، کچھ کردار اور واقعات مختلف ہیں۔

رانا ثناء اللہ پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی پروگراموں اور نجی محفلوں میں بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب اور نیب ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکا تو اے این ایف میدان میں آگئی۔ گرفتاری پہلے ہوئی الزامات بعد میں تلاش کئے گئے اور جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں بیان کی گئی کہانی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چوہدری شجاعت حسین آج وزیرِ داخلہ ہوتے تو اے این ایف سمیت پوری حکومت کو بدنامی سے بچا لیتے کیونکہ یہ ایف آئی آر رانا ثناء اللہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو پہلے سے کیسے پتہ تھا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا؟ وہ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ 1990کے الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے اور مسلم لیگ(ن) کو بہت ٹف ٹائم دیا کرتے تھے۔ 1993میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو رانا ثناء اللہ مسلم لیگ(ن) میں آگئے۔ 1997میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے۔ اکتوبر 1999میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تو پارٹی کے اکثر رہنما گرفتار ہوگئے۔ ایک دن رانا ثناء اللہ پارٹی قیادت کو تلاش کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور سردار ذوالفقار کھوسہ پر زور دیا کہ ہمیں مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہئے۔ اگلے ہی دن وہ گرفتار ہوگئے اور انہیں ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر بہت مارا گیا۔ پھر ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ لکھا ہے اور غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالت نے تین ماہ کے بعد انہیں رہا کردیا۔ 2002کے الیکشن میں وہ تیسری مرتبہ ایم پی اے بن گئے

اور پنجاب اسمبلی میں مشرف حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ 8مارچ 2003کو انہیں فیصل آباد میں کچھ نقاب پوشوں نے اغواء کیا اوران پر لوہے کی راڈیں برسائی گئیں۔ پھر جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈوں سے زخم لگا کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا۔ اس دوران ایک اغواء کار کی نقاب سرک گئی اور رانا صاحب نے اسے پہچان لیا، پھر ان ایک درجن مسلح افراد نے رانا ثناء اللہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کی مونچھیں، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دئیے اور فیصل آباد سے لاہور موٹر وے کے راستے پر پھینک دیا۔ چند دن کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ پھر پرویز مشرف کو للکار رہے تھے۔ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ سختی پیدا ہوگئی۔ 2010میں اسلام آباد میں ’’دی نیوز‘‘ کے عمر چیمہ کو اغواء کرکے ان کے ساتھ وہی کیا گیا

جو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ رانا صاحب پنجاب کے وزیرِ قانون تھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جس نقاب پوش کو انہوں نے فیصل آباد میں پہچانا تھا، عمر چیمہ پر تشدد اسی کی نگرانی میں ہوا تھا۔ رانا صاحب اس تشدد کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اسلام آباد میں پیش ہوگئے اور ملزم کی نشاندہی کردی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔

اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں انہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تھی اور 25جولائی کے یوم سیاہ کے لئے وہ ایک جلسے کی تیاری کررہے تھے۔ آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں منشیات لے کر گھومیں گے۔ آپ انہیں اے این ایف کے ذریعہ سزا بھی دلوادیں لیکن عام لوگوں کو اس مقدمے کی حقیقت کا پتہ ہے۔ ذرا سوچیے! پانچ سال بعد، دس سال بعد نجانے کیا حالات ہوں گے لیکن رانا ثناء اللہ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنے والوں کا انجام ان سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے آصف علی زرداری اور رحمت شاہ آفریدی پر ایسے ہی مقدمے بنائے تھے۔ آج عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔ دونوں کا انجام آپ کے سامنے ہے، رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ ہمیں موجودہ حکمرانوں کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔

Qaum k samny choron ko hero ore hero ko zero bna k paish krny valey in begharat qalam farosho ka b ihtesab hona chahey....
 

1234567

Minister (2k+ posts)
یہ کہانی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ یہ 1997کی بات ہے۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد آصف علی زرداری پر نت نئے مقدمات بنوا رہے تھے۔ ایک دن نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان اس وقت کے وزیرِ داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے پاس آئے اور بتایا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف منشیات کی اسمگلنگ کا ایک مقدمہ بنارہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کے تعاون کی ضرورت تھی۔ چوہدری شجاعت حسین کو سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے سنائی گئی کہانی بڑی کمزور لگی اور انہوں نے اے این ایف پر دبائو ڈالنے سے گریز کیا کیونکہ یہ محکمہ ان کے پاس تھا۔

