شاعر نے کیاخوب کہا تھا ، اے میری زہرہ جبیں، تجھ سا کوی نہیں
میں یہی بات آج زہرہ شاہ کیلئے کہتا ہوں، جتنے ظلم تم نے اس امیروں کی بستی کے امیر گھر میں سہے اتنے کوی چھ فٹا جوان بھی سہہ نہیں پاتا اور مرجاتا، آٹھ سال کی معصوم سی سیدہ زہرہ شاہ، شائد یہ نام ہی ایسا ہے کہ شہیدوں کے حصے میں آتا رہتا ہے؟
اس داڑھی والے خنزیر نے دولت کی نمائش کرکے بچی ہتھیا لی، اسے پڑھائیں گے بڑا کرکے شادی بھی کردیں گے، بیٹی کی طرح رکھیں گے مگر اس کے برعکس ہوا
زہرہ شاہ کی ماں نے جانے کیوں اپنی لخت جگر کو انجان درندوں کے حوالے کردیا؟اور زہرہ بھی انجان لوگوں کے ساتھ گھر سے دور جاتے ہوے کتنا روی ہوگی اور کسقدر خوفزدہ ہوگی؟
قصہ مختصر ایک آٹھ سال کی بچی پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے، گرم استریاں لگای گئیں ، بدن پر کند فولادی چیزوں اور کھردری بید کی ضربوں کے نئے اور پرانے زخم، پرانے زخم نئے زخموں کو گلے ملتے ہوے
ننھی فرشتہ نما زہرہ نے سوچا ہوگا کہ اس کو بچانے والی اس کی ماں نے ہی اسے ان درندوں کو سونپ دیا تو غیر سے کیا گلہ؟
چپ چاپ ظلم سہتی رہی اور پھر مزید ستم یہ کہ اس مولوی نما سانڈ نے اس کو ریپ کرنا شروع کردیا ، گھٹنے جتنی بچی کو ریپ کرتے ہوے قصور کے عمران نے زینب کی گردن توڑ دی تھی ، بچ تو زہرہ بھی نہ پای
جسطرح کے لوگ اور انکے سفاک روئیے ہیں میں تو زہرہ کو مبارکباد دوں گا کہ تم جیت گئیں کہ اس ظالم معاشرے کی چاکری کرنے کی بجاے سیدھی جنت میں جاپنہچی کل کو یہی لوگ اور حکمران تمہارے آگے سرجھکاے کھڑے ہوں گے
قیامت کو یہی مناظر ہونگے تم جنت کی حور ہوگی اور یہ خبیث ابلیسیت اور مصلحت کا شکار حکمران سرجھکاے تمہارے مجرم ایک قطار میں ہونگے
پھر جو چاہے ان سے سلوک کرنا
میں یہی بات آج زہرہ شاہ کیلئے کہتا ہوں، جتنے ظلم تم نے اس امیروں کی بستی کے امیر گھر میں سہے اتنے کوی چھ فٹا جوان بھی سہہ نہیں پاتا اور مرجاتا، آٹھ سال کی معصوم سی سیدہ زہرہ شاہ، شائد یہ نام ہی ایسا ہے کہ شہیدوں کے حصے میں آتا رہتا ہے؟
اس داڑھی والے خنزیر نے دولت کی نمائش کرکے بچی ہتھیا لی، اسے پڑھائیں گے بڑا کرکے شادی بھی کردیں گے، بیٹی کی طرح رکھیں گے مگر اس کے برعکس ہوا
زہرہ شاہ کی ماں نے جانے کیوں اپنی لخت جگر کو انجان درندوں کے حوالے کردیا؟اور زہرہ بھی انجان لوگوں کے ساتھ گھر سے دور جاتے ہوے کتنا روی ہوگی اور کسقدر خوفزدہ ہوگی؟
قصہ مختصر ایک آٹھ سال کی بچی پر مظالم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے، گرم استریاں لگای گئیں ، بدن پر کند فولادی چیزوں اور کھردری بید کی ضربوں کے نئے اور پرانے زخم، پرانے زخم نئے زخموں کو گلے ملتے ہوے
ننھی فرشتہ نما زہرہ نے سوچا ہوگا کہ اس کو بچانے والی اس کی ماں نے ہی اسے ان درندوں کو سونپ دیا تو غیر سے کیا گلہ؟
چپ چاپ ظلم سہتی رہی اور پھر مزید ستم یہ کہ اس مولوی نما سانڈ نے اس کو ریپ کرنا شروع کردیا ، گھٹنے جتنی بچی کو ریپ کرتے ہوے قصور کے عمران نے زینب کی گردن توڑ دی تھی ، بچ تو زہرہ بھی نہ پای
جسطرح کے لوگ اور انکے سفاک روئیے ہیں میں تو زہرہ کو مبارکباد دوں گا کہ تم جیت گئیں کہ اس ظالم معاشرے کی چاکری کرنے کی بجاے سیدھی جنت میں جاپنہچی کل کو یہی لوگ اور حکمران تمہارے آگے سرجھکاے کھڑے ہوں گے
قیامت کو یہی مناظر ہونگے تم جنت کی حور ہوگی اور یہ خبیث ابلیسیت اور مصلحت کا شکار حکمران سرجھکاے تمہارے مجرم ایک قطار میں ہونگے
پھر جو چاہے ان سے سلوک کرنا