مسئلہ عمران خان کی ٹیم کا بی ہے، جو الٹے چلتے ہیں۔
یہ کیس انھوں نے دائر ہی الٹا کیا تھا۔ انھوں نے جج کے اوپر کرپشن کا الزام لگایا اور کہا کہ اس کی بیوی کی اور بچوں کی جائدادیں ہیں۔ جبکہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ ی ہپیسہ فائز عیسٰی کا ہے یا اسکو ان جائدادوں سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
تو کیس ہونا ایسے چاہیئے تھا کہ اس کی بیوی اور بچوں پر پہلے نیب کا ریفرنس بنایا جاتا، پھر اگر تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آتی کہ یہ پیسہ فائز عیسیٰ کے توسط سے کہیں آیا یا گیا ہے تو پھر اس پر ریفرنس بنا کر سپریم جوڈیشل کاونسل میں بھیجا جاتا۔
فائز عیسیٰ بھی انھی ٹیکنیکل بنیادوں پر نکل آیا ہے اس کیس سے۔ ورنہ عدالت نے سرینہ عیسیٰ کی جائیدادوں کو حق حلال کا نہیں کہا ہے۔
عمران خان کو بھی چاہیئے کہ سوچے اور سمجھے کہ وہ اسی پرانے فرسودہ کرپٹ نظام سے ہی امید لگا کر بیٹھا ہے کہ یہ ایسے ہی چلتا بھی رہے جیسے پہلے چل رہا تھا اور پھر احتساب بھی شفاف کرے۔
اس نظام کو پہلے سمجھے، دیکھے اور پھر جہاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے وہاں پہلے تبدیلی لائے۔ دوسرا اپنی ٹیم میں بھی نظر دوڑائے کہ کہاں لوگ کمزور ہیں، وہاں ان کی ٹریننگ کروائے، پھر انکو میدان میں لائے۔
ابھی بھی دیکھیں، قانون میں یہ ثقم موجود ہے کہ نیب میں اگر سرینہ عیسیٰ اپنی جائیدادوں کے متعلق کوئی جواب نہ بھی دے سکی، تو بھی پلی بارگین کر کے ۲۵ فیصد جمع کروائے گی اور جان چھڑا لے گی۔