اسلامی علوم کی تدوین

khan_sultan

Banned
تلاش حق کے لئے دوافرادیا گروہوں کاباہم دلائل کا تبادلہ خیال مباحثہ اور فریق ثانی کو نیچا دکھانےکے لئے اپنی ضد اور عناد کے تحت اپنی رائے منوانے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ مجبور کرنے کا نام مناظرہ ہے۔
اپنی ناقص سوچ سے یہی کچھ سمجھ پایا ہوں۔ جو کچھ یہاں بیان ہوچکا اسمیں دونوں طرف کی آراء کا جائزہ لیکر کوئی بھی غیر جانبدار طریقے سے اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔ نہ تو مجھے اپنی صفائی دینی ہے نہ ہی کسی سے صفائی لینی ہے۔ پچھلی کئی پوسٹوں سے ایک مخصوص متعصبانہ نظریے کے تحت آپ کی لگاتار پوسٹیں دیکھ رہا تھا۔ اپنی پوسٹوں کے جواب میں رد عمل میں بھی کہیں کسی علمی دلیل کے بغیر صرف ضد اور ہٹ دھرمی پر اس سے بہتر جواب اپنے تئیں ممکن نہیں سمجھ رہا تھا۔ جبتک یہ بحث ایک بحث کے دائرے میں تھی تب تک علمی انداز میں جواب بھی دیتا رہا۔ مگر اب یہ بحث اختلاف سے نکل انا اور مناظرانہ طریقے میں چلی گئی۔ اسی وجہ سےاپنا رد عمل بلا کم وکاست ظاہر کیا۔
رہی بات سامنے بٹھا کر کسی کی داد و تحسین کی تو مجھے اس کی کوئی طلب نہیں۔ مگر بیکار دیوار سے سر پھوڑنا بھی مقصد زیست نہیں۔

حضرت ابوہریرہ کی پہلی روایت کا معاملہ ہو یا دوسری روایت کا معاملہ دونوں مقامات پر پرکھ کرنا اصحاب تحقیق محدثین کا کام ہے جو اصول روایت و درایت کو پرکھیں گے۔ اور پرکھتے ہیں۔ وہ جوسمندر علم میں غوطہ زن ہوتے ہیں وہ حدیث رسول ﷺ اور اقوال صحابہ کے طرز بیان میں پرکھ رکھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اسی لئے کہیں حدیث قولی بیان ہوتی ہے کہیں حدیث فعلی بیان ہوتی ہے۔
کہیں روایت بالمعنی یعنی رسول اللہ ﷺ کے اصل فرامین اصل الفاظ میں یاد نہ رہی تو صرف معنی میں فرمان رسول ﷺ کا مفہوم امت تک پہنچایا جبکہ اصل الفاظ کے بھولنے کا ذکر کردیا۔
حدیث رسول ﷺ کوئی سو دو سو صفحات کی بات نہیں بلکہ یہ 6 سو سال پر محیط امت کی محنتوں کا ثمر ہے جس سے امت مسلمہ مستفید ہو رہی ہے۔ یہ کسی بھی سائنسی علم سے زیادہ وسیع اور مربوط علم ہے۔ چند الجھے ذہن اگر بے معنی و بے ربط چیزوں کو لیکر امت کو منتشر کرنیکی کوشش کریں تو وہاں امت کے صحیح علمی دلائل کو اجاگر کرنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

