یہ ملک بچ جائے گا‘ہم اگر واقعی اس ملک سے وفادار ہیں تو ہمیں فوری طور پر ان کی رپورٹ نکال کر اپنا حال ٹھیک کر لینا چاہیے اور اگر ہمارا حال ٹھیک ہوگیا تو اندھے بھی ہمارا روشن مستقبل دیکھ لیں گے ورنہ ہم بڑی تیزی سے فائنل رپورٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ حمود الرحمن نے اپنی رپورٹ میں کیا لکھا تھا؟ انھوں نے قوم کو بتایا تھا مارشل لاء ملک کی بربادی ہوتے ہیں‘ ملک سیاست دان ہی چلا سکتے ہیں‘ جنرل یحییٰ خان اگر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت بنانے کی اجازت دے دیتے تو ملک نہ ٹوٹتا‘ مشرقی پاکستان میں فوج کشی بہت بڑی غلطی تھی‘ فوج کبھی بھی سلوشن نہیں ہوتا اور آپ مصنوعی قیادت کے ذریعے ملک نہیں چلا سکتے وغیرہ وغیرہ‘ ہمیں چاہیے تھا ہم ان کی رپورٹ کو سیریس لیتے لیکن سیریس لینا تو دور ہم نے 26سال تک اس رپورٹ کو عوام سے بھی چھپائے رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق دونوں سے جب بھی حمود الرحمن رپورٹ کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو وہ مسکرا کر جواب دیتے تھے ’’وہ گم ہو گئی‘‘ اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی تھی‘ کیوں؟ کیوںکہ رپورٹ واقعی سویلین اداروں سے غائب ہو گئی تھی بس اس کی ایک کاپی جی ایچ کیو میں تھی‘ اگست 2000 میں اچانک یہ رپورٹ بھارت میں ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے شایع کر دی‘ پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا‘ جنرل پرویز مشرف اس وقت چیف ایگزیکٹو تھے۔
ان پردباؤ آیا اور انھوں نے رپورٹ پاکستان میں بھی اوپن کر دی تاہم اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ کر دیا گیا اور یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا اور یہ شاید کبھی سامنے آئے گا بھی نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر وہ سامنے آ گیا تو شاید ہمیں یہ ملک ٹھیک کرنا پڑ جائے اور ہم مرجائیں گے لیکن یہ نہیں ہونے دیں گے۔
دنیا میں نادان قومیں اور بے وقوف لوگ ہمیشہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے انکاری ہوتے ہیں اور ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم بے وقوف بھی ہیں اور نادان بھی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ دیکھ لیجیے ہم آج بھی کیا کر رہے ہیں؟ ہم آج بھی ایک دوسرے کو سلیکٹ کر رہے ہیں‘ وزراء اعظم کم زور سلیکٹر کو اوپر لے آتے ہیں اور سلیکٹر کم زور وزیراعظم کا بندوبست کر لیتے ہیں اور یہ دنیا کی مانی ہوئی حقیقت ہے کم زور لوگ کبھی مضبوط لوگوں کو اپنا ماتحت نہیں بناتے‘ یہ ہمیشہ ’’یس سر‘‘ اور خاموش بیٹھ کر سننے والوں کو پسند کرتے ہیں اور اس ملک میں مسلسل یہ ہو رہا ہے۔
