اسلام نے ریاست کا جو تصور دیا اس میں مسلمانوں کو اول درجے کے شہری قرار دیا اور غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری
Kiya baat such hay?یہ بات سچ ہے اور مولانا وحید کے خیالات کی تردید بھی
یہ بات سچ ہے اور مولانا وحید کے خیالات کی تردید بھی
مولانا وحید الدین اور جاوید غامدی جیسے لوگوں نے کوشش کی کہ اسلام کو جدید زمانے سے ہم آہنگ کیا جاسکے، مگر کامیاب نہیں ہوپائے۔ کیونکہ اسلام میں قدامت پسندی اور شدت پسندی بہت شدت سے گڑی ہوئی ہے۔ اسلام نے ریاست کا جو تصور دیا اس میں مسلمانوں کو اول درجے کے شہری قرار دیا اور غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری۔ آج کے مسلمان اس دور کو بہت ہی شاندار اور انصاف پسند دور کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ کوئی بھی ریاست اس وقت تک انصاف پر عمل پیرا نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے شہریوں کو رنگ، مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر برابر ٹریٹ نہ کرے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں بھی انصاف کا جنم ہو تو پاکستان کی بنیاد نا انصافی پر مبنی جن اسلامی اصولوں پر رکھی گئی ہے، ہمیں ان اصولوں کو گٹر برد کرنا ہوگا۔ ہمیں مذہب کو فرد کا پرائیویٹ معاملہ مان کر ہر شہری کو پاکستان کا برابر کا شہری تسلیم کرنا ہوگا چاہے اس کا تعلق جس بھی مذہب سے ہو۔ ہمیں آئین سے وہ شق نکال پھینکنی چاہئے جو کہتی ہے کہ صرف اور صرف مسلمان ہی پاکستان کا سربراہِ مملکت اور وزیراعظم ہوسکتا ہے چاہے وہ جتنا بھی نالائق ہو اور غیر مسلم اس عہدے کے قابل نہیں چاہے وہ جتنا بھی قابل ہو۔۔ جس معاشرے کی بنیادیں ہی نا انصافی پر رکھی گئی ہوں، اس معاشرے میں اگر آج کہیں انصاف نظر نہیں آتا تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔۔
يرجى كتابة رسالتك باللغة الأردية لأن معظم الناس لا يفهمون اللغة العربية
یہ تسلیم کرنے کیلئے شکریہ کہ اسلامی ریاست کی بنیاد میں ہی نا انصافی ہے۔۔۔
قرآن محمد صللہ علیہ وسلم کی نہیں اللہ کی کتاب ہےحضرت صاحب! اردو ترجمہ بھی لکھا کیجئے، مسلمانوں کی اکثریت نے حضرت محمد کی اس کتاب کو اپنی زبان میں کم ہی پڑھا ہے۔
لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اس کو جسکو حرام کیا اللہ نے اور اس کے رسول ﷺ نے اور نہ قبول کرتے ہیں دین سچا ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر (سورۃ التوبہ۔ 29)۔۔۔۔۔
مولانا وحید الدین خان اگر پاکستان میں ہوتے تو کہتے کے اسٹیٹ۔کا مسلمان ہونا بہت ضروری ہے ورنہ ان کو غامدی صاحب کے ساتھ ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑتا
اوپر کی تحریر پڑھ کر صاف یہ لگ رہا ہے کے یہ کسی ایسے مسلمان نے لکھی ہے جو مسلم اکثریت کے ملک میں رہتا ہے ۔ ایک انڈیا کا مسلمان سیکولر ازم کی برائی مر کر بھی نہیں کرے گایہ یادہانی ہے ان مسلمانوں کے لئے جو اسلامی ریاست کو بدعت سمجھتے ہیں
سیکولرازم گزشتہ ستر دھائی سے زائد عرصۂ کے دوران برما سے فلسطین، بوسنیا سے سوڈان تک صلیبیوں، یہودیوں، ہندوؤں، بدھ مت اور خود سیکولرز کے ہاتوں مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے. مسلمانوں کی اپنے لئے انصاف اور امن چاہے تو اپنی بنیاد کی طرف لوٹنا ہو گا
یہ یادہانی ہے ان مسلمانوں کے لئے جو اسلامی ریاست کو بدعت سمجھتے ہیں
سیکولرازم گزشتہ ستر دھائی سے زائد عرصۂ کے دوران برما سے فلسطین، بوسنیا سے سوڈان تک صلیبیوں، یہودیوں، ہندوؤں، بدھ مت اور خود سیکولرز کے ہاتوں مسلمانوں کو انصاف دلانے میں ناکام رہا ہے. مسلمانوں کی اپنے لئے انصاف اور امن چاہے تو اپنی بنیاد کی طرف لوٹنا ہو گا
آج کی دنیا میں مسلمان موڈریٹ ہو یا شدت پسند، اس کیلئے محفوظ ترین جگہ کافروں کے بنائے ہوئے سیکولرمعاشرے ہی ہیں۔ دنیا میں دیکھ لیں، مسلمانوں نے اسلام کی بنیاد پر جو جو معاشرے بنائے ہیں، وہ نہ صرف امن و امان کے لحاظ سے بدترین ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی۔ لہذا اسلام کے اصولوں پر بنائے ہوئے ان معاشروں سے مسلمان اندھا دھند کافروں کے بنائے ہوئے سیکولر معاشروں کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کافروں کیلئے مستقبل سر درد بن گیا ہے کہ کیسے اپنے بارڈرز کو محفوظ بنا کر ان جاہل مسلمانوں کی یلغار سے نجات پائی جائے۔
سیکولرزم کی کامیابی اور اسلام کی ناکامی کی اس سے بڑھ کر عملی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔۔
قرآن محمد صللہ علیہ وسلم کی نہیں اللہ کی کتاب ہے
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|