حضرت ابوہریرہ سےابن عمر کا اختلاف اور رد کیا جانا جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ بات باہم اختلاف ہے۔ اگر ابن عمر کی روایت میں کسی بات کی تردید ہو رہی ہے تو یہ لازم نہیں ابن عمر کی بات کلام الہی یا فرمان رسول ﷺ ہے۔ انسے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ نیز انکی بات کو بھی تو دیکھا جائے گا جس بات کو وہ جھوٹ کہ رہے ہیں اس کی بنیاد کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا ابو ہریرہ کی متعلقہ روایت میں پہلا حصہ حضرت علی کے قول کے موافق ہے۔ اب صرف آدھا قول بچا۔ لہذا واضح ہوا کہ ابن عمر دراصل اس بات سے اختلاف رکھتے تھے، انہوں نے انکی رائے کو رد کیا۔ نہ تو انہوں کہا کہ وہ جھوٹ بولا کرتا ہے نہ یہ کہا وہ جھوٹ بولا کرتا تھا۔ بلکہ کہا جھوٹ کہا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے ابن عمر صر ف ابوہریرہ کی یہ رائے وتر لازمی نہیں۔ دل کرے پڑھ لو چاہے چھوڑ دو ۔ یہ آخری حصۃ سے اختلاف تھا۔
یہ بات کرنا کہ ابوہریرہ خود واضح کرتا تمہارے لب و لہجہ سے بہت خوب عیاں ہے۔ بہت اچھا ہوتا۔ مگر کیا دوسرے کے متوجہ کرانے سے وہ کفر کا مرتکب ہوگیا؟؟
ایک مختصر روایت جس کا سیاق و سباق واضح نہیں اس سے مکمل نتیجہ کیسے اخذ کر لیں۔ پہلے بھی عرض کیا کہ دونوں راستے ہمارے پاس موجود ہیں ۔ تمہارے پاس وہ راستہ ہمارے پاس حسن ظن ہے۔ ہم کہتے ہیں دین اسلام کےلئے خدمات اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انکی قربانیوں کا تقاضہ ہے کہ جیسے ہم رسول اللہ ﷺ کے اہلبیت کے بارے حسن ظن سے کام لیتے ہیں تو انسے نسبت کی وجہ سے ہی انکے رفقاء اور اصحاب و احباب و خدام کو بھی بعد والے تمام مسلمانوں سےافضل جانیں۔
یہی کچھ ہم نے سیکھا ہے۔ یہی اہلبیت کی تعلیم ہے اسی پر عمل کرتے ہیں۔
سیدہ عائشہ کی روایت نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کی۔مگر برا ہو تعصب کا آپ کو ہر حال میں مجہول راویوں کی روایت پر اعتماد سے ابوہریرہ کو جھوٹا ثابت کرنا ہے۔ تو جناب آپ اپنی بات پر قائم رہیں۔ اپنی محنت جاری رکھیں۔ ایسی ہزارہا روایتیں جمع کر کے انکو روز پڑھیں حفظ کر لیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ میری تحریر نہیں بلکہ کتاب میں روایت کرنے والے صاحب علم ابن عساکر کے استاد علامہ ابوبکر ابن خذیمہ کا جواب نقل کیا۔ اسمیں وہ اس روایت پر دو آراء تحریر کرتے ہیں۔
وہ فرماتے ہیں کہ بنی عامر کے آنے والے دوافراد مجہول ہیں یعنی انکے نام روایت میں موجود نہیں۔ سیدہ عائشہ نے الفاظ سننے کے بعد فرمایا اس نے یعنی ابوہریرہ نے جھوٹ کہا۔
جبکہ ابوبکر ابن خذیمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ کی اپنی روایت اسکے خلاف ہے۔ بلکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ ابوہریرہ نے روایت کیا : لاعدوی ولا طیرۃ۔ بنی کے لوگوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے یہ الفاظ یا تو ذکر نہیں کئے یا انہوں نے ابوہریرہ سے سننے میں غلطی کی۔ یعنی اصل فساد کی جڑ کچھ اور ہے جبکہ تمہاری لکیر کسی اور جگہ پٹ رہی ہے۔ تم نے حضرت عائشہ کے لفظ کذب سے ابوہریرہ کو جھوٹا کہنا ہے اور مجھ سے یہی ثابت کرانا ہے کہ ابوہریرہ جھوٹا تھا۔ حالانکہ دلیل سرے سے موجود ہی نہیں۔
