بجلی کی قیمت کیا ہو گی
گیس کس قیمت پر ملے گی
پٹرول کس قیمت پر بکے گا
آٹا دال کیا بھاؤ بکیں گی
کس چیز پر کتناٹیکس لگانا ہے، کہاں سبسڈی دینی ہے،ٹیرف کیا ہو گا۔
کس تنظیم کو کام کی اجازت ہے، اور کسے کالعدم قرار دینا ہے۔
ایس ایچ او سے لے کر جرنیل تک، اور وزیر سے لے کر مشیر تک سب تعیناتیاں کس طرح ہو گی، اور کون تعینات ہو گا۔
کے جی سے لے کر یونیورسٹی تک کون سا نصاب پڑھایا جا ئے گا۔
کون سا قانون پاس کرنا ہے، کس پر ترمیم کرنی ہے، اور کسےبلکل ختم کرنا ہے۔
وغیرہ وغیرہ سمیت بے شمار چیزیں ایسی ہیں، جن پر ورلڈ بینک آئی ایم ایف فیٹف اور دیگر مغربی طاقتوں کا حکم پہلے بھی چلتا رہا ہے، اور موجودہ دور حکومت میں بھی پہلے سے ذیادہ جوش و خروش اور تندہی سے ان احکامات پر عمل دارآمد ہورہا ہے۔
چنانچہ ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اچانک حکومت کی غیرت جاگ گئی ہے، اور اس نے سعودی غلامی(دوستی) کو الٹی میٹم دے دیا ہے تو اس دعوی پر یقین کرنا آسان نہیں۔ ہاں اگر پاکستان کو کوئی ایسی حکومت نصیب ہو، جوآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے عوام دشمن مطالبات کو جوتے کی نوک پر رکھے، ایف اے ٹی ایف کے سامنے لیٹنے کی بجائے شٹ اپ کال دے سکے،مغربی آقاؤں کو آئینہ دکھا سکے، پھر اگر وہ کسی ملک سے "ہمارے ساتھ یا انڈیا کے ساتھ " کا مطالبہ کرے تو بات سمجھ میں آنے والی ہو گی۔لہذا ایک بات تو یقینی ہے کہ معاملہ غلامی سے آزادی اور خود مختاری کا نہیں بلکہ کچھ اور ہے(مزید وضاحت آخری پیرے میں)۔
ایک اور نکتہ یہ کہ (ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر)دنیا میں اور کون سا ملک ہے جو کشمیر اور انڈیا کے معاملے میں پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کرتا ہے، پھر صرف سعودی عرب سے یہ شکوہ کیوں کہ وہ کھلم کھلا پاکستانی موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتا۔ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار انڈیا ہے۔ چین اور بھارت میں اربوں کھربوں کی تجارت ہوتی ہے۔ خود پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت جاری ہے، اور تجارت تو دور کی بات، انڈین ڈرامے اور فلمیں پاکستانی سینماؤں میں فل ہاؤس چلتے رہے ہیں۔کیا ہم امریکا روس سے، چین ایران سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس نے پاکستان کا ساتھ دینا ہے یا انڈیا کا۔ اور کیا ہم نے یمن سعودی تنازعہ میں کھل کر سعودیہ کا ساتھ دیا ہے، جو ہمیں اس بات کی توقع ہوکہ کوئی اور ہمارے کہنے پر دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات سنوارنے بگاڑنے شروع کر دے؟
سب سے ذیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے کا بہانہ وہ بنا رہے ہیں، جنہوں نے خود پچھلے دو سالوں میں،بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کشمیروں کے لئے کچھ نہیں کیا، اور جن کا سارا دارومدار عالمی برادی سے نوٹس لینے کی بھیک مانگنے کے گرد گھومتا ہے۔گویا جس طرح اردو زبان کے نفاذ کے نعرے سے سوائے بنگالی بھائیوں کو متنفر کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا، اور قومی زبان سے آج بھی یتیموں جیسا سلوک ہو رہا ہے، اسی طرح بھارت اور کشمیر ایشو کو استعمال کر کے ملک کے دیرینہ دوستوں کو متنفر کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔
اصل معاملہ کیا ہے؛۔
