عوام نے عمران خان کو امتحان میں ڈال دیا
اسمبلیوں میں رہ کر جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ اتوار کی اُس رات سے پہلے تک ہی آسان تھا جب عوام حیران کن تعداد میں سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاہ محمود قریشی اسمبلی میں بیٹھتے اور عمران خان جلسے جلوسوں سے کام چلاتے۔
یوں فوری انتخابات کا امکان ختم ہو جاتا، شریف حکومت کے تسلسل کو جواز مل جاتا جو تیزی سے اپنی سابقہ اور مستقبل کی رکاوٹوں کا توڑ کر لیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان کی پرجوش عوامی حمایت میں فطری ٹھہراؤ آ جاتا اور جہانگیرترین و علیم خان کی غیر موجودگی میں نتیجتاً اگلے ۔۔۔۔
الیکشن تک تحریکِ انصاف 2013 میں حاصل انتخابی استطاعت سے بھی کمزور مقام پر پہنچ جاتی۔
لیکن قدرت نے اتوار کی اُس رات عمران خان کے دل کی سن لی۔ اپنے اور غیر سب پاکستان کے طول و عرض میں بہتے عوامی سیلاب سے انگشت بدنداں رہ گئے۔ نئے مناظر نے اصل عمران خان کو زندہ کر دیا۔ ۔۔۔۔
جہاں اس عوامی حمایت نے عمران خان کا جارحانہ تشخص بحال کیا، وہاں اُسے سیاسی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں بھی لا کر کھڑا کر دیا۔ ایک طرف سارا نظام اب نقاب ہٹا کر اُس کی مخالفت میں کھڑا ہے، اور دوسری طرف اسمبلیوں میں رہنے یا سڑکیں آزمانے کا پیچیدہ فیصلہ اُس کا منتظر ہے۔۔۔۔
اسمبلیوں میں رہے تو موجودہ ہنگامہ خیز عوامی ابال سرد پڑ سکتا ہے جو انتخابی نتائج پر بھی اثرانداز ہو گا۔ اور اگر اسمبلیوں سے قطعِ تعلق کر کے عوامی تحریک چلائے تو اُسے نتیجہ خیز بنانے کیلئے اُس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ کیونکہ طوالت سے بھی عوامی جذبات سرد پڑ جائیں گے۔ ۔۔۔۔
میری رائے میں تاریخ صرف اُس سیاسی عمران خان کو ہی یاد رکھے گی جو اِس بار اِس گھمبیر دوراہے میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرے گا۔
اسمبلیوں میں رہ کر جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ اتوار کی اُس رات سے پہلے تک ہی آسان تھا جب عوام حیران کن تعداد میں سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاہ محمود قریشی اسمبلی میں بیٹھتے اور عمران خان جلسے جلوسوں سے کام چلاتے۔
یوں فوری انتخابات کا امکان ختم ہو جاتا، شریف حکومت کے تسلسل کو جواز مل جاتا جو تیزی سے اپنی سابقہ اور مستقبل کی رکاوٹوں کا توڑ کر لیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان کی پرجوش عوامی حمایت میں فطری ٹھہراؤ آ جاتا اور جہانگیرترین و علیم خان کی غیر موجودگی میں نتیجتاً اگلے ۔۔۔۔
الیکشن تک تحریکِ انصاف 2013 میں حاصل انتخابی استطاعت سے بھی کمزور مقام پر پہنچ جاتی۔
لیکن قدرت نے اتوار کی اُس رات عمران خان کے دل کی سن لی۔ اپنے اور غیر سب پاکستان کے طول و عرض میں بہتے عوامی سیلاب سے انگشت بدنداں رہ گئے۔ نئے مناظر نے اصل عمران خان کو زندہ کر دیا۔ ۔۔۔۔
جہاں اس عوامی حمایت نے عمران خان کا جارحانہ تشخص بحال کیا، وہاں اُسے سیاسی زندگی کے سب سے بڑے امتحان میں بھی لا کر کھڑا کر دیا۔ ایک طرف سارا نظام اب نقاب ہٹا کر اُس کی مخالفت میں کھڑا ہے، اور دوسری طرف اسمبلیوں میں رہنے یا سڑکیں آزمانے کا پیچیدہ فیصلہ اُس کا منتظر ہے۔۔۔۔
اسمبلیوں میں رہے تو موجودہ ہنگامہ خیز عوامی ابال سرد پڑ سکتا ہے جو انتخابی نتائج پر بھی اثرانداز ہو گا۔ اور اگر اسمبلیوں سے قطعِ تعلق کر کے عوامی تحریک چلائے تو اُسے نتیجہ خیز بنانے کیلئے اُس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ کیونکہ طوالت سے بھی عوامی جذبات سرد پڑ جائیں گے۔ ۔۔۔۔
میری رائے میں تاریخ صرف اُس سیاسی عمران خان کو ہی یاد رکھے گی جو اِس بار اِس گھمبیر دوراہے میں سے کسی ایک راہ کا انتخاب کرے گا۔