ایک طرف تعلیم دیتے آ رہے ہو کہ کسی پر الزام لگانے والا خؤد ویسا ہے
یہ بات پہلے عمر فاروق پر تھونپی اب سیدہ عائشہ پر تھونپ رہے ہو۔ اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ ذرا دامن میں جھانک لو کہ درست ہے کہ ہماری نجات اہلبیت کے دامن سے ہے مگر کیا الفاظ کے اختلاف اور روایات کے الجھاؤ میں اپنا دین بھی برباد کر لیں۔
[FONT=&amp]کیا کسی روایت میں لفظی سقم کو سمجھ کر الفاظ کو درست تناظر میں استعمال کرنے سے اہلبیت کے مقام میں فرق آتا ہے؟؟
مجھے ایسا بالکل نہیں لگتا۔ نیز پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ اہلبیت سے محبت کا تقاضہ ہے کہ انسے محبت کرنے والے تمام سچے محبین سے بھی محبت کیجائے۔ یہی میرا ایمان ہے۔
نیز کسی کے ایمان کے فیصلہ سے قبل لازم ہے کہ اس کی باتوں کی 100 تاویلیں بھی ممکن ہوں تو کرکے اسوقت تک کفر کا فتوی صادر نہیں ہوگا جبتک وہ ساری تاویلیں رد ہوجائیں ۔ ایک بھی معمولی سی تاویل حق میں ہوئی تو فائدہ ملزم کو ہوگا۔ کچھ ایسا ہی حکم حد قائم ہونے کا بھی ہے۔ اس میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو ہوگا۔
جبکہ یہاں تو ساری بنیاد ہی غلط ہے بغیر تاویل کے ہی معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔
عمر فاروق کا بیان مؤاخذہ کے الفاظ ہیں۔مؤاخذہ کے الفاظ سخت ہی ہوتے ہیں۔ ابن عمر کے الفاظ انکا ابوہریرہ سے دلیل کی قوت کا فرق ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ کے الفاظ راویوں کی جہالت یا بد دیانتی کا سبب ہیں۔ اور انہوں نے اسی بات کا رد کیا جو انکو بتائی گئی۔ اس میں ام المؤمنین کا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے صرف حق بات واضح کی۔
[/FONT]​
پھر وہی ہٹ دھرمی میرے محترم بھائی مجھے کوئی تعصب نہیں ہے آپ جو چاہے سوچیں میں ہر اس شخص کو جو بھی ان ہستیوں کو چھوڑے گا اور الله کے رسول پر جھوٹ بندھے گا اس کو نہیں مانوں گا کسی شیعہ کتاب میں بھی کوئی جھوٹ بندھے میں اس کو بھی نہیں مانوں گا پوری پوسٹ میں ایک کام کی بات لکھی ہے باقی صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے کے میں نہ مانوں تو حضرت مجھے آپ کو زبردستی تو منوانا نہیں ہے زمانہ طالب علمی میں سوچتا تھا کے اتنے بڑے بڑے علما گزرے خاص طور پر غزالی جیسے امام پر انہوں نے حق ادا نہیں کیا اہلبیت کا تو جواب یہی ملا کے جو الله کا قرب چاہتا ہے وہ اہلبیت کو چھوڑ ہی نہیں سکتا ہے اسی لیے نیک علم انسان کو اہلبیت کے قریب تر کر دیتا ہے اس کے لیے شیعہ سنی وہابی دے بندی کی کوئی تمیز نہیں ہے اور بد علم انسان کو دور لے جاتا ہے پاک ہستیوں سے یہ اس وقت اور اچھی طرح سمجھ میں آیا جب یہ پڑھا کے اے علی تجھ سے منافق محبت کر ہی نہیں سکتا ہے دلیل اس کی قران نے دے دی جب اس پاک ذات نےآیت تطہیر ان پر اتاری
کوئی حاکم وقت کسی کو الله کا دشمن سلیم کا دشمن خیانت کار کہ کرپکارے تو اگر یہ ثابت نہیں تو پھر یہ عدل نہیں ہے
PyscJg3.png

