وزیراعظم شہباز شریف کے پاس کسی بھی افسر کی تقرری کرنے یا آرمی چیف کے لیے اہل جنرلز کے نام طلب کرنے کا اختیار موجود ہے، وہ نئے ناموں کی سمری بھی طلب کر سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام فیصلہ آپ کا میں پروگرام کی میزبان عاصمہ شیرازی سے نئے آرمی چیف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم ورہنما مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے وزارت دفاع کی جانب سے سمری میں کسی اہل افسر کا نام شامل نہ ہوا تو اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جا سکتا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کے پاس کسی بھی افسر کی تقرری کرنے یا آرمی چیف کے لیے اہل جنرلز کے نام طلب کرنے کا اختیار موجود ہے، وہ نئے ناموں کی سمری بھی طلب کر سکتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی معمول کا معاملہ ہے، وزیراعظم کے پاس اہل جنرل کی سمری آتی ہے اور وہ تعیناتی کر دیتے ہیں جبکہ اس حوالے سے فیصلہ آخری 2 سے دنوں میں ہی کیا جاتا ہے، یہی پہلے بھی روایت رہی ہے کہ آرمی چیف آخر دن تک کام کرتے ہیں، انہیں الوداعی دورے بھی کرنے ہوتے ہیں۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے آئین کے مطابق سمری نے آنا ہے جس میں تمام سینئر و اہل ترین جنرلز کے نام موجود ہوتے ہیں، اگر کسی کا نام وزارت دفاع کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری میں نہیں ہو گا تو مسئلہ ہو سکتا ہے، اس معاملے کو عدالت میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سمری میں کسی اہل جنرل کا نام شامل نہ کیا جائے تو یہ غیرقانونی عمل ہو گا اور اگر کسی نااہل آدمی کے نام کو سمری میں شامل کر دیا جائے تو وہ بھی غیرقانونی عمل ہو گا اور اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں، اسی لیے اس حوالے سے منسٹر آف ڈیفنس یا سیکرٹری ڈیفنس پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے سمری میں کوئی ایسا مسئلہ نہ ہو کہ معاملے کو عدالت میں چیلنج کرنا پڑے۔
یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کی کمان نومبر 2016ء میں سنبھالی تھی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فوج کی سربراہی کے لیے تعینات کیا تھا۔