اسمارٹ فون صارفین اے آئی جعلسازیوں سے ہوشیار رہیں,ماہرین

scamelah11ih.jpg

ماہرین نے اسمارٹ فون استعمال کرنے والوں کو خبردار کردیا,ماہرین نے صارفین کو سائبر مجرمان کی جانب سے جعلسازیوں کی نئی لہر کے متعلق خبردار کیا,کیپر سیکیورٹی کی جانب سے شائع کیے جانے والی بلاگ پوسٹ کے مطابق سائبر مجرمان صارفین سے نجی معلومات نکلوانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈیپ فیکس نامی یہ کلون ٹیکنالوجی صارفین کے دوستوں، رشتہ داروں اور یہاں تک کے کسٹمر سروس نمائندگان کی آوازوں کی نقل بنا کر کام کرتی ہے,مصنوعی ذہانت کے ذریعے کیے جانے والی جعلسازیاں آواز کی نقل اور سوشل انجینئرنگ پر مشتمل دو مراحل میں کی جاتی ہیں۔پہلے جعلساز ہدف کے احباب کی آواز کے نمونے اکٹھا کرتے ہیں اور پھر اے آئی وائس کلوننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے نقل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

نقلی آواز تیار ہونے کے بعد جعلساز حملے کے دوسرے حصے پر عمل کرتے ہیں۔ جعلساز ہدف کو کال کرتے ہیں اور تیار کی گئی آواز کو استعمال کرتے ہوئے بھروسہ قائم کرتے ہیں۔جعلساز ہدف کو فون کر کے خود کو ان کا جاننے والا بتاتے ہوئے خاندان میں کسی کے ساتھ معاشی مسائل کے متعلق بتاتے ہیں اور فوری مالی مدد کی درخواست کرتے ہیں۔

’اے آئی کی نگرانی کے لیے عالمی ادارہ بنانے کی ضرورت ہے, اس شعبے سے وابستہ ماہرین نے اتفاق کیا کہ جس رفتار سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں ترقی ہورہی ہے، یہ ممکنہ طور پر دنیا کا خاتمہ ثابت ہوسکتی ہے,اس کا مطلب یہ ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی جس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اس رفتار سے انسان اسے کنٹرول کرنے کے طریقے تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مشین لینگویج چیٹ بوٹس، جلد ہی انسان کی کوششوں کو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔

خطرے کی یہ گھنٹی ان کمپنیوں کے مالکان نے بجائی ہے جنہیں اس ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ انہوں نے اتفاقِ رائے سے سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس سیفٹی کی جانب سے بیان جاری کیا کہ ’وبائی امراض اور ایٹمی جنگ کی طرح اے آئی کی وجہ سے انسانیت کو لاحق خطرات سے نمٹنا بھی عالمی ترجیح ہونی چاہیے‘۔ اس بیان پر دستخط کرنے والے ایگزیکٹوز میں اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین، گوگل ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسابیس، اور اینتھروپک کے ڈاریو آموڈی شامل ہیں۔

ان سربراہان کے علاوہ 350 دیگر محقیقین، انجینیئرز اور سائنسدانوں نے بھی اس بیان پر دستخط کیے ہیں کیونکہ انہیں یہ خدشات ہیں کہ اے آئی کی ترقی ایسے دور میں داخل ہوجائے گی جہاں وہ انسانوں کے زیرِ انتظام نہیں رہے گا۔

اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین نے تجویز پیش کی کہ جس طرح انٹرنیشنل ایٹامک ایجنسی، ایٹمی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال سے دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیار بنانے والے عناصر کی نگرانی کرتی ہے، اسی طرح اے آئی کی نگرانی کے لیے عالمی سطح پر ایک ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اے آئی میں بھی ممالک کے درمیان دوڑ شروع ہوگئی تو دنیا کا منظرنامہ کیا ہوگا۔ ایسے میں نقصان پہنچانے والے کردار ٹرانسپورٹیشن کے نظام، فلائٹ آپریٹنگ سسٹم، یوٹیلیٹیز اور تمام اقسام کے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے اے آئی کے خطرناک پہلوؤں کو استعمال کریں گے۔