ابن عمر کسی کو
xdKnCX8.png


پھر کوئی یہ کہ دے کے یہ میری جیب سے ہے یعنی کے رسول الله کی طرف سے نہیں یعنی کے لوگ نہ پوچھیں تو پتہ نہیں کیا کیا اپنی طرف سے ہو ؟
jbg52mF.png


اگر صحیح معنوں میں کہوں تو میں جو سمجھ رہا تھا کے کچھ سیکھنے کو ملے گا پر مجھے صرف ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ملا خوش رہیں آباد رہیں جہاں بھی رہیں جس شناخت سے بھی رہیں شکریہ

 

انجام

MPA (400+ posts)

اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے۔ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
اللہ تعالی کا نہایت فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے حبیب مکرم ﷺ اور انکے محبین کی محبت و نسبت عطا کی۔
مجھے اپنا دین و ایمان ثابت کرنے کے لئے کسی خشک ، جاہل توحیدی کی سند کی ضرورت ہے نہ ہی نسبت رسالت ﷺ کے لئے کسی نام نہاد عاشق ناہنجار کی، حب اہلبیت رسول ﷺ کے لئے کسی غالی کے غلو کی تو حب صحابہ کرام کے لئے کسی ابغض ناصبی کی ، نہ ہی نسبت اولیاء کرام کے لئے کسی منتقص اولیاء کی اور نہ ہی متفرط جہلاء کی صفائی کی ضرورت ہے۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کے نعلین کے صدقے ہمیں یہ تمام نسبتیں عطا فرمائی ہیں۔ اپنی سمجھ فہم کے مطابق درجہ بدرجہ ہر کسی کا احترام بجا لاتے ہیں۔ افراط وتفریط ہر 2 طریق کو غلط و ناجائز سمجھتے ہیں۔
خالق کائنات سے لیکر مقربین بارگاہ الہ تک ہر کسی کا جو جو مقام ہے اس کی حقیقی معرفت سے بہت دور ہیں۔ جب مقام کا صحیح ادراک ہی نہیں تو حق کیسے ادا کر سکتے ہیں؟
مگر اللہ کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق صرف اعلی نسبتوں کی محبت کے فائدے سے امید رکھتے ہیں۔

اگر کوئی شخص جہالت کے سبب یہ جاننے سے قاصر ہو کہ کہنے والے کا مدعا کیا ہے؟ اسکی بات کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ بلا وجہ اپنی جہالت ، ضد ، ہٹ دھرمی کے سبب اپنی ہی رائے پر مصر ہو تو اس کا کوئی دلیل سے جواب ممکن نہیں۔

جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ روز قیامت بھی اندھا ہوگا۔ اس کے حقیقی معانی لینے ولا بدبخت ہے۔ اسی طرح کئی مقامات پر اللہ تعالی کے احکامات ظاہری معانی سے ہٹ کر ہیں۔ بلکہ وہاں انکا وہ معنی لینا ہی عین کفر ہے۔
جیسے اس سے قبل ایک شخص آیات تشبہ سے اہل قبر کے عدم سماعت کی دلیل لے رہا تھا۔

بالکل ایسے ہی یہاں بھی جو الفاظ مذکور ہیں انکو سیاق سے ملا کر دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہ تو حقارت کے لئے تھے نہ ہی ذلالت و تہمت کے لئے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقینا انپر وہی حکم نافذ ہوتا۔ مگر پوری عبارت دیکھنے سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ پرالزام لگا اور شکایت ہوئی۔ تو آپ نے ان سے انکا موقف جاننے کے لئے انکو بلایا۔ مگر چونکہ یہ معاملہ عام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مال کا معاملہ تھا۔ اسی لئے سخت لہجے میں سوال کیا۔ جبکہ بعد والے مضمون سے معاملہ صاف ہوگیا۔
یہ ایسے ہی ہے جیسےرسول اللہ ﷺ نے حضرت علی المرتضی کو مسجد نبوی ﷺ میں لیٹے ہوئے اٹھایا تو فرمایا اےابو تراب مگر اب کوئی شخص اسی لفظ کو استعمال تو کرے مگر اسکے دل میں نفرت ، حقارت اور دشمنی ہو تو اس کے لفظ ظاہری اسکے باطنی خبث کو سنت نبویﷺ میں نہیں چھپا سکتے۔

یہ جملہ یعنی حضرت عمر کا جملہ اگر کسی ایسے موقع پر بولا جائے جب عام حالات ہوں تو اس وقت تو کہا جاسکتا تھا مگر اب سیاق کلام خود ہی جواب دے رہا ہے۔ لہذا ہمیں عرب لہجے اور اپنی زبان میں بھی عرف سے پہچان لازم ہے۔

پھر سے ابن عمر کا قول نقل کرنا، جبکہ اس میں واضح ہے کہ سائل کا نام ذکر نہیں بلکہ ایک مجہول شخص ہے۔ میں نے اپنی طرف سے کوئی مزید روایت نقل نہیں کی ۔ بلکہ اسی روایت کو دیکھ کر اپنی رائے پیش کی۔
ذرا روایت کے الفاظ پر غور فرمائیں۔

