پاکستان میں سیاستدان ہمیشہ سے تنقید کا نشانہ بنتے آرہے ہیں وجہ وہی کرپشن، منی لانڈرنگ، قرضوں کی معافی، اقربا پروری، میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں اور ڈویلپمینٹ پراجیکٹس میں ٹھیکیداروں سے مل کر گھپلے
بے شک یہ تمام الزامات بہت حد تک درست ہیں اور ان کی جانچ کے بعد مجرموں کو کڑی سزا ملنی چاہئے مگر وطن عزیز میں کچھ مقدس گائیاں ایسی بھی ہیں جنہیں کھل کھیلنے کی پوری آزادی ہے۔ وہ جتنا کھائیں جہاں سے کھائیں اور بلا توقف کھاتے چلے جائٰیں ان کو کوی پوچھنے والا نہیں، ان مقدس گائیوں میں سول اینڈ ملٹری اپر کلاس شامل ہے، سی پیک میں رزاق داود نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ اس اربوں ڈالر کے پراجیکٹ میں پیسے کس طریقے سے اور کون کون خرچ کررہا ہے، پیسوں کے خرچ میں کرپشن کو چیک کرنا ہوگا تو اس کو تبدیل کردیا گیا تھا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہو یا نیٹو کی افغان سپلای کے کنٹینرز یا بھارت کو افغانی پیداوار کی سپلای یا ایران سے تیل کی سمگلنگ یا افغانستان سے الیکٹرونکس پراڈکٹس کی پاکستان میں واپس مارکیٹنگ، کاریں یا نشہ آور ڈرگز، پاکستان سے گندم ، آٹے اور گوشت کی اسمگلنگ یا چینی کی فروخت اس تمام آمدنی کا کنٹرول جرنیلوں کے پاس ہےجس میں وہ کسی کو حصہ دار بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے
جنر ل عاصم باجوہ امریکہ میں پاپا جوہنز کے ساٹھ فیصد شئیرز کا مالک ہے ۔ اس کا بیٹا اپنے ٹویٹس میں جو یہ کہتا رہا ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو لٹکا دینا چاہئے تو کیا اب اس کے باپ کو بھی لٹکا دیا جاے اور بلاول یا مریم کی طرح اس کو بھی جنرل عاصم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے نیب میں پیشیاں بھگتنے پر لگا دیا جاے یا اس کی بہن کو نیب کی جیل میں ڈال دیا جاے کہ بتا تیرے نام جائیداد کیسے ہوگئی خواہ جائیداد اس کے باپ ہی نے کیوں نہ دی ہو؟
جنرل عاصم باجوہ کو اپنے اوپر کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے سے پہلے استعفی دینا چاہئے اور اس کی کرپشن کی انکوائری فوج یا کٹھ پتلی حکومت کی بجاے اپوزیشن کے سپرد کی جاے
دفاع وطن پر کٹ مرنے کی بجاے عوام کی جیبیں کاٹنے والوں کی سزا بھی دوگنی ہونی ضروری ہے
بے شک یہ تمام الزامات بہت حد تک درست ہیں اور ان کی جانچ کے بعد مجرموں کو کڑی سزا ملنی چاہئے مگر وطن عزیز میں کچھ مقدس گائیاں ایسی بھی ہیں جنہیں کھل کھیلنے کی پوری آزادی ہے۔ وہ جتنا کھائیں جہاں سے کھائیں اور بلا توقف کھاتے چلے جائٰیں ان کو کوی پوچھنے والا نہیں، ان مقدس گائیوں میں سول اینڈ ملٹری اپر کلاس شامل ہے، سی پیک میں رزاق داود نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ اس اربوں ڈالر کے پراجیکٹ میں پیسے کس طریقے سے اور کون کون خرچ کررہا ہے، پیسوں کے خرچ میں کرپشن کو چیک کرنا ہوگا تو اس کو تبدیل کردیا گیا تھا، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہو یا نیٹو کی افغان سپلای کے کنٹینرز یا بھارت کو افغانی پیداوار کی سپلای یا ایران سے تیل کی سمگلنگ یا افغانستان سے الیکٹرونکس پراڈکٹس کی پاکستان میں واپس مارکیٹنگ، کاریں یا نشہ آور ڈرگز، پاکستان سے گندم ، آٹے اور گوشت کی اسمگلنگ یا چینی کی فروخت اس تمام آمدنی کا کنٹرول جرنیلوں کے پاس ہےجس میں وہ کسی کو حصہ دار بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے
جنر ل عاصم باجوہ امریکہ میں پاپا جوہنز کے ساٹھ فیصد شئیرز کا مالک ہے ۔ اس کا بیٹا اپنے ٹویٹس میں جو یہ کہتا رہا ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو لٹکا دینا چاہئے تو کیا اب اس کے باپ کو بھی لٹکا دیا جاے اور بلاول یا مریم کی طرح اس کو بھی جنرل عاصم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے نیب میں پیشیاں بھگتنے پر لگا دیا جاے یا اس کی بہن کو نیب کی جیل میں ڈال دیا جاے کہ بتا تیرے نام جائیداد کیسے ہوگئی خواہ جائیداد اس کے باپ ہی نے کیوں نہ دی ہو؟
جنرل عاصم باجوہ کو اپنے اوپر کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے سے پہلے استعفی دینا چاہئے اور اس کی کرپشن کی انکوائری فوج یا کٹھ پتلی حکومت کی بجاے اپوزیشن کے سپرد کی جاے
دفاع وطن پر کٹ مرنے کی بجاے عوام کی جیبیں کاٹنے والوں کی سزا بھی دوگنی ہونی ضروری ہے