ہمیں آج یہ بھی ماننا ہوگا میاں نواز شریف کو نکالنے اور عمران خان کو لانے کے لیے ہم نے پورے ملک کوداؤ پر لگادیا تھا‘ ہم نے ملک کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ ہم کام یاب ہوگئے لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ وزیراعظم کم زوربھی تھا‘ ناتجربہ کار بھی اور انا پرست بھی لہٰذا اس نے اعلیٰ عہدوں پر چن چن کر کم زور‘ ناتجربہ کار اورانا پرست تعینات کر دیے۔
آپ آج کسی بھی شعبے میں چلے جائیں آپ کو وہاں ٹاپ پر کوئی نہ کوئی انا پرست‘ ناتجربہ کار اور کم زور شخص ملے گا اور وہ بھی وہی کر رہا ہو گا جو روزانہ وزیراعظم ہاؤس میں ہوتا ہے یعنی آپ اس امید پر جھوٹ بولتے رہیں کہ یہ کسی نہ کسی دن سچ ثابت ہوجائے گا‘ آپ بے شک آنکھیں بند کر کے پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار دے دیں‘ آپ بے شک ڈالر کو 182 روپے پر لے جائیں یا گیس دو سو فیصد‘ بجلی 52فیصد ‘ پٹرول کو60 فیصدبڑھا دیں اورمہنگائی کو 12.3 فیصد تک آپ سے کوئی پوچھے گا اور نہ ہی سوال کرے گا اوراگر کوئی یہ گستاخی کر دے تو آپ مسکرا کر جواب دے دیں ’’ہمارے سر سے ابھی ہاتھ نہیں اٹھا اور ادارے بیس سال کی پلاننگ کیا کرتے ہیں‘‘ کیا یہ پلاننگ تھی اور کیا یہ ہاتھ تھا؟ آپ ساڑھے تین برسوں میں دیکھ لیں کیا کوئی ایسا شخص اپنی سیٹ پر برقرار رہا جس نے حکومت کو جگانے کی غلطی کر دی ہو‘آپ صرف چیف الیکشن کمشنر کی مثال لے لیں‘ سکندر سلطان راجہ نے صرف ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں اپنے 20آفیسرز کی گمشدگی کا نوٹس لیا تھا اور پھر ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا؟ آج ایک رانا شمیم بول رہا ہے۔
یہ سچے ہیں یا جھوٹے آپ چند لمحوں کے لیے یہ بحث بھول جائیں اور یہ سوچیں اگر ایسے آٹھ دس لوگ بول پڑے یا کسی استعمال شدہ ٹشو پیپر نے اعترافی بیان دے دیا تو یہ ریاست کہاں ہوگی؟ہمارا بھرم کہاں کہاں سے ٹوٹ جائے گا لہٰذامیری آپ سے درخواست ہے آپ لوگ ایک بار حالات کو سنجیدہ لے لیں‘ آپ بے شک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں لیکن اس ملک کو سنبھال لیں‘ آپ ایک دوسرے کو سلیکٹ کرنا بند کر دیں۔
حمود الرحمن رپورٹ کھولیں‘ پڑھیں‘ غلطیوں کا اعتراف کریں اورآیندہ کے لیے توبہ کر لیں ورنہ یاد رکھیں ہم جس راستے پر چل رہے ہیں ہم اس پر اپنے ایٹمی پروگرام سے بھی محروم ہو جائیں گے اور ہمارے وزیراعظم کا فیصلہ بھی آئی ایم ایف کیا کرے گا‘وہ وقت اب زیادہ دور نہیں رہا‘ وہ اگر آگیا تو ہم ایک نیا حمود الرحمن کمیشن بنانے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے ہم نیا حمود الرحمن کہاں سے لائیں گے؟ کیوں کہ ہم نے ہر اس پاکستانی کو اس ملک سے مار بھگایاہے جس کی نسوں میں پاکستان دوڑتا تھا ‘اب صرف وہ لوگ یہاں رہ گئے ہیں جن کی آنکھیں تو ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں ہیں‘ کان تو ہیں لیکن وہ سنتے نہیں ہیں اور اگر ان سے بات کی جائے تو وہ کہنے والے کو غدار قرار دے دیتے ہیں‘یہ ہے آج کاپاکستان۔
ہم جس راستے پر چل رہے ہیں - ایکسپریس اردو
اب صرف وہ لوگ یہاں رہ گئے ہیں جن کی آنکھیں تو ہیں مگر وہ دیکھتے نہیں ہیں
www.express.pk