کنت جالسا عند ابن عمر
فاءتاہ رجل فقال : ان ابا ہریرۃ یقول ان الوتر لیس بحتم ، فخذو ا منہ (ا) دعوا۔ فقال ابن عمر: کذب ابو ہریرۃ ؛ جاء رجل الی رسول اللہﷺ ، فساء لہ عن صلاۃ الیل فقال : مثنی مثنی ، فاذا خشیت الصبح فواحدۃ "۔
کبھی بھی بات کرتے ہوئے سیاق کلام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ یہاں سارا زور اس بات پر تو ہے کہ ابن عمر نے کہا ابوہریرہ نے جھوٹ کہا۔ مگر ابو ہریرہ نے جو کہا وہ درست بھی تھا یا نہیں؟
کیا یہ فیصلہ ہوگیا؟ ابن عمر کے پاس ابوہریرہ کا کردار زیر بحث تھا؟ یا مسئلہ کی مشروعیت کی حیثیت کی بحث تھی؟
ذرا غور فرمائیں یہاں کردار زیر بحث نہیں تھا بلکہ ایک رائے آئی جس کو متبادل دلیل سےرد کر دیا گیا۔
یہاں یہ مسئلہ بھی نہایت توجہ طلب ہے کہ اس دور میں باطل ، فاسد کذب ، وضع وغیرہ کی اصطلاحات باقاعدہ وضع نہیں ہوئی تھیں۔ تو یہ مسئلہ اسی روایت کی روشنی میں نہایت واضح انداز میں بتاتا ہے کہ یہاں کردار کی بحث نہیں بلکہ دلیل میں رائے کی قوت و ضعف کا معاملہ ہے۔ نیز اس میں بھی سیدہ عائشہ کی روایت کی طرح مجہول راوی کی یاد داشت یا اس کی غلط بیانی کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔ صحت سند واقعہ کو تو ثابت کرتی ہے مگر سائل کے بارے وضاحت نہیں کرتی۔

لہذا یہاں مذکور تمام واقعات اپنے سیاق کلام سے کسی بھی طرح صحابہ کی آپس کی دشمنی خیانت یا بد دیانتی پر ثبوت نہیں بنتیں۔




 

انجام

MPA (400+ posts)
کون کہاں کتنا ہٹ دھرم یا طالب علم ہے یہ اللہ تعالی کو بخوبی معلوم ہے۔ نیز یہاں آنے والے سامعین بھی بخوبی جان سکتے ہیں۔

جیسے ہم اہلبیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی نسبت آپ کے مندجہ ذیل احکام کی روشنی میں محبت وا طاعت کرتے ہیں۔


[FONT=&amp] عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمًا فِيْنَا خَطِيْباً. بِمَاءٍ يُدْعَي خُمًّا. بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِيْنَةِ. فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنَي عَلَيْهِ، وَ وَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ . أَلَا أَيُّهَاالنَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوْشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُوْلُ رَبِّي فَأُجِيْبُ، وَأَنَا تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقَلَيْنِ : أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اﷲِ فِيْهِ الْهُدَي وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اﷲِ. وَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ. فَحَثَّ عَلَي کِتَابِ اﷲِ وَرَغَّبَ فِيْهِ. ثُمَّ قَالَ : وَأَهْلُ بَيْتِي. أُذَکِّرُکُمُ اﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمُ اﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَکِّرُکُمُ اﷲَ فِي أَهْلِ بَيْتِي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم : 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب اﷲ (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔[/FONT]
[FONT=&amp] عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُم مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي : أَهْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِي فِيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَحَسَنَّهُ وَالنَّسَائِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 16 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، وفي المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، وفي المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟[/FONT]
[FONT=&amp] عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَا أَيُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا : کِتَابَ اﷲِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي. رَوَاهُ التِرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، وفي المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔
[FONT=&amp]عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعضًا لَقُوْهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوْهِ لَا نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْدًا، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمِْﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسّائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.[/FONT][/FONT]

[FONT=&amp]وفي رواية : قَالَ : وَاﷲِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمِْﷲِ، وَلِقَرَابَتِي.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 21 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔[/FONT]
[FONT=&amp]ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔
[/FONT]

[FONT=&amp]عَنِ الْعَبَاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا نَلْقَي النَّفَرَ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُمْ يَتَحَدَّثُوْنَ فَيَقْطَعُوْنَ حَدِيْثَهُمْ فَذَکَرْنَا ذَلِکَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَحدَّثُوْنَ فَإِذَا رَأَوْا الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي قَطَعُوْا حَدِيْثَهُمْ وَاﷲِ، لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّهُمِْﷲِ وَلِقَرَابَتِهِمْ مِنِّي. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 22 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان (یعنی میرے اہلِ بیت) سے اﷲ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔[/FONT]
[FONT=&amp] عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوْحٍ، مَنْ رَکِبَ فِيْهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنَهَا غَرِقَ. رَوَاهُ الطَّّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.[/FONT]
[FONT=&amp]وفي رواية : عَنْ عَبْدِ اﷲَِ بْنِ الزُّبَيْرِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَنْ رَکِبَهَا سَلِمَ، وَمَنْ تَرَکَهَا غَرِقَ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 23 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، وفي المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478 : 5 / 355، الرقم : 5536 : 6 / 85، الرقم : 5870، وفي المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391 : 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في االمستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔[/FONT]
[FONT=&amp]اور ایک روایت میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔
[/FONT]