اصل معاملہ وہی ہے جس کی جانب متعدد بار پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے۔امریکا کے بد ترین دشمن یعنی ایرانی ملا کے ناپاک عزائم حرمین شریفین کے بارے میں بہت واضح ہیں، اور جب تک سعودیہ کو پاکستان اور دوسرے ممالک کی پناہ حاصل ہے، تب تک ایران کے کامیابی کے چانسز زیرو ہیں۔ لہذا امریکا کی یہ پوری کوشش ہے کہ سنی بلاک نہ بن پائے، اور جو تھوڑا بہت اتحاد پہلے سے موجود ہے، اس میں (کلیدی عہدوں پر براجمان اپنے ایرانی مہروں کو استعمال کر کے) اس قسم کی حرکتیں کر کے دڑاڑیں ڈالیں جائیں اور اختلافات کو ہوا دی جائے۔ اور یہ کوئی پہلی کوشش نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سی کوششیں ہو تی رہی ہیں۔
سعودی اور پاکستانی عوام کے درمیان عزت و احترام کا دیرینہ رشتہ قائم ہے۔اور دونوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اور دشمن اپنی سی کوشش ضرور کر دیکھے، ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ تعلق قائم رہے گا۔ مکہ اور مدینہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہرہیں، اور ایرانی ملا ہوں یا اسرئیلی و امریکی، جو بھی میلی آنکھ سے اس طرف دیکھے گا، پاکستان کا بچہ بچہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دے گا۔
جہاں تک سعودی حکمرانوں کا تعلق ہے، تو ان کے لیے ہم یہی دعا کر سکتے ہیں کہ خدا انہیں ہدایت نصیب فرمائے، اور امریکا کی دوستی کے فریب سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خصوصا محمد بن سلطان کے لئے کہ موصوف کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ بتا رہا ہے کہ یہ ایک خطرناک حد تک مغربی طاقتوں کی خوش کرنے میں مصروف ہے۔اللہ اپنا رحم فرمائے، اور سب مسلمانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
گیس کس قیمت پر ملے گی
پٹرول کس قیمت پر بکے گا
آٹا دال کیا بھاؤ بکیں گی
کس چیز پر کتناٹیکس لگانا ہے، کہاں سبسڈی دینی ہے،ٹیرف کیا ہو گا۔
کس تنظیم کو کام کی اجازت ہے، اور کسے کالعدم قرار دینا ہے۔
ایس ایچ او سے لے کر جرنیل تک، اور وزیر سے لے کر مشیر تک سب تعیناتیاں کس طرح ہو گی، اور کون تعینات ہو گا۔
کے جی سے لے کر یونیورسٹی تک کون سا نصاب پڑھایا جا ئے گا۔
کون سا قانون پاس کرنا ہے، کس پر ترمیم کرنی ہے، اور کسےبلکل ختم کرنا ہے۔
وغیرہ وغیرہ سمیت بے شمار چیزیں ایسی ہیں، جن پر ورلڈ بینک آئی ایم ایف فیٹف اور دیگر مغربی طاقتوں کا حکم پہلے بھی چلتا رہا ہے، اور موجودہ دور حکومت میں بھی پہلے سے ذیادہ جوش و خروش اور تندہی سے ان احکامات پر عمل دارآمد ہورہا ہے۔
چنانچہ ایسی صورت حال میں اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اچانک حکومت کی غیرت جاگ گئی ہے، اور اس نے سعودی غلامی(دوستی) کو الٹی میٹم دے دیا ہے تو اس دعوی پر یقین کرنا آسان نہیں۔ ہاں اگر پاکستان کو کوئی ایسی حکومت نصیب ہو، جوآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے عوام دشمن مطالبات کو جوتے کی نوک پر رکھے، ایف اے ٹی ایف کے سامنے لیٹنے کی بجائے شٹ اپ کال دے سکے،مغربی آقاؤں کو آئینہ دکھا سکے، پھر اگر وہ کسی ملک سے "ہمارے ساتھ یا انڈیا کے ساتھ " کا مطالبہ کرے تو بات سمجھ میں آنے والی ہو گی۔لہذا ایک بات تو یقینی ہے کہ معاملہ غلامی سے آزادی اور خود مختاری کا نہیں بلکہ کچھ اور ہے(مزید وضاحت آخری پیرے میں)۔
