بچپن سے آج تک سنتے آئے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ مگر آج پتا چلا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے۔
بچپن سے آج تک سنتے آئے کہ سارے چور ہوں مگر لیڈر چور نہیں ہونا چاہیے۔ آج یہ انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے اج تک سنتے آئے تھے کہ درخت لگانا انتہائی ضروری ہے۔ مگر آج آکر یہ بھی انکشاف ہوگیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ حکمرانوں کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیے۔ آج وزیراعظم ہاوس کا خرچ 78 کروڑ کم ہوچکا ہے مگر آج انکشاف ہوا کہ یہ سب فالتو باتیں تھیں یا چلیں کہہ لیں کتابی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ پاکستان سعودی عرب یا بڑی طاقتوں کے تسلط سے باہر نہیں آسکتا۔ آج امریکہ کوصاف انکار کردیا گیا مگر پتا چلا کہ اس میں بھی کوئی خاص بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت نے خراب کیا مگر آج پتا چلا کہ سیاسی مداخلت ختم کرنا بھی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے کہ پانی ختم ہورہا ہے اور ڈیم بنانا بہت ضروری ہے مگر یہ آج آکر پتا چلا کہ نہیں، یہ بھی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ ملک میں جگہ جگہ مافیاز کام کررہے ہیں اور جو ان پر ہاتھ ڈالے گا اسکے خلاف یہ مافیاز ایک ہو جائیں گے۔ آج یہ بھی ہوگیا مگر پتا چلا کہ اس میں کونسی بڑی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ میڈ ان پاکستان حکومت نہیں آسکتی۔ آج میڈ ان حکومت بھی آگئی مگر انکشاف ہوا کہ اس میں بھی کوئی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ملک میں احتساب کسی کا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ریکوری ہوتی ہے۔ آج نیب کے اعدادوشمار شمار کے مطابق 22 سالوں میں 790 ارب روپے بازیاب کروائے ہیں جبکہ 62 فیصد یعنی 450 ارب روپے صرف اس حکومت کے 3 سالوں میں ریکور کیے گئے ہیں۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ احتساب کرنا یا ہونا بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی جسکا اتنا واویلہ کیا گیا ہے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ جو لوگ والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں انکے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے مگر آج والدین کو گھر سے نکالنے والوں کے خلاف قانون بن چکا ہے۔ چاہے اولاد گھر کی مالک ہو، والدین کو گھر سے نہیں نکال سکتی جبکہ والدین اولاد کو گھر سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ مگر آج آکر پتا چل رہا ہے کہ اس قوم کو یہ بھی نہیں چاہیے تھا۔
تاریخ انسانی میں کسی وباء نے اتنا نقصان نہیں کیا جتنا کرونا نے کیا ہے مگر پاکستان ان پانچھ ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے کم نقصان ہوا ہے۔ مگر کرونا کے ڈیڑھ سالوں بعد انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑِ بات نہیں تھی۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ملک میں جب تک انوسٹمنٹ نہیں آئے گی تب تک ملک خوش حال نہیں ہوگا۔ آج ایمازون اور سیمسنگ جیسی کمپنیاں پاکستان آگئی ہیں مگر پھر انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ روٹی کپڑا اور مکان۔ آج اس حکومت نے کم از کم 15 ہزار لوگوں کو سستی اقساط پر گھردلوائے ہیں اور گمان کیا جارہا ہے کہ گھروں کے مزید بننے سے 40 کے قریب صنعتیں فائدہ اٹھائیں گی مگر پتا چلا کہ لوگ اسے بھی کوئی بڑا معرکہ نہیں سمجھتے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ ملکی معیشت کا اندازہ اسٹاک ایکسچین سے لگایا جاتا ہے۔ اس حکومت میں اسٹاک ایکسچین نے ریکارڈ بزنس کیا مگر پھر انکشاف ہوا کہ اس میں کونسی خوشی یا امید کی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی ہے۔ آج الیکٹرانک ووٹنگ مشین آگئی ہے مگر انکشاف ہوا کہ یہ بھی اتنی بڑی کاوش نہیں الٹا اسکی مخالفت ہورہی ہے۔ یعنی یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
