کینیا میں شہید ہونے والے سینئر پاکستانی صحافی ارشد شریف کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئےخط کے معاملے پر دو سینئر صحافی آمنے سامنے آگئےہیں۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل اے آروائی نیوز سے منسلک صحافی حسن ایوب خان نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ شہید ارشد شریف کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھا گیا خط چیف جسٹس کو کبھی موصول ہی نہیں ہوا، جب خط موصول ہی نہیں ہوا تو چیف جسٹس اس پر ایکشن کیسے لے سکتے تھے؟
حسن ایوب کے اس بیان پر صحافی و پروڈیوسر عدیل راجا نے جواب دیا اور کہا کہ خط چیف جسٹس کو موصول ہوا ہے، آپ چیف جسٹس کے حق میں مہم چلانے کیلئے آگے بڑھے ہیں جن کے ایکشن نا لینے کی وجہ سے ارشدشریف کو ملک چھوڑنا پڑا، کمال کی بات ہے ، یہاں کیسا کیسا جھوٹ فروخت کیا جارہا ہے۔
حسن ایوب خان نے عدیل راجا کے اس بیان پر خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ جواب دینے کیلئے ایک اور ٹویٹ کی اور کہا کہ میں کبھی ہوا میں بات نہیں کرتا، خط چیف جسٹس صاحب کو موصول نہیں ہوا تھا، میں امریکہ گیا تھا اس دنیا سے نہیں گیا تھا، ٹیلی فون اگر آپ یا ارشد شریف بھائی کرتے تو اس خط کو پہنچانے کا بہتر انتظام ہوجاتا جو آپ نے کیا تھا۔
عدیل راجا نے اس پر جواب دیا کہ آپ نا صرف ہوا میں بات کررہے ہو بلکہ جھوٹا پراپیگنڈہ بھی کررہے ہو، آپ کسی کی کالک اپنے منہ پر مت ملیں،آپ کو اس معاملے میں خاموش ہی رہنا چاہیے۔
حسن ایوب خان نے اس کے جواب میں جھوٹ بولنے والے اور جھوٹا الزام عائد کرنے والے اللہ کی لعنت کی بدعا دی تو عدیل راجا نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ لعنت خود مت کمائیں اور خاموش رہیں، ہر وقت جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے کا نہیں ہوتا اور ارشد شریف کی موت پر توبالکل نہیں ۔
عدیل راجا نے اس کے جواب میں ارشد شریف کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط کی تفصیلات پر مبنی ایک وی لاگ کا کلپ شیئر کیا جس میں ارشد شریف کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت کے رجسٹرار سپریم کورٹ نے وصول بھی کیا تھا اور سپریم کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر نے مجھے تصدیق بھی کی تھی کہ یہ خط چیف جسٹس کے دفترمیں پہنچا دیا گیا ہے۔
عدیل راجا نے یہ کلپ شیئر کرتے ہوئے حسن ایوب خان سے کہا کہ کسی کے جھوٹے پراپیگنڈے کو مت مانیں، عدالت اس معاملے میں ایکشن لینے میں ناکام رہی اور آج تک ناکام ہے۔
صحافی محسن اعجاز نے کہا کہ ارشد شریف شہید کا چیف جسٹس آف پاکستان کو خط ارشد صاحب کے ہی کہنے پر بذریعہ اس وقت کے رجسٹرار سپریم کورٹ جواد پال کے ذریعے میں نے دیا تھا بعد ازاں چیف صاحب سے ملاقات میں بھی انہیں خط اور صحافیوں/میڈیا کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا اور ایک بار پھر صورتحال پر ایکشن لینے کی درخواست کی۔