ایک اور نکتہ یہ کہ (ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر)دنیا میں اور کون سا ملک ہے جو کشمیر اور انڈیا کے معاملے میں پاکستانی موقف کی کھل کر حمایت کرتا ہے، پھر صرف سعودی عرب سے یہ شکوہ کیوں کہ وہ کھلم کھلا پاکستانی موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتا۔ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار انڈیا ہے۔ چین اور بھارت میں اربوں کھربوں کی تجارت ہوتی ہے۔ خود پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت جاری ہے، اور تجارت تو دور کی بات، انڈین ڈرامے اور فلمیں پاکستانی سینماؤں میں فل ہاؤس چلتے رہے ہیں۔کیا ہم امریکا روس سے، چین ایران سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ اس نے پاکستان کا ساتھ دینا ہے یا انڈیا کا۔ اور کیا ہم نے یمن سعودی تنازعہ میں کھل کر سعودیہ کا ساتھ دیا ہے، جو ہمیں اس بات کی توقع ہوکہ کوئی اور ہمارے کہنے پر دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات سنوارنے بگاڑنے شروع کر دے؟
سب سے ذیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ کشمیر پر ساتھ نہ دینے کا بہانہ وہ بنا رہے ہیں، جنہوں نے خود پچھلے دو سالوں میں،بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کشمیروں کے لئے کچھ نہیں کیا، اور جن کا سارا دارومدار عالمی برادی سے نوٹس لینے کی بھیک مانگنے کے گرد گھومتا ہے۔گویا جس طرح اردو زبان کے نفاذ کے نعرے سے سوائے بنگالی بھائیوں کو متنفر کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا، اور قومی زبان سے آج بھی یتیموں جیسا سلوک ہو رہا ہے، اسی طرح بھارت اور کشمیر ایشو کو استعمال کر کے ملک کے دیرینہ دوستوں کو متنفر کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔
اصل معاملہ کیا ہے؛۔
اصل معاملہ وہی ہے جس کی جانب متعدد بار پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے۔امریکا کے بد ترین دشمن یعنی ایرانی ملا کے ناپاک عزائم حرمین شریفین کے بارے میں بہت واضح ہیں، اور جب تک سعودیہ کو پاکستان اور دوسرے ممالک کی پناہ حاصل ہے، تب تک ایران کے کامیابی کے چانسز زیرو ہیں۔ لہذا امریکا کی یہ پوری کوشش ہے کہ سنی بلاک نہ بن پائے، اور جو تھوڑا بہت اتحاد پہلے سے موجود ہے، اس میں (کلیدی عہدوں پر براجمان اپنے ایرانی مہروں کو استعمال کر کے) اس قسم کی حرکتیں کر کے دڑاڑیں ڈالیں جائیں اور اختلافات کو ہوا دی جائے۔ اور یہ کوئی پہلی کوشش نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سی کوششیں ہو تی رہی ہیں۔
سعودی اور پاکستانی عوام کے درمیان عزت و احترام کا دیرینہ رشتہ قائم ہے۔اور دونوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اور دشمن اپنی سی کوشش ضرور کر دیکھے، ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ تعلق قائم رہے گا۔ مکہ اور مدینہ مسلمانوں کے مقدس ترین شہرہیں، اور ایرانی ملا ہوں یا اسرئیلی و امریکی، جو بھی میلی آنکھ سے اس طرف دیکھے گا، پاکستان کا بچہ بچہ حرمین شریفین کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دے گا۔
جہاں تک سعودی حکمرانوں کا تعلق ہے، تو ان کے لیے ہم یہی دعا کر سکتے ہیں کہ خدا انہیں ہدایت نصیب فرمائے، اور امریکا کی دوستی کے فریب سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خصوصا محمد بن سلطان کے لئے کہ موصوف کا اب تک کا ٹریک ریکارڈ بتا رہا ہے کہ یہ ایک خطرناک حد تک مغربی طاقتوں کی خوش کرنے میں مصروف ہے۔اللہ اپنا رحم فرمائے، اور سب مسلمانوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