[FONT=&amp]عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ صَلَّي صَلَاةً لَمْ يُصَلِّ فِيْهَا عَلَيَّ وَعَلَي أَهْلِ بَيْتِي، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ. وَقَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه : لَوْ صَلَّيْتُ صَلَاةً لَا أُصَلِّي فِيْهَا عَلَي مُحَمَّدٍ، مَا رَأَيْتُ أَنَّ صَلَاتِي تَتِمُّ. رَوَاهُ الدَّارُقُطْنِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 28 : أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، وابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی۔
[/FONT]

[FONT=&amp]عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَي عَنْ أَبيْهِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّي أَکُوْنَ أَحَبَّّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَأَهْلِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَهْلِهِ وَعِتْرَتِي أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ عِتْرَتِهِ. وَذَاتِي أَحَبََّ إِلَيْهِ مِنْ ذَاتِهِ.[/FONT]
[FONT=&amp]رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، وفي المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔
[/FONT]




ایسے ہی ہمیں حب صحابہ کے لئے بھی رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے ہی سبق حاصل کرنا ہے۔ اور کیا ہے ۔جیسا کہ درج ذیل ہے۔
[FONT=&amp]عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]ورواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه وزاد فيه : (لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ) ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيْثَ بِنَحْوِهِ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذاً خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : تحريم سب الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861 وقال : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 214، الرقم : 4658، وابن ماجه في السنن، باب : فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 84، الرقم : 8308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 11، الرقم : 11094، 11534، 11535، 11626، وابن حبان في الصحيح، 16 / 238، الرقم : 7253، وأبو يعلي في المسند، 2 / 342، الرقم : 1087، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم : 32404، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 212، الرقم : 687.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ [/FONT]
[FONT=&amp]اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے : میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو (دو مرتبہ فرمایا)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ پھر اسی طرح پوری حدیث بیان کی۔ [/FONT]
[FONT=&amp] عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضي الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اﷲَ اﷲَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اﷲَ، وَمَنْ آذَي اﷲَ فَيُوْشِکُ أَنْ يَأْخُذَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]وَقَالَ أَبُوْعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فيمن سبّ أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 54، 57، الرقم : 20549 - 20578، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 191، الرقم : 1511، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 479، الرقم : 992، والروياني في المسند 2 / 92، الرقم : 882، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 146، الرقم : 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 568، الرقم : 2284.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اﷲ سے ڈرو! اور میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اُسے پکڑے گا۔

[/FONT]

