عجب صورتحال نظر آرہی ہے۔ حکومت نے اپنے اس فیصلے کو دیر کا شکار کر کے بہت برُا کیا کہ جب خود جلسے کر لیئے تو بعد میں کرونا کے نام پر پکارنا شروع کر دیا کہ جلسے بند کردیئے جائیں۔ مخالفین نے اس امر کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور میں نا مانوں کے رَٹ لگاتے ہوئے اپنے سینے ایسے پیٹنے شروع کردیئے ہیں کہ جیسے بن مانس اپنے حریف کو ہرانے کے بعد کرتے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ یہ اعلان حکومت کی طرف سے تب ہو رہا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیئے تھا کہ کسی ایسے فریق کو تلاش کرکے اس معاملے کو اٹھاتی جو کہ مکمّل طور پر غیر جانب دار نظر آئے۔
حکومت کے اپنے اعلان کرنے پر یہ تاٗثر لیا جارہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے ڈر گئی ہے۔
ایسے میں دوسری بڑی غلطی یہ کہ اس صورتحال میں صرف اور صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جبکہ چاہیئے یہ تھا ملک کی اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا۔ اب عدالتیں بھی اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے سے قاصر ہیں کیونکہ اب اس وقت کوئی بھی قدم انھیں سیاسی طور پر غیرجانبدار ثابت نہیں کرسکتا۔
تو پھر، اب اس صورتحال میں حکومت کے پاس کیا ممکنہ طریقہ کار بچتے ہیں؟
کرونا ایک حقیقت ہے، اور اس طرح کے جلسوں اور عوامی تقریبات سے بے شک اس وباء کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔
تشدّد کا راستہ اپنانے سے معاملات اور خراب ہونگے اور یہ اپوزیشن والے اس کے بعد سیاسی شہید بننے کی کوشش کرینگے۔
لہٰذا اب حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور اگر یہ کام حکومت بروقت کرلے تو شائد اب بھی کچھ معصوم جانوں کو بچایا جا سکے اور مزید کوئی سیاسی بحران بھی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔
اسکا واحد حل اب صرف اور صرف ایس او پی ہیں۔
جلسے کی اجازت دے دیں لیکن ایس او پی ضرور واضع طور پر بنائیں اور سمجھا دیں۔
۔ اگر کسی کو جلسہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ۲۰۰ مربع میٹر کے اندر صرف اور صرف ۵۰ سے ۷۵ افراد سے زیادہ لوگ نہ ہوں۔ اس کے لیئے ۲۰۰ مربع میٹر کے علاقے کو چونے کی مدد سے واضع کریں۔ اس کے بعد اگلے گروپ کو، اگلے ۲۰۰ مربع میٹر کا علاقعہ کم از کم ۵ میٹر کی دوری پر بنائیں اور اسمیں بھی ۷۵ سے زائد افراد نہ ہوں۔
۔ اگر اسٹیج سے زیادہ دوری ہو تو جلسہ کرنے والے اس بات کو خود یقینی بنائیں کہ جلسہ گاہ میں بڑی ٹی وی اسکرین موجود ہوں تاکہ دور کھڑے لوگ بھی تقریر سننے یا اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کے لیے اسٹیج کے قریب نہ جائیں۔
۔ ہر جلسے میں یہ لازمی قرار دیا جائے کہ کسی بھی تقریر سے پہلے لیڈران یا ان کا کوئی نمائندہ اسٹیج پر آ کر کرونا سے بچاوٗ کے ایس او پی با آواز بلند پڑھ کر عوام کو سنائے اور انھیں اس پر عمل کرنے کی تلقین کرے۔
۔ جلسہ گاہ میں جلسے کی اجازت کے لیئے اجازت طلب کرنے والے اپنی درخواست کے ساتھ سینیٹائزر اور ماسک کے پیسے جمع کروائیں گے اور جلسہ گاہ میں حکومتی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں نے سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال صحیح طور پر کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کوئی اور یا کچھ اور اقدامات ضرور اسے بہتر کرنے کے لیئے کیئے جاسکتے ہیں۔
دراصل حکومت صرف اس ایک بات پر مار کھا رہی ہے کہ انھوں نے پہلے جب خود جلسے جلوس کیئے تو کرونا نہیں پھیلا جبکہ اپوزیشن کے جلسوں سے اب کرونا پھیل رہا ہے؟
اب جب حکومت نے خود یہ حرکت کردی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن کے جلسوں پر کسی بھی طرح کی طاقت کے استعمال کی کوئی اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہے بلکہ خود اپنے آپ کو محروم کرچکی ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت ان کو کہے کہ سیاسی جلسے کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن عوام کو کرونا سے بچانا حکومت کا اور ان اپوزیشن لیڈروں، دونوں کی مجموعی ذمہّ داری ہے۔
