جنرل ضیاء الحق کے عظیم رفقاء کی اولادیں کہاں ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کے خاندان کہاں چلے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اپنی اولادیں‘ اثاثے اور گھر کہاں ہیں اور ان کے ساتھی بھی کہاں کہاں آباد ہو رہے ہیں؟
آپ کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ سے تحقیق کیجیے‘ آپ آج سویلینز میں سے 19ویں گریڈ اور آرمڈ فورسز میں کمانڈنگ افسروں سے دیکھنا شروع کیجیے اور پھر آرٹ‘ کلچر‘ ادب‘ تعلیم‘ سائنس‘ بزنس‘ میڈیکل انجینئرنگ اور سیاست ملک کے تمام اداروں کو کھنگال کر دیکھ لیجیے آپ کو ہر شعبے کے کام یاب لوگ اور ان کے خاندان ملک سے باہر جاتے نظر آئیں گے‘ آپ جس دن دہری شہریت‘ ریزی ڈینسز اور تعلیم کے نام پر نقل مکانی کا ڈیٹابھی جمع کریں گے تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ اچھے اور سمجھ دار نوجوان بیوروکریٹس تک نوکری چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
کیوں؟ ملک ماں کی طرح ہوتے ہیں اور کیا ماؤں کو چھوڑنا آسان ہوتا ہے؟ دوسرا والدین اپنی اولاد سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کو فتنہ اور آزمائش قرار دیا لہٰذا پھر ہمارے والدین اپنے بچوں کو اپنے آپ سے الگ کر کے دوسرے ملکوں میں کیوں بھجوا تے ہیں‘ پاکستانی والدین اپنی اولاد کے بغیر کیسے سروائیو کرتے ہوں گے؟ صفدر محمود ہمارے بزرگ تھے‘ وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے‘ دانشور بھی تھے‘ کالم نگار بھی‘ محقق بھی اور مصنف بھی‘ وہ پوری زندگی پاکستان اور پاکستانیت پر لکھتے رہے لیکن ان کا صاحبزادہ بھی امریکا میں تھا‘ ڈاکٹر صاحب اس سے ملنے گئے‘ بیمار ہوئے اور صرف دفن ہونے کے لیے پاکستان آئے‘ جنرل پرویز مشرف کی بیٹی اور بیٹا بھی مدت سے باہر ہیں اور شوکت عزیز لندن سے آئے‘ وزیراعظم بنے اور لندن واپس چلے گئے۔
اولاد بھی باہر رہی اور یہ صرف چند مثالیں نہیں ہیں‘ ایسے لاکھوں لوگ ہیں لیکن سوال پھر وہی ہے‘ یہ لوگ اپنا ملک‘ اپنی زمین‘ جائیداد‘ گھر‘ فیکٹریاں‘ والدین اور عزیز رشتے دار چھوڑ کر ان ملکوں میں کیوں چلے جاتے ہیں جہاں ان کی زبان ہوتی ہے‘ کلچر اور نہ ہی رہن سہن‘ یہ اذان کی آواز تک نہیں سن سکتے اور پوری زندگی اوئے‘ ابے اور تیری … سننے کے لیے ترس ترس کر مر جاتے ہیں‘ ہمیں بہرحال ماننا ہو گا اس ملک میں کوئی نہ کوئی آسیب‘ کوئی نہ کوئی سایہ اور کوئی نہ کوئی ایسی وبا موجود ہے جس کی وجہ سے راجہ صاحب محمود آباد سے لے کر صبیحہ خانم تک کوئی اہم شخص اس ملک میں نہیں ٹکتا اور اگر وہ کسی مجبوری سے یہاں رہ بھی جائے تو وہ اپنے خاندان‘ اپنے بچوں کو باہر منتقل کر دیتا ہے۔
کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا اور ہم نے اگر آج تک نہیں سوچا تو پھر ہم کب سوچیں گے؟ اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو یہ ملک دس بیس سال بعد کیا ہوگا! کیا ہمیں سمری اور ڈرافٹ لکھنے کے لیے بھی باہر سے لوگ نہیں منگوانا پڑیں گے؟ آپ یہ بھی ضرور سوچیے اور یہ بھی سوچیے ناہید نیازی جیسے لوگوں نے ملک سے کب نقل مکانی شروع کی تھی؟ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ملک سے 90فیصد نقل مکانی مارشل لاؤں اورنفاذ اسلام کی کوششوں کے دوران ہوئی‘ ہمارے ملک کی آخری بڑی شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر تھے اور وہ بھی یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ’’میں نے پاکستان آ کر غلطی کی تھی۔‘‘
ہم اگر اس صورت حال کی وجوہات تلاش کریں تو بے شمار وجہیں ہو سکتی ہیں لیکن دو وجوہات ان وجوہات کی ماں ہیں‘ غیریقینی صورت حال اور مذہب کی اپنی اپنی تشریح‘ آپ ملک کا کوئی شعبہ اٹھا لیں آپ کو وہ بری طرح غیریقینی صورت حال کا شکار ملے گا‘ ہمارے ملک میں صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس سے لے کر اے سی اسلام آباد تک کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا ’’میں کل بھی اس سیٹ پر ہوں گا یا نہیں‘‘ پارلیمنٹ تک کو یہ یقین نہیں ہم نے 17 نومبر کو جو 33 بل پاس کرائے ہیں وہ اگلے سال تک قائم رہیں گے یا نہیں یا ڈالر 178 روپے پر رہے گا یا 250 تک پہنچے گا؟اس غیریقینی صورت حال کے ساتھ تو مرغی بھی انڈہ نہیں دیتی اور ہم ریاست چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ کیسے چلے گی؟ اور دوسرا اس ملک میں 21 کروڑ لو گ اور 21 کروڑ ہی اسلام کی تشریحات ہیں اور ہر شخص اپنی تشریح کی بنیاد پر دوسرے شخص کو قتل کرنے کے لیے تیاربیٹھا ہے اور ریاست اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے لہٰذا پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ ملک کی حالت یہ ہے میں نے کل اپنے ایک دوست کو سعد رضوی سے ملاقات کرتے دیکھا‘ دونوں کے نظریات میں مشرق اور مغرب کا فرق تھا‘ میں نے دوست سے اس یوٹرن کے بارے میں پوچھا تو اس نے کمال جواب دیا۔
اس کا کہنا تھا ’’ملک میں اب سعد رضوی کے سوا کوئی شخص مجھے میری جان اور مال کا تحفظ نہیں دے سکتا‘‘ اس نے مجھے بھی مشورہ دیا ’’تم بھی اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو چپ چاپ ٹی ایل پی جوائن کر لو‘‘ آپ یقین کریں میں بھی اس کے بعد سنجیدگی سے دو آپشنز پر غور کر رہا ہوں‘ میں ملک سے چلا جاؤں یا پھر ٹی ایل پی جوائن کر لوں‘میرے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن ہے؟ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے بھاگ کر بچ جائیں یا پھر ٹی ایل پی کی پناہ لے لیں‘ اس کے علاوہ آپ کے پاس بھی اب کوئی آپشن نہیں بچا۔
کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا - ایکسپریس اردو
میرا آپ کو بھی مشورہ ہے بھاگ کر بچ جائیں یا پھر ٹی ایل پی کی پناہ لے لیں۔
www.express.pk