پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں ایک شعلہ بیان سیاستدان کا ظہور ہوا۔ اس کا نام تھا ہٹلر۔ اس کے پاس بڑھکیں مارنے کا فن تھا، وہ جرمن قوم کو دنیا کی عظیم قوم کہتا۔ وہ کہتا تھا ہمیں کسی کے آگے جھکنے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کوئی غلام نہیں۔ عام لوگ سطحی ذہن کے مالک ہوتے ہیں، وہ ایسے بھڑکیلی تقریروں کرنے والے سیاستدانوں کے چکر میں آسانی سے آجاتے ہیں۔ سو پوری جرمن قوم اس کے پیچھے لگ گئی، اس کو ووٹ دیئے اور جرمنی کے اقتدار کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھمادی۔
ہٹلر کی پوری سیاست نفرت پر مبنی تھی۔ اس نے جرمن قوم کو باقی تمام قوموں سے نفرت سکھائی۔ اس نےغیر جرمنوں سے شادی کرنے والی جرمن خواتین کو غدار قرار دیا۔ اس نے نیورمبرگ لاز بنائے جس کے تحت جرمن نسل کی شادی غیر جرمنوں سے ممنوع قرار دے دی۔ وہ جرمن نسل کو نہ صرف انسانی اعتبار سے بلکہ بائیولیجیکل اعتبار سے بھی باقی نسلوں سے برتر قرار دیتا تھا۔ پھر اس نے ورلڈ وار 2 چھیڑ دی، پوری دنیا سے پنگا لے لیا۔ اس جنگ میں کروڑوں لوگ مارے گئے، آخر میں جرمنی کو شکست ہوئی، جرمنی کے دو ٹکڑے ہوئے اور جرمن قوم کے چنے ہوئے عظیم لیڈر ہٹلر نے خود کو گولی مار کر اپنا خاتمہ کرلیا۔۔
پاکستان میں بھی ایک ایسے ہی لیڈر کا ظہور ہوا جس کا نام تھا عمران خان۔ ( جی ہاں، تھا ۔۔) اس لیڈر نے ہٹلر جیسی تقریریں کرکے سادہ لوح اور سطحی سوچ والی عوام کو اپنے پیچھے لگا لیا۔ اس کی پوری کی پوری سیاست ہٹلر کی طرح صرف اور صرف نفرت پر مبنی تھی۔ اس نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کو غدار اور چور قرار دیا بلکہ بطور وزیراعظم پاکستان کے دنیا کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات بگاڑ دیئے۔ اس نے امریکہ کے خلاف تقریریں کیں، فرانس کے خلاف تقریریں کیں، مودی کے خلاف تقریریں کیں، سعودی عرب کے محمد بن سلمان کے خلاف ایک میٹنگ میں بکواس بازی کی جوفوراً اس تک پہنچ گئی۔ اس نے پاکستان جیسے کمزور ملک کو ہر ملک کے سامنے دشمن بنا کر کھڑا کردیا۔ قریب تھا کہ ہٹلر کی طرح یہ بھی پاکستان کو لے کر بیٹھ جاتا ، مگر پاکستان کی خوش قسمتی کہ پاکستان میں عمران خان کے تریاق کے طور پر جنرل عاصم منیر بھی موجود تھا۔ اس سے پہلے کہ عمران خان پاکستان کو تباہی و بربادی سے دوچار کرتا، پاکستان کے بہادر سپوت جنرل عاصم منیر نے اس کو گردن سے پکڑا اور پنجرے میں بند کردیا۔۔
سوچیے اگر جرمنی میں بھی ہٹلر کے دور میں جنرل عاصم منیر جیسا کوئی سپوت ہوتا جو وقت پر ہٹلر کو گردن سے پکڑ کر کسی پنجرے میں بند کردیتا تو نہ ورلڈ وار ٹو ہوتی، نہ کروڑوں لوگ مرتے، نہ جرمنی کے دو ٹکڑے ہوتے اور نہ ہی جرمن قوم ذلیل و خوار ہوتی۔۔
ہم ایک خوش قسمت قوم ہیں جو ہمیں جنرل عاصم منیر جیسا دانش مند، ذمہ دار اور بہادر سپوت نصیب ہوا۔ نور جہاں نے ایسے ہی سپوتوں کے لئے کہا تھا۔۔
اے پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے
کی لبنی ایں وِ چ بازار کڑے
