اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم ،لاپتہ شہری 24 گھنٹے میں گھر پہنچ گیا

atahr-minallah-ihc-24h.jpg


سلام آباد سے 22 اگست کو لاپتا ہونے والے حسیب حمزہ بازیاب

اسلام آباد میں تھانہ شہزاد ٹاون کے علاقہ سے اغواء ہونے والے حسیب حمزہ گھر پہنچ گئے ہیں، حسیب حمزہ کے والد خوشی سے نہال ہیں، انہوں نے اسلام آباد کیپیٹل پولیس کی کوششوں کی تعریف کی۔

اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تصویرشیئر کرتے ہوئے لکھا کہحسیب حمزہ کے والد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے بھرپور تعاون پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ہے،حسیب حمزہ کے بازیاب ہونے پر حسیب حمزہ کے اہل خانہ کی جانب سے نے اسلام آباد ہائی کورٹ، پولیس، وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا شکریہ ادا کیا۔

https://twitter.com/x/status/1569895991687659520
گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہری کو چوبیس گھنٹوں میں بازیاب نہ کرنے کی صورت میں آئی جی، چیف کمشنر، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور سپیشل برانچ کے سیکٹر کمانڈرز کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے حسیب حمزہ کو آج صبح ساڑھے گیارہ بجے تک بازیاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل 13 ستمبر کو لاپتا شہری حسیب کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، جہاں عدالتی حکم پر آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ دوران سماعت آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا تھا کہ لاپتا شہری حسیب حمزہ کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

https://twitter.com/x/status/1569898238169305089
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آئی جی اسلام آباد سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ آئی جی صاحب، یہ ناقابل برداشت ہے، لاپتا افراد سے متعلق پہلے ایک فیصلہ موجود ہے جس میں یہ واضح قرار دیا گیا ہے کہ شہری کے لاپتا ہونے پر آئی جی اور متعلقہ افسران ذمہ دار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت اب اس فیصلے کے مطابق ہی کارروائی کرے گی۔

لاپتا شہری حسیب حمزہ کی بازیابی کیلئے دائر درخواست میں ان کے والد ذوالفقار علی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا بیٹا ایک مزدور تھا جو لیہ میں کام کرتا تھا،درخواست کے مطابق درخواست میں وزارت دفاع کے ذریعے حکومت پاکستان، ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس اور وزیر داخلہ کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ 22 اور 23 اگست کی رات 20 لوگ بغیر کسی وارنٹ کے گھر میں داخل ہوئے جن میں سے 15 افراد نے سیاح یونیفارم پہنا ہوا تھا،گھر میں چھاپہ مارنے کے بعد ان کے بیٹے کو حراست میں لینے کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر،5 موبائل فون اور کچھ ضروری کاغذات اپنے ساتھ لے گئے۔
 

Munawarkhan

Chief Minister (5k+ posts)
So govt officials came to his house and took him away
Police didnt register FIR, cos it was not a criminal act to take him away
Court gives ultimatum to release him & calls the heads to court
Then suddenly he appears and police calls it kidnapping

I am baffled