اور اب چین
---------------
سویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی دانشوروں نے بڑی شدومد سے اسلام کو مغرب کا نیا نظریاتی حریف قرار دیا- تہذیبوں کی جنگ اور اسی نوعیت کا دیگر لٹریچر معرض وجود میں آیا- جس میں پولیٹیکل اسلام سے دنیا کو ڈرا دھمکایا گیا- ایک ایسا ہوا کھڑا کیا گیا کہ اگر اس کا بروقت انسداد نہ ہوا تو مغربی تہذہب، اقدار، اور اصولوں کو خطرات پیہم لاحق رہیں گے- اسی مقصد کے مدنظر جمہوری ملکوں کے الائنس بنے، کثیرالاملکی فورمز پر سر جوڑے گۓ، میڈیا، جامعات، اور تھنک ٹینکس پر دائیں بازو کے دانشوروں سے بحثیں کروائی گئیں، ایک مہم بپا کی گئی جس میں واحد نکتہ اسلام کو مغرب کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا- ایوانوں اور اداروں میں سازشیں تیار ہوئیں اور پھر حیلے بہانوں سے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی- افریقہ تا ایشیا، مشرق وسطیٰ تا مشرق بعید --- کوئی ایسا خطہ یا ملک نہیں جہاں ایک بےخطا مسلم کا خون نہ بہا ہو
نوے کی دہائی تک اگر کمیونزم دشمن تھا تو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک اسلام- دونوں کو ( اپنی دانست میں) کمزور کرنے کے بعد مغربی دنیا کا آج نیا نشانہ چین ہے
ترکش کے وہی تیر ہیں جو پہلے دو دشمنوں پر آزماۓ گۓ- حربے نئے ہیں اور نہ ہی ہتھکنڈے، البتہ مقابلہ اب جس حریف سے درپیش ہے وہ طاقتور ہے، متحد ہے، اور مرتکز ہے
مغرب کا دانشور اور میڈیا اپنی تحریر وتقریر میں عوام اور حکومتوں کو چینی غلبے اور نتائج پر اکسا رہا ہے- (چینی) کمیونزم، یک جماعتی نظام اور فرد واحد (شی پنگ) کے مضمرات اور جمہوریت، انفرادی اظہار راۓ کی آزادی، اور مغربی قدروں کی اہمیت بارے تقابلی جائزوں پر زور دے رہا ہے- مغربی تہذہب کا سرخیل اور جمہوریت کا پاسبان امریکہ شطرنج کی نئی چالیں چل رہا ہے- بحرالکاہل اور انڈو-پسیفک کے اتحاد تشکیل دے رہا ہے تاکہ چین کو پڑوسی ممالک کے زریعے علاقائی تنازعات میں الجھا سکے- دوسری جانب اس کے کاروباری مفادات کو یورپ تک رسائی سے روکے- اس کے بڑے منصوبے " بیلٹ- روڈ" میں روڑے اٹکاۓ اور ان تمام ممالک پر تجارتی ومالی تازیانے برساۓ جو چین کے اتحادی ہیں یا امریکی سازش کا حصہ بننے سے انکاری ہیں
امریکہ ویورپ مگر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے اور امریکی زوال کا وقت شروع ہوچکا- یہ صدی ایشیاء کی ہے- اس میں روایتی حربوں سے اپنے حریف کو دبایا نہ جاسکے گا
---------------
سویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغربی دانشوروں نے بڑی شدومد سے اسلام کو مغرب کا نیا نظریاتی حریف قرار دیا- تہذیبوں کی جنگ اور اسی نوعیت کا دیگر لٹریچر معرض وجود میں آیا- جس میں پولیٹیکل اسلام سے دنیا کو ڈرا دھمکایا گیا- ایک ایسا ہوا کھڑا کیا گیا کہ اگر اس کا بروقت انسداد نہ ہوا تو مغربی تہذہب، اقدار، اور اصولوں کو خطرات پیہم لاحق رہیں گے- اسی مقصد کے مدنظر جمہوری ملکوں کے الائنس بنے، کثیرالاملکی فورمز پر سر جوڑے گۓ، میڈیا، جامعات، اور تھنک ٹینکس پر دائیں بازو کے دانشوروں سے بحثیں کروائی گئیں، ایک مہم بپا کی گئی جس میں واحد نکتہ اسلام کو مغرب کا مشترکہ دشمن قرار دیا گیا- ایوانوں اور اداروں میں سازشیں تیار ہوئیں اور پھر حیلے بہانوں سے مسلم دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی- افریقہ تا ایشیا، مشرق وسطیٰ تا مشرق بعید --- کوئی ایسا خطہ یا ملک نہیں جہاں ایک بےخطا مسلم کا خون نہ بہا ہو
نوے کی دہائی تک اگر کمیونزم دشمن تھا تو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک اسلام- دونوں کو ( اپنی دانست میں) کمزور کرنے کے بعد مغربی دنیا کا آج نیا نشانہ چین ہے
ترکش کے وہی تیر ہیں جو پہلے دو دشمنوں پر آزماۓ گۓ- حربے نئے ہیں اور نہ ہی ہتھکنڈے، البتہ مقابلہ اب جس حریف سے درپیش ہے وہ طاقتور ہے، متحد ہے، اور مرتکز ہے
مغرب کا دانشور اور میڈیا اپنی تحریر وتقریر میں عوام اور حکومتوں کو چینی غلبے اور نتائج پر اکسا رہا ہے- (چینی) کمیونزم، یک جماعتی نظام اور فرد واحد (شی پنگ) کے مضمرات اور جمہوریت، انفرادی اظہار راۓ کی آزادی، اور مغربی قدروں کی اہمیت بارے تقابلی جائزوں پر زور دے رہا ہے- مغربی تہذہب کا سرخیل اور جمہوریت کا پاسبان امریکہ شطرنج کی نئی چالیں چل رہا ہے- بحرالکاہل اور انڈو-پسیفک کے اتحاد تشکیل دے رہا ہے تاکہ چین کو پڑوسی ممالک کے زریعے علاقائی تنازعات میں الجھا سکے- دوسری جانب اس کے کاروباری مفادات کو یورپ تک رسائی سے روکے- اس کے بڑے منصوبے " بیلٹ- روڈ" میں روڑے اٹکاۓ اور ان تمام ممالک پر تجارتی ومالی تازیانے برساۓ جو چین کے اتحادی ہیں یا امریکی سازش کا حصہ بننے سے انکاری ہیں
امریکہ ویورپ مگر اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے اور امریکی زوال کا وقت شروع ہوچکا- یہ صدی ایشیاء کی ہے- اس میں روایتی حربوں سے اپنے حریف کو دبایا نہ جاسکے گا