سلام آباد سے 22 اگست کو لاپتا ہونے والے حسیب حمزہ بازیاب
اسلام آباد میں تھانہ شہزاد ٹاون کے علاقہ سے اغواء ہونے والے حسیب حمزہ گھر پہنچ گئے ہیں، حسیب حمزہ کے والد خوشی سے نہال ہیں، انہوں نے اسلام آباد کیپیٹل پولیس کی کوششوں کی تعریف کی۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تصویرشیئر کرتے ہوئے لکھا کہحسیب حمزہ کے والد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بھرپور تعاون پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے،حسیب حمزہ کے بازیاب ہونے پر حسیب حمزہ کے اہل خانہ کی جانب سے نے اسلام آباد ہائی کورٹ، پولیس، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا شکریہ ادا کیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری کو چوبیس گھنٹوں میں بازیاب نہ کرنے کی صورت میں آئی جی، چیف کمشنر، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور سپیشل برانچ کے سیکٹر کمانڈرز کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے حسیب حمزہ کو آج صبح ساڑھے گیارہ بجے تک بازیاب کروانے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل 13 ستمبر کو لاپتا شہری حسیب کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، جہاں عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ دوران سماعت آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاپتا شہری حسیب حمزہ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ آئی جی صاحب، یہ ناقابل برداشت ہے، لاپتا افراد سے متعلق پہلے ایک فیصلہ موجود ہے جس میں یہ واضح قرار دیا گیا ہے کہ شہری کے لاپتا ہونے پر آئی جی اور متعلقہ افسران ذمہ دار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت اب اس فیصلے کے مطابق ہی کارروائی کرے گی۔
لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کیلئے دائر درخواست میں ان کے والد ذوالفقار علی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا بیٹا ایک مزدور تھا جو لیہ میں کام کرتا تھا،درخواست کے مطابق درخواست میں وزارت دفاع کے ذریعے حکومت پاکستان، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور وزیر داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 22 اور 23 اگست کی رات 20 لوگ بغیر کسی وارنٹ کے گھر میں داخل ہوئے جن میں سے 15 افراد نے سیاح یونیفارم پہنا ہوا تھا،گھر میں چھاپہ مارنے کے بعد ان کے بیٹے کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر،5 موبائل فون اور کچھ ضروری کاغذات اپنے ساتھ لے گئے۔