دفتر کے چار پانچ چکر لگا چکنے کے بعد بھی بات نہ بنی تو بابا سمجھ گئے کہ ایک منظم ادارے کی سربراہی میں کام کرنے والا ڈی ایچ اے محض اونچی دکان پھیکا پکوان ہے اور اونچائی بھی اتنی کہ عوام کی پہنچ میں ہرگز نہیں لہٰذا اسی منظم ادارے میں اپنے دوست کی وساطت سے انتہائی خجل خواری کے بعد اپنے ہی پیسے یوں واپس ملے جیسے کسی نے احسان کر ڈالا ہو اور یہی حال ڈی ایچ اے ویلی 2008 کے متاثرین کا ہے جو پلاٹ کی پوری قیمت ادا کر چکنے کے باوجود آج تک انصاف اور پلاٹ کے منتظر ہیں کہ مبینہ 74 بلین روپے کا کوئی اتا پتا نہیں اور اتنی بڑی عوامی رقم سے کی گئی سرمایہ کاری کا منافع تصور سے باہر ہے۔
رئیل اسٹیٹ کا یہ بڑا نام فقط اپنے مفاد میں کام کرتا ہے کہ ایک دن بھی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہو تو کلائنٹ کو سرچارج دینا پڑتا ہے مگر برسوں پہ محیط خواری پر اس ادارے کو نہ تو کوئی ندامت ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں متاثرین کے لئے کوئی متبادل منصوبہ۔
طاقت کے نشے میں مخمور یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ دوزخ کے بھاری دروازے کو ہلانے کے لئے مظلوم کی چھنگلیا یا پھر درد بھری آہ ہی کافی ہوتی ہے۔
رئیل اسٹیٹ کا یہ بڑا نام فقط اپنے مفاد میں کام کرتا ہے کہ ایک دن بھی قسط کی ادائیگی میں تاخیر ہو تو کلائنٹ کو سرچارج دینا پڑتا ہے مگر برسوں پہ محیط خواری پر اس ادارے کو نہ تو کوئی ندامت ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں متاثرین کے لئے کوئی متبادل منصوبہ۔
طاقت کے نشے میں مخمور یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ دوزخ کے بھاری دروازے کو ہلانے کے لئے مظلوم کی چھنگلیا یا پھر درد بھری آہ ہی کافی ہوتی ہے۔