حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے،سپریم کورٹ

5halafbyemaanisc.jpg

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سے انحراف کینسر اور حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ 14 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا ، 14 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے، الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

وکیل نے کہا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کرکے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا، پھر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے، حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف بھی کینسر ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی؟ جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسیز کا پابند ہے، ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔

عدالت نے کہا کہ کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟

فاروق نائیک نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں، ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بددیانتی پر نااہل ہو جائے تو وہ اگلا الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی، آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔ عدالت سے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
 

mughals

Chief Minister (5k+ posts)
the image of the judiciary has been tarnished among the common people. I hope that level could rise and the required actors pick up sense and patriotism
 

FahadBhatti

Chief Minister (5k+ posts)
Supreme court has no credibility , they are a tool.of establishment. In 2017 they wanted nawaz out but also didnt want to be too harsh on him so they never opened volume 10.

In this imrans case they went beyond their authority and intervened in parliament. Again working as a tool of establishment which licks boots of america.
 

stranger

Chief Minister (5k+ posts)
kia adlia halaf nehi leti??? ya aap ko ajazat hai ?? sab se bara cancer iss mulk ki adlia hai... justice munir se leker aaj tak koi aik faisla jo adal or insaf se kia gia ho??? aik example dikha do... or to or panama case main volume 10 ko raddi ki tokri main phainknay ka faisla bhi muzaz chutia adalat ka hai
 

Rocky Khurasani

Senator (1k+ posts)
5halafbyemaanisc.jpg

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سے انحراف کینسر اور حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ 14 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا ، 14 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے، الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

وکیل نے کہا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کرکے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا، پھر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے، حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف بھی کینسر ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی؟ جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسیز کا پابند ہے، ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔

عدالت نے کہا کہ کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟

فاروق نائیک نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں، ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بددیانتی پر نااہل ہو جائے تو وہ اگلا الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی، آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔ عدالت سے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Hahahaha, And when Qasim Suri did it, they reversed his decision. What a bunch of hypocrites.
 

NCP123

Minister (2k+ posts)
5halafbyemaanisc.jpg

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ پارٹی سے انحراف کینسر اور حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے کہ 14 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا ، 14 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات تھے، الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

وکیل نے کہا کہ 2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کرکے پارٹی سربراہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا، پھر 18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا اور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 63 اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے وفاداری کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے، ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے، حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے، کینسر جسم کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے، پارٹی سے انحراف بھی کینسر ہے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی؟ جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسیز کا پابند ہے، ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے۔

عدالت نے کہا کہ کوالی فیکیشن اور ڈی کوالی فیکیشن کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں، اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟

فاروق نائیک نے کہا کہ اگر یہ مان بھی لیں کہ منحرف رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا لیکن نااہل نہیں، ڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے، انحراف کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تو پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شخص بددیانتی پر نااہل ہو جائے تو وہ اگلا الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دوں گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی، آزاد امیدوار کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا۔ عدالت سے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
Drama baazi.......sub choonaa lagaa rehey hein......