[FONT=&amp]عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ اﷲِ عَلَي شَرِّکُمْ.[/FONT]
[FONT=&amp]رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في فضل من رَأي النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَ صَحِبَهُ، 5 / 697، الرقم : 3866، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 191، الرقم : 8366، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 263، الرقم : 1022.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو : تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ [/FONT]
[FONT=&amp] عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.[/FONT]
[FONT=&amp]رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 40 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 142، الرقم : 12709، وعن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 5 / 94، الرقم : 4771، وابن أبي شيبة عن عطا بن أبي رباح في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32419، والخلال في السنة، 3 / 515، الرقم : 833، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1001، وابن جعد في المسند، 1 / 296، الرقم : 2010، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 14، الرقم : 7302، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 21، والمناوي في فيض القدير، 5 / 274.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ [/FONT]
[FONT=&amp] عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ. ثُمَّ الّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ، قَالَ عِمْرَانُ : فَلَا أًدْرِي : أَذَکَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً. ثُمَّ إِنَّ بَعْدَکُمْ قَوْمًا يَشْهَدُوْنَ وَلَا يُسْتَشْهَدُوْنَ، وَيَخُوْنُوْنَ وَلَا يُؤْتَمَنُوْنَ، وَيَنْذُرُوْنَ وَلَا يَفُوْنَ، وَيَظْهَرُ فِيْهِمُ السِّمَنُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 41 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1335، الرقم : 3450، وفي کتاب : الرقاق، باب : مايحذر من زهرة الدنيا والتنافس فيها، 5 / 2362، الرقم : 6064، وفي کتاب : الأيمان والنذور، باب : إِثم مَن لا يَفِي بِالنَّذرِ، 6 / 2463، الرقم : 6317، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1964، الرقم : 5235، والترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في القرن الثالث، 4 / 500، الرقم : 2302. 2303، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل من رأَي النبي وفضل صلي الله عليه وآله وسلم وصَحِبَه، 5 / 695، الرقم : 3859، والنسائي في السنن، کتاب : الأيمان والنذور، باب : الوفاء بالنذر، 7 / 17، الرقم : 3809، وابن ماجة في السنن، کتاب : الأحکام، باب : کراهية الشهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم : 2362، والبيهقي في السنن الکبري، کتاب : النذور، باب : الوفاء بالنذر، 10 / 74، والبزار في المسند، 9 / 18، الرقم : 3521، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 427، الرقم : 19835، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 233، الرقم : 581، والطيالسي في المسند، 1 / 113، الرقم : 841، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 151، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 5، الرقم : 4546.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بہترین امت میرے زمانہ کی ہے پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ اور پھر ان کے زمانہ کے بعد کے لوگ (حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانہ کے بعد دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین زمانوں کا)۔ پھر تمہارے بعد ایسی قوم آئے گی کہ وہ گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے اور ان پر یقین نہیں کیا جائے گا۔ وہ نذریں مانیں گے مگر ان کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہو گا۔

[/FONT]

[FONT=&amp]عَنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ فِيْنَا مِثْلَ مُقَامِي فِيْکُمْ فَقَالَ : احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي. ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ .[/FONT]
[FONT=&amp]رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.[/FONT]
[FONT=&amp]وفي رواية : عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما : فَقَالَ : اسْتَوْصَوْا بِأَصْحَابِي خَيْرًا.[/FONT]
[FONT=&amp]الحديث رقم 46 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الأحکام، باب : کراهية الشهادة لمن لم يستشهد، 2 / 791، الرقم : 2363، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 18، الرقم : 114، والحاکم في المستدرک، 1 / 198. 199، الرقم : 388، 390، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 306، الرقم : 6483، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 91، الرقم : 13299، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 106، الرقم : 155، والحسيني في البيان والتعريف، 2 / 219، الرقم : 1546.[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر ہمیں خطبہ دیا پھر فرمایا : ہمارے درمیان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں قیام فرما تھے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں میری حفاظت کرو (یعنی ان کی عزت و احترام کرو!) (اور ان لوگوں کی عزت و احترام کرو) جو ان کے بعد آنے والے ہیں پھر (ان لوگوں کی) جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔[/FONT]
[FONT=&amp]اور حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ایک روایت میں فرمایا : میرے صحابہ سے اچھا سلوک کرنا۔
[/FONT]

لہذا ہمیں یہ سبق دینا کہ اہل بیت کا حق ادا نہیں کیا تو ہم نے محبت اہلبیت کسی کے طعنوں کے سبب نہیں کی ۔ نہ ہی کسی کے طعنوں کے سبب بغض صحابہ میں ایمان غارت کریں گے۔
زمانہ نبوی ﷺ میں اولاد عبد المطلب کو اہل بیت قرار دیا جاتا تھا۔ جیسا کہ سیدنا عباس کی روایت میں مذکور ہے۔