hamid-mir.png


ایک دن سینیٹر سیف الرحمان نے بہت دبائو ڈالا تو چوہدری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل مشتاق حسین کو اپنے دفتر بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آصف علی زرداری کے خلاف الزامات کا جائزہ لیا ہے؟ ڈی جی نے جواب میں کہا کہ سینیٹر سیف الرحمان کی طرف سے لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور جس شخص کو گواہ بنایا گیا ہے وہ بذات خود ایک بدنام شخص ہے۔ یہ سننے کے بعد چودھری شجاعت حسین نے اے این ایف کے ڈی جی سے کہا کہ آپ اپنی دیانت دارانہ رائے لکھ کر مجھے بھیج دیں۔ اگلے دن ڈی جی صاحب اپنی رائے لکھ کر لے آئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے این ایف کی طرف سے آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ قائم کرنا انتہائی نامناسب ہوگا کیونکہ مقدمے کو سچا ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا اور اے این ایف کی ساکھ مجروح ہوسکتی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے اس سمری پر دستخط کرکے فائل واپس اے این ایف کو بھجوا دی اور پھر آصف علی زرداری کے وکلاء نے یہی سمری عدالت میں پیش کرکے یہ مقدمہ ختم کرا دیا۔


اسی زمانے میں ایک انگریزی اخبار فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر رحمت شاہ آفریدی اور نواز شریف حکومت میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اپریل 1999کی ایک رات لاہور کے گورنر ہائوس کے قریب اے این ایف نے رحمت شاہ آفریدی کو روکا اور تلاشی لینے کے بعد ان کی گاڑی میں سے 20کلو حشیش برآمد کرنے کا دعویٰ کرلیا۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہوگئی لیکن رحمت شاہ آفریدی نو سال جیل میں رہے۔ 2008میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے رحمت شاہ آفریدی کو رہائی دلوائی۔ اے این ایف نے اسی قسم کے سیاسی مقدمے مخدوم شہاب الدین، حنیف عباسی اور دیگر سیاستدانوں کے خلاف بنوائے۔ حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا بھی دلوائی لیکن ہائیکورٹ نے حنیف عباسی کو رہا کردیا۔ اب ایسا ہی مقدمہ پنجاب کے سابق وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ پر بنایا گیا ہے۔ وہی پرانی کہانی ہے، کچھ کردار اور واقعات مختلف ہیں۔

رانا ثناء اللہ پچھلے کئی دنوں سے ٹی وی پروگراموں اور نجی محفلوں میں بار بار یہ اعلان کررہے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی مقدمے میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب اور نیب ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا سکا تو اے این ایف میدان میں آگئی۔ گرفتاری پہلے ہوئی الزامات بعد میں تلاش کئے گئے اور جو ایف آئی آر درج کی گئی اس میں بیان کی گئی کہانی انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر چوہدری شجاعت حسین آج وزیرِ داخلہ ہوتے تو اے این ایف سمیت پوری حکومت کو بدنامی سے بچا لیتے کیونکہ یہ ایف آئی آر رانا ثناء اللہ کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف جائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رانا ثناء اللہ کو پہلے سے کیسے پتہ تھا کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا؟ وہ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے تھے۔ 1990کے الیکشن میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن بنے اور مسلم لیگ(ن) کو بہت ٹف ٹائم دیا کرتے تھے۔ 1993میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو رانا ثناء اللہ مسلم لیگ(ن) میں آگئے۔ 1997میں وہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی بنے۔ اکتوبر 1999میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تو پارٹی کے اکثر رہنما گرفتار ہوگئے۔ ایک دن رانا ثناء اللہ پارٹی قیادت کو تلاش کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور سردار ذوالفقار کھوسہ پر زور دیا کہ ہمیں مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہئے۔ اگلے ہی دن وہ گرفتار ہوگئے اور انہیں ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر بہت مارا گیا۔ پھر ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ لکھا ہے اور غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالت نے تین ماہ کے بعد انہیں رہا کردیا۔ 2002کے الیکشن میں وہ تیسری مرتبہ ایم پی اے بن گئے

اور پنجاب اسمبلی میں مشرف حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ 8مارچ 2003کو انہیں فیصل آباد میں کچھ نقاب پوشوں نے اغواء کیا اوران پر لوہے کی راڈیں برسائی گئیں۔ پھر جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈوں سے زخم لگا کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا۔ اس دوران ایک اغواء کار کی نقاب سرک گئی اور رانا صاحب نے اسے پہچان لیا، پھر ان ایک درجن مسلح افراد نے رانا ثناء اللہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کی مونچھیں، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دئیے اور فیصل آباد سے لاہور موٹر وے کے راستے پر پھینک دیا۔ چند دن کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ پھر پرویز مشرف کو للکار رہے تھے۔ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ سختی پیدا ہوگئی۔ 2010میں اسلام آباد میں ’’دی نیوز‘‘ کے عمر چیمہ کو اغواء کرکے ان کے ساتھ وہی کیا گیا

جو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ رانا صاحب پنجاب کے وزیرِ قانون تھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جس نقاب پوش کو انہوں نے فیصل آباد میں پہچانا تھا، عمر چیمہ پر تشدد اسی کی نگرانی میں ہوا تھا۔ رانا صاحب اس تشدد کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اسلام آباد میں پیش ہوگئے اور ملزم کی نشاندہی کردی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔

اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس میں انہوں نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تھی اور 25جولائی کے یوم سیاہ کے لئے وہ ایک جلسے کی تیاری کررہے تھے۔ آپ ان سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں منشیات لے کر گھومیں گے۔ آپ انہیں اے این ایف کے ذریعہ سزا بھی دلوادیں لیکن عام لوگوں کو اس مقدمے کی حقیقت کا پتہ ہے۔ ذرا سوچیے! پانچ سال بعد، دس سال بعد نجانے کیا حالات ہوں گے لیکن رانا ثناء اللہ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنے والوں کا انجام ان سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے آصف علی زرداری اور رحمت شاہ آفریدی پر ایسے ہی مقدمے بنائے تھے۔ آج عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔ دونوں کا انجام آپ کے سامنے ہے، رانا ثناء اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ ہمیں موجودہ حکمرانوں کے انجام کا پتا دے رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ یہ مقدمہ جیت چکے ہیں۔

HM is a sick guy, shame on him, his father was a traitor and is he.
 

ranaji

President (40k+ posts)
Hamid meer jaffar Kisi Ghaleez Badboodar Gushti kaa Nutfa E hram Bd zaat Fradiyaa aur Apni Nikki waddi aur Baibaay ki dalali krnay walaa ghaleez naapaak khoon walaa nutfa e hram Sahafi ke roop mai twaifi
aur
aisaa Gushti kaa Ghaleez Nutfaa hai ke apnay ratab aur haddi dalnay walon khanzeeron aur shaitano ko farishtaa sabitt krnay walaa Gushti kaa bachaa hraam kaa Nutfaay hai
paisi ki khatir yeh beghrt bdzaat nasal kaa Dalla agrr iski Baibaaay Ko bhi Koi Rape Krr aur iss khandani Beghrt Ko paisaay Khilaa do to yeh Hram kaa Nutfaa paisaay ki khatir apni baibay yaa nikki , waddi ko rape Krnay Walaay Ko bhi Farishtaa aur naik emandaar perhaizgaar sabit kray gaa
aur apni Baibaay yaa apni nikki yaa waddi ko hi burra kehay gaa aur sabit kraay gaa ke rape krnay wala Farishta thaa aur Iski Baibaaay yaa chhoti yaa waddi gushtian theen aur twaif type hain iss wastay Iski Baibaaay yaa nikki waddi naay Naay zabardsti Rape walaay ko phansaa aur saraa planted thaa iss wastay raper ko farishtaa samjhaa jaiey aur Iss Meer Jaffar Gusti ke Bachaty hram ke nutfaay ki apni apni Baibaay , nikki waddi ko saza di jaa a ,isss gushti ke bachaay meer jaffar ko aaj tkk woh hamla aurton aur bachay nazar nahi aa een jinko iss hram ke nutfaa ghatia zaleel kanjar meer jaffar ko ratab walaay iski baibaaay ke khassm naay seedhi seedhi golian maar krr shaheed kiyaa iss kharisgh zada kutti ke nutfaay meer jaffar hram zaday to aaj tkk uss zulm prr bhonknay ki tofeeq nahhi huwi woh begunah hamla urton aur Bachon ke qatal prr to kabhi bhonknay ke wastay iss gushti ke bachay meer jaffar nay apni maa nahi Chu....i
shayad uss dinn isko woh zulm nazar aa a gaa Jiss dinn InshaAllah Iski Baitian Baitaay Biwi aur doosray Rishta daron ko Koi Rana Snaa kanjar jaisaa shaitan Seedhi Seedhi Golian marr krr Kutttay ki Mout Maray Gaa
InshAllah iskaay honay walay grand daughters aur grand aur baitaay baitian bhai behn maa aur rishtaa daar bhi kisi Rana Snaa Isi trah Maraay Gaa aur RAW ke iss bharvay handler Gushti kaay Nutfaay meer jaffar ko uss dinn hogaa keh na haq qatell krnay walaay gushti ke bachay rana snaa ko ghalatt defend krnaay kaa Allah ki traff saay bhi koi saza hoti hai inshaAllah jo iskaay baitay baition aur baqi ghrr walon ko koi rana snaa kutttay ki mout maar krr iss meer jaffar ko ahsaas dilaa a gaa
INSHA ALLAH
 
Last edited:

Sonya Khan

Minister (2k+ posts)
OMG ....Hamid Mir how do u know it’s a jhoota muqadma..... How do u know Rana Sana is not a drug peddler??? .... How did u know he has not broken any law ???? ..... Independent journalists write just one piece on a topic .... They don’t trumpet it day and night .... You have exposed yourself big time......
 

Danish99

Senator (1k+ posts)
The one million army personals have become active on social media and they r successfully proving the hand picked PM is doing wonders for the country even he is destroying the country by his insane and bazaar tactics.
 

famamdani

Minister (2k+ posts)
Mr. Meer ko Rana k uper FIR fake lag rahi he Aur Rana ne Jo fake FIR bana kar ya Order ki hain wo koun dekhe ga us per Mr. Meer kub Likhain ge...........................????