بچپن سے سنتے ارہے ہیں کہ کسان رل گیا، آج کسان کو وقت پر ادائیدگیاں ہورہی ہیں، ریکارڈ ٹریکٹر اور موٹرسائکلوں کی سیل ہوئی ہے، گندم اور چنے کی ریکارڈ پیداوارہوئی ہے مگر پتا چلا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ امریکہ کے ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے ہوتے تھے۔ اس حکومت میں ایک ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ مگر پھر ہوہی بات کہ اس میں کونسی فخر کی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ زرداری نے سیاسی بھرتیاں کر کر کے سٹیل ملز اور پی آئی اے کا کباڑہ کردیا جبکہ نون لیگ نے اس سے زیادہ سیاسی بھرتیاں کی۔ اس حکومت نے آکر کئی ملازمین کو پی آئی اے سے فارغ کیا جن میں جعلی پائلٹ بھی شامل تھے اور اسی طرح سٹیل ملز سے بھی سیاسی بھرتیوں کو ختم کیا۔ مگر پھر انکشاف ہوا کہ اس سے کونسا پاکستان امیر ہوگیا ہے یعنی کیا بڑی بات ہے اس میں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا کیونکہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ آج ریکارڈ ٹیکس کلیکشن ہوئی ہے مگر پھر پتا چلا کہ اس میں بھی کوئی بڑے کارنامے کی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ جس ملک میں چھے چھے نصاب تعلیم ہوں وہاں پہ تعلیم کا میعار کیا ہوگا۔ آج یقینا یہ بھی انکشاف ہوجائیگا کہ ایک نصاب تعلیم رائج کرنا بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
خدارا کوئی مجھے بتلا دے کہ آخر بڑی بات ہے کیا؟
بچپن سے آج تک سنتے آئے کہ سارے چور ہوں مگر لیڈر چور نہیں ہونا چاہیے۔ آج یہ انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے اج تک سنتے آئے تھے کہ درخت لگانا انتہائی ضروری ہے۔ مگر آج آکر یہ بھی انکشاف ہوگیا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ حکمرانوں کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیے۔ آج وزیراعظم ہاوس کا خرچ 78 کروڑ کم ہوچکا ہے مگر آج انکشاف ہوا کہ یہ سب فالتو باتیں تھیں یا چلیں کہہ لیں کتابی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ پاکستان سعودی عرب یا بڑی طاقتوں کے تسلط سے باہر نہیں آسکتا۔ آج امریکہ کوصاف انکار کردیا گیا مگر پتا چلا کہ اس میں بھی کوئی خاص بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت نے خراب کیا مگر آج پتا چلا کہ سیاسی مداخلت ختم کرنا بھی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے کہ پانی ختم ہورہا ہے اور ڈیم بنانا بہت ضروری ہے مگر یہ آج آکر پتا چلا کہ نہیں، یہ بھی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ ملک میں جگہ جگہ مافیاز کام کررہے ہیں اور جو ان پر ہاتھ ڈالے گا اسکے خلاف یہ مافیاز ایک ہو جائیں گے۔ آج یہ بھی ہوگیا مگر پتا چلا کہ اس میں کونسی بڑی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ میڈ ان پاکستان حکومت نہیں آسکتی۔ آج میڈ ان حکومت بھی آگئی مگر انکشاف ہوا کہ اس میں بھی کوئی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ملک میں احتساب کسی کا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ریکوری ہوتی ہے۔ آج نیب کے اعدادوشمار شمار کے مطابق 22 سالوں میں 790 ارب روپے بازیاب کروائے ہیں جبکہ 62 فیصد یعنی 450 ارب روپے صرف اس حکومت کے 3 سالوں میں ریکور کیے گئے ہیں۔ لیکن انکشاف یہ ہوا کہ احتساب کرنا یا ہونا بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی جسکا اتنا واویلہ کیا گیا ہے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ جو لوگ والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں انکے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے مگر آج والدین کو گھر سے نکالنے والوں کے خلاف قانون بن چکا ہے۔ چاہے اولاد گھر کی مالک ہو، والدین کو گھر سے نہیں نکال سکتی جبکہ والدین اولاد کو گھر سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ مگر آج آکر پتا چل رہا ہے کہ اس قوم کو یہ بھی نہیں چاہیے تھا۔
تاریخ انسانی میں کسی وباء نے اتنا نقصان نہیں کیا جتنا کرونا نے کیا ہے مگر پاکستان ان پانچھ ملکوں میں شامل ہے جہاں سب سے کم نقصان ہوا ہے۔ مگر کرونا کے ڈیڑھ سالوں بعد انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑِ بات نہیں تھی۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ملک میں جب تک انوسٹمنٹ نہیں آئے گی تب تک ملک خوش حال نہیں ہوگا۔ آج ایمازون اور سیمسنگ جیسی کمپنیاں پاکستان آگئی ہیں مگر پھر انکشاف ہوا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ روٹی کپڑا اور مکان۔ آج اس حکومت نے کم از کم 15 ہزار لوگوں کو سستی اقساط پر گھردلوائے ہیں اور گمان کیا جارہا ہے کہ گھروں کے مزید بننے سے 40 کے قریب صنعتیں فائدہ اٹھائیں گی مگر پتا چلا کہ لوگ اسے بھی کوئی بڑا معرکہ نہیں سمجھتے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ ملکی معیشت کا اندازہ اسٹاک ایکسچین سے لگایا جاتا ہے۔ اس حکومت میں اسٹاک ایکسچین نے ریکارڈ بزنس کیا مگر پھر انکشاف ہوا کہ اس میں کونسی خوشی یا امید کی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی ہے۔ آج الیکٹرانک ووٹنگ مشین آگئی ہے مگر انکشاف ہوا کہ یہ بھی اتنی بڑی کاوش نہیں الٹا اسکی مخالفت ہورہی ہے۔ یعنی یہ بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
بچپن سے سنتے ارہے ہیں کہ کسان رل گیا، آج کسان کو وقت پر ادائیدگیاں ہورہی ہیں، ریکارڈ ٹریکٹر اور موٹرسائکلوں کی سیل ہوئی ہے، گندم اور چنے کی ریکارڈ پیداوارہوئی ہے مگر پتا چلا کہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ امریکہ کے ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے ہوتے تھے۔ اس حکومت میں ایک ڈرون حملہ نہیں ہوا۔ مگر پھر ہوہی بات کہ اس میں کونسی فخر کی بات ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ زرداری نے سیاسی بھرتیاں کر کر کے سٹیل ملز اور پی آئی اے کا کباڑہ کردیا جبکہ نون لیگ نے اس سے زیادہ سیاسی بھرتیاں کی۔ اس حکومت نے آکر کئی ملازمین کو پی آئی اے سے فارغ کیا جن میں جعلی پائلٹ بھی شامل تھے اور اسی طرح سٹیل ملز سے بھی سیاسی بھرتیوں کو ختم کیا۔ مگر پھر انکشاف ہوا کہ اس سے کونسا پاکستان امیر ہوگیا ہے یعنی کیا بڑی بات ہے اس میں۔
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ملک میں ڈائریکٹ ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا کیونکہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ آج ریکارڈ ٹیکس کلیکشن ہوئی ہے مگر پھر پتا چلا کہ اس میں بھی کوئی بڑے کارنامے کی بات نہیں ہے۔
بچپن سے سنتے آئے کہ جس ملک میں چھے چھے نصاب تعلیم ہوں وہاں پہ تعلیم کا میعار کیا ہوگا۔ آج یقینا یہ بھی انکشاف ہوجائیگا کہ ایک نصاب تعلیم رائج کرنا بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
خدارا کوئی مجھے بتلا دے کہ آخر بڑی بات ہے کیا؟