سابقہ بحث میں ایک بات گزری کہ رسول اللہ ﷺنے قیامت تک 12 خلفاء کا ذکر فرمایا۔
یہ ایک مسلم شریف کا پورا باب ہے جس کا نام کتاب الامارۃ ہے۔
اس کا پہلا باب کی پہلی فصل ہے لوگوں کا قریش کی پیروی کرنا اور قریش کا خلیفہ ہونا۔
اس میں پہلی روایت کو جھتلا دیا ، ترک کر دیا۔ باقیوں کو دلیل بنا لیا ۔ اب تک اس پہلو سے مکمل پہو تہی کی۔ مگر اب اس کو بھی واضح کرتا چلوں۔ اس فصل میں کل 12 روایات ہیں۔
اس فصل میں کل 12 میں 3 روایات کے علاوہ ساری روایات یعنی 9 ایک ہی راوی سے بدل کر آئی ہیں ۔ جنکی اصل ایک ہی ہے۔ الفاظ کا یا سند کا اختلاف ہے۔
زرا اس کے الفاظ پر غور کریں۔ اس میں واضح طور پر قریش کا لفظ ہے۔ اس میں کہیں بھی انکے کردار کا زکر نہیں۔ نہ ہی یہ خلافت راشدہ ہے کہ وہ صرف 30 سال ہے۔ یہ حدیث مبارکہ قریش کے لئے عام ہے ، اہل بیت کے لئے خاص نہیں۔
اگر اس باب کی پہلی احادیث کی طرف دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ لوگ واقعی جہاں قریشی موجود ہو اس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ کئی جگہ میرا مشاہدہ رہا۔ ہر کسی کا مجھ سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ دیگر لوگوں کی نسبت خیر و شر میں بھی اہل قریش کو زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ کی حدیث کردہ روایت کئی معنی پر محمول ہے۔ اگر اس کا معنی تسلسل خلافت کریں تو اس سے یہ واضح ہوگا یہ بنو امیہ کے اختتام تک کا زمانہ ہے۔ کیونکہ یہ حدیث خلافت ظاہری یعنی حکومت کی طرف اشارہ ہے۔ اور بنو عباس سے پہلے تک مسلمانوں کی مجموعی طاقت دنیا پر سب سے زیادہ واضح رہی۔ اس کے بعد مسلمانون میں انتشار واقع ہوا۔
اگر اس سے مراد قریش کے خلفاء صالح مراد ہیں تو اس میں 5 خلفاء راشدین ، ایک عمر بن عبد العزیز ، اسی طرح ایک یا 2 نام بنو امیہ کے اور 2 یا 3 نام بنو عباس کے اتے ہیں۔ جبکہ بنو عباس کے بعد ابتک امام مہدی کے علاوہ مزید 2 خلفاء کون تھے یا ہونگے اس بارے واضح نہیں۔
اگر ان 12 خلفاء سے مراد اہل تشیع کے نزدیک 12 امام اہلبیت لئے جائیں تو ہمیں اس میں مضائقہ نہیں مگر یہ حدیث ظاہری معنی میں اس پر دلالت نہیں کرتی۔ نہ ہی خانوادہ اہلبیت میں سے سوائے حضرت علی و حسن کے کسی کو اقتدار کا موقع ملا۔
لہذا اس میں ظاہرا یہی نظر اتا ہے کہ یہ حدیث پہلی روایات سے ملا کر پڑھی جائے تو اس کا اہلبیت کے ساتھ سوائے خلافت راشدہ کے کوئی واضح تعلق نہیں بنتا۔

اسی طرح کسی کا یہ کہنا غدیر خم میں حدیث مولا سے دین مکمل ہوا۔ یہ بھی حدیث سے من چاہا مفہوم نکالنا ہے۔ حالانکہ واضح ہے کہ وہاں کچھ لوگوں نےسیدنا علی کرم اللہ سے نفرت کا اظہار کیا۔ اس کے جواب میں یہ حدیث مبارکہ بیان ہوئی۔ اس سے اہل طریقت و سلوک جانشینی کا روحانی تصور تو اخذ کرتے ہیں۔ مگر کسی نے بھی اس سے عملا خلافت کا تشیعی نظریہ نہیں لیا۔ بلکہ خلافت کے قیام کے لئے خود سیدنا علی کرم اللہ کے خطوط و خطابات اس پر شاہد ہیں کہ خلافت و امارت امت کے مشورہ سے قائم ہوتی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو نہج البلاغۃ کے صفحات دئے جا سکتے ہیں۔
 
Last edited:

yasirashraf271

Senator (1k+ posts)
بہت زیادہ طول ، تمہید ، اور حوالہ جات سے بچتے ہوئے مختصر احوال بیان کیا۔ اگر کوئی دوست کسی چیز کی نشاندہی کرنا چاہے تو انکا شکریہ۔ کمی بیشی پر پیشی معذرت خواہ ہوں۔
کہیں غلطی محسوس کریں یا سمجھنے میں دشواری یا تفصیل کی ضرورت ہو تو مطلع فرمائیں۔
​Nae janab share karney ka shukrai
 

Back
Top