ہاں اور اس ذمہّ داری سے روگردانی پر سزا دینا ضرور ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہے۔ یہاں پر سپریم کورٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
یہ بات تو طے ہے کہ یہ اعلان حکومت کی طرف سے تب ہو رہا ہے جب معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ایسے میں حکومت کو چاہیئے تھا کہ کسی ایسے فریق کو تلاش کرکے اس معاملے کو اٹھاتی جو کہ مکمّل طور پر غیر جانب دار نظر آئے۔
حکومت کے اپنے اعلان کرنے پر یہ تاٗثر لیا جارہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے ڈر گئی ہے۔
ایسے میں دوسری بڑی غلطی یہ کہ اس صورتحال میں صرف اور صرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ جبکہ چاہیئے یہ تھا ملک کی اعلیٰ عدلیہ یعنی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا۔ اب عدالتیں بھی اس مسئلے میں ٹانگ اڑانے سے قاصر ہیں کیونکہ اب اس وقت کوئی بھی قدم انھیں سیاسی طور پر غیرجانبدار ثابت نہیں کرسکتا۔
تو پھر، اب اس صورتحال میں حکومت کے پاس کیا ممکنہ طریقہ کار بچتے ہیں؟
کرونا ایک حقیقت ہے، اور اس طرح کے جلسوں اور عوامی تقریبات سے بے شک اس وباء کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ موجود ہے۔
تشدّد کا راستہ اپنانے سے معاملات اور خراب ہونگے اور یہ اپوزیشن والے اس کے بعد سیاسی شہید بننے کی کوشش کرینگے۔
لہٰذا اب حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور اگر یہ کام حکومت بروقت کرلے تو شائد اب بھی کچھ معصوم جانوں کو بچایا جا سکے اور مزید کوئی سیاسی بحران بھی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔
اسکا واحد حل اب صرف اور صرف ایس او پی ہیں۔
جلسے کی اجازت دے دیں لیکن ایس او پی ضرور واضع طور پر بنائیں اور سمجھا دیں۔
۔ اگر کسی کو جلسہ کرنا ہو تو وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ۲۰۰ مربع میٹر کے اندر صرف اور صرف ۵۰ سے ۷۵ افراد سے زیادہ لوگ نہ ہوں۔ اس کے لیئے ۲۰۰ مربع میٹر کے علاقے کو چونے کی مدد سے واضع کریں۔ اس کے بعد اگلے گروپ کو، اگلے ۲۰۰ مربع میٹر کا علاقعہ کم از کم ۵ میٹر کی دوری پر بنائیں اور اسمیں بھی ۷۵ سے زائد افراد نہ ہوں۔
۔ اگر اسٹیج سے زیادہ دوری ہو تو جلسہ کرنے والے اس بات کو خود یقینی بنائیں کہ جلسہ گاہ میں بڑی ٹی وی اسکرین موجود ہوں تاکہ دور کھڑے لوگ بھی تقریر سننے یا اپنے لیڈر کو قریب سے دیکھنے کے لیے اسٹیج کے قریب نہ جائیں۔
۔ ہر جلسے میں یہ لازمی قرار دیا جائے کہ کسی بھی تقریر سے پہلے لیڈران یا ان کا کوئی نمائندہ اسٹیج پر آ کر کرونا سے بچاوٗ کے ایس او پی با آواز بلند پڑھ کر عوام کو سنائے اور انھیں اس پر عمل کرنے کی تلقین کرے۔
۔ جلسہ گاہ میں جلسے کی اجازت کے لیئے اجازت طلب کرنے والے اپنی درخواست کے ساتھ سینیٹائزر اور ماسک کے پیسے جمع کروائیں گے اور جلسہ گاہ میں حکومتی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ لوگوں نے سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال صحیح طور پر کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کوئی اور یا کچھ اور اقدامات ضرور اسے بہتر کرنے کے لیئے کیئے جاسکتے ہیں۔
دراصل حکومت صرف اس ایک بات پر مار کھا رہی ہے کہ انھوں نے پہلے جب خود جلسے جلوس کیئے تو کرونا نہیں پھیلا جبکہ اپوزیشن کے جلسوں سے اب کرونا پھیل رہا ہے؟
اب جب حکومت نے خود یہ حرکت کردی ہے تو اس کے بعد اپوزیشن کے جلسوں پر کسی بھی طرح کی طاقت کے استعمال کی کوئی اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہے بلکہ خود اپنے آپ کو محروم کرچکی ہے۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت ان کو کہے کہ سیاسی جلسے کرنا ان کا جمہوری حق ہے، لیکن عوام کو کرونا سے بچانا حکومت کا اور ان اپوزیشن لیڈروں، دونوں کی مجموعی ذمہّ داری ہے۔
ہاں اور اس ذمہّ داری سے روگردانی پر سزا دینا ضرور ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہے۔ یہاں پر سپریم کورٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