ترسیلات زر میں اربوں ڈالر کی بڑی کمی سامنے آ گئی

shehbaz-sharif-govt-dollar-pakistani-ov.jpg


پاکستان کے ترسیلات زر میں 3.7 ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی گئی، جو ماہانہ بنیادوں پر 4 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد کمی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 مہینوں کے دوران پاکستان کو 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کم ترسیلات زر موصول ہوئیں، جس کی بنیادی وجہ شرح تبادلہ کے درمیان فرق ہے۔

گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 مہینے کے دوران ترسیلات زر12.98 فیصد گر کر 24 ارب 83 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، ملک آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے ایک سال سے جدوجہد کررہا ہے جبکہ کم ترسیلات زر کی آمد بیرونی کھاتوں کے حوالے سے صورتحال کو مزید مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔

پاکستان کو مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جبکہ اپریل میں 2 ارب 19 کروڑ ڈالر اور گزشتہ برس مئی میں 2 ارب 34 کرور ڈالر موصول ہوئے تھے،کرنسی ڈیلرز مسلسل اس مسئلے کی نشاندہی کررہے ہیں کہ حکومت ترسیلات زر میں کمی کی وجوہات کو حل کرے لیکن گرے مارکیٹ کے بڑھتے ہوئے کردار کو محدود کرنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے گئے، جس نے عملی طور پر ایکسچینج کمپنیوں کی جگہ لے لی ہے۔

غیرقانونی مارکیٹ میں بینکنگ مارکیٹ کے مقابلے میں فی ڈالر 20 روپے زیادہ کی پیشکش کی جارہی ہے، ایکسچینج کمپنیز کو امریکی کرنسی کی قلت کا سامنا ہے، جس کے سبب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت گرے مارکیٹ کے قریب پہنچ گئی، گرے مارکیٹ نے ترسیلات زر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

اسٹیٹ بینک نے درآمدکنندگان کو درآمد کرنے کے لیے ڈالر کا انتظام کرنے کی اجازت دی، درآمدکنندگان نے امریکی کرنسی حاصل کرنے کے لیے گرے مارکیٹ کا رخ کیا جس سے یہ مارکیٹ مزید مضبوط ہوئی، اور گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ترسیلات زر کم ہوئیں۔

سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے موصول ہوئیں تاہم یہ 16.3 فیصد کمی کے بعد 5 ارب 92 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے تقریباً 4 ارب 32 کروڑ ڈالر موصول ہوئے لیکن اس میں بھی 19.2 فیصد کی کمی ہوئی۔

پاکستان میں برطانیہ سے 3 ارب 71 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں، اس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 8 فیصد گراوٹ ہوئی۔

امریکا سے 2 ارب 82 کروڑ ڈالر (0.9 فیصد اضافہ) ترسیلات زر موصول ہوئیں، خلیج تعاون کونسل ممالک سے 11.5 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 91 کروڑ ڈالر اور یورپی یونین سے 2 ارب 83 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، اس میں 7.7 فیصد تنزلی ہوئی۔

پاکستان سے بیرون ملک جانے والے مزدورں میں پچھلے سال کی طرح نمایاں اضافہ ہوا، لیکن گرتی ہوئی ترسیلات زر واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آنے والے مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں فرق سے مزید مسائل درپیش ہوسکتے ہیں، انٹر بینک مارکیٹ میں باضابطہ طور پر ڈالر 286-287 روپے میں دستیاب ہے لیکن گرے مارکیٹ 311-313 روپے فی ڈالر تک کی پیشکش کرتی ہے۔
 

saleema

MPA (400+ posts)
Ek kutta Roz bogus reports post karta tha..
aj Kal esi topic pe kam bhonkta hai...Roz Shehnaz Shareef ko lee Kwan sabit Karne pe gala or padh phaar phaar k Marta tha Rajarawal111
 

Rocky Khurasani

Senator (1k+ posts)
shehbaz-sharif-govt-dollar-pakistani-ov.jpg


پاکستان کے ترسیلات زر میں 3.7 ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی گئی، جو ماہانہ بنیادوں پر 4 فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 10 فیصد کمی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 مہینوں کے دوران پاکستان کو 3 ارب 70 کروڑ ڈالر کم ترسیلات زر موصول ہوئیں، جس کی بنیادی وجہ شرح تبادلہ کے درمیان فرق ہے۔

گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں مالی سال 2023 کے ابتدائی 11 مہینے کے دوران ترسیلات زر12.98 فیصد گر کر 24 ارب 83 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، ملک آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے ایک سال سے جدوجہد کررہا ہے جبکہ کم ترسیلات زر کی آمد بیرونی کھاتوں کے حوالے سے صورتحال کو مزید مشکل بنا سکتی ہے کیونکہ ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں۔

پاکستان کو مئی میں 2 ارب 10 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جبکہ اپریل میں 2 ارب 19 کروڑ ڈالر اور گزشتہ برس مئی میں 2 ارب 34 کرور ڈالر موصول ہوئے تھے،کرنسی ڈیلرز مسلسل اس مسئلے کی نشاندہی کررہے ہیں کہ حکومت ترسیلات زر میں کمی کی وجوہات کو حل کرے لیکن گرے مارکیٹ کے بڑھتے ہوئے کردار کو محدود کرنے کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے گئے، جس نے عملی طور پر ایکسچینج کمپنیوں کی جگہ لے لی ہے۔

غیرقانونی مارکیٹ میں بینکنگ مارکیٹ کے مقابلے میں فی ڈالر 20 روپے زیادہ کی پیشکش کی جارہی ہے، ایکسچینج کمپنیز کو امریکی کرنسی کی قلت کا سامنا ہے، جس کے سبب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت گرے مارکیٹ کے قریب پہنچ گئی، گرے مارکیٹ نے ترسیلات زر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

اسٹیٹ بینک نے درآمدکنندگان کو درآمد کرنے کے لیے ڈالر کا انتظام کرنے کی اجازت دی، درآمدکنندگان نے امریکی کرنسی حاصل کرنے کے لیے گرے مارکیٹ کا رخ کیا جس سے یہ مارکیٹ مزید مضبوط ہوئی، اور گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ترسیلات زر کم ہوئیں۔

سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے موصول ہوئیں تاہم یہ 16.3 فیصد کمی کے بعد 5 ارب 92 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، اس کے بعد متحدہ عرب امارات سے تقریباً 4 ارب 32 کروڑ ڈالر موصول ہوئے لیکن اس میں بھی 19.2 فیصد کی کمی ہوئی۔

پاکستان میں برطانیہ سے 3 ارب 71 کروڑ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں، اس میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 8 فیصد گراوٹ ہوئی۔

امریکا سے 2 ارب 82 کروڑ ڈالر (0.9 فیصد اضافہ) ترسیلات زر موصول ہوئیں، خلیج تعاون کونسل ممالک سے 11.5 فیصد کمی کے بعد 2 ارب 91 کروڑ ڈالر اور یورپی یونین سے 2 ارب 83 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، اس میں 7.7 فیصد تنزلی ہوئی۔

پاکستان سے بیرون ملک جانے والے مزدورں میں پچھلے سال کی طرح نمایاں اضافہ ہوا، لیکن گرتی ہوئی ترسیلات زر واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آنے والے مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں فرق سے مزید مسائل درپیش ہوسکتے ہیں، انٹر بینک مارکیٹ میں باضابطہ طور پر ڈالر 286-287 روپے میں دستیاب ہے لیکن گرے مارکیٹ 311-313 روپے فی ڈالر تک کی پیشکش کرتی ہے۔
For Youtube Link click here:


For Dailymotion video, click here:


Subscribe this Youtube channel for the recent videos of Adil Raja. Videos are made private after 24 hours.
https://www.youtube.com/channel/UCOYL4CZ-0qveLJwjJakB2Gw

Videos are not deleted from my DailyMotion channel. To follow my Dailymotion channel, please click here:

https://www.dailymotion.com/RockyKhurasani