چوہدری شجاعت حسین کا خط ڈپٹی اسپیکر کو کب ملا؟ کیسے ملا؟ کس نے دیا؟ چیف جسٹس پاکستان نے اہم سوالات اٹھا دیے
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ مانگ لیا
عدالت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی گئی باتوں کا تحریری مسودہ پڑھ کر سنایا گیا
تینوں ججز نے ڈپٹی اسپیکر کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھا دیے
ڈپٹی اسپیکر کو خط ملنے کے معاملہ پر چیف جسٹس نے پھنسا لیا
دروازے بند تھے آپ کو خط کیسے مل گیا، چیف جسٹس کے ریمارکس
ڈپٹی سپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے، وکیل امتیاز صدیقی
ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا، چیف جسٹس
ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا،
ڈپٹی سپیکر نے کہا میرا فیصلہ چیلنج کر دیں، امتیاز صدیقی
ہم مشاورت کر کے فیصلے کریں گے کہ ہم خود یہ کیس سنیں یا فل کورٹ تشکیل دیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
ق لیگ کے ایم پی ایز کو چوہدری شجاعت کا خط کیوں نہیں دکھایا گیا؟ خط کے متعلق ایم پی ایز کو کیوں نہ بتایا گیا؟ سپریم کورٹ نے بڑے سوالات اٹھا دیے
کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟ جسٹس منیب اختر
ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے پہلے صوبائی اسمبلی کو چوہدری شجاعت حسین کے خط کے بارے میں بتایا تھا؟ جسٹس منیب اختر کا اہم سوال
اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں ہیں، منصور اعوان
سوال یہ ہے پارٹی اراکین کو ہدایت کیسے دی جاسکتی ہے اس کا طریقہ کیا خط لکھ کر دیا جانا ہے؟ —چیف جسٹس
کیس میں چودھری شجاعت رکن اسمبلی نہیں، صورتحال پہلے سے مختلف ہے —جسٹس منیب اختر
منحرف ہونے والے عمل میں ایکشن لینے والا پارٹی-ہیڈ ہوتا ہے، پارٹی سربراہ ریفرنس بھیج سکتا ہے —اعجازالاحسن
ق لیگ کے تمام 10 ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا۔ کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں ڈالا۔ تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا۔ دس ارکان میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس
وزیراعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، یہاں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا
پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، جسٹس اعجاز
سماعت میں وقفہ
ساڑھے 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی اجلاس کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ مانگ لیا
عدالت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی گئی باتوں کا تحریری مسودہ پڑھ کر سنایا گیا
تینوں ججز نے ڈپٹی اسپیکر کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھا دیے
ڈپٹی اسپیکر کو خط ملنے کے معاملہ پر چیف جسٹس نے پھنسا لیا
دروازے بند تھے آپ کو خط کیسے مل گیا، چیف جسٹس کے ریمارکس
ڈپٹی سپیکر رولنگ میں لکھا گیا کہ مجھے ابھی چوہدری شجاعت کا خط ملا ہے، وکیل امتیاز صدیقی
ڈپٹی سپیکر اجلاس کیلئے آئے تو خط انکی جیب میں تھا، چیف جسٹس
ووٹنگ کے بعد دروازے بند ہوجاتے ہیں کوئی آ یا جا نہیں سکتا،
ڈپٹی سپیکر نے کہا میرا فیصلہ چیلنج کر دیں، امتیاز صدیقی
ہم مشاورت کر کے فیصلے کریں گے کہ ہم خود یہ کیس سنیں یا فل کورٹ تشکیل دیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال
ق لیگ کے ایم پی ایز کو چوہدری شجاعت کا خط کیوں نہیں دکھایا گیا؟ خط کے متعلق ایم پی ایز کو کیوں نہ بتایا گیا؟ سپریم کورٹ نے بڑے سوالات اٹھا دیے
کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟ جسٹس منیب اختر
ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے پہلے صوبائی اسمبلی کو چوہدری شجاعت حسین کے خط کے بارے میں بتایا تھا؟ جسٹس منیب اختر کا اہم سوال
اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں ہیں، منصور اعوان
سوال یہ ہے پارٹی اراکین کو ہدایت کیسے دی جاسکتی ہے اس کا طریقہ کیا خط لکھ کر دیا جانا ہے؟ —چیف جسٹس
کیس میں چودھری شجاعت رکن اسمبلی نہیں، صورتحال پہلے سے مختلف ہے —جسٹس منیب اختر
منحرف ہونے والے عمل میں ایکشن لینے والا پارٹی-ہیڈ ہوتا ہے، پارٹی سربراہ ریفرنس بھیج سکتا ہے —اعجازالاحسن
ق لیگ کے تمام 10 ممبران نے ووٹ کاسٹ کیا۔ کسی رکن نے دوسری طرف ووٹ نہیں ڈالا۔ تمام ارکان نے ایک طرف ووٹ ڈالا۔ دس ارکان میں کسی نے نہیں کہا کہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس نہیں ہوا۔جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس
وزیراعلی پنجاب انتخاب کے پہلے اور اب کے کیس فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، یہاں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا
پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا، جسٹس اعجاز
سماعت میں وقفہ
